انڈیا میں جہازوں اور ایئرپورٹس پر بم کی موجودگی کی جھوٹی اطلاعات: ’کسی بھی فلائٹ یا ہوائی اڈے کو کوئی خطرہ نہیں‘

بی بی سی اردو  |  Nov 29, 2024

Getty Imagesجھوٹی اطلاعات دینے اور افواہیں پھیلانے پر پولیس نے 256 شکایات درج کی ہیں

انڈیا میں رواں برس مسافر جہازوں اور ایئرپورٹس پر بم کی موجودگی کی 999 جھوٹی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔

ملک کے ڈپٹی وزیر برائے سول ایوی ایشن مرلیدھر موحُل نے پارلیمنٹ کو بتایا کہ گذشتہ برس 2023 میں بھی اس طرح کی جھوٹی اطلاعات آتی رہی ہیں لیکن اس برس ایسی اطلاعات کی تعداد میں 10 گُنا اضافہ ہوا ہے۔

صرف رواں برس اکتوبر کے مہینے میں انڈین مسافر جہازوں اور ایئرپورٹس پر بم کی موجودگی کی 500 سے زیادہ جھوٹی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔

ان جھوٹی اطلاعات اور افواہوں کے سبب نہ صرف پروازیں تاخیر کا شکار ہوتی ہیں بلکہ اکثر پورا فلائٹ آپریشن ہی معطل ہوجاتا ہے۔

ڈپٹی وزیر برائے سول ایوی ایشن مرلیدھر کا مزید کہنا تھا کہ ایسی تمام حالیہ اطلاعات جھوٹی تھیں اور اس دوران ’کسی بھی ایئرپورٹ یا جہاز کو کوئی حقیقی خطرہ لاحق نہیں ہوا۔‘

ان کے مطابق ایسی جھوٹی اطلاعات دینے اور افواہیں پھیلانے پر پولیس نے 256 شکایات درج کی ہیں اور 12 افراد کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔

شہری ہوا بازی کی وزارت ایئر لائنز میں جھوٹی بم کی دھمکیوں کے واقعات کو روکنے کے لیے سخت اصولوں کو نافذ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ وہ اس کے لیے مجرموں کو نو فلائی لسٹ میں شامل کرنے پر بھی غور کر رہی ہے۔

Getty Imagesصرف رواں برس اکتوبر کے مہینے میں انڈین مسافر جہازوں اور ایئرپورٹس پر بم کی موجودگی کی 500 سے زیادہ جھوٹی اطلاعات موصول ہوئی ہیں

سنہ 2014 اور 2017 کے درمیان ایئرپورٹس پر موصول ہونے والی بم کی موجودگی کی جھوٹی اطلاعات کی تعداد 120 تھی اور یہ تمام افواہیں دہلی اور ممبئی کے ایئرپورٹس کے حوالے سے پھیلائی گئیں تھیں۔

اکتوبر میں ان جھوٹی اطلاعات اور افواہوں کے سبب ملک بھر میں پروازیں تاخیر کا شکار ہوئی تھیں اور کچھ پروازوں کے روٹس بھی تبدیل کیے گئے تھے۔

ان اطلاعات کے سبب غیرملکی ایئرپورٹس پر بھی متعدد اداروں کو متحرک ہونا پڑا تھا۔ گذشتہ مہینے ایئر انڈیا ایکسپریس کے ایک مسافر جہاز میں بم کی جھوٹی اطلاع کے بعد سنگاپور کی فضائیہ کو اپنے دو لڑاکا جہازوں کو متحرک کرنا پڑا تھا۔

اکتوبر میں ہی نئی دہلی سے شکاگو جانے والی ایئر انڈیا کی ایک فلائٹ کے حوالے سے ایسی ہی افواہ پھیلائی گئی جس کے سبب اس جہاز کو کینیڈا کے ایک سُنسان ایئرپورٹ پر اُتار لیا گیا تھا۔

انڈیا کے درجنوں مسافر طیاروں میں بم کی افواہیں جو پروازوں میں تاخیر اور ہنگامی لیڈنگ کا باعث بن رہی ہیںIC-423 ہائی جیکنگ: پاکستانی کمانڈوز کا وہ آپریشن جس پر انڈیا نے جنرل ضیا کا شکریہ ادا کیافلائٹ 93 کی ہائی جیکنگ کی سنسنی خیز واردات: وہ مسافر طیارہ جو امریکی پارلیمان کو تباہ کر سکتا تھامشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی جو طالبان حکومت کے لیے ہزاروں ڈالر کمانے کا سبب بن رہی ہے

انڈیا کی وزارت برائے سول ایوی ایشن کا کہنا تھا کہ ان کی جانب سے فلائٹ آپریشن کو محفوظ بنانے کے لیے ہر ممکن اقدامات لیے جا رہے ہیں۔

انڈیا کا شمار ہوائی سفر کے حوالے سے مصروف ترین ممالک میں ہوتا ہے۔ وزارت برائے سول ایوی ایشن کے مطابق گذشتہ برس 15 کروڑ شہریوں نے ڈومیسٹک جہازوں میں سفر کیا تھا۔

انڈیا کے مختلف ایئرپورٹس پر روزانہ تقریباً تین ہزار مسافر جہاز لینڈ کر رہے ہوتے ہیں یا پھر وہاں سے روانہ ہو رہے ہوتے ہیں۔ خیال رہے انڈیا میں 33 بین الاقوامی ہوائی اڈے موجود ہیں۔

انڈیا کے ہر ایئرپورٹ پر ایک خصوصی کمیٹی ہوتی ہے جو ایسی دھمکیوں کی سنگینی کا اندازہ لگاتی ہے اور اس صورت میں مناسب کارروائی تجویز کرتی ہے۔

Getty Imagesسنہ 2014 اور 2017 کے درمیان ایئرپورٹس پر موصول ہونے والی بم کی موجودگی کی جھوٹی اطلاعات کی تعداد 120 تھی

کسی بھی دھمکی کی صورت میں بم ڈسپوزل سکواڈ، سراغ رساں کتوں، ایمبولینسز، پولیس اور ڈاکٹرز کو متحرک کر دیا جاتا ہے۔

اس صورت میں جہاز سے مسافروں کو سامان سمیت اُتار دیا جاتا ہے اور ان کے سامان کی دوبارہ تلاشی لی جاتی ہے۔ انجینیئرنگ اور سکیورٹی ٹیمیں بھی جہاز کے اُڑنے سے پہلے اس کی دوبارہ جانچ کرتی ہیں۔

اس سبب ہونے والی تاخیر کے سبب جہاز کی کمپنیوں اور سکیورٹی ایجنسیوں کو اکثر ہزاروں ڈالر کا نقصان پہنچتا ہے۔

ہیلی کاپٹر حادثہ: پائلٹ کی ’پارٹی میں شرکت‘ کے بعد ’چوری‘ اور ہوٹل سے ٹکرنیپال طیارہ حادثہ: کاک پٹ کنٹینر میں پھنسا رہ گیا اور پائلٹ کی جان بچ گئیایک اور پرواز میں شدید ٹربیولنس سے 30 مسافر زخمی: فلائٹ ٹربیولنس کیا ہوتی ہے اور اس میں اضافہ کیوں ہوا؟34 سال قبل کویت میں یرغمال بننے والے مسافروں کا برطانوی حکومت سے ہرجانے کا مطالبہ: ’عراقی فوجیوں نے میرا ریپ کیا‘پی کے 8303 کی تباہی: ’کپتان چیخا مے ڈے، مے ڈے، طیارہ مڑا مگر پائلٹس کو اندازہ ہو چکا تھا کہ رن وے تک پہنچنا ممکن نہیں‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More