
داعش کے راہنما ابو بکر البغدادی اور القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کے حوالے سے اُنھوں نے کہا کہ ''بغدادی کی نمائندگی کرنے والے پیغام رساں اور ظواہری کے نمائندوں کے درمیان اِس بات پر آپس میں گفتگو اور مکالمہ جاری ہے''
واشنگٹن — ایسے میں جب عراق میں داعش کو یکے بعد دیگرے شکست کا سامنا ہے، کیا وہ اپنی پیش رو، القاعدہ میں ضم ہوجائے گی؟
اس بارے میں چمہ گوئیاں اُس وقت سامنے آئیں جب عراقی نائب صدر ایاد علوی نے "رائٹرز" کو بتایا کہ اُنھیں عراقی اور علاقائی ذرائع سے یہ اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ ""دونوں شدت پسند گروپوں کے آپس میں ممکنہ اتحاد کے لیے گفت و شنید کا آغاز ہوگیا ہے""۔
داعش کے راہنما ابو بکر البغدادی اور القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کے حوالے سے اُنھوں نے کہا کہ ""بغدادی کی نمائندگی کرنے والے پیغام رساں اور ظواہری کے نمائندوں کے درمیان اِس بات پر آپس میں گفتگو اور مکالمہ جاری ہے""۔
تاہم، تجزیہ کار کہتے ہیں کہ دونوں گروپوں کی آپس میں قربت سے قبل ضرورت اس بات کی ہوگی کہ نظریاتی اور حربی اختلافات اور دونوں راہنمائوں کے مابین برسوں کی مخاصمت دور ہو۔
مائلو کمرفورڈ لندن کے "سینٹر آن رلیجن اینڈ جیوپولٹکس" کے ایک تجزیہ کار ہیں۔
اُنھوں نے اس ہفتے "نیوزویک" رسالے میں اپنی ایک تحریر میں کہا ہے کہ ""مکالمہ ایک بات ہے، جب کہ ممکنہ اتحاد کا معاملہ مختلف چیز ہے""۔
محبت کا عنصر نہ دارد
"یہودیوں کا جہاد" کے عنوان سے داعش کے حالیہ شمارے میں شائع ہونے والی ایک تحریر کے مطابق، ""دونوں جہادی گروہوں میں محبت کا عنصر غائب ہو چکا ہے""؛ جب کہ ایمن الظواہری 2015ء میں ابو بکر البغدادی کی کھل کر مذمت کر چکے ہیں۔ اُنھوں نے داعش کے راہنما کو جہادی نصب العین کے مخالف اور ایک فتنہ (نااتفاقی کی علامت) قرار دے چکے ہیں""۔