یمن کی حکمران ساس بہو جن کے نام کا خطبہ مساجد میں پڑھا جاتا تھا

بی بی سی اردو  |  Apr 02, 2023

اسما بنت شہاب اور ان کی بہو اروى الصُليحی مُسلم دنیا کی دو ایسی حکمرانتھیں جن کے نام کا خطبہ مساجد میں پڑھا جاتا تھا اور جنھوں نے ساس بہو کے روایتیاختلاف بھرے رشتے سے الٹ یمن کے اقتدار میں شراکت بھی کی۔

اسما، علی الصليحی کی بیوی تھیں۔ جب علی نے سنہ 1047 میں صليحی دورکی ابتدا کی تو اپنی شریکِ حیات کو شریکِ اقتدار بھی قرار دیا۔

خطبے میں نام لیا جانا ایک مسلِم ریاست میں حاکم کا روایتی استحقاق ہے۔ اسی لیے یمن کی مساجد کے منبروں سے فاطمی خلیفہ کے نام کے بعد شریک حکمرانوں علی اور اسما دونوں کے نام پر خطبہدیا جاتا تھا۔ تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ ایک عورت کے نام کا خطبہ پڑھا گیا۔

محمد الثور کے مطابق وہ اپنے وقت کی مشہور ترین اور طاقتور ترین خواتین میں سے ایک تھیں۔ وہ مہربان تھیں۔ علی نے ان کے کردار کے کمالاتکے باعث ریاستی انتظام بھی ان کے سپرد کر دیا۔

انھوں نے کوئی فیصلہ ملکہ کے مشورے کے خلاف نہیں کیا۔ ان کی رائے کا بہت احترامکرتے اور کبھی کسی اور کی رائے کو ان کی رائے پر فوقیت نہ دی۔

مؤرخ ابن الخبیب نے اسما کے بارے میں لکھا کہ ’وہ ایک عقلمند ملکہ، متقی اور سخی تھیں، جو اپنا مال محتاجوں پر خرچ کرتی تھیں۔‘

اروى، علی کی بھتیجی تھیں۔ چھوٹی عمر میں یتیم ہونے کے بعد، ان کی پرورش اسما اور علی نے دارالحکومت صنعا کے محل میں کی۔ شاہی جوڑے نے انھیں بہترین تعلیم فراہم کی۔

مؤرخ عمارہ الیمنی لکھتے ہیں کہ صالحیوں کو اپنی خواتین کو اچھی تعلیم دینے پر ناز تھا۔

1066 میں 17 سال کی عمر میں اروى کی شادی اسما اور علینے اپنے بیٹے احمد المکرم سے کردی۔ مِہر میںعدن شہر کا محصول رکھا گیا، جو ایک لاکھ دینار تھا۔ یوں ملکہ اسما، اروى کی ساس بن گئیں۔

سنہ 1067 میں مکہ جاتے ہوئے ان کے قافلے پر حملہ ہوا، علی کو قتل اور اسما کو قید کر دیا گیا۔ ایک سال کی قید کے بعد وہ اپنے بیٹے تک پیغام پہنچانے میں کامیاب ہو گئیں۔ ان کے بیٹے نے دھاوا بول کر انھیں آزاد کروا لیا اور اسما واپس اپنی مملکت میں آ گئیں۔

پہلے تو اپنے بیٹے احمد المکرم کے والد کے جانشین ہونے کی تصدیق کی لیکن جب کچھ ہی عرصے بعد وہ مفلوج ہو گئے تو ان کی مرضی سے اپنی بہو اروى الصليحی کے ساتھ مل کر سنہ 1087 میں اپنی وفات تک حکومت کی۔

Getty Imagesفائل فوٹوساس بہو کی اقتدارمیں شراکت

اسما اور ان کی بہو اروىکا اقتدار میں اشتراک غیر معمولی تھا۔ اسما اپنی دانشمندی اور تجربے کی وجہ سے جانی جاتی تھیں اور اروى کی آمد سے پہلے ہی کئی سال تک ملکہرہ چکی تھیں۔

دوسری طرف اروى اپنی انتظامی صلاحیتوں اورعِلم ودانشکی سرپرستی کے لیے مشہور تھیں۔

مورخ شہلا حائری کہتی ہیں کہ اسمااپنی موت تک ’سیاسی امور پر حکمران تھیں اور تمام ریاستی اور مالی معاملات کا انتظام کرتی تھیں اورچونکہ دونوں خواتین کے تعلقات قریبی تھے تو اروى نے مشاہدہ کرتے یا ان کی مدد کرتے یہ سب سیکھا ہوگا اسی لیے ساس کی موت کے بعد سرکاری فرائض آسانی سے سنبھال لیے۔‘

اکیلے اقتدار کا طویل دور

اسما کی وفات کے بعد اروى نے دارالحکومت کو صنعا سے جبلہ منتقل کردیا۔ اروى نے خود ایک فوج کے ساتھ جبلہ کی طرف کوچ کیا۔ شہر کو وسعت دی اور نئے دارالِعز محل کی تعمیر کی ذاتی طور پر نگرانی کی۔ وہ سال کا بیشتر حصہ یہاں مقیم ر ہتیں جبکہ احمد ایک قریبی قلعہ میں رہتے۔

جبلہ ہی سے سنہ 1075 میں اروى نے زبِید کے نجاح حکمران سعید بن نجار سے چچا اور سسر علی الصليحی کی موت اور اپنی چچی اور ساس پر ظلمکا بدلہ لیا ۔

عمارہ کے مطابق اس جنگ میں نجاح تباہ ہو گئے اور اروى نے سعید کا سر اپنے کمرے کی کھڑکی کے نیچے لٹکادیا۔

طائف الازہری کا کہنا ہے کہ ایسا علی کی موت کا بدلہ لینے اور ’مغربی علاقوں میں نجاح کو ختم کرنے کے علاوہ، مقامی طور پر اپنی طاقت اور عزم کے اظہار کے لیے تھا۔‘

Getty Imagesفائل فوٹواَرْوَى کے نام کا خطبہ

الازہری کے مطابق یہیں مساجد سے فاطمی خلیفہ المستنصر باللہ کے بعد ان کے خاوند اور ان کے نام کا خطبہ پڑھا جانے لگا۔

الازہری ہی لکھتے ہیں کہ فاطمی خاندان کی جانب سے سنہ 1078 اور 1080 کے درمیان انھیں تین خطوط لکھے گئے۔ ان میں انھیں ملکہ کی بجائے ’مومنین کے کمان دار کی نائب‘ کہہ کر مخاطب کیا گیا مگر احمد کا ذکر تک نہیںتھا جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ فاطمی اروى کو یمن کا حقیقی حاکم تسلیمکرچکے تھے۔

اکتوبر 1084 میں احمد المکرم کا انتقال ہو گیا۔ اروى نے اپنے شوہر کی موت کی خبر چھپائی اور فاطمیوں سے درخواست کیکہ وہ ان کے 10 سالہ بیٹے عبد المستنصر علی کو باضابطہ طور پر نیا صلیحی حکمران مقرر کر دیں۔

جواب میں ایک خط آیا کہ اروى ہی ’وہ فرد ہیں، جن پر خلیفہ دعوت کی حفاظت اور وفاداری سے فاطمی امور سرانجام دینےکے لیے انحصار کریں گے۔‘

یہ ایک نازک عبوری دور تھا۔ کچھ قبائلی رہنماؤں نے یہ موقعاروى کی اتھارٹی کو چیلنج کرنے کے لیے استعمال کیا۔ عدن اور دیگر علاقے صليحی حکومت سے الگ ہو گئے۔

سامِرطرابلسی کے مطابق تب ہیفاطمی خلیفہ نے ایک بے مثال حکم نامہ کے ذریعےا روى کو حجۃ کا درجہ دے دیا، جو اسماعیلی درجہ بندی میں خود خلیفہ کے بعد اعلیٰ ترین درجہ ہے۔

اروى نے اب اپنے بیٹے عبد المستنصر کے لیے یمن پر حکمرانی کی۔ 1090 کے قریب عبد المستنصر کا اچانک انتقال ہوگیا۔

اروىنے فاطمی خلیفہ کے کہنے پر اپنے مرحوم شوہر کے کزن سبا ابن احمد سے شادی تو کر لی لیکن کہا جاتا ہے کہ ازدواجی تعلق کبھیقائم نہیں کیا۔

سنہ1098 میں سبا کا انتقال ہوگیا۔ اب اروى بغیر کسی شراکت کے یمن کی حکمرانبن چکی تھیں۔ انھیں عوامی طور پر المالک یا ’ملکہ‘ کا نام دیا گیا، یہ اسلامی دنیا میں پہلی بار ہوا تھا۔ اس بار فاطمیوں نے اروى کو خود مختار حاکمتسلیم کر لیا۔

یہ بھی پڑھیے:

زبیدہ بنت جعفر: جب عباسی ملکہ نے لاکھوں دینار کی نہر بنوا کر کہا ’حساب قیامت کے دن پر چھوڑتی ہوں‘

’شفا‘: وہ خاتون جنھیں ان کی کاروباری ذہانت کی بدولت اسلام کی ’پہلی مارکیٹ منتظم‘ مقرر کیا گیا

مغل سلطنت کی طاقتور خواتین جن کو غیر معمولی اختیارات حاصل تھے

Getty Imagesاروى کی موت کے ساتھ ہی صلیحی اقتدارکا خاتمہ ہو گیا۔ انھیں اسی مسجد میں دفن کیا گیا جو انھوں نے جبلہ میں بنائی تھی’مردوں سے بھی آگے نکل جانے والی‘

اپنی ساس ملکہ اسما کے برعکس مؤرخین کے مطابق کم عمری کی وجہ سے اروى دربار میں حجاب کے ساتھجاتیں مگر پردے کے پیچھے سے دربارمنعقد نہ کرتیں۔

مؤرخ ابن الجوزی کا کہنا ہے کہ ’ا روى ایک دین دار خاتونتھیں۔ وہ قرآن کی حافظ اور اسلامی علما اور اداروں کی قدر کرتیں۔‘

انھوں نے مبلغین کو مغربی ہندوستان بھیجا۔یوں گیارہویں صدی کے دوسرے نصف میں گجرات میں اسماعیلی برادری قائم ہوئی، جو آج بھی داؤدی بوہرہ، سلیمانی اور علوی کے نام سے موجود ہے۔

اروى کو ’یمن کے سنہری دور کی ماں‘بھی کہاگیا۔ اپنی حکومت کے لگ بھگ 52 برس میں انھوں نے عوام کی تعلیم اور معاشی و سماجی ترقی کے لیے انتھک محنت کی۔ اپنے پورے علاقے میں سکول بنوائے، زراعت کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے معیشت کو بہتر کیا۔

مؤرخ ابن الثیر لکھتے ہیں کہ اروى کے دور میں عوامی فلاح کےبہت سے اہم کام ہوئے، جن میں ایک بڑے ڈیم اور آبپاشی کے نظام کی تعمیر بھی شامل تھی، جس نے اس علاقے کو ایک زرخیز زرعی علاقے میں تبدیل کر دیا تاہم کامیابیوں کے باوجود ا روى کو ایک خاتون حکمران کے طور پر بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

مؤرخین کہتے ہیں کہ ا روى کے کئی مرد مشیران کی طاقت اور اثر و رسوخ سے حسد کرتے اور ان کی حکمرانی کو کمزور کرنے کی کوشش کرتے تھے۔

اروى کا انتقال 1138 میں 90 سال کی عمر میں ہوا۔ اروى کی موت کے ساتھ ہی صلیحی اقتدارکا خاتمہ ہو گیا۔ انھیں اسی مسجد میں دفن کیا گیا جو انھوں نے جبلہ میں بنائی تھی۔

ادریس عمادالدین نے انھیں ’پرہیزگاری، دیانتداری، فضیلت، کامل ذہانت اور فہم و فراست کی حامل اور مردوں سے بھی آگے نکل جانے والی‘کہا۔

مراکش کی ایک لکھاری فاطمہ مرنیسی کے مطابق ’اروى اسلامی دنیا میں خواتین کو بااختیار بنانے میں مشعلِ راہ تھیں۔ انھوں نے ثابت کیا کہ خواتین حکمرانی اور قیادت میں مردوں ہی کی طرح ہی قابل اور اہل ہو سکتی ہیں۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More