روس نے کہا ہے کہ باغیوں کی جانب سے شامی صدر بشارالاسد کی حکومت کا تختہ الٹے جانے کے بعد ان کو انتہائی ’محفوظ انداز‘ میں ماسکو لایا گیا۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق روسی نائب وزیر خارجہ سرگئی ریابکوف نے این بی سی نیوز کو انٹرویو دیا جو منگل کو نشر ہوا۔
اس سے ایک روز قبل پیر کو کریملن کی جانب سے بتایا گیا تھا کہ روسی صدر ولادیمیر پوتن نے شام کے سابق صدر بشارالاسد کو سیاسی پناہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
بشارالاسد حکومت خاتمہ روس اور ایران کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے، جنہوں نے 13 سال تک جاری رہنے والی خانہ جنگی کے دوران وہاں مداخلت کی اور مغربی ممالک کی جانب سے اقتدار چھوڑنے کے مطالبات کے باوجود ان کی حکمرانی کو آگے بڑھانے کی کوشش کی۔
این بی سی کی ویب سائٹ پر دی گئی انٹرویو کی تفصیلات کے مطابق سرگئی ریابکوف نے بتایا کہ ’روس غیرمعمولی صورت حال میں حرکت میں آتا ہے۔‘
انہوں نے زیادہ وضاحت سے گریز کرتے ہوئے تفصیلات نہیں بتائیں اور کہا کہ وہ یہ نہیں بتائیں گے کہ یہ سب کیسے ہوا اور اس کو کیسے انجام دیا گیا۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا روس بشارالاسد کو مقدمہ چلانے کے لیے کسی ملک کے حوالے کرنے پر تیار ہو گا؟ اس کے جواب میں سرگئی ریابکوف نے کہا کہ ’روس اس کنونشن کا فریق نہیں جس کے تحت بین الاقوامی فوجداری عدالت قائم کی گئی۔‘
ماسکو سرد جنگ کے ابتدائی ایام سے ہی شام کی حمایت کرتا رہا ہے اور 1944 میں اس کی آزادی کو تسلیم کیا تھا جب دمشق نے فرانس کی نوآبادیاتی حکومت کو ختم کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس وقت دنیا نے شام کو ’سوویت سیٹلائٹ‘ کے طور پر دیکھا۔
منگل کو شام کے نئے رہنما محمد البشیر نے اعلان کیا کہ وہ عبوری وزیراعظم کے طور پر شام کا چارج سنبھال رہے ہیں اور ان کو ان باغی گروپوں کی حمایت بھی حاصل ہے جنہوں نے بشارالاسد حکومت کا خاتمہ کیا۔
اسی طرح نائب روسی وزیر خارجہ کا ایک اور موقع پر یہ بھی کہنا تھا کہ روس یقینی طور پر قیدیوں کے اس جیسے تبادلے پر تیار ہو جائے گا جیسا کہ وال سٹریٹ کے صحافی ایون گرشکوویچ اور سابق امریکی میرین وہیلن کے معاملے میں کیا گیا تھا۔
انہوں نے امریکہ میں نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’نیا معاہدہ آگے کی طرف ایک مثبت قدم ہو گا، خاص طور پر ایک ایک ایسے وقت میں جب نئی انتظامیہ کام کا آغاز کرے گی۔‘
انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ پیش بندی کے طور پر اپنی طرف سے کچھ نہیں کرنا چاہیں گے۔