گذشتہ ہفتے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے کارکنوں اور سکیورٹی فورسز کے درمیان پرتشدد جھڑپوں کے بعد صوبہ خیبرپختونخوا میں گورنر راج لگانے کے بارے میں قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں۔
جمعے کو خیبرپختونخوا اسمبلی سے خطاب میں وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے وفاقی حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’میں چیلینج کرتا ہوں کہ لگاؤ گورنر راج، ہمت ہے تو کرو ایسا۔‘
دوسری جانب وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا اللہ تارڑ نے سرکاری ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں گورنر راج کے کسی بھی امکان کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’گورنر راج کا فیصلہ دانش مندانہ نہیں ہو گا۔‘
جمیعت علماء اسلام (جے یو آئی ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے بھی خیبرپختونخوا میں گورنر راج لگائے جانے کے امکان کو رد کیا ہے۔
مقامی میڈیا کے مطابق مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ ’ایسے حالات نہیں کہ گورنر راج نافذ کیا جائے۔ ہم ایسے اقدام کی حمایت نہیں کریں گے۔‘
آئین میں گورنر راج کے نفاذ کا کیا طریق کار ہے؟گورنر راج دراصل کسی صوبے کا نظام حکومت براہ راست وفاقی حکومت کے سپرد کرنے کا نام ہے۔صوبائی گورنر وفاقی حکومت کے نمائندے ہوتے ہیں جنہیں وزیراعظم کی ہدایت پر صدرِمملکت براہ راست تعینات کرتا ہے۔
اس وقت صوبہ خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت ہے مگر وہاں پیپلز پارٹی کے فیصل کریم کنڈی گورنر ہیں۔
آئین کے آرٹیکل 32، 33 اور 34 میں گورنر راج کے حوالے سے وضاحت کی گئی ہے۔ گورنر راج کے دوران بنیادی انسانی حقوق بھی معطل کر دیے جاتے ہیں اور صوبائی اسمبلی کے اختیارات قومی اسمبلی اور سینیٹ کو تفویض کردیے جاتے ہیں۔
کسی صوبے میں ایمرجنسی کی صورت میں گورنر راج نافذ کیا جا سکتا ہے مگر 18ویں ترمیم کے تحت گورنر راج کے نفاذ کو صوبائی اسمبلی کی منظوری سے مشروط کر دیا گیا ہے جس کے بعد وفاقی حکومت کے لیے آسان نہیں کہ کسی صوبے میں مخالف جماعت کی حکومت کا اثر ختم کرنے کے لیے گورنر راج نافذ کرے۔
آئین کی شق 232 کے مطابق اگر ملک کی سلامتی جنگ یا کسی اندرونی اور بیرونی خدشے کے پیش نظر خطرے میں ہو اور اس کا سامنا صوبائی حکومت نہ کرسکتی ہو تو صدر مملکت ایمرجنسی نافذ کر کے گورنر راج لگا سکتے ہیں۔تاہم اس کی شرط یہ ہے کہ متعلقہ اسمبلی اس کی سادہ اکثریت سے قرارداد کے ذریعے منظوری دے۔ اگر متعلقہ اسمبلی سے منظوری نہ ملے تو پھر 10 دن کے اندر اس کی قومی اسمبلی اور سینیٹ دونوں سے منظوری حاصل کرنا ضروری ہے۔گزشتہ عرصے میں گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی اور وزیراعلیٰ علی امین کے درمیان سخت بیانات کا تبادلہ بھی ہوتا رہا (فائل فوٹو: پی آئی ڈی، پشاور)گویا اس شق کے بعد خیبرپختونخوا میں گورنر راج لگانا تقریباً مشکل ہے کیونکہ خیبرپختونخوا اسمبلی میں تحریک انصاف کی اکثریت ہے جو اس کے خلاف ہے۔ ہنگامی حالت کے نفاذ کے لیے صوبائی اسمبلی کی قرارداد صدر کو بھیجی جائے گی۔ اگر صدر خود ہنگامی حالت نافذ کرتا ہے تو پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے سامنے توثیق کے لیے پیش کرنے کا پابند ہو گا۔’گورنر راج لگا تو وفاق اور صوبے میں اوپن سول وار ہو گی‘
اس بارے میں مزید جاننے کے لیے جب اردو نیوز نے سینیئر قانون دان فیصل صدیقی ایڈووکیٹ سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’یہ حکومت اتنے غیرآئینی کام کر چکی ہے۔ ان سے یہ بعید نہیں کہ یہ خیبرپختونخوا میں گورنر راج بھی لگا دیں۔‘
فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے کہا کہ ’یہ گورنر راج لگا دیں گے اور بعد میں دیکھیں گے کہ قانون اور آئین کیا کہتا ہے۔ آپ نے دیکھا نہیں کہ انہوں نے گلگت بلتستان اسمبلی کو تالے لگا کر باہر پولیس کھڑی کر دی تھی۔‘
وفاقی حکومت اگر گورنر راج لگانے کا فیصلہ کرتی ہے تو مستقبل کا ممکنہ منظرنامہ کیا ہو گا؟ اس سوال کے جواب میں فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے کہا کہ ’اگر ایسا ہوا تو اوپن سول وار ہو گی کیونکہ یہ تو حقیقت ہے کہ خیبرپختونخو میں تحریک انصاف مقبول ترین سیاسی جماعت ہے۔‘
سینیئر قانون دان اور سابق صدر لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن عابد ساقی ایڈووکیٹ نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر گورنر راج لگایا گیا تو یہ ملک کی سالمیت کے لیے شدید تباہ کن اقدام ہو گا۔‘انہوں نے کہا کہ ’اس کی وجہ سے نفرت مزید بڑھے گی اور ملک میں بیگانگی میں اضافہ ہو گا۔‘سینیئر قانون دان بیرسٹر صلاح الدین کا کہنا ہے کہ ’کسی بھی صوبے میں گورنر راج لگانےکے لیے وہاں کی اسمبلی کی قرارداد منظور ہونا لازم ہے۔‘انہوں نے کہا کہ ’ان حالات میں مشکل لگتا ہے کہ وفاقی حکومت گورنر راج لگا سکے گی۔ اگر ایسا ہو گا تو سیاسی ماحول مزید تلخ ہو جائے گا۔‘ماضی میں کب کب گورنر راج نافذ ہوا؟ماضی میں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ پاکستان کے کئی صوبوں میں گورنر راج نافذ کیے گئے۔ 25 فروری 2009 کو اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی سفارش پر آئین کے آرٹیکل 237 کے تحت صدر آصف علی زرداری نے شہباز شریف کی حکومت کے خلاف دو ماہ کے لیے گورنر راج نافذ کیا تھا۔اس کے بعد مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی میں کشیدگی پیدا ہوگئی تھی تاہم مسلم لیگ ن کے لانگ مارچ اور ججز کی بحالی کے بعد گورنر راج ختم کر دیا گیا تھا۔سنہ 2009 میں شہباز شریف کی پنجاب حکومت کے خلاف دو ماہ کے لیے گورنر راج نافذ کیا گیا تھا (فائل فوٹو: اے پی پی)اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی کا موقف تھا کہ سپریم کورٹ کی طرف سے وزیراعلیٰ کے عہدے سے شہباز شریف کی نااہلی کے بعد پیدا ہونے والے بحران سے بچنے کے لیے صدر نے گورنر راج نافذ کر کے اختیارات گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو سونپے تھے۔اس کے بعد جنوری 2013 میں بھی کوئٹہ میں خودکش اور کار بم دھماکے میں 90 سے زائد افراد کی ہلاکت کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت کے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے صوبے میں گورنر راج نافذ کر دیا تھا۔ پنجاب میں پیپلز پارٹی کی جانب سے مسلم لیگ ن کی حکومت کے خلاف گورنر راج کے نفاذ کے بعد آئین میں ترمیم کی گئی تھی اور آرٹیکل 232 کے تحت اس امر کو یقینی بنایا گیا تھا کہ صوبائی حکومت کی مرضی کے بغیر گورنر راج نافد نہ ہو۔