جنوبی کوریا کی پولیس کے ایک خصوصی تفتیشی یونٹ نے کہا ہے کہ اس نے صدر یون سوک یول کے دفتر پر چھاپہ مارا ہے۔
گزشتہ ہفتے صدر یون سوک یول نے ملک میں مارشل لگا نافذ کر دیا تھا، تاہم اپوزیشن کی جانب سے سخت مخالفت کے بعد چند ہی گھنٹوں کے اندر مارشل لا ختم کرنے کا حکم جاری کیا۔ پولیس نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بھیجے گئے ایک پیغام میں کہا کہ ’خصوصی تحقیقاتی ٹیم نے صدارتی دفتر، نیشنل پولیس ایجنسی، سیئول میٹرو پولیٹن پولیس ایجنسی اور نیشنل اسمبلی سکیورٹی سروس پر چھاپہ مارا ہے۔‘
مارشل لا لگانے کی ناکام کوشش کرنے والے صدر یون سوک یول پر پہلے ہی بیرون ملک سفر پر پابندی لگائی گئی ہے۔
منگل کو پولیس نے اختیارات کے غلط استعمال کے الزام میں سابق وزیر دفاع کِم یونگ ہیون کو گرفتار کر لیا تھا۔بدھ کو یونہاپ نیوز ایجنسی نے خبر دی تھی کہ کِم یونگ ہیون نے گرفتاری سے کچھ دیر پہلے خودکشی کی کوشش کی۔سیئول سینٹرل ڈسٹرکٹ کورٹ کے ترجمان نے بتایا کہ وزیر دفاع کو گرفتار کر لیا گیا ہے، کیونکہ اس بات کا خدشہ تھا کہ شواہد کو ضائع کیا جا سکتا ہے۔ وزیر دفاع نے اپنے وکلا کے ذریعے کہا ہے کہ ’تمام صورتحال کی ذمہ داری صرف مجھ پر ہے اور یہ کہ ماتحت حکام میرے احکامات کی پیروی کر رہے تھے اور فرائض سرانجام دے رہے تھے۔‘اتوار کو حراست میں لیے جانے والے وزیر دفاع پر سفری پابندی بھی عائد کر دی گئی ہے، اسی طرح سابق وزیر داخلہ اور مارشل لا آپریشن کے انچارج جنرل پر بھی سفری پابندی لگا دی گئی ہے۔کورین نیشنل پولیس ایجنسی کے کمشنر جنرل اور سیئول میٹرو پولیٹن پولیس ایجنسی کے سربراہ کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ’فاشسٹ حکومت‘بدھ ہی کو شمالی کوریا کے سرکاری میڈیا نے جنوبی کوریا کی حالیہ صورتحال پر تبصرہ کیا۔ ایک تبصرے میں کہا گیا کہ ’کٹھ پُتلی یون سک یول کا چونکا دینے والا واقعہ، جسے مواخذے اور حکومتی بحران کا سامنا ہے، نے اچانک مارشل لا کا اعلان کیا، اور بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اپنی فسطایت کے ذریعے جنوبی کوریا میں انتشار پیدا کر دیا۔‘