جاپانی دارالحکومت ٹوکیو کی آبادی میں اضافے کے لیے سرکاری ملازمین کو ہفتے میں صرف چار دن تک کام کرنے کا پابند بنانے پر غور کیا جارہا ہے۔
جاپان کا شمار دنیا کے ان چند ممالک میں ہوتا ہے، جہاں شرح پیدائش انتہائی کم ہے، علاوہ ازیں جاپان کو دنیا کی طاقتور ترین قوم کا ملک بھی کہا جاتا ہے، جہاں کی 25 فیصد سے زیادہ آبادی 65 سال کی عمر پر مشتمل ہے جب کہ وہاں پر مرد حضرات کی اوسط عمر 81 سال جب کہ خواتین کی عمر 83 سال ہوتی ہے۔
جاپانیوں کو جہاں صحت مند اور طویل عمر پانے والی قوم کے طور پر دنیا میں شہرت حاصل ہے، وہیں اسی قوم کو شرح پیدائش کی کمی کی وجہ سے خطرات کا بھی سامنا ہے۔
شرح پیدائش کو بڑھانے کے لیے حکومت نے گزشتہ چند سال سے وہاں متعدد مراعات کا اعلان بھی کیا ہے، تاہم اس باوجود وہاں شرح پیدائش میں کوئی خاص اضافہ نہیں دیکھا گیا۔
اب جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو کی مقامی حکومت آبادی بڑھانے کے لیے ملازمین کو ہفتے میں تین دن چھٹی دینے کا منصوبہ پیش کرنے پر غور کر رہی ہے۔
امریکی نشریاتی ادارے ’این بی سی‘ کے مطابق ٹوکیو کی مقامی حکومت سرکاری ملازمین کو ہفتے میں صرف چار دن تک کام کرنے کا منصوبہ پیش کرنے پر غور کر رہی ہے۔
ممکنہ طور پر مذکورہ منصوبہ آئندہ برس 2025 کے آغاز میں متعارف کرادیا جائے گا، سرکاری دفاتروں میں ہفتے میں تین دن چھٹی نافذ ہونے کے بعد نجی دفاتر بھی ایسا ہی کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔
حکومت کا خیال ہے کہ ہفتے میں صرف چار دن کام ہونے کی وجہ سے مرد و خواتین کو گھر میں ایک ساتھ وقت گزارنے کا زیادہ موقع ملے گا جب کہ جو خواتین کام کی وجہ سے بچوں کی پیدائش سے گریز کرتی ہیں ان کی بھی حوصلہ افزائی ہوگی۔
حکومت کو توقع ہے کہ ہفتے میں صرف چار دن کام کرنے کی اسکیم متعارف کرانے سے خصوصی طور پر ٹوکیو میں شرح پیدائش بڑھ جائے گی۔
اگر مذکورہ منصوبہ ٹوکیو میں کامیاب ہوگیا تو ممکنہ طور پر جاپان کی مرکزی حکومت اسے ملک بھر میں نافذ کرے گی۔
اس وقت جاپان کی آبادی 12 کروڑ سے زائد ہے لیکن وہاں کی شرح پیدائش انتہائی کم ہے، سال 2023 میں جاپان میں مجموعی طور پر 7 لاکھ 30 ہزار بچوں کی پیدائش ہوئی۔
جاپانی حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال تک جاپان کی ہر ایک عورت مجموعی طور پر اپنی پوری زندگی میں ایک بچے کو جنم دیتی ہے جب کہ حکومت چاہتی ہے کہ یہ شرح کم سے کم دو بچے تک بڑھ جائے۔
شرح پیدائش میں کمی کی وجہ سے جاپان میں عمر رسیدہ افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے، اس لیے وہاں زائد العمری تک کام کرنے کو معیوب نہیں سمجھا جاتا۔
زائد العمر افراد کی تعداد بڑھنے کی وجہ سے بھی وہاں شرح پیدائش کم ہو رہی ہے، کیوں کہ طویل العمری میں مرد و خواتین میں والدین بننے کی صلاحیت کم ہوجاتی ہے۔