خیبرپختونخوا میں بڑھتی دہشت گردی کے خلاف پولیس کا احتجاج: ’پورا مہینہ خطرے میں روز 12 گھنٹے کی ڈیوٹی اور تنخواہ صرف 40 ہزار‘

بی بی سی اردو  |  Feb 03, 2023

EPAفائل فوٹو

’ہم تین بھائی پولیس میں ہیں، ہماری ماں ہر بیٹے کے ساتھ دروازے تک جاتی ہے اور دعاؤں کے ساتھ رخصت کرتی ہے کہ بیٹے خیریت سے گھر واپس آئیں۔۔۔ اور جب سے حالات زیادہ خراب ہوئے ہیں میری بیوی بھی پریشان رہتی ہے۔‘

پولیس اہلکار محمد خان (فرضی نام) نے پشاور پریس کلب کے سامنے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم احتجاج نہ کریں تو کیا کریں؟ ہمیں بھی اچھا نہیں لگتا کہ وردی پہن کر ہم احتجاج کریں لیکن جب صوبے کے مختلف شہروں میں پولیس والوں کو چن چن کر مارا جا رہا ہے، ہمیں کوئی بنیادی ضروریات بھی فراہم نہیں کی جا رہیں اور ہماری کہیں سنوائی بھی نہیں ہو رہی تو ہم کہاں جائیں؟‘

’ہمارے اہل خانہ ، ہمارے بچے ہمارے لیے فکر مند ہوتے ہیں اور جب تک گھر واپس نہیں چلے جاتے والدہ اور اہلیہ مسلسل فون کرکے خیریت معلوم کرتی رہتی ہیں۔‘

خیبرپختونخوا پولیس اہلکاروں کا وردیاں پہن کر احتجاج

گذشتہ روز خیبر پختونخوا پولیس اہلکاروں نے مختلف شہروں میں وردیاں پہن کر احتجاج کیا ہے۔

پولیس اہلکار پشاور پریس کلب کے سامنے کھل کر احتجاج کرنا چاہتے تھے لیکن ان کے کچھ افسران وہاں موجود تھے اور وہ انھیں منع کرتے رہے کہ وہ احتجاج نہ کریں۔

یونیفارم میں پولیس اہلکار تھوڑے تھوڑے وقت کے لیے احتجاج کے لیے پہنچتے رہے۔ ان پولیس اہلکاروں کو یہ خوف بھی تھا کہ کہیں انھیں نوکری سے برخاست نہ کر دیا جائے۔

پولیس اہلکاروں کا کہنا تھا کہ ’پولیس لائن مسجد میں اپنے ساتھیوں کی لاشیں اٹھانا اتنا آسان نہیں تھا اور اس سے پہلے بھی پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے تو کیا وہ احتجاج بھی نہیں کر سکتے۔‘

سوشل میڈیا پر ایسے پیغامات بھی گردش کرنے لگے کہ ’جن لوگوں نے احتجاج کیا ہے اور ویڈیوز بنائی ہیں، انھیں برخاست کیا جا سکتا ہے اس لیے یہ ویڈیوز ڈیلیٹ کر دی جائیں۔‘

ان پیغامات پر بھی اہلکاروں نے سخت رد عمل ظاہر کیا ہے اور کہا ہے کہ انھوں نے ’کوئی غلط کام نہیں کیا۔‘

’پولیو ورکرز کے ساتھ ڈیوٹی دیتے ہیں تو حملہ ہم پر ہوتا ہے پولیو ورکرز پر نہیں ہوتا، آخرکیوں؟‘Getty Imagesفائل فوٹو

ایک اہلکار نے بتایا کہ ہمیں اپنے افسران کی جانب سے سپورٹ ملتی ہے لیکن ہم اپنے حق کے لیے آواز اٹھانا چاہتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’سوچیں ہم پولیو ورکرز کے ساتھ ڈیوٹی دیتے ہیں، پولیو ورکرز ہماری بہنیں ہیں لیکن حملہ ہم پر ہوتا ہے پولیو ورکرز پر نہیں ہوتا آخر کیوں؟‘

’ایسا بھی ہو سکتا کہ ہم اگر ان کے ساتھ نہ ہوں تو شاید انپر کوئی حملہ بھی نہ ہو لیکن ہم ان کے ساتھ ہوتے ہیں تو ہم پر حملہ ہوتا ہے، کیوں؟ ہم اس کیوں کا جواب تلاش کرنے کے لیے نکلے ہیں۔‘

نوجوان اہلکار نے کہا کہ ’بہت سارے ایسے حقائق ہیں جو ہم شائد کسی کو بتا نہ سکیں۔۔۔ یہاں بہت مشکل صورتحال ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ وہ اکثر یہ نوکری چھوڑنے کا سوچتے ہیں ’لیکن میں ایسا ہر گز نہیں کروں گا، میں کوئی اور نوکری تلاش کروں گا لیکن میں یہ نوکری بھی نہیں چھوڑوں گا کیونکہ مجھے امن کے دشمنوں کے خلاف لڑنا ہے۔۔۔۔ میرے ساتھیوں نے جو قربانی دی ہے میں اسے رائیگاں نہیں جانے دوں گا۔‘

اہلکار نے کہا کہ ہماری مائیں بہنیں ہمارے لیے فکر مند ہوتی ہیں لیکن وہ جانتی ہیں کہ ہماری زمہ داری لوگوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے اور اس کے لیے ہم اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر کام کرتے ہیں۔

’پورا مہینہ خطرے میں روزانہ 12 گھنٹے کی ڈیوٹی اور تنخواہ صرف 40 ہزار‘Getty Imagesفائل فوٹو

محمد خان (فرضی نام) کہتے ہیں ’آپ خود سوچیں ہماری تنخواہ 40 ہزار روپے ہے اور اس میں 600 روپے راشن الاؤنس شامل ہے جس کے لیے ہم پورا مہینہ روزانہ تقریباً 12 گھنٹے ڈیوٹی پر ہوتے ہیں۔‘

’ہم نے بھاری بلٹ پروف جیکٹ اور بھاری ہیلمنٹ پہنی ہوتی ہے، ہمیں یہ بارہ گھنٹے اتنا خطرہ ہوتا ہے کہ کچھ خبر نہیں کس طرف سے گولی آئے اور ہمارے سر کو اڑا دے۔‘

پولیس لائن پر حالیہ حملہ ایسا تھا کہ اس نے سب پولیس والوں کو پریشان کر دیا ہے۔۔۔ ایسا نہیں ہے کہ صرف سپاہی یا انسپکٹر پریشان ہیں بلکہ انسپکٹر جنرل پولیس تک اس بارے میں تشویش اور غم کا اظہار کر رہے ہیں۔

محمد خان نے بتایا کہ ان کی والدہ اور ان کی اہلیہ اب زیادہ پریشان رہنے لگی ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’ہم تین بھائی ہیں۔ آج کل جب ہم ڈیوٹی کے لیے گھر سے نکلتے ہیں تو والدہ اور ہماری بیویاں پریشان ہو جاتی ہیں اور جب تک ہم خیریت سے گھر واپس نہیں آتے وہ پریشان رہتی ہیں۔‘

’تمام پولیس اہلکار میرے بچے ہیں اور میرے بچوں کو احتجاج پر اکسایا جا رہا ہے‘EPA

پولیس اہلکاروں کے احتجاج کے بعد خیبرپختونخوا کے انسپکٹر جنرل پولیس معظم جاہ انصاری نے تمام اضلاع میں ڈسٹرکٹ پولیس آفیسرز (ڈی پی اوز) سے دربار منعقد کرکے اہلکاروں سے بات چیت کرنے کا کہا ہے۔

جمعرات کی صبح انھوں نے پشاور کی پولیس لائن میں تقریباً ایک ہزار سے زیادہ اہلکاروں سے خطاب کیا اور انھیں یقین دہانی کرائی کہ پولیس لائن پر حملے میں ملوث افراد کو جلد قانون کے مطابق سزا دی جائے گی، ان کا کہنا تھا کہ وہ اس نیٹ ورک کے بہت قریب پہنچ گئے ہیں اور جو بھی لوگ، سہولت کار یا نیٹ ورک ان حملوں میں ملوث ہے انھیں کیفر کردار تک پہنچا کر دم لیں گے۔

اس کے بعد ایک پریس کانفرنس میں انھوں نے اپنے جذبات کا اظہار کیا اور کہا کہ تمام پولیس اہلکار میرے بچے ہیں اور میرے بچوں کو احتجاج پر اکسایا جا رہا ہے۔ انھوں نے یہ نہیں باتیا کہ کون پولیس اہلکاروں کو احتجاج پر اکسا رہا ہے لیکن زور دے کر کہا کہ وہ اپنے بچوں کا خیال رکھنا جانتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

خودکش بمبار پولیس لائن میں داخل کیسے ہوا؟

’میں اپنی ماں کا بہت لاڈلا ہوں اگر مجھے کچھ ہوا تو میری ماں کا کیا ہو گا؟‘

’ڈرل سے سوراخ کر کے نیچے اترا تو ادھر زخمی کراہ رہے تھے لاشیں پڑی تھیں‘

https://twitter.com/KP_Police1/status/1621129046850510849?s=20&t=xqlASyTMBJNtHoBp1Piz9w

پشاور حملے کے متعلق معظم جاہ انصاری کا کہنا تھا کہ ہم نے حملہ آور کو پہچان لیا ہے، حملہ آور پولیس یونیفارم میں موٹر سائیکل پر آیا تھا اور ہم نے موٹر سائیکل بھی تلاش کر لی ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ ’میں نے تسلیم کیا ہے کہ یہ سکیورٹی لیپس تھا لیکن میں کسی اہلکار کو کوتاہی کا ذمہ دار نہیں سمجھتا، ’یہ میری کوتاہی ہے، میرے بچوں کی کوتاہی نہیں ہے۔‘

ان کا کہنا تھا ’یہ پولیس کی نہیں پاکستان کی جنگ ہے، جوانوں نے مجھ سے کہا کہ ہم لڑیں گے اور جیتیں گے، یہ خون کی جنگ ہے ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر نہیں لکھ رہے کہ ہم لڑ رہے ہیں، 2000 جوان پہلے شہید ہوئے تھے اور اب پشاور میں مزید 100 جوان شہید ہو گئے ہیں۔‘

انسپکٹر جنرل پولیس معظم جاہ انصاری سے جب پوچھا گیا کہ اہلکاروں کا مورال بلند رکھنے کے لیے کیا اقدامات کر رہے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ تمام اہلکاروں کا مورال بلند ہے اور وہ پولیس اہلکاروں کے لیے سب کچھ کریں گے اور ان حملوں میں ملوث افراد کو جلد کیفر کردار تک پہنچائیں گے۔‘

مزید خبریں

تازہ ترین خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More