انڈیا میں جنسی ہراسانی کے خلاف پہلوانوں کا احتجاج: ’اگر کوئی قدم نہ اٹھایا گیا تو یہ لڑکیاں پھر واپس آئیں گی‘

بی بی سی اردو  |  Jun 01, 2023

انڈیا کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے رکن پارلیمان برج بھوشن شرن سنگھ اُتر پردیش سے کئی بار منتخب ہو چکے ہیں۔ وہ مشرقی اتر پردیش کے ایک بااثر سیاستدان اور ریاست میں بی جے پی کے ایک اہم ستون سمجھے جاتے ہیں۔ وہ انڈیا کی ریسلنگ فیڈریشن کے صدر بھی ہیں۔

اولمپیئن ریسلر خواتین نے برج بھوشن شرن سنگھ پر جنسی ہراسانی کا الزام عائد کیا اور کئی دن سے وہ سراپا احتجاج ہیں۔

بدھ کو برج بھوشن شرن سنگھ نے لکھنؤ کے نزدیک ایک عوامی جلسے میں الزام لگانے والی ریسلر خواتین کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ ’مجھ پر الزام لگانے والو۔۔۔ گنگا میں تمغے بہانے سے مجھے پھانسی نہیں ہو گی۔ اگر تمہارے پاس کوئی ثبوت ہے تو جا کر پولیس کو دو۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’اگر میرے اوپر ایک بھی الزام ثابت ہوا تو میں خود ہی پھانسی پر چڑھ جاؤں گا۔ میں آج بھی اس عہد پر قائم ہوں۔‘

حکومت نواز سمجھی جانے والی ایک خبر رساں ایجنسی نے دلی پولیس کے ذرائعسے یہ خبر دی ہے کہ پولیس کو اپنی تفتیش میں برج بھوشن کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملا اور وہ اس کیس کو بند کر سکتی ہے‘ تاہم پولیس نے بعد میں ایک بیان جاری کر کے اس خبر کی پوری طرح تردید کی اور کہا کہ تفتیش ابھی بھی جاری ہے۔

دلی میں پارلیمنٹ سے کچھ دوری پر جنتر منتر پر پہلوان لڑکیاں برج بھوشن کو گرفتار نہ کیے جانے کے خلاف احتجاج میں ایک مہینے سے زیادہ عرصے سے دھرنے پر بیٹھی ہوئی تھیں۔ ان میں ساکشی ملک، ونیش پھوگاٹ اور بجرنگ پونیا جیسے بڑے کھلاڑی شامل تھیں۔

انھیں اس وقت وہاں سے پولیس نے زبردستی ہٹا دیا جب وہ 28 مئی کو نئی پارلیمنٹ کے افتتاح کے روز پارلیمنٹ تک مارچ کرنے والی تھیں۔ پولیس نے حکم دیا ہے کہ وہ اب جنتر منتر پر دھرنے نہیں دے سکتیں۔

ان خواتین کھلاڑیوں نے احتجاج میں اپنے بین الاقوامی تمغے دریائے گنگا میں بہانے کا اعلان کیا تھا لیکن ایک سرکردہ کسان رہنما نریش ٹکیت نے انھیں سمجھا بجھا کر ایسے کرنے سے آخری وقت میں روک دیا۔

انھوں نے احتجاجی کھلاڑیون کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ’جس طرح جنتر منتر میں ہماری بیٹیوں کے ساتھ برتاؤ کیا گیا، اسے پورا ملک برداشت نہیں کرے گا۔ جس طرح انھیں وہاں سے جبراً اٹھایا گیا، اس پر پورا ملک برہم ہے۔‘

واضح رہے کہ یہ خواتین کھلاڑی اس وقت دھرنے پر بیٹھنے کے لیے مجبور ہوئی تھیں جب پولیس کو جنسی ہراسانی کی شکایت درج کرانے کے باوجود برج بھوشن کے خلاف کوئی رپورٹ درج نہیں کی گئی تھی۔ پھر سپریم کورٹ کی مداخلت کے بعد پولیس نے کیس درج کیا اور اپنی تفتیش شروع کی۔

کھلاڑیوں کا مطالبہ ہے کہ جنسی ہراسانی کے معاملے میں جس طرح دوسرے لوگوں کو گرفتار کیا جاتا ہے اسی طرح برج بھوشن کو بھی گرفتار کیا جائے ۔

’اس معاملے نے صرف کھلاڑیوں کی نہیں بلکہ تمام خواتین کی تذلیل کی‘

کئی کھلاڑیوں نےاںڈین ریسلنگ فیڈریشن کے صدر برج بھوشن پر جنسی ہراسانی کے جو الزامات لگائے ہیں وہ سنگین نوعیت کے ہیں۔ ان میں میبینہ طور پر ایک کھلاڑی نابالغ بتائی جاتی ہے لیکن یہ امر بھی اپنی جگہ صحیح ہے کہ محض الزامات لگانے سے اور تفتیش مکمل ہونے سے پہلے ملزم کو مجرم نہیں قرار دیا جا سکتا۔

ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ خواتین پہلوانوں کے دھرنے کے بعد حکومت اور سرکاری سرپرستی کے خواتین کے کمیشن تک نے کوئی آواز نہیں اٹھائی۔ دوسری جانب ممتا بینرجی، اروند کیجریوال، پریانکا گاندھی اور اپوزیشن کے سرکردہ رہنماؤں نے نہ صرف ان لڑکیوں کی حمایت کی بلکہ ان میں سے کئی رہنماؤں نے جنتر منتر پر جا کر دھرنے کے دوران ان کے ساتھ کچھ وقت گزارا اور اپنی حمایت کا یقین دلایا۔

حکمراں جماعت کے بعض رہنماؤں نے جنسی ہراسانی کے الزامات کو ’سیاسی‘ قرار دیا ہے۔ سوشل میڈیا پر کھلاڑی لڑکیوں کے خلاف بیانات پوسٹ کیے جا رہے ہیں۔ نابالغ کھلاڑی کے بعض رشتے دار بھی ٹی وی اور سوشل میڈیا پر یہ بتا رہے ہیں کہ وہ بالغ ہے۔

دوسری جانب کئی لوگ یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ برج بھوشن شرن سنگھ میں ایسی کیا خاص بات ہے حکومت انھیں بچانے کی کوشش کر رہی ہے۔

مارکسی کمیونسٹ پارٹی کی رہنما برندا کرات نے کہا کہ ’ایف آئی آر درج ہونے کے بعد تفتیش کی کوئی مدت طے نہیں ہے تو پھر یہ لڑکیاں کہاں جائیں گی۔ یہ لڑکیوں کے تحفظ کے ضمن میں بہت غلط پیغام دیا جا رہا ہے۔ یہ بہت نقصان دہ ثابت ہو گا۔‘

بہت سے کھلاڑیوں نے بھی اولمپک میڈل جیتنے والی پہلوان لڑکیوں کے ساتھ پولیس کے برتاؤ پر تکلیف کا اظہار کیا۔ انڈین کرکٹ ٹیم کے سابق سٹار گیند باز انل کمبلے نے کہا ہے کہ ’28 مئی کو ہمارے پہلوانوں کے ساتھ پولیس کا جبر دیکھ کر بہت افسوس ہوا۔ کسی بھی مسئلے کا حل بات چیت سے نکالا جا سکتا ہے۔ ہم جلد سے جلد اس مسئلے کے حل کی امید کرتے ہیں۔‘

لیکن یہ معاملہ طول پکڑ رہا ہے اور پہلوان لڑکیوں نے حکومت کو پانچ دن کی مہلت دی ہے۔

ملک کی معروف دانشور مرنال پانڈے نے ایک مضمون میں لکھا کہ ’اس معاملے نے صرف کھلاڑیوں کی نہیں بلکہ تمام خواتین کی تذلیل کی لیکن اب یہاں سے کوئی واپسی نہیں۔ یہ سلسلہ اب دیر تک چلنے والا نہیں۔ مجھے یقین ہے کہ یہ غیر معمولی مضبوط اور باکمال پہلوان لڑکیاں جلد ہی ذلت کی راکھ سے اوپر اٹھیں گی اور آگے بڑھیں گی۔‘

اس دوران انٹرنیشنل اولمپکس کمیٹی نے ایک بیان میں کہا کہ ’ہفتے کے روز کھلاڑیوں کے ساتھ جس طرح کا برتاؤ کیا گیا، وہ بہت تکلیف دہ ہے۔ کمیٹی کو امید ہے کہ جنسی ہراسانی کے معاملے کی غیر جانبدرانہ تفتیش کی جائے گی۔‘

اس معاملے پر عالمی ریسلنگ فیڈریشن نے بھی انڈین ریسلنگ فیڈریشن کی رکنیت معطل کرنے کی دھمکی دی ہے۔

’کوئی قدم نہ اٹھایا گیا تو یہ لڑکیاں واپس آئیں گی‘

سیںیئر تجزیہ کار نیرو بھاٹیہ کہتی ہیں کہ حکومت نے اس معاملے کو سنبھالنے میں غلطی کی ہے۔

’حکومت کو سمجھنا چاہيے کہ ان لڑکیوں نے ایسے ہی الزام نہیں لگا دیا۔ یہ اپنے لیے نہیں لڑ رہی ہیں، یہ اپنا درخشاں کریئر داؤ پر لگا کر دوسری کھلاڑی لڑکیوں کے لیے لڑ رہی ہیں۔ اس میں حکومت سے یقیناً غلطی ہوئی ہے۔‘

بعض ٹوئٹر صارفین نے اس صورتحال کا موازنہ منموہن سنگھ کے دور اقتدار میں نربھیا ریپ کے واقعہ سے کیا، جس میں حکومت کی سست روی کے سبب اس کی ساکھ بہت بری طرح متاثر ہوئی تھی۔

نیرو بھاٹیہ کہتی ہیں کہ حکومت نے سوچا تھا کہ یہ عدالت کا معاملہ ہے اور وہیں پر ختم ہو جائیگا یا یہ بھی کسانوں کی تحریک کی طرح دم توڑ دے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔

’لڑکیوں نے برج بھوشن کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے حکوت کو پانچ دن کی مہلت دی ہے۔ حکومت شاید اس وقت میں کوئی راستہ نکالنے کی کوشش کرے لیکن اگر کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا تو یہ لڑکیاں پھر واپس آئیں گی۔‘

نیرو کہتی ہیں کہ ’اس واقعے سے حکومت کی ساکھ انڈیا کے لوگوں میں ہی نہیں پوری دنیا میں خراب ہو رہی ہے۔ کسی اور ملک میں اگر کوئی ایتھلیٹ جنسی ہراسانی کا الزام لگاتی ہے تو حکومت اسے سنجیدگی سے لیتی ہے اور بروقت کارروائی کرتی ہے لیکن یہاں تو کوئی ردعمل ہی نہیں ہوا۔‘

مزید خبریں

تازہ ترین خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More