Getty Images
تاریخ کے نازک موڑ کے گرد پی سی بی کا طواف اب ایک نئی انتہا کو پہنچا ہے جہاں وائٹ بال کوچ گیری کرسٹن کے استعفی کے بعد، دو سالہ معاہدے پر لائے گئے ٹیسٹ ٹیم ہیڈ کوچ جیسن گلیسپی بھی سات ہی ماہ بعد مستعفی ہو چکے ہیں۔
غیرملکی کوچز کے معاملے میں پی سی بی کی انتظامی ہڑبونگ کی ڈور اس قدر الجھی ہوئی ہے کہ بات کا سرا ڈھونڈنے کی تگ و دو شاید دو دہائیاں پیچھے جا بھٹکے مگر ماضی قریب کی یادداشت میں پی سی بی کا واحد مستحکم دور وہ تھا جب 2018 میں احسان مانی اور وسیم خان اس کے معاملات پر پہرہ دار مقرر ہوئے۔
یہ وہ وقت تھا کہ جب پاکستان میں کرکٹ کی واپسی کے ہنگام، پی سی بی کھیل اور اس کی نظامت سے جڑے سبھی امور میں خود کفالت کی سمت بڑھنا چاہ رہا تھا۔ اسی نقطۂ نگاہ سے، قذافی سٹیڈیم کی قدیم نیشنل کرکٹ اکیڈمی کو اپ گریڈ کر کے ہائی پرفارمنس سینٹر میں بدلا گیا اور ڈومیسٹک ڈھانچے میں لوکل کوچز کی نئی کھیپ تیار کرنے کی بنیاد ڈالی گئی۔
تب ٹیم بھی مصباح الحق، وقار یونس اور یونس خان جیسے لوکل کوچز کے حوالے کی گئی۔ ٹرانزیشن کا وہ مرحلہ فطری طور پر پُر پیچ اور صبر آزما تھا مگر دو برس بعد جوں ہی اس نے اپنے ثمرات لانا شروع کیے، تب پی سی بی کی کرسی پر رمیز راجہ آن بیٹھے۔
رمیز راجہ نے ابھی اپنی کرسی سنبھالی بھی نہیں تھی کہ پاکستان کے ہیڈ کوچ مصباح الحق کو مستعفی ہونے پر مجبور کر دیا گیا تھا، بولنگ کوچ وقار یونس کو پی سی بی ہیڈکوارٹرز بلا کر ان کا استعفیٰ طلب کر لیا گیا تھا اور اس سارے عمل کے روحِ رواں وسیم خان کا بھی ناطقہ بند کر دیا گیا تھا۔
رمیز راجہ نے ہر محاذ پر انقلاب برپا کرنے کی جو بلند و بانگ کاوشیں کیں، کوچنگ کا شعبہ بھی اس سے محفوظ نہ رہ پایا اور عالمی مارکیٹ کھنگالنے کے باوجود جب کوئی معتبر نام آمادہ نہ ہو پایا تو شان ٹیٹ، مورنے مورکل اور میتھیو ہیڈن جیسے غیر ملکی مینٹورز کے ہمراہ، وہ ثقلین مشتاق اور محمد یوسف سے کام چلانے پر مجبور ہوئے۔
نجم سیٹھی نے دوبارہ کرسی سنبھالتے ہی غیر ملکی کوچز کی کہانی وہیں سے شروع کی جہاں وہ اسے چھوڑ کر گئے تھے۔ مہینہ بھر سے زیادہ تعطل کا شکار رہنے والے مذاکرات میں انھوں نے باقاعدہ منت سماجت سے، منھ مانگی شرائط پر مکی آرتھر کو قائل کیا تھا کہ وہ ہیڈ کوچنگ نہ سہی ’فاصلاتی نظامِ تعلیم‘ کے ذریعے ٹیم ڈائریکٹر ہی کا عہدہ سنبھال لیں۔
Getty Imagesگذشتہ مہینہ بھر کی مفصل اور مصدقہ خبروں کا خلاصہ یہ ہے کہ گلیسپی جیسے باصلاحیت پروفیشنل کے ساتھ معاملات کی روش میں پی سی بی نے اپنی ہی ساکھ کو زک پہنچائی ہے
تب پی سی بی کے اس رویے پر تبصرہ کرتے ہوئے مصباح الحق نے کہا تھا کہ مکی آرتھر کی طرف پلٹ کر جانا اور پاکستانی کوچز کی یوں تحقیر کرنا پاکستان کرکٹ پر ایک طمانچہ تھا۔
مکی آرتھر پاکستانی کرکٹ میں تب تک ہی کار فرما رہ پائے جب تک امورِ مملکت میں نواز شریف، آصف زرداری پر حاوی رہ پائے اور پھر جب نواز شریف کے چنیدہ نجم سیٹھی کی جگہ آصف زرداری کے پسندیدہ ذکا اشرف نے سنبھال لی تو مکی آرتھر اور گرانٹ بریڈبرن کو بھی ورلڈکپ کارکردگی کے ملبے میں بھگتا دیا گیا۔
ذکا اشرف نے بالآخر اپروچ پر نظرِ ثانی کرتے ہوئے معاملات دوبارہ لوکل کوچز کی طرف لوٹانے کی کوشش کی مگر ان کے عہدے نے وفا نہ کی کہ ان کا یہ عزم بیدار ہوتے تک ریاست کو ایک ایسا تریاق مل چکا تھا جو کسی بھی شعبے کی ہمہ قسمی گڑبڑ کا حتمی علاج کر سکتا تھا۔
محسن نقوی نے جب پی سی بی کی لگام تھامی تو وہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے نگران وزیر اعلی بھی تھے۔ آج بھی یہ ان ہی کا کمال ہے کہ دائیں ہاتھ سے پورے پاکستان کے داخلی امور چلا رہے ہیں تو بائیں ہاتھ سے پورے پی سی بی کے علاوہ چیمپئینز ٹرافی کے معاملے پر آئی سی سی کو بھی چلا رہے ہیں۔
مگر چند ہی مہینوں میں ان کی آنکھوں کے یہ دو تارے بھی اچانک ویسے ہی پرائے ہو گئے جیسے ان سے پہلے ان کے صوبائی وزیرِ کھیل و چیف سلیکٹر و ٹیم منیجر وہاب ریاض ہوئے تھے۔
گیری کرسٹن کے استعفیٰ سے متعلق محدود، غیر مصدقہ خبروں کا خلاصہ اگر یہ تھا کہ معاملے میں پی سی بی اکیلا ہی قصور وار نہ تھا تو جیسن گلیسپی کے استعفیٰ تک پہنچاتی گذشتہ مہینہ بھر کی مفصل اور مصدقہ خبروں کا خلاصہ یہ ہے کہ گلیسپی جیسے باصلاحیت پروفیشنل کے ساتھ معاملات کی روش میں پی سی بی نے اپنی ہی ساکھ کو زک پہنچائی۔
کانپتے ہاتھ اور لڑکھڑاتی آواز والے ونود کامبلی اور ان کے بچپن کے دوست سچن تندولکر کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل کیوں؟کروڑوں کا کمرشل ٹائم اور اربوں کی سرمایہ کاری: پاکستان اور انڈیا کا میچ براڈکاسٹرز کے لیے اتنا اہم کیوں ہے؟’عاقب بال‘ نے ’بیز بال‘ کا توڑ کر دیا’مگر وقت رضوان کے ہاتھوں سے پھسل چکا تھا‘Getty Imagesپی سی بی کی بیوروکریسی بارے کرک انفو سے گفتگو میں مصباح الحق نے کہا تھا کہ اگر ایک طرف اس بیورو کریسی نے ہمیشہ لوکل کوچز کی تحقیر کا مکمل سامان کیا ہے تو دوسری طرف عالمی مارکیٹ میں پاکستان کی ساکھ بھی کچھ ایسی کر ڈالی ہے کہ کوئی بھی معتبر نام پاکستان کرکٹ سے جڑنے کو تیار نہیں
پہلے یہ خبر نکالی گئی کہ گیری کرسٹن کے بعد جیسن گلیسپی کو ہی سبھی فارمیٹس کی کوچنگ آفر کر دی گئی۔ ویب سائٹ کرک انفو نے دعوی کیا کہ ان کے انکار کی بنیادی وجہ پی سی بی کی جانب سے ایک ہی فارمیٹ کی طے شدہ تنخواہ میں دو نئی ذمہ داریاں ڈھونے کا مطالبہ ہے۔
پھر یہ خبر سامنے آئی کہ جیسن گلیسپی کی بجائے عاقب جاوید سبھی فارمیٹس میں ہیڈ کوچ ہوں گے۔
یہ وہی جیسن گلیسپی ہیں جن کے ساتھ پاکستان نے طویل مدتی کرکٹ انقلاب رچانے کے وعدے کیے تھے۔ محسن نقوی ان کے گن گاتے ہوئے انھیں ڈومیسٹک کرکٹ میں بھی پاکستان کا رہبر بتاتے تھے مگر پھر اچانک ہی اطوار یوں بدلے کہ انھیں باعزت رخصتی تک کا موقع نہ دیا گیا۔
اس سارے قصے نے نہ تو پہلے گیری کرسٹن کا قد کم کیا اور نہ ہی اب جیسن گلیسپی کی مہارت پر کوئی داغ لگایا، یہاں بدنامی اگر کسی کا مقدر ہوئی ہے تو وہ پی سی بی ہے کہ جس نے ایک بار پھر عالمی سطح پر پاکستان کرکٹ کی انتظامی جگ ہنسائی کا سامان کیا۔
پی سی بی کی بیوروکریسی بارے کرک انفو سے گفتگو میں مصباح الحق نے کہا تھا کہ اگر ایک طرف اس بیورو کریسی نے ہمیشہ لوکل کوچز کی تحقیر کا مکمل سامان کیا ہے تو دوسری طرف عالمی مارکیٹ میں پاکستان کی ساکھ بھی کچھ ایسی کر ڈالی ہے کہ کوئی بھی معتبر نام پاکستان کرکٹ سے جڑنے کو تیار نہیں اور جو بچے کھچے ثانوی انتخاب دستیاب ہو پاتے ہیں، انھیں بھی اب مشکل سے قائل کیا جاتا ہے۔
لیکن گیری کرسٹن کے فوری بعد ہی جیسن گلیسپی کی بھی پاکستان کرکٹ سے یوں ناخوش رخصتی کے بعد اب شاید کوئی ثانوی انتخاب بھی یہاں آنا پسند نہ کرے، خواہ نوکری کی شرائط کیسی ہی پرکشش کیوں نہ ہوں۔
’مگر وقت رضوان کے ہاتھوں سے پھسل چکا تھا‘’برانڈ پاکستان کی نئی آزمائش گاہ، جنوبی افریقہ‘کانپتے ہاتھ اور لڑکھڑاتی آواز والے ونود کامبلی اور ان کے بچپن کے دوست سچن تندولکر کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل کیوں؟کروڑوں کا کمرشل ٹائم اور اربوں کی سرمایہ کاری: پاکستان اور انڈیا کا میچ براڈکاسٹرز کے لیے اتنا اہم کیوں ہے؟’آخر بابر اور شاہین ٹیم سے تو بڑے نہیں‘’عاقب بال‘ نے ’بیز بال‘ کا توڑ کر دیااحمد آباد کا تاریخی ٹیسٹ میچ: جب عمران خان نے انڈین شائقین کے پتھراؤ پر فیلڈرز کو ہیلمٹ پہنا دیے