انٹرنیٹ پر بچوں کے جنسی استحصال کی تصاویر اور ویڈیوز میں 10 گنا اضافہ

بی بی سی اردو  |  Jan 29, 2023

Getty Images

نئے اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ عالمی وبا اور لاک ڈاؤن کے دوران انٹرنیٹ پر بچوں کے جنسی استحصال کی تصاویر اور ویڈیوز میں دس گنا سے بھی زیادہ اضافہ ہوا ہے۔

انٹرنیٹ واچ فاؤنڈیشن (آئی ڈبلیو ایف) کا کہنا ہے کہ ان کا ڈیٹا اس بات پر روشنی ڈالتا ہے کہ بچوں کا جنسی استحصال کرنے والوں نے اس صورتحال کا فائدہ اٹھایا ہے۔

سنہ 2020 کے اوائل میں جب عالمی وبا شروع ہوئی تو انٹرنیٹ پر ایسی ویب سائٹس کو بے پناہ مقبولیت ملنے لگی۔

آئی ڈبلیو ایف نے گذشتہ سال اس قسم کے 63,000 سے زیادہ ویب پیجز کا شمار کیا ہے۔ جبکہ عالمی وبا سے پہلے یہ صرف 5,000 تھے۔

آئی ڈبلیو ایف کی چیف ایگزیکٹو سوسی ہارگریوز نے کہا: 'عالمی وبا کے دوران، انٹرنیٹ ایک لائف لائن تھا لیکن ہم ابھی اس کے مکمل اثرات جاننا شروع ہوئے ہیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ یہ واضح ہے کہ بچوں کا جنسی استحصال کرنے والے اکثر اپنے ہی بیڈروم میں ان پر تشدد کرتے ہیں۔

آئی وی ایف مجموعی طور پر پوری دنیا میں انٹرنیٹ سے بچوں کے جنسی استحصال کے مواد کے ہزاروں واقعات کو ٹریک کرتا ہے، ان کی تحقیقات کرتا ہے اور اسے وہاں سے ہٹانے کی کوشش کرتا ہے۔

رضاکار ادارے کا کہنا ہے کہ اس کی رپورٹنگ کا معیار ایک جیسا رہا ہے تاہم گذشتہ برسوں کے مقابلے اب ایسے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔

اب تک تجزیہ کاروں نے جتنی چھان بین کی ہے اس کے حساب سے بچوں کے ساتھ بدسلوکی کی خود ساختہ ویڈیوز اور تصاویر مکمل مواد کا دو تہائی حصہ ہیں۔ اس سے مراد انٹرنیٹ پر استحصال کرنے والوں کی طرف سے بچوں کے ساتھ زبردستی کیمرے پر ریپ کے واقعات ہیں۔

محققین کا کہنا ہے کہ بہت سی ویڈیوز بیڈروم یا باتھ روم سے ریکارڈ یا لائیو سٹریم کی جاتی ہیں جن کے پس منظر میں گھر کے دوسرے لوگوں کی آوازیں آتی ہیں۔

ایسا اکثر لائیو چیٹ کے دوران بھی کیا جاتا ہے اور بچوں کے علم کے بغیر انھیں ریکارڈ کیا جاتا ہے اور لوگ ان ویڈیوز اور تصاویر کو فروخت بھی کرتے ہیں۔

آئی ڈبلیو ایف برطانیہ میں قائم ایک تنظیم ہے اور اس کا کہنا ہے کہ اکثر ویڈیوز سے یہ معلوم کرنا مشکل ہوتا ہے کہ بچے کہاں کے ہیں۔ تاہم اگر انھیں کسی ویڈیو میں سکول یونیفارم یا دیگر شناخت نظر آتے ہیں تو وہ یہ معاملہ حکام تک پہنچاتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

'انٹرنیٹ پر بچوں کے جنسی مواد کے معاملے میں یورپ سرفہرست'

روبلوکس: بچوں کی ورچوئل دنیا کے کونوں کھدروں میں جنسی مواد کی فراوانی

بچوں کا جنسی استحصال: بچوں کے جنسی استحصال کی لائیو ویڈیوز 

ان تصاویر اور ویڈیوز کے بارے میں تنظیم کا تخمینہ ہے ان سے 8000 سے زیادہ مواد سات سے 10 سال کی عمر کے بچوں کا ہے جن کی اے کیٹیگری کے مواد کے طور پر درجہ بندی کی جاسکتی ہے۔

یہ درجہ بندی کی شدید قسم ہے اور اس میں دخول جیسی جنسی سرگرمیاں، کسی جانور کے ساتھ جنسی سرگرمیاں یا لواطت پر مبنی تصاویر اور ویڈیوز وغیرہ آتی ہیں۔

آئی ڈبلیو ایف کے تجزیہ کاروں کی طرف سے دیکھی گئی ایک ویڈیو میں ایک نو سالہ لڑکی کو ایک آن لائن پلیٹ فارم پر بالغوں کی طرف سے ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ اپنے سونے کے کمرے میں اس وقت جنسی عمل کریں جب وہ لپٹنے والے کھلونوں سے گھری ہوئی ہوں۔

اس میں اس وقت خلل پڑتا ہے جب بظاہر خاندان کا کوئی رکن، جو بدسلوکی کے واقعات سے انجان ہے، اسے غسل کرانے کے لیے پکارتا ہے۔

آئی ڈبلیو ایف برطانیہ کی حکومت سے طویل عرصے سے تاخیر کا شکار آن لائن سیفٹی بل کے ذریعے بچوں کی حفاظت کے لیے مزید اقدامات کا مطالبہ کر رہا ہے۔

اس بل میں فی الحال ترمیم کی جا رہی ہے تاکہ ممکنہ طور پر ٹیکنالوجی پلیٹ فارم کے مالکان کو بچوں کے جنسی استحصال اور استحصال کے مواد کو روکنے، شناخت کرنے اور ہٹانے میں کسی قسم کی کوتاہی اور ناکامی کے لیے مجرمانہ طور پر ذمہ دار بنایا جا سکے گا۔

لیکن آئی ڈبلیو ایف کا کہنا ہے کہ وہ جس مواد پر کارروائی کرتا ہے وہ پوری دنیا سے آ رہا ہے اور اسے زیادہ تر برطانیہ سے ہوسٹ نہیں کیا جا رہا۔

امریکہ کے نیشنل سینٹر فار مسنگ اینڈ ایکسپلوائٹڈ چلڈرن کے پاس 2022 کے اعداد و شمار نہیں لیکن سنہ 2021 میں بچوں کے جنسی استحصال کے مواد میں اضافے کی اطلاع دی گئی تھی۔

خیراتی ادارے کی سائبر ٹِپ لائن کو 29.4 ملین رپورٹس موصول ہوئیں جو اس سے قبل سنہ 2020 میں 21.7 ملین تھی۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More