مولانا آزاد جو آخر تک تقسیم ہند کو روکنے کی کوشش کرتے رہے

بی بی سی اردو  |  Mar 20, 2023

مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنی زندگی کے ابتدائی سالوں میں اتنی شہرت حاصل کی تھی کہ سروجنی نائیڈو نے ان کے بارے میں کہا تھا کہ ’آزاد جس دن پیدا ہوئے، وہ 50 سال کے ہو گئے‘۔

وہ بچپن میں اونچے چبوترے پر کھڑے ہو کر تقریر کرتے تھے اور بہنوں سے کہا کرتے تھے کہ وہ انھیں گھیر لیں اور ان کی تقریر پر تالیاں بجائیں۔ پھر وہ سٹیج سے نیچے اترے اور لیڈر کی طرح آہستہ آہستہ چلتے رہے۔

آزاد کا پورا نام ابوالکلام محی الدین احمد تھا۔

وہ سعودی عرب کے شہر مکہ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد خیر الدین 1857 کی بغاوت سے پہلے سعودی عرب چلے گئے تھے۔ وہاں انھوں نے 30 سال گزارے۔ وہ عربی زبان کے بہت بڑے ماہر اور اسلامی صحیفوں کے عالم بن چکے تھے۔

سعودی عرب میں، انھوں نے ایک نہر کی مرمت میں مدد کی، عربی میں ایک کتاب لکھی، اور ایک عرب خاتون عالیہ سے شادی کی۔خیرالدین 1895 میں انڈیا واپس آئے اور اپنے خاندان کے ساتھ کلکتہ میں سکونت اختیار کی۔ آزاد نے کسی سکول، مدرسہ یا یونیورسٹی میں نہیں پڑھا۔ انھوں نے اپنی تمام تعلیم گھر پر حاصل کی اور ان کے والد ان کے پہلے استاد تھے۔ آزاد جب 11 سال کے تھے تو ان کی والدہ کی وفات ہو گئیاور 11 سال کے بعد ان کے والد بھی چل بسے۔

آزاد کو مسلم لیڈر کہا جانا پسند نہیں تھا

آزاد ایک عظیم قوم پرست تھے۔ مہاتما گاندھی سے ان کی پہلی ملاقات 18 جنوری 1920 کو ہوئی تھی۔ تحریک آزادی میں ان کا کردار تحریک خلافت سے شروع ہوا۔ 1923 میں پہلی بار کانگریس کے صدر منتخب ہوئے۔

1940 میں وہ ایک بار پھر کانگریس کے صدر بن گئے۔

حال ہی میں آزاد کی سوانح عمری لکھنے والے سید عرفان حبیب لکھتے ہیں، ’آزاد کا تعلق حکیم اجمل خان، ڈاکٹر ایم اے انصاری، خان عبدالغفار خان اور حسرت موہانی جیسے رہنماؤں کے زمرے سے تھا جو خود کو مسلم لیڈر کہنا پسند نہیں کرتے تھے۔‘

سید عرفان حبیب لکھتے ہیں، ’نجی زندگی میں وہ سب ہی عقیدت مند مسلمان تھے، لیکن تحریک خلافت کے علاوہ انھوں نے عوامی زندگی میں کبھی اپنے مذہب کو سامنے نہیں آنے دیا۔‘

ابوالکلام آزاد نے قرآن کا اردو میں ترجمہ کرنے کی پہل کی۔ 1929 تک انھوں نے قرآن مجید کے 30 ابواب میں سے 18 کا اردو میں ترجمہ کیا۔

محمد علی جناح کا آزاد کے تئیں سختی

جب آزاد دوسری بار کانگریس کے صدر بنے، محمد علی جناح کا علیحدہ مسلم ملک کا مطالبہ زور پکڑ چکا تھا۔ جناح نے مسلمانوں سے کہنا شروع کر دیا تھا کہ وہ سفید فام حکمرانوں کی جگہ ہندو حکمرانوں کو لانے کی غلطی نہ کریں۔

آزاد کو جناح کو اس بات پر قائل کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے سینکڑوں سالوں تک ایک ساتھ رہنے کے بعد علیحدگی کا مطالبہ مثبت نہیں ہوگا۔

آزاد پر جناح کا غصہ اتنا تھا کہ انھوں نے انھیں لکھا کہ میں آپ سے کوئی بات یا خط و کتابت نہیں کرنا چاہتا، آپ نے ہندوستانی مسلمانوں کا اعتماد کھو دیا ہے، کیا آپ کو اندازہ ہے کہ کانگریس نے آپ کو ایک بے شرم مسلمان بنا دیا ہے؟ صدر؟ آپ نہ تو مسلمانوں کی نمائندگی کرتے ہیں اور نہ ہی ہندوؤں کی، اگر آپ میں کوئی عزت نفس ہے تو کانگریس صدر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیں‘ "

آزاد نے جناح کے خط کا کوئی سیدھا جواب نہیں دیا لیکن انھوں نے جناح کے اس استدلال کا مقابلہ کیا کہ ’ہندو اور مسلمان دو الگ الگ تہذیبیں ہیں اور ان کے افسانے اور ہیرو مختلف ہیں اور اکثر ایک برادری کے ہیرو دوسرے کے ولن ہوتے ہیں۔‘

مہادیو دیسائی نے آزاد کی سوانح عمری میں لکھا، ’آزاد نے کہا کہ ایک ہزار سال پہلے، تقدیر نے ہندوؤں اور مسلمانوں کو ایک ساتھ آنے کا موقع دیا تھا۔ ہم ایک دوسرے سے لڑے ہوں گے، لیکن حقیقی بھائیوں کے درمیان بھی لڑائی ہوتی ہے۔ آپس کے اختلافات پر زور دیا جاتا ہے۔‘ ہمیں دینے سے کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا کیونکہ دو انسان ایک جیسے ہیں۔ امن کے ہر حامی کو ان دونوں کے درمیان برابری پر زور دینا چاہیے۔

Getty Imagesآزاد اور جناح: دو مختلف شخصیات

آزاد کی سیاسی زندگی کے سب سے بڑے حریف محمد علی جناح تھے۔

راج موہن گاندھی اپنی کتاب 'At Lives: A Study of the Hindu-Muslim Encounter' میں لکھتے ہیں، ’جناح ہمیشہ مغربی طرز کے مہنگے سوٹ پہنتے تھے، جب کہ آزاد کا لباس شیروانی، چوڑی دار پاجامہ اور فیض ٹوپی ہوتا تھا۔‘

وہ لکھتے ہیں،’آزاد اور جناح دونوں دراز قد تھے۔ دونوں صبح سویرے اٹھتے تھے۔ دونوں چین سموکر تھے۔ دونوں کو عام لوگوں سے ملنا پسند نہیں تھا لیکن دونوں اکثر بڑے ہجوم کے سامنے تقریریں کرتے تھے۔ جب جناح اکیلے تھے۔ وہ اپنے سیاسی منصوبے بناتے تھے جبکہ آزاد اپنا وقت کئی زبانوں میں تاریخ کی کتابیں پڑھنے میں صرف کرتے تھے۔‘

مہاتما گاندھی کے سکریٹری مہادیو دیسائی کا خیال تھا کہ آزاد کے پاس کبھی بھی صحیح الفاظ کی کمی نہیں تھی اور آزاد وہ شخص تھے جو کانگریس کی میٹنگوں میں سب سے زیادہ بولتے تھے۔

مولانا آزاد کا خیال تھا کہ جناح کو قومی رہنما بنانے میں گاندھی کا کردار تھا۔

آزاد اپنی سوانح عمری ’انڈیا ونز فریڈم‘ میں لکھتے ہیں، ’جناح نے بیس کی دہائی میں کانگریس چھوڑنے کے بعد اپنی سیاسی اہمیت کھو دی تھی۔ لیکن گاندھی کی وجہ سے جناح کو ہندوستانی سیاست میں واپس آنے کا موقع ملا۔ آبادی کے ایک بڑے حصے کو شک تھا۔ جناح کی سیاسی صلاحیت کے بارے میں، لیکن جب انھوں نے دیکھا کہ گاندھی جی جناح کے پیچھے بھاگ رہے ہیں، تو ان میں جناح کے لیے ایک نیا احترام پیدا ہوا‘۔

آزاد لکھتے ہیں، ’یہ گاندھی جی ہی تھے جنھوں نے جناح کے نام اپنے خط میں ’قائد اعظم‘ کا لفظ استعمال کیا تھا۔ یہ خط فوری طور پر اخبارات میں چھپا۔ اگر وہ ’اعظم‘ کہہ کر مخاطب ہیں تو ان میں کوئی خاص بات ضرور ہے۔ ‘

آزاد اور نہرو میں فرق

سنہ 1937 کے انتخابات کے بعد آزاد کو شمالی ریاستوں میں کانگریس کی حکومت بنانے کی ذمہ داری سونپی گئی۔

اتر پردیش میں، آزاد نے مسلم لیگ کے دو ارکان خلیق الزماں اور نواب اسماعیل خان کو کانگریس کی کابینہ میں شامل ہونے کی دعوت دی۔ وہ اس کے لیے تیار بھی تھے لیکن اس وقت کے کانگریس صدر جواہر لعل نہرو نے فیصلہ کیا کہ مسلم لیگ کو کابینہ میں صرف ایک جگہ دی جا سکتی ہے۔

راج موہن گاندھی لکھتے ہیں، ’آزاد کے کہنے پر مہاتما گاندھی نے بھی مسلم لیگ کے دو ارکان کو اتر پردیش کی کابینہ میں شامل کرنے کی سفارش کی، لیکن نہرو نے اپنا فیصلہ نہیں بدلا۔ مسلم لیگ نے بھی ایک جگہ پر اتفاق نہیں کیا۔ اس طرح۔ مولانا آزاد کی اتر پردیش میں کانگریس-لیگ اتحاد کی کوشش ناکام ہو گئی ہے۔‘

آزاد نے بعد میں اپنی سوانح عمری ’انڈیا ونز فریڈم‘ میں لکھا ، ’یہ نہرو کے رویے کی وجہ سے تھا کہ جناح لیگ کے اتر پردیش کے اتحادی کی حمایت برقرار رکھنے میں کامیاب ہوئے، جو ایک موقع پر جناح کو چھوڑنے کے لیے تیار تھا۔‘ اتر پردیش میں مسلم لیگ کو ایک نئی زندگی ملی۔ جناح نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور اس کا نتیجہ پاکستان کی تخلیق کی صورت میں نکلا۔

چودھری خلیق الزمان نے اپنی کتاب ’پاتھ وے ٹو پاکستان‘' میں بھی لکھا ہے، ’آزاد کا یہ سوچنا غلط نہیں ہے کہ پاکستان کی بنیاد اتر پردیش میں مسلم لیگ-کانگریس کے مذاکرات کی ناکامی کے بعد ہی رکھی گئی تھی۔‘

وہ لکھتے ہیں، ’اگر آزاد اپنی بات پر ڈٹے رہتے اور اس معاملے پر اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کی دھمکی دیتے تو حالات بدل جاتے، لیکن آخری وقت میں آزاد پیچھے ہٹ گئے۔‘

آزاد پھر کانگریس کے صدر بن گئے

1938 میں جب کانگریس صدر کے طور پر سبھاش چندر بوس کی مدت ختم ہوئی تو مولانا آزاد کا نام ہر کسی کے لبوں پر تھا۔

مہادیو دیسائی مولانا کی سوانح عمری میں لکھتے ہیں کہ مہاتما گاندھی نے ان سے عہدہ سنبھالنے کے لیے کہا تھا لیکن بوس مزید ایک سال کانگریس کے صدر کے طور پر رہنا چاہتے تھے، آزاد نے گاندھی کی پیشکش قبول نہیں کی کیونکہ وہ بنگال میں اپنے بہت سے مفادات کی وجہ سے ایسا کرنے سے قاصر تھے۔ شائقین کو مایوس نہیں کرنا چاہتا تھا۔ تب تک بوس بنگال کے ہیرو بن چکے تھے۔

اسی سال ہونے والے انتخابات میں سبھاش چندر بوس ایک بار پھر کانگریس کے صدر منتخب ہوئے۔ انھوں نے پٹابھی سیتارامیا کو شکست دی جس کی حمایت گاندھی جی نے کی۔

1939 میں گاندھی نے ایک بار پھر مولانا سے کانگریس کی قیادت کرنے کو کہا۔ اس بار آزاد نے اتفاق کیا۔ انھیں کل 1854 ووٹ ملے جبکہ ان کے حریف ایم این رائے صرف 183 ووٹ حاصل کر سکے۔

تقسیم کے منصوبے کی شدید مخالفت

جب مہاتما گاندھی نے 9 اگست 1942 کو ہندوستان چھوڑو تحریک شروع کی تو مولانا آزاد کانگریس کے صدر تھے۔ اسے کانگریس کے تمام بڑے لیڈروں کے ساتھ گرفتار کر کے احمد نگر قلعہ لے جایا گیا اور کانگریس پر پابندی لگا دی گئی۔

انھیں 32 ماہ بعد اپریل 1945 میں رہا کیا گیا۔ ستمبر 1946 میں جب عبوری حکومت قائم ہوئی تو آزاد نے ابتدا میں گاندھی اور نہرو کی درخواستوں کے باوجود مرکزی کابینہ میں شمولیت اختیار نہیں کی۔

گاندھی اور نہرو کے بار بار اصرار کے بعد انھوں نے چار ماہ بعد وزیر تعلیم کا عہدہ سنبھال لیا۔ جب ماؤنٹ بیٹن نے اقتدار سنبھالنے کے بعد تقسیم ہند کا عمل شروع کیا تو مولانا ابوالکلام آزاد نے اس کی سخت مخالفت کی۔ ایک ہندوستانی ہونے کے ناطے انھوں نے ملک کے ٹکڑوں میں بٹنے کو قبول نہیں کیا۔

اس وقت مولانا ابوالکلام آزاد نے کہا تھا کہ ’ہندو اکثریتی ملک میں جب لاکھوں مسلمان جاگیں گے تو وہ دیکھیں گے کہ وہ اپنے ہی ملک میں اجنبی اور پردیسی بن چکے ہیں، ہندوستان کو اپنا مادر وطن ماننے کے لیے تیار نہیں تھے۔ اس کے صرف ایک حصے سے مطمئن ہوں۔

مارچ 1947 تک سردار پٹیل ہندوستان کی تقسیم کے لیے تیار ہو چکے تھے اور نہرو نے اس سچائی کو تقریباً تسلیم کر لیا تھا۔

آزاد لکھتے ہیں، ’مجھے اس وقت شدید دکھ اور حیرت ہوئی جب عبوری حکومت میں پولرائزیشن سے تنگ آکر سردار پٹیل نے مجھ سے اعتراف کیا، ’ہمیں یہ پسند ہے یا نہیں، ہندوستان میں دو قومیں ہیں۔‘ نہرو نے بھی غمگین لہجے میں مجھ سے کہا کہ میں تقسیم کی مخالفت کرنا چھوڑ دوں۔

31 مارچ کو جب گاندھی مشرقی بنگال سے دہلی واپس آئے تو آزاد نے ان سے ملاقات کی۔

آزاد نے لکھا، ’گاندھی نے مجھ سے کہا کہ تقسیم اب ایک بہت بڑا خطرہ ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ولبھ بھائی پٹیل اور یہاں تک کہ جواہر لال نے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔ کیا آپ میرا ساتھ دیں گے یا آپ بھی بدل گئے ہیں؟ میں نے جواب دیا کہ تقسیم کے خلاف میری مخالفت اس سے زیادہ مضبوط کبھی نہیں رہی۔ یہ آج ہے۔ میری واحد امید تم ہو۔‘

اگر آپ بھی اس بات کو مان لیتے ہیں تو یہ ہندوستان کی ہار ہوگی۔اس پر گاندھی نے کہا، ’کانگریس صرف میری لاش پر تقسیم قبول کرے گی۔‘ لیکن دو ماہ بعد گاندھی جی نے مجھے اپنی زندگی کا سب سے بڑا دھچکا دیا جب انھوں نے کہا کہ تقسیم کو مزید روکا نہیں جا سکتا۔

Getty Imagesمسلمانوں کو سمجھانے کی کوشش کریں

آزادی کے بعد جب ہندوستانی مسلمانوں نے پاکستان جانا شروع کیا تو آزاد نے انھیں مشورہ دینے کی کوشش کی۔

سیدہ سید حمید نے اپنی کتاب ’مولانا آزاد، اسلام اور انڈین نیشنل موومنٹ‘ میں لکھا ہے، ’مولانا نے اتر پردیش سے پاکستان جانے والے مسلمانوں سے کہا، تم اپنی مادر وطن چھوڑ کر جا رہے ہو، کیا تم جانتے ہو کہ اس کا نتیجہ کیا نکلے گا؟‘ اس طرح آپ کے جانے سے مسلمانان ہند کمزور ہو جائیں گے۔

وہ لکھتی ہیں، ’ایک وقت آئے گا جب پاکستان کے مختلف علاقے اپنی الگ الگ شناخت کا دعویٰ کرنا شروع کر دیں گے۔ ہو سکتا ہے بنگالی، پنجابی، سندھی اور بلوچ خود کو الگ قوم قرار دیں، پاکستان میں آپ کی کیا حیثیت ہے؟ مہمانوں کو مدعو نہیں کیا جا سکتا۔ ہندو۔ اپنے مذہبی حریف بنیں لیکن یقینی طور پر علاقائی اور قومی حریف نہیں۔‘

سگریٹ اور مے نوشی

آزاد کو مہاتما گاندھی کا بے پناہ احترام تھا لیکن انھوں نے ان کے تمام نظریات کو قبول نہیں کیا۔ وہ گاندھی جی کی موجودگی میں کھلے عام سگریٹ پیتے تھے، جب کہ یہ بات مشہور ہے کہ گاندھی جی سگریٹ پینے والے لوگوں کو پسند نہیں کرتے تھے۔ آزاد کو بھی شراب پینے کا شوق تھا۔

نہرو کے سکریٹری ایم او متھائی اپنی کتاب 'Reminiscences of Nehru Age' میں لکھتے ہیں، ’مولانا آزاد ایک پڑھے لکھے مسلمان سکالر تھے لیکن انھیں دنیا کی اچھی چیزیں بھی پسند تھیں۔ جب وہ وزیر تعلیم کے طور پر مغربی جرمنی کے دورے پر گئے تو جب وہ تھے۔ وہاں ہندوستانی سفیر اے سی این نمبیار نے ان کی اپنے گھر میں میزبانی کی، وہ جانتے تھے کہ مولانا کو شراب کا شوق ہے، اس لیے انھوں نے اپنے گھر میں ان کے لیے ایک چھوٹا سا شراب خانہ بنایا۔

وہ لکھتے ہیں، ’مولانا بیرون ملک سفر کرتے وقت شیمپین پینا پسند کرتے تھے، وہ اکیلے پیتے تھے اور نہیں چاہتے تھے کہ کوئی اور ان کے ساتھ آئے۔ نمبیار نے کئی جرمن وزراء کو مولانا کی تعزیت کے لیے مدعو کیا تھا، عشائیہ ختم ہوا، آزاد کھانے کے کمرے سے نکلے اور چلے گئے۔ اپنے کمرے میں اکیلے شیمپین پینے کے لیے۔‘

شام کے بعد کوئی کام نہیں

متھائی لکھتے ہیں ’مولانا دہلی میں کبھی بھی عشائیہ میں شریک نہیں ہوتے تھے۔ یہاں تک کہ نہرو کی رہائش گاہ پر بھی وہ غیر ملکی مہمانوں کے اعزاز میں دیے جانے والے دن کے عشائیے میں شریک ہوتے تھے۔ حتیٰ کہ کابینہ کی میٹنگ بھی جو عموماً شام پانچ بجے ہوتی تھی۔‘ مولانا جلدی چھ بجے اٹھتے تھے، چاہے کوئی بھی اہم موضوع کیوں نہ ہو، گھر پہنچ کر وہسکی، سوڈا اور سموسے کی پلیٹ منگواتے تھے۔

شراب پیتے ہوئے صرف چند لوگوں کو ہی اس سے ملنے کی اجازت تھی۔ ان میں وزیر اعظم نہرو، ارونا آصف علی اور آزاد کے پرسنل سیکرٹری ہمایوں کبیر شامل تھے جو بعد میں مرکزی وزیر بنے۔

نہرو شام کو ان سے ملنے سے کتراتے تھے اور ان سے صرف اس وقت ملتے تھے جب کوئی بہت ضروری کام آتا تھا۔

آزادی کے بعد، آزاد نہرو کی کابینہ میں وزیر تعلیم بنے۔ شروع سے ہی نہرو اور سردار پٹیل کے درمیان کئی معاملات پر اختلافات تھے۔

راج موہن گاندھی لکھتے ہیں، ’ایسے مواقع بھی آئے جب مولانا نے نہرو اور پٹیل کے درمیان ثالث کا کردار ادا کیا۔ آزاد اور پٹیل دونوں کو نہرو پر کرشنا مینن کا اثر پسند نہیں تھا۔ سردار اور آزاد کا کئی مسائل پر اختلاف تھا۔ لیکن کرشن مینن کے بارے میں دونوں کی رائے ایک جیسی تھی۔ سردار کی موت کے بعد نہرو زیادہ طاقتور ہو گئے اور آزاد کی ان کے لیے اہمیت کم ہو گئی۔ وہ پھر بھی ان کے ساتھی اور دوست رہے لیکن کرشنا مینن کی اہمیت بڑھتی گئی۔ اور آزاد کا اثر کم ہوتا گیا۔‘

بدرالدین طیب جی ، جو 50 کی دہائی میں نہرو اور آزاد کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہے، اپنی سوانح عمری ’میموئرز آف این ایگوسٹ‘ میں لکھتے ہیں، ’پنڈت جی اور آزاد کی ملاقاتیں کم ہوتی گئیں، جب کہ کرشنا مینن کابینہ میں نہ ہونے کے باوجود نہرو کے قریب رہے۔‘چیف ایڈوائزر کے طور پر خدمات انجام دیں۔

باتھ روم میں گرنے سے موت

مولانا آزاد ہمیشہ صحت کے مسائل سے نبرد آزما رہے۔ وہ ورزش کرنا اور یہاں تک کہ صبح چہل قدمی کرنا بالکل ناپسند کرتے تھے۔ وہ ہمیشہ کتابوں سے چمٹے رہتے تھے۔ وہ نہ تو گھر سے نکلتے تھے اور نہ ہی کسی کو اپنے گھر بلاتے تھے۔

ورزش نہ کرنے کی وجہ سے اس کی ٹانگیں اکڑ گئی تھیں۔ وہ ہلکا سا لنگڑا کر چلتے تھے اور اپنے غسل خانے میں بھی دو بار گر چکے تھے۔

19 فروری 1958 کو وہ ایک بار پھر اپنے غسل خانے میں گر گئے۔ اس بار اس کی کمر کی ہڈی ٹوٹ گئی اور وہ بے ہوش ہوگیا۔

تھوڑی دیر میں انھیں ہوش آیا۔ جب نہرو ان سے ملنے آئے تو انھوں نے انھیں دیکھ کر کہا، ’جواہر، خدا حافظ۔‘

بہت کوششوں کے بعد بھی وہ اس چوٹ سے نہ سنبھل سکے اور 22 فروری 1958 کو صبح دو بجے اس دنیا کو الوداع کہہ گئے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More