دسمبر، جنوری یا پھر ۔۔۔ آپ کا بچہ کس ماہ میں پیدا ہوا، جانیئے اس موسم میں پیدا ہونے والے بچے کس بیماری کا شکار ہوسکتے ہیں؟

ہماری ویب  |  Nov 30, 2020


والدین اکثر بچوں کی صحت کے حوالے سے پریشان ہوتے دکھائی دیتے ہیں، کیونکہ کئی بچوں کو کھانے کی مختلف چیزوں سے الرجی ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ اکثر ان چیزوں کو کھانے کے بعدالرجی کا شکارہوجاتے ہیں اور انہیں ٹھیک ہونے میں کئی دن لگ جاتے ہیں۔ گزشتہ کچھ سالوں سے فوڈ الرجی ہونابہت عام ہوگیاہے۔ یہی وجہ ہے کچھ چیزیں کھانے کے نتیجے میں ہونے والی الرجی کے کیسز دنیابھر میں بڑھ رہے ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق دنیا بھر کے 2.5فیصد افراد فوڈ الرجی کا شکار ہیں۔ ان افراد میں زیادہ تر بچے شامل ہیں۔



فوڈ الرجی ایسا مسئلہ ہے، جس کے بارے میں ذیادہ بات نہیں کی جاتی۔ کیونکہ لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ جن چیزوں سے انسان کو الرجی ہوجاتی ہے، انہیں کھانے سے پرہیز کیا جائے تو اس مسئلے سے آسانی سے چھٹکارا پایا جاسکتا ہے۔ جبکہ حقیقت میں فوڈ الرجی کو ہرگز ہلکا مسئلہ نہیں سمجھنا چاہئے، کیونکہ فوڈ الرجی اگر زیادہ بگڑ جائے تو بچوں /انسان کی جان بھی جاسکتی ہے، یہی وجہ ہے بیرون ممالک کے پڑھے لکھے افراد بچوں کی فوڈ الرجی سے فوراً پریشان ہوجاتے ہیں،ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ان کا علاج فوراً کروالیا جائے تاکہ وہ جلدی صحت یاب ہوسکیں۔ ویسے تو کئی بیماریوں کے بارے میں یہی کہاجاتاہے کہ اگر وہ بیماریاں خاندان کے افراد میں ہوں تو بچوں میں بھی منتقل ہوجاتی ہیں، لیکن فوڈ الرجی ایسی بیماری ہے جو کہ کسی کو بھی ہوسکتی ہے، اس میں فیملی ہسٹری کا ہونا ضروری نہیں ہوتا۔

موسم ِخزاں اور بچے:


ایک نئی تحقیق کے مطابق ایسے بچے جو موسم ِ خزاں میں پیدا ہوتے ہیں، وہ فوڈ الرجی کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔نیشنل جیوش ہیلتھ کی جانب سے کئے جانے والے ایک سروے کے مطابق موسم خزاں میں پیدا ہونے والے بچوں میں فوڈ الرجی کا رجحان باقی موسم میں پیدا ہونے والے بچوں کی نسبت زیادہ دیکھاگیا ہے۔ ریسرچ کے مطابق بچوں میں فوڈ الرجی ہونے کی علامات ابتدا میں بہت وقت لیتی ہیں، پہلے ان کی جلد خشک ہونا شروع ہوتی ہے، پھر اس کی پپڑی بننے کا عمل شروع ہوتا ہے، جسے ”اٹوپک مارچ“ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

”جرنل آف الرجی“ میں شائع ہونے والی اس تحقیق کی ریسرچر پیڈیاٹریشن (بچوں کی اسپشلسٹ) ”جیسیکا ہوئی“ ہیں۔ ان کا کہناہے کہ اس تحقیق کو کرنے کے دوران انہوں نے اپنے کلینک میں آنے والے ہر بچے کو بغور دیکھا۔ اسی دوران ہم نے یہ دیکھا کہ ایسے بچے جو خزاں کے موسم میں پیدا ہوتے ہیں، ان میں فوڈ الرجی کا خطرہ زیادہ ہوتاہے۔ جیسیکا کاکہنا ہے کہ خزاں میں پیدا ہونے والے زیادہ تر بچوں میں Staphylococcus aureus بیکٹیریا موجود دیکھاگیا ہے، یہ بیکٹیریا ان کے جلد کو خراب کردیتاہے، انہیں کھجلی ہونے لگتی ہے اورپھر یہ الرجی کا باعث بنتا ہے۔

اس کے علاوہ یہی بیکٹیریا دوسرے جراثیم کو بھی جسم میں جلد کے ذریعے داخل کروانے کا ذریعہ بنتاہے۔ جب یہ جراثیم جلد کے ذریعے بچے کے میں داخل ہوجاتے ہیں، اینٹی باڈیز ان جراثیم کے خلاف ایکشن میں آجاتے ہیں، لہذا جب بھی بچہ کوئی خاص چیز کھاتا ہے تو یہ اینٹی باڈیز اس کھانے میں موجود پروٹین یا کسی بھی چیز کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں اور پھر انہیں اس چیز کو کھانے کے بعد الرجی ہوجاتی ہے۔


بچوں کو زیادہ تر دودھ، انڈے، مونگ پھلی، مختلف خشک میوہ جات، نارنجی، چاکلیٹ، مچھلی، سویا بین اور گندم کھانے کے بعد فوڈ الرجی ہوتی دیکھی گئی ہے۔

موسم خزاں میں پیدا ہونے والے بچوں اور ان پر ہونے والے جراثیم حملے کے نتیجے میں ہونے والی فوڈ الرجی کے بارے میں مزید ریسرچز کی جارہی ہیں۔ اس سے قبل 2012 میں یورپین جرنل آف الرجی میں بھی یہی کہاگیاتھا کہ خزاں اور سر دموسم میں پیدا ہونے والے بچے فوڈ الرجی کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔2011میں ”اینلز آف الرجی“ میں ایک ریسرچ شائع ہوتی تھی، جس میں بھی یہی بتایاگیا تھا کہ خزاں اور سرد موسم میں پیدا ہونے والے بچوں میں فوڈ الرجیز زیادہ ہوتی ہیں، یہ بچے جراثیم کا آسان شکار بن جاتے ہیں۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More