یوں تو پاکستانی حکومت کی جانب سے سنہ 2030 تک 30 فیصد الیکٹرک گاڑیاں چلانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے مگر اب تک ملک میں مقامی سطح پر اسمبل کی گئی صرف دو الیکٹرک کاریں ہونری وی اور سیرس تھری متعارف کرائی گئی ہیں۔
سیرس تھری کو ریگل آٹوموبائلز کے اشتراک سے لاہور میں قائم کردہ اسمبلی پلانٹ میں تیار کیا جا رہا ہے جس کی رونمائی سنیچر کو کی گئی۔
اس سے قبل ہونری وی کو جولائی 2024 کے دوران متعارف کروایا گیا مگر اسے رواں ماہ دفاعی نمائش آئیڈیاز 2024 کے دوران بھی شو کیس کیا گیا تھا۔ دیوان موٹرز کے اشتراک کے ساتھ اس چھوٹی الیکٹرک کار کو سجاول میں ایک پلانٹ میں تیار کیا جا رہا ہے۔
اِن کمپنیوں کو امید ہے کہ الیکٹرک گاڑیوں کی لوکل اسمبلی سے ملک میں نہ صرف اس صنعت کو فروغ ملے گا بلکہ نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔
یاد رہے کہ 20 نومبر کو وفاقی وزیر صنعت و پیداوار رانا تنویر حسین نے اعلان کیا تھا کہ الیکٹرک وہیکل (ای وی) پالیسی 2025-30 کے مسودے کے مطابق نئے سرمایہ کاروں کو پُرکشش مراعات دی جائیں گی۔
اسی سلسلے میں انجینیئرنگ ڈیویلپمنٹ بورڈ کے ترجمان عاصم ایاز نے بی بی سی کو بتایا کہ بی وائے ڈی سمیت کئی دیگر غیر ملکی آٹو کمپنیوں کی طرف سے پاکستان میں الیکٹرک گاڑیاں اسمبل کرنے میں دلچسپی ظاہر کی گئی۔
حکومت کو امید ہے کہ نئی پالیسی کے ذریعے آلودگی کے ساتھ ساتھ درآمدی ایندھن کا بِل بھی کم ہوگا تاہم پہلے سے موجود آٹو اسمبلر اس پالیسی سے زیادہ خوش نہیں کیونکہ اس میں امپورٹڈ کاروں کو ڈیوٹی میں رعایت دینے کی تجویز دی گئی ہے۔
ہونری وی اور سیرس تھری میں خاص کیا ہے؟
سیرس تھری میں پیٹرول انجن نہیں اور نہ ہی یہ ہائبرڈ گاڑی ہے تو اس کو پوری طرح بجلی سے چلانے کے لیے اس میں قریب 50 کلو واٹ آور کی لیتھیئم آئن بیٹری نصب ہے۔
کمپنی کے مطابق اس بیٹری کو مکمل چارج کرنے پر قریب 400 کلومیٹر کی رینج حاصل کی جاسکتی ہے، یعنی اصولاً اس میں یہ صلاحیت ہونی چاہیے کہ یہ سنگل چارج پر لاہور سے اسلام آباد لائی جا سکے۔
کمپنی کے مطابق اس میں ڈی سی فاسٹ چارجنگ کی صلاحیت ہے جس کی بدولت اسے صفر سے 80 فیصد چارجنگ میں 30 منٹ لگیں گے۔
اس کی ٹاپ سپیڈ 160 کلو میٹر فی گھنٹہ ہے۔ 280 نیوٹن میٹر ٹارک اور 156 کی ہارس پاور کے ذریعے آپ اسے صفر سے 100 کلو میٹر فی گھنٹہ پر 8.9 سیکنڈ میں ایکسلریٹ کر سکتے ہیں۔
سیفٹی فیچرز میں چھ ایئر بیگز، پارکنگ ریڈار، لین کیپ اسسٹ، کولیژن وارننگ، آٹومیٹک ایمرجنسی بریکنگ اور 360 ڈگری کیمرا شامل ہیں۔
اس کی قیمت 85 لاکھ روپے تک ہونے کا امکان ہے۔
ٹویوٹا، ہونڈا اور سوزوکی کے مقابلے میں نئی انٹری نے پاکستانی آٹو سیکٹر کی ’سانسیں بحال کر دیں‘الیکٹرک کاروں کی بہار: وہ پانچ گاڑیاں جو پاکستان آٹو شو میں متعارف کرائی گئیںہماری یادوں سے جڑا ’کیری ڈبہ‘: سوزوکی کو 40 سال بعد بولان کی جگہ نئی ’ایوری‘ کیوں متعارف کروانا پڑی؟’30 کروڑ کی چوری شدہ کار لندن سے کراچی کیسے پہنچی؟‘
سیرس پاکستان کے مینیجنگ ڈائریکٹر عدیل عثمان نے بی بی سی کو بتایا کہ ملک میں سیرس تھری کے دو ویریئنٹ اسمبل کیے جا رہے ہیں اور اس کے علاوہ کمپنی اگلے سال ایک پلگ اِن ہائبرڈ کار لانچ کرنے کا بھی ارادہ رکھتی ہے۔
اس سے برعکس دیوان موٹرز کی ہونری وی ایک چھوٹی (ہیچ بیک) الیکٹرک کار ہے جس کے دو ویریئنٹس میں 18.5 اور 29.9 کلو واٹ آور کی بیٹریاں نصب ہیں جن سے بالترتیب 200 اور 300 کلومیٹر کی رینج حاصل کی جاسکتی ہے۔
ہونری وی 3.0 کی زیادہ سے زیادہ رفتار 100 کلو میٹر فی گھنٹہ بتائی گئی ہے۔
اس کے سیفٹی فیچرز میں دو ایئر بیگز، اے بی ایس اور ای بی ڈی (بریکس)، ریورس کیمرا، پارکنگ ریڈار اور لو سپیڈ پیڈسٹریئن وارننگ شامل ہیں۔
ہونری وی 2.0 کی قیمت 40 لاکھ روپے جبکہ ہونری وی 3.0 کی قیمت 50 لاکھ روپے ہے۔
وہ عوامل جو الیکٹرک کار اسمبل کرنا یا خریدنا مشکل بنا دیتے ہیں
آٹو سیکٹر کے ماہرین کے مطابق پاکستان میں اس وقت الیکٹرک گاڑیوں کے اسمبلرز اور خریداروں کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ انفراسٹرکچر ہے۔
مگر سیرس پاکستان کے مینیجنگ ڈائریکٹر عدیل عثمان پُرامید ہیں کہ جیسے ہی ملک میں نئی الیکٹرک گاڑیاں، جیسے سیرس تھری اور ہونری وی، اسمبل ہونے لگیں گی تو اس سے انفراسٹرکچر کا مسئلہ بھی آہستہ آہستہ حل ہوجائے گا۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے عدیل عثمان نے بتایا کہ روایتی گاڑیوں کے مقابلے الیکٹرک کار اسمبل کرنا زیادہ ’خطرناک‘ ہے کیونکہ ان میں سیفٹی کے لیے کہیں زیادہ چیزوں کو مدنظر رکھنا پڑتا ہے، جیسے لیتھیئم سے بنی الیکٹرک بیٹریز، موٹرز اور وائرنگ۔
وہ کہتے ہیں کہ سیرس تھری کو متعارف کرانے سے قبل ڈرائیور اور مسافروں کے تحفظ کے لیے کئی سیفٹی چیکس کیے گئے اور اس پورے عمل میں کمپنی کی جانب سے بھاری سرمایہ کاری کی گئی۔
بعض صارفین اس لیے بھی الیکٹرک گاڑیاں نہیں خریدنا چاہتے کیونکہ ان کی قیمتیں زیادہ ہیں۔ آٹو سیکٹر کے ماہر مشہور خان کے مطابق الیکٹرک کاروں میں لوگوں کی دلچسپی تو بہت ہے مگر فی الحال یہ ایلیٹ کلاس کو ہی ٹارگٹ کرتی ہیں۔
مگر یہ بات تو طے ہے کہ شاید فوری طور پر الیکٹرک کاروں کی مقامی تیاری کے باوجود بھی قیمت کم نہ ہو سکے۔
اس بارے میں عدیل عثمان کہتے ہیں کہ ملک میں خام مال جیسے پلاسٹک، ایلومینیم اور دیگر میٹیریئل کی قلت ہے اور فی الحال یہ ممکن نہیں کہ پوری گاڑی پاکستان میں تیار کر کے قیمت میں کمی لائے جائے کیونکہ ملک کی محض پانچ فیصد آبادی گاڑیاں خریدتی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ الیکٹرک کار ملک میں اسمبل ہونا لوکلائزیشن کا ابتدائی مرحلہ ہے جس میں ٹائرز، سیٹس اور تمام بنیادی چیزیں پاکستان میں بنتی ہیں مگر مزید لوکلائزیشن اور قیمتوں میں کمی کے لیے والیوم (مقدار) درکار ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ پاکستان فی الحال گاڑیوں کے اعتبار سے اتنی بڑی مارکیٹ نہیں اور بعض کمپنیاں اس لیے پاکستان میں گاڑیوں کی اسمبلی کے حوالے سے ہچکچاہٹ ظاہر کرتی ہیں کیونکہ یہاں اس قدر والیوم نہیں جس سے کاروبار میں زیادہ منافع ہو سکے۔
تاہم سیرس پاکستان کے مطابق اس نے اپنی طرف سے پوری کوشش کی ہے کہ اس گاڑی کو ایک اچھی قیمت پر فروخت کیا جائے۔
ان سب چیلنجز کے ہوتے ہوئے بعض کمپنیاں، جیسے ٹویوٹا اور ہوال، پاکستان میں ہائبرڈ گاڑیاں اسمبل کر رہی ہیں۔ ایسے میں صارفین کے پاس یہ آپشن ہے کہ وہ رینج اور چارجنگ کے جھنجھٹ میں پڑے بغیر ایک ایسی کار خریدیں جو روایتی کاروں کے مقابلے بہتر فیول ایوریج دیتی ہے۔
مگر عدیل کی رائے ہے کہ اگرچہ ہائبرڈ گاڑی بھی اچھی آپشن ہے تاہم وہ صارفین کو سمجھانا چاہتے ہیں کہ ’ہائبرڈ کار لینا ایسا ہے جیسے آپ وقت سے پہلے کسی چیز پر سرمایہ کاری کریں۔ مثلاً 80 لاکھ روپے کی کار کا ہائبرڈ ماڈل اگر 95 لاکھ روپے میں خریدا جائے تو یہ ایسا ہے جیسے آپ 15 لاکھ روپے کے فیول کے پیسے پہلے ہی ادا کر رہے ہیں۔‘
اس کے برعکس ان کے بقول الیکٹرک کار میں آپ پہلے دن سے اپنی سرمایہ کاری پر ہونے والی بچت کا حساب لگا سکتے ہیں، یعنی یہ دیکھ سکتے ہیں کہ آپ نے اسے بجلی سے چلا کر پیٹرول کے کتنے پیسے بچائے۔
Getty Imagesبعض اسمبلرز کو خدشہ ہے کہ نئی ای وی پالیسی سے بی وائے ڈی اور دیگر غیر ملکی کمپنیوں کو فائدہ پہنچے گا’چینی امپورٹڈ گاڑیوں پر مراعات کے لیے لابنگ ہو رہی ہے‘
پاکستانی حکومت نے جو پانچ سالہ نیو انرجی وہیکل پالیسی ترتیب دی ہے اس کے مطابق الیکٹرک گاڑیوں کی اسمبلی اور انفراسٹرکچر پر اربوں روپے کی سرمایہ کاری کرنے والوں کو ٹیکسز میں رعایت دی جائے گی جبکہ پالیسی کے مسودے میں امپورٹڈ الیکٹرک کاروں کے لیے بھی رعایتی ڈیوٹی کی تجویز دی گئی ہے۔
وفاقی وزیر صنعت و پیداوار رانا تنویر حسین نے حال ہی میں بتایا کہ وزیراعظم شہباز شریف کے وژن کے مطابق 2030 تک 10 ہزار ای وی چارجنگ سٹیشن قائم کیے جائیں گے اور حکومت الیکٹرک بائیکس (سکوٹیز اور موٹر سائیکلز) پر پچاس ہزار کی سبسڈی دے گی جس کے لیے چار ارب روپے کی منظوری دی گئی ہے۔
مگر پاکستان میں گاڑیوں کے اسمبلرز کی ایسوسی ایشن (پاما) نے نئی ای وی پالیسی پر خدشات ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ امپورٹڈ گاڑیوں (سی بی یوز) کو ڈیوٹی میں رعایت ملنے سے ہائبرڈ اور الیکٹرک گاڑیوں کے مقامی اسمبلرز اور ان کی ماضی میں کی گئی سرمایہ کاری کو نقصان ہوگا۔
سیرس پاکستان کے سربراہ عدیل عثمان نے اعتراض اٹھایا ہے کہ نئی ای وی پالیسی کے تحت چین سے درآمد کی جانے والی سی بی یو کاروں کو مراعات دی جا رہی ہیں اور انھیں سیلز ٹیکس اور ڈیوٹی میں چھوٹ دینے کے لیے ’کئی غیر ملکی کمپنیاں لابنگ کر رہی ہیں۔‘
’وہ وہاں سے گاڑی امپورٹ کریں گے، یہاں آپ کو بیچیں گے۔ ان کو پیسے لگانے کی ضرورت ہی نہیں ہو گی۔‘
وہ اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’اگر آپ ایسے ہی کریں گے تو کون مقامی صنعت میں سرمایہ کاری کرے گا؟ جنھوں نے سرمایہ کاری کی ہے، ان کو کیا فائدہ؟ پھر وہ بھی سی بی یو منگوا کر بیچنا شروع کر دیں۔‘
تاہم انجینیئرنگ ڈیویلپمنٹ بورڈ کے ترجمان عاصم ایاز نے اس تاثر کو رد کیا کہ اس پالیسی کا مقصد صرف بی وائے ڈی یا نئی کمپنیوں کو پرموٹ کرنا ہے۔
عاصم ایاز کا کہنا تھا کہ اب تک یہ پالیسی منظور نہیں ہوئی مگر اس کا مقصد یہی ہے کہ دنیا بھر کی طرح تمام الیکٹرک وہیکلز کو ٹیرف میں کمی سمیت دیگر مراعات دی جائیں۔
ادھر عدیل کہتے ہیں کہ بی وائے ڈی کا پاکستانی مارکیٹ میں آنا ایک مثبت قدم ہے اور اگلے سال صارفین کو مزید نئی الیکٹرک گاڑیاں دیکھنے کو مل سکتی ہیں۔
’30 کروڑ کی چوری شدہ کار لندن سے کراچی کیسے پہنچی؟‘الیکٹرک کاروں کی بہار: وہ پانچ گاڑیاں جو پاکستان آٹو شو میں متعارف کرائی گئیںہماری یادوں سے جڑا ’کیری ڈبہ‘: سوزوکی کو 40 سال بعد بولان کی جگہ نئی ’ایوری‘ کیوں متعارف کروانا پڑی؟ٹویوٹا، ہونڈا اور سوزوکی کے مقابلے میں نئی انٹری نے پاکستانی آٹو سیکٹر کی ’سانسیں بحال کر دیں‘نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کی قانونی حیثیت کیا ہے اور کیا یہ پاکستان میں بڑھتے جرائم کی وجہ ہیں؟