’بیٹے کو ڈانٹا کہ تیری شادی کی عمر ہے اور میں شادی کر لوں تو لوگ کیا کہیں گے‘

بی بی سی اردو  |  Mar 20, 2023

BBCبھاسکر اور ان کے بھائی وویک نے اپنی ماں کو دوسری شادی کے لیے رضامند کیا

’یہ ایک صدمے جیسا تھا جب شادی کی عمر والے میرے بیٹے نے مجھے دوبارہ شادی کرنے کو کہا‘۔

سیلوی یہ بھی کہتی ہیں ’ساتھ ہی میں یہ سوچ کر فخر بھی محسوس کرتی تھی کہ اس معاشرے میں میرے بیٹوں جیسی ذہنیت کسی اور کی نہیں ہے۔ یہاں بہت سی ایسی خواتین ہیں جنہوں نے اپنے شوہر کھو دیے ہیں، اور تنہا ہی اپنے بچوں کی پرورش کر رہی ہیں‘۔

بھاسکر اور ان کی ماں سیلوی تمل ناڈو کے کلاکوریچی کی پرانگمپاتو پنچایت کے رہائشی ہیں۔

بھاسکر اور ان کے چھوٹے بھائی وویک دونوں نے اپنے والد کو اس وقت کھو دیا تھا جب وہ کم عمر تھے۔ 2009 میں جب ان کے والد کی وفات ہوئی تو بھاسکر انجینئرنگ کی تعلیم کے پہلے سال میں تھے جبکہ ان کے چھوٹے بھائی وویک گیارہویں جماعت میں تھے۔

بھاسکر نے بتایا ’اس وقت ہم نے ماں کی دوسری شادی کے بارے میں نہیں سوچا تھا۔ میں نے بہت سی خواتین کو اپنے شوہروں کی موت کے بعد اکیلے بچوں کی پرورش کرتے دیکھا ہے۔ تو ہماری بھی یہی سوچ تھی‘۔

لیکن جب میں انجینئرنگ کالج کے تھرڈ ایئر میں تھا تو اپنے ایک ٹیچر سے ملنے گیا تو انہوں نے کہا کہ تمہاری ماں اتنے عرصے سے اکیلی رہ رہی ہیں، وہ دوبارہ شادی کیوں نہیں کر سکتیں، بات آئی گئی ہو گئی کیوں کہ اس بارے میں ماں سے بات کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا‘۔

BBCسیلوی کے رشتے داروں نے انکی دوسری شادی پراعتراض کیاماں سے کہا ’تم شادی کرو گی تو میں بھی کروں گا‘

بھاسکر اس بارے میں زیادہ سوچ بھی نہیں پائے۔ ان کےکالج کی پڑھائی مکمل ہوئی اور انہوں نے ملازمت شروع کر دی۔ کتابیں پڑھنے کے شوق کی وجہ سے انہوں نے دنیا بھر کی چیزیں بھی جاننا شروع کر دیں۔ انہوںنے دوبارہ شادی پر مضامین پڑھے۔ پھر اس معاملے پر دوستوں سے بات بھی شروع ہو گئی۔

تب بھاسکر نے سوچا کہ ماں بھی اکیلی ہے، وہ دوبارہ شادی کیوں نہیں کر سکتی؟ یہ خیال آنے کے بعد انہوں نے اپنے چھوٹے بھائی سے بات کی۔ چھوٹے بھائی کو اس پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔

پھر دونوں بھائیوں نے مل کر ماں کو منانے کا کام شروع کر دیا۔ بھاسکر نے کہا ’ماں کی زندگی ہمارے ارد گرد گھومتی تھی، اسی لیے انہوں نے اس پر بات کرنے سے انکار کر دیا۔

’اس کے بعد ہم نے مزید بات چیت شروع کردی۔ ایک دن میری والدہ نے مجھ سے شادی کی باتیں شروع کیں کہ تم شادی کرنے کی عمر کو پہنچ گئے، ہو اب تم شادی کر لو، اس پر میں نے کہا کہ تم شادی کرو گی تو میں بھی کروں گا‘۔

بھاسکر کہتے ہیں ’اس کے بعد میں اکثر اپنی ماں سے اس بارے میں بات کرنے لگا، میں نے ان سے کہا کہ آپ کافی عرصے سے اکیلے جدوجہد کر رہی ہیں، آپ کو شادی کر لینی چاہیے، پھر میں بھی شادی کر لوں گا‘۔

BBCسیلوی کے بیٹوں نے ان کے لیے دولہا تلاش کیا’بیٹے کی شادی کی عمر،ایسے میں میں شادی کر لوں تو لوگ کیا کہیں گے‘

دونوں بیٹوں کی مسلسل کوششوں سے سیلوی چند سالوں میں دوبارہ شادی کے لیے تیار ہوگئیں۔ تاہم معاشرے میں ایسا رواج عام نہیں ہے۔ جن خواتین کے شوہر کی وفات ہو جاتی ہے، انہیں ساری زندگی بیوہ بن کر رہنا پڑتا ہے۔ رشتہ دار ایسی خواتین کی دوسری شادی کے لیے تیار نہیں ہوتے۔

سیلوی کہتی ہیں ’جب میرے بڑے بیٹے نے اس بارے میں بات کی تو میں حیران رہ گئی۔ میں نے اسے ڈانٹا کہ تیری شادی کی عمر میں، میں شادی کر لوں تو لوگ کیا کہیں گے‘۔

سیلوی کے مطابق ’میرے بیٹوں نے کہا کہ تم کب تک اکیلے زندگی میں جدو جہد کرتی رہو گی دونوں بھائیوں نے یہ بھی کہا کہ انہیں کام کے لیے باہر جانا پڑے گا پھر انہیں زیادہ پریشانی ہوگی، تمہاری اپنی زندگی بھی ہے، تو میں نے اس بارے میں سوچنا شروع کر دیا‘۔

بیٹوں نے یہ کہہ کر رشتہ داروں کا منھ بند کرد یا کہ ’جب ہماری مصیبت اور پریشانی میں ہمارا ساتھ دینے کوئی نہیں آیا تو پھر ہم ان کی فکر کیوں کریں؟ بہت غور کرنے کے بعد سیلوی نے دوبارہ شادی کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ انہیں لگا کہ ان کے دونوں بیٹے ان کے ساتھ ہیں۔

BBCسیلوی کا کہنا ہے کہ ہر عورت کو اپنی زندگی نئے سرے سے شروع کرنے کی ہمت کرنی چاہیے’دوبارہ شادی کا قانون موجود ہے تو میں کیوں ڈروں‘

ماں کی رضامندی حاصل کرنے کے بعد دونوں بیٹوں کے لیے اگلا چیلنج مناسب دولہا تلاش کرنا تھا۔

بھاسکر نے کہا ’ہم نہیں چاہتے تھے کہ وہ کسی ایسے شخص سے شادی کریں جس کی بیوی مر گئی ہو اور اس کی یہ میری ماں سے دوسری شادی ہو‘۔

بھاسکر نے اپنی ماں سے کہا کہ وہ تلاش کیے جانے والے دولہے سے کچھ دن بات کریں اور پھر مزید معاملات طے کیے جائیں گے۔ اس کوشش میں سیلوی نے جس شخص سے بات چیت کی اور بعد میں شادی کی، وہ ان سے محبت کرنے لگا تھا۔

سیلوی کا کہنا ہے کہ ’بہت سے لوگوں نے مجھ سے پوچھا کہ چاہے آپ کے بچے آپکی دوبارہ شادی کی بات کرتے ہیں لیکن آپ اتنے سالوں کے بعد ایسی زندگی کے لیے کیسے راضی ہو سکتی ہیں‘۔

سیلوی کا کہنا تھا کہ ’جب طلاق دینے والوں کے لیے دوبارہ شادی کا قانون موجود ہے تو میں کیوں ڈروں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’بچوں پر بوجھ بنے بغیر زندگی کے آخری پڑاؤ پر اپنے لیے جیون ساتھی تلاش کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ شادی صرف جنسی تعلق نہیں ہوتی ایسے میں کسی دوست اور ساتھی کا ہونا آپ کو ہمت دیتا ہے‘۔

BBCسیلوی کو اپنے بیٹوں پر فخر ہے’اکیلی تھی تو لوگ بُرے ارادوں سے میرے پاس آئے‘

سیلوی کا کہنا ہے کہ ’جب میں نے اپنے شوہر کو کھو دیا تھا تو بہت سے لوگ بُرے ارادوں سے میرے پاس آئے کیونکہ میں اکیلی تھی، لیکن کوئی شادی کے خیال سے نہیں آیا۔

’جب میرے پہلے شوہر کی وفات ہوئی تو ہمارے گھر میں ٹوئلٹ نہیں تھا۔ یہاں تک کہ رات کو رفع حاجت کے لیے نکلتے تھے، لوگ پوچھتے تھے، ’تم اس وقت کہاں جا رہی ہو؟‘ بہت سے لوگ مجھے تہنا دیکھ کر میرے ساتھ جنسی تعلقات کی باتیں کرتے تھے، پھر میں ان سے پوچھتی تھی کہ کیا آپ اپنی بیوی بچوں کو اس بارے میں بتائیں گے، تب وہ بھاگ جاتے تھے۔

’مجھ سے بڑی عمر کی کئی خواتین نے کہا کہ ان میں دوبارہ شادی کرنے کی ہمت نہیں ہے۔ میں بہت سی ایسی نوجوان خواتین سے بھی بات کر رہی ہوں جو اپنے شوہر کھو چکی ہیں اور تنہا رہ رہی ہیں۔ میں انہیں نئی امید دے رہی ہوں۔‘

جن خواتین کے شوہروں کی موت ہو چکی ہے ان سے اپیل کرتے ہوئے، سیلوی کہتی ہیں، ’جنہوں نے میری طرح اپنے شوہر کو کھو دیا ہے، انہیں ایک جرات مندانہ فیصلہ لینا چاہیے اور دوبارہ شادی کرنی چاہیے۔ میرے جیسی زیادہ تر خواتین اپنے حقیقی جذبات چھپاتی ہیں اور خوف میں رہتی ہیں‘۔

ان کا کہنا تھا ’اکیلے رہنا بہت مشکل ہے۔ آپ کو ایسے جینے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ لوگ اپنی زندگی کی قدر کریں۔ لوگ کیا کہتے ہیں اس کی پرواہ نہ کریں‘۔

سیلوی کے رشتے داروں میں سے کوئی بھی ان کی دوسری شادی میں شریک نہیں ہوا۔ صرف ان کے دوسرے شوہر کے خاندان کے افراد نے شرکت کی۔ بھاسکر کا کہنا ہے کہ ’میری ماں کے گھر والوں نے کافی عرصے تک ہمارا بائیکاٹ کیا تھا، اب ہم سمجھ گئے ہیں کہ اس میں ہمارا کوئی نقصان نہیں ہے۔‘

’وہ سارے کام کرتا ہے اور میرا خیال بھی رکھتا ہے‘

سیلوی نے کہا ’میں نے اپنے شوہر کی موت کے وقت اپنے سسر، ساس اور ماں کو فون کیا۔ اس وقت میں الجھن میں تھی کہ میں اکیلی دو بچوں کی پرورش کیسے کروں گی۔ لیکن کوئی مدد کے لیے نہیں آیا۔ پھر میں نے اکیلے اپنے بچوں کی پرورش کی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ، بیٹوں نے کئی جز وقتی ملازمتیں کیں اور خود کو حالات کے مطابق ڈھال لیا‘۔

سیلوی اور ان کے بچوں کو اس معاشرے کے طور طریقوں کی بہتر سمجھ تھی کیونکہ انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ سیلوی نے اب یتوملائی نامی کھیت مزدور سے شادی کر لی ہے۔ سیلوی نے مسکراتے ہوئے کہا، ’وہ سارے کام کرتا ہے اور میرا خیال بھی رکھتا ہے‘

سیلوی خوشی سے کہتی ہیں ’کتنے بچے یہ سوچیں گے کہ ایک ماں کی اپنی بھی زندگی ہوتی ہے اور اسے ایک ساتھی کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب میں اپنے بیٹوں کے بارے میں سوچتی ہوں تو مجھے فخر محسوس ہوتا ہے‘۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More