رانی روپ متی، جنھوں نے اپنے شوہر کو شکست دینے والے شخص سے شادی کی بجائے زہر پینے کو فوقیت دی

بی بی سی اردو  |  Feb 08, 2023

یہ منظر ہے 16ویں صدی کے مالوا کا۔ آج کے دلی سے تقریباً 700 کلومیٹر جنوب میں یہ تاریخی علاقہ مدھیا پردیش، گجرات، راجستھان اور مہاراشٹر کے سنگم پر واقع ہے۔

لکھاری مالتی رامچندرن کے مطابق یہاں نرمدا ندی رقص میں ہے اور وادی گا رہی ہے۔ ندی کے ساتھ ساتھ چلتے شکاری، باز بہادر کو ایک آواز سنائی دیتی ہے۔

چنبیلی کی خوشبو لیے ہوا گیت کی مدھرتا کو سریلے ٹکڑوں میں پہنچا رہیہے۔ وہ آواز کا پیچھا کرتے ہیں۔ ’یہاں تک کہ ایک بڑے درخت تلے گانے میں محو ایک لڑکی کو دیکھتے ہیں اورپھر دیکھتے ہی رہ جاتے ہیں۔ گلو کارہ مرکزی راگ پر آتی ہیں تو باز بہادر ان کے ساتھ گانے میں شامل ہو جاتے ہیں۔‘

باز بہادر میاں بایزید کا شاہی لقب تھا۔ وہ یوں تو وسطی ہندوستان کی سلطنت مالوا کے حکمران تھے مگر موسیقی میں بھی کمال رکھتے تھے۔ مؤرخابوالفضل نے انھیں ’لاثانی گلوکار‘ لکھا ہے۔

باز بہادر نے یہاں صورت اور آواز کا حسن یکجا دیکھا تو دیوانے ہو گئے۔ مشکل سے لڑکی نے بتایا کہ ان کا نام روپ متی ہے۔

ایک لوک کہانی کے مطابق شادی کی تجویز پر روپ متی نے جواب دیا ’میں تمہاری دلہن تب بنوں گی جب ریوا(نرمدا) مانڈو (شہر) سے گزرے گی۔‘

باز بہادر نے دریا میں اتر کر اس سے ایک ہزار فٹ بلند مانڈو سے گزرنے کی درخواست کی۔ دریا نے ان سے کہا کہ وہ اپنے دارالحکومت واپس جائیں اور املی کے ایک مخصوص مقدس درخت کی تلاش کریں۔ اس کی جڑوں میں ایک چشمہ ملے گا جو ریوا کے پانیوں سےسیراب ہوتا ہے۔

Getty Imagesروپ متی اور باز بہادر

باز بہادر نے درخت کو تلاش کیا، اس کی جڑیں کھود کر چشمہ دریافت کیا اور ایک جھیل کو اس کے پانی سے بھر دیا اور یوں روپ متی کی شرط پوری کر دی۔ جھیل کا نام ریوا کنڈ رکھا گیا۔

رامچندرن لکھتی ہیں کہ باز بہادر نے روپ متی سے اپنے ساتھ محل جانے کو کہا تو وہ تبھی راضی ہوئیں جب سلطان سے وعدہلے لیا کہ وہ ہر روز نرمدا ندی کو دیکھیں گی۔

وعدے کے مطابق، باز بہادر نے محل میں دو گنبدوں والا ایک پویلین بنوایا جہاں سے روپ متی ہر روز اپنی پیاری ندی دیکھتیں۔ پہلی نظر کی محبت کی یہ کہانی، دوسری کتابوں کے علاوہ، احمد العمری کی 1599 میں لکھی ایک کتاب میں بھی بیان کی گئی ہے۔

اسے ایل ایم کرمپ نے 1926 میں ’دی لیڈی آف دی لوٹس: روپ متی، مانڈو کی ملکہ: وفاداری کی ایک عجیب و غریب کہانی‘کے نام سے ترجمہ کیا۔

محمد حسین آزاد ’دربارِ اکبری‘ میں لکھتے ہیں کہ روپ متی ’ایسی پری زاد تھیں جس کے حسن کا باز بہادر دیوانہ بلکہ عالم میں افسانہ تھا۔ اس حسن و جمال پر لطف یہ کہ لطیفہ گوئی، حاضر جوابی، شاعری، گانے بجانے میں بے نظیر نہیں، بدر منیر تھی۔‘

کرمپ کا کہنا ہے کہ روپ متی کو موسیقار اور شاعرہ کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ بھیم کلیان راگنی کی تخلیق ان ہی نے کی۔ اپنی تحقیق ’مغلوں کے ماتحت مالوا‘ میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے محقق سید بشیر حسن لکھتے ہیں کہ ’روپ متی کا تعلق ریتی شاعری کے مکتب سے تھا۔‘

Getty Imagesروپ متی کا حجرہ

العمری کی کتاب میں روپ متی سے منسوب 26 نظمیں ہیں۔ ایک نظم کچھ یوں ہے:

محبت کی بلندیوں پر چڑھنا مشکل ہے

جیسے شاخوں کے بغیر کھجور کے گول درخت پر

خوش قسمت تو پھلوں تک پہنچ جاتے ہیں

بے نصیب زمین پر گر جاتے ہیں

سنہ 1555 میں مسلم اور ہندو رسومات کے مطابق شادی کے بعد یہ محبت کرنے والے چھ سال تک خوشیوں میں کھوئے رہے۔

ڈاکٹر تہذیب فاطمہ کی تحقیق ہے کہ باز بہادر ہر وقت روپ متی کے ساتھ رہتے۔ روپ متی کو بھی باز بہادر سے گہری اور سچی محبت تھی۔

دونوں ایک دوسرے سے لمحہ بھر بھی جدا نہ رہ سکتے تھے۔ باز بہادر رُوپ متی کی محبت میں کچھ ایسے گرفتار ہوئے کہ امورِ سلطنت سے بھی بے نیاز ہو گئے۔

یہ بھی پڑھیے

’جھانسی کی رانی‘ مشکل میں کیوں پھنس گئی

ایناکونا: وہ طاقتور ملکہ جنھیں ان کے نظریات کی بنا پر پھانسی دی گئی

ماہم انگہ: مغل سلطنت کی طاقتور ترین خاتون جن کے زوال کا باعث ان کا بیٹا بنا

’شیر شاہ سوری کے بیٹے سلیم شاہ سوری کے ایک طاقتور امیر دولت خان نے باز بہادر پر حملہ کرنا چاہا تواپنی والدہ کے ذریعے با اثر امرا کے ساتھ دولت خان کو جنگ سے باز رکھنے کے لیے اجین مانڈو اور بعض دوسرے علاقے حوالے کر دیے۔‘

’بعد میں باز بہادر نے دولت خان کو کسی بہانے قتل کر کے اُن کا سر سارنگ پور شہر کے دروازے پر لٹکا دیا اور اپنے سابقہ علاقوں پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔ پھر رائے سین اور بھلیر پر بھی قبضہ کر کے اپنی سلطنت کو وسعت دی مگر پھر عیش و عشرت اور موسیقی میں محو ہو گئے۔‘

ایسی حالت میں انتشار شروع ہو گیا۔ انتظام و انصرام سے ان کی غفلت نے جاگیر داروں اور افسروں کو عوام پر ظلم کرنے پر اکسایا اور مغل شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر کو مالوا کی طرف راغب کیا۔

Getty Imagesقلعہ باز بہادر

مارچ 1561 میں اکبر نے ماہم انگہ کے بیٹے ادھم خان کی کمان میں فوج کو مالوا کی طرف روانہ کیا۔ مغل فوج سارنگ پور پہنچی اور باز بہادر جو سارنگ پور میں رہتے تھے شہر سے تین کوس دور نکل گئے اوراپنا پڑاؤ ڈالا۔

تاہم وہ ادھم خان کی بہادری کا مقابلہ نہ کر سکے اور شکست کھا کر جنوب مغرب کی طرف، دریاؤں نرمدا اور تپتی کے پار، خان دیش کی طرف نکل گئے۔ خان دیش اب انڈیا کی ریاست مہاراشٹر میں ہے۔

محمد حسین آزاد لکھتے ہیں کہ ’باز بہادر کے گھر میں پرانی سلطنت تھی اور دولت بے قیاس۔ دفینے، خزینے، توشہ خانے، جواہر خانے، تمام عجائب و نفائس سے مالا مال ہو رہے تھے۔ کئی ہزار ہاتھی تھے۔

’عربی و ایرانی گھوڑوں سے اصطبل بھرے ہوئے۔۔۔ بے قیاس نعمتیں جو ہاتھ آئیں تو ادھم خاں مست ہو گئے۔ کچھ ہاتھی ایک عرضداشت کے ساتھ بادشاہ کو بھیج دیے اور آپ وہیں بیٹھ گئے۔ ملک میں سےعلاقے بھی آپ ہی امرا کو تقسیم کر دیے۔‘

’(روپ متی کی) خوبیوں اور محبوبیوں کی دھوم سن کر ادھم خاں بھی لٹو ہو گئے اور پیام بھیجا۔ روپ متی نے جواب دیا ’جاؤ خانہ بربادوں کو نہ ستاؤ۔ باز بہادر گیا، سب باتیں گئیں۔ اب اس کام سے جی بیزار ہو گیا۔‘

ادھم خان نے پھر کسی کو بھیجا۔ دل نے گوارا نہ کیا مگر سمجھ گئیں کہ اس طرح چھٹکارا نہ ہو گا۔ دو، تین دن بیچ میں ڈال کر وصل کا وعدہ کیا۔ جب وہ رات آئی تو سویرے سویرے ہنسی خوشی بن سنور، پھول پہن، عطر لگا، چھپر کھٹ میں گئیں اور پاؤں پھیلا کر لیٹ رہیں۔ ادھم خان ادھر گھڑیاں گن رہے تھے۔ وعدے کا وقت نہ پہنچا تھا کہ جا پہنچے۔

’خوشی خوشی چھپر کھٹ میں داخل ہوئے کہ انھیں جگائیں۔ جاگے کون؟ وہ تو زہر کھا کر سوئی تھیں۔‘

روپ متی کو سارنگ پور میں سپرد خاک کیا گیا۔ گو کہ اکبران تمام واقعات پر ادھم خان سے ناراض تھے مگر جب ان کے رضاعی باپ کا قتل کیا تو سزا کے طور پر ان کی جان لے لی۔

تب ہی باز بہادر نے مغل بادشاہت کو قبول کر لیا اور شہنشاہ اکبر کے ماتحت خدمات انجام دیتے رہے۔ باز بہادر بھی بعد میں اپنے محبوب کے پہلو میں دفن ہوئے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More