’شکر ہے آج پارلیمان میں اپوزیشن بھی دیکھنے کو ملی‘

بی بی سی اردو  |  Mar 27, 2023

قومی اسمبلی کی پریس گیلری میں گذشتہ ایک برس سے ہر سیشن کے دوران ایک بات ضرور سننے کو ملتی تھی کہ ’اب کیا اجلاس اور کیا اس کی کارروائی، اسمبلی میں اپوزیشن تو موجود ہے ہی نہیں۔‘ صحافی تبصروں میں یہ بھی کہہ جاتے کہ ’اب قومی اسمبلی کے اجلاس میں بحث نہیں کی جاتی، اب صرف تقاریر ہوتی ہیں۔‘

ان کا اشارہ قومی اسمبلی میں پی ڈی ایم جماعتوں کے اراکین کے سامنے ایک نہایت فرینڈلی، چند اراکین پر مشتمل اپوزیشن کی جانب ہوتا تھا جو کسی قانون سازی پر حکومتی اتحاد کی مخالفت کرتے نہ ہی کسی بحث کا حصہ بنتے۔

یہ مرحلہ پاکستان میں جمہوریت اور پارلیمانی سیاست کوور کرنے والے ان صحافیوں کے لیے خاصا پریشان کن ہوتا تھا جو گذشتہ حکومتوں میں انتہائی فرینڈلی اپوزیشن کی طرف سے بھی پارلیمان اور قانون سازی پر کئی گھنٹوں جاری رہنے والی بحث رپورٹ کرتے رہے ہیں۔

مگر آج پارلیمان کے مشترکہ اجلاس کے دوران قومی اسمبلی کے ہال میں صورتحال گذشتہ ایک سال سے بالکل مختلف تھی۔ اسمبلی ہال میں شور شرابہ تھا جو یقیناً وہاں بیٹھے اراکین کے لیے پریشان کن ہو گا، مگر پریس گیلری میں بیٹھے صحافی ان مناظر کو دیکھ کر خاصے خوش تھے۔

قومی اسمبلی کے ہال میں طویل مدت بعد حزب اختلاف کی صورت میں پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹرز نے شرکت کی اور ایک بار پھر وہی ماحول پیدا ہو گیا جس کی توقع کسی بھی جمہوریت میں اپوزیشن اور حکومتی بینچوں پر اراکین کی موجودگی کے دوران کی جاتی ہے۔

نوک جھونک اور ہنگامہ آرائی آج کے سیشن کا حصہ تھی۔

’شکر ہے آج اپوزیشن بھی دیکھنے کو ملی ہے۔۔۔‘ ایک صحافی نے رائے دی۔ جبکہ میرے ساتھ نشست پر بیٹھے ایک اور سینیئر صحافی نے کہا ’جب اپوزیشن موجود ہو تو اجلاس کا مزا آتا ہے اور یہ واضح نظر آتا ہے کہ عوامی نمائندے کسی ایشو پر سیر حاصل بحث کر رہے ہیں۔ یہی جمہوریت ہے اور یہی جمہوریت کا حسن۔‘

پارلیمان کے مشترکہ اجلاس، جو تئیس مارچ کو شروع ہوا، کا آج تیسرا روز تھا۔

اجلاس مقررہ وقت پر شروع نہیں ہو سکا مگر جیسے ہی کارروائی شروع ہوئی تو پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹرز ہاتھوں میں الیکشن کمیشن مخالف بینرز اٹھائے، نعرے لگاتے اسمبلی ہال میں داخل ہو گئے۔ اس سے قبل پی ٹی آئی نے اس اجلاس کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا۔

مگر آج پی ٹی آئی کے رہنما الیکشن کمیشن کے صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات رکوانے کے فیصلے کے خلاف پارلیمان میں احتجاج کے لیے موجود تھے۔ ان کے نعروں کی گونج میں سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کی آواز کہیں دب کر رہ گئی تھی۔

’الیکشن فوری کرواؤ‘، ’الیکشن سے مت بھاگو‘ جیسے بینرز اٹھائے ان سینیٹرز نے سپیکر ڈائس کے سامنے کھڑے ہو کر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔

سپیکر نے انھیں اپنی نشستوں پر براجمان ہونے کی ہدایت کی جس کے بعد سینیٹ میں قائد حزب اختلاف شہزاد وسیم نے تقریر کی۔ ان کی تقریر کے دوران صحافیوں نے اجلاس کا بائیکاٹ کیا اور صحافیوں پر تشدد، ان کے خلاف مقدمات، صدیق جان کی گرفتاری اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں صحافیوں کو کوریج سے روکنے اور ان پر تشدد کے خلاف احتجاج کیا۔

ادھر اسمبلی ہال میں وسیم شہزاد کی تقریر کے بعد جمیعت علمائے اسلام ف کے مولانا اسد محمود نے تقریر شروع کی تو ان کی تقریر کے دوران تحریک انصاف کے لوگ مسلسل نعرے بازی کرتے رہے اور ڈیسک بجاتے رہے۔

اسد محمود نے ایک طویل تقریر کی اور عمران خان اور پاکستان تحریک انصاف کی سیاست پر سخت الفاظ میں تنقید کی جس کا جواب پی ٹی آئی کے سینیٹرز نعرے بازی سے دیتے رہے۔ ایک موقع پر الفاظ اور جملے بازی کی یہ جنگ اتنی شدت اختیار کر گئی کہ خود سپیکر قومی اسمبلی بھی ہال پر نظر دوڑاتے ہوئے ہنستے نظر آئے۔

اس موقع پر حکومتی اتحاد کی نشستوں سے بھی اراکین نے کھڑے ہو کر جوابی جملے کسے، بالآخر سپیکر قومی اسمبلی کو مداخلت کرنا پڑی اور انھوں نے اراکین کو ’ہاؤس کی عزت و احترام کا خیال‘ رکھنے کا کہا۔

پی ٹی آئی کے سینیٹر فیصل جاوید خان متعدد بار سپیکر ڈائس کے سامنے گئے اور ان سے درخواست کی مولانا اسد محمود کا مائیک بند کر کے ان کی جماعت کے سینیٹرز کو موقع دیا جائے مگر آج ایسا لگ رہا تھا کہ خود سپیکر قومی اسمبلی بھی اسد محمود کو ہی بولنے کا موقع دے رہے تھے۔

تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ یہ تقریر جاری رہی اور اس کے بعد پی ٹی آئی سینیٹرز مشتعل ہو گئے اور ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ دیں۔ فیصل جاوید خان نے اپنی سیٹ سے اٹھتے ہوئے کہا ’اب بس کر دو سپیکر صاحب۔‘

ان کے ہمراہ پی ٹی آئی کے دیگر سینیٹرز سپیکر ڈائس کے سامنے جمع ہوئے اور کہا کہ مولانا اسد محمود عمران خان کے بچوں سے متعلق کہے گئے جملے واپس لیں۔ سپیکر قومی اسمبلی نے اس موقع پر اجلاس ملتوی کر دیا۔ اس دوران پی ٹی آئی کے اراکین نعرے بازی کرتے رہے۔ مشترکہ اجلاس دس اپریل تک کے لیے ملتوی کر دیا گیا۔

اس تمام مرحلے کے دوران ایک اور صحافی نے پاکستان تحریک انصاف کے گذشتہ برس اسمبلیوں سے استعفی دینے کو غلط قدم قرار دیا اور اپنی رائے دی کہ ’اب پی ٹی آئی کو بھی سمجھ آ گئی ہے کہ درست پلیٹ فارم پارلیمان ہی ہے جہاں بیٹھ کر وہ اپنے تحفظات بھی بتا سکتے ہیں اور ٹھوس اقدامات بھی کر سکتے ہیں۔‘

اب یہ اور بات ہے کہ آج تحریک انصاف کی بار بار درخواست کے باوجود شہزاد وسیم کے علاوہ کسی اور رکن کو بات کرنے کا خاص موقع نہیں مل سکا۔

مزید خبریں

تازہ ترین خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More