پاکستان میں فائیو جی سے متعلق بڑی خبر آگئی

سچ ٹی وی  |  Feb 27, 2025

پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے سینیٹ کمیٹی آئی ٹی اینڈ ٹیلی کام میں بریفنگ کے دوران بتایا کہ فائیو جی کے لیے زیادہ اسپیکٹرم کی ضرورت ہوتی ہے، تاہم فائیو جی کے حوالے سے کئی مشکلات درپیش ہیں۔

پلوشہ خان کی زیرِ صدارت سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے آئی ٹی اینڈ ٹیلی کام کا اجلاس پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔

پی ٹی اے حکام نے فائیو جی آکشن پالیسی پر کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ نئے اسپیکٹرم کے لیے حکومت پاکستان سے پالیسی ڈائریکٹو کی ضرورت ہوتی ہے،2017 میں ٹرائل کی اجازت دی گئی تھی۔

حکام کا کہنا تھا کہ فائیو جی سے متعلق ایک ایڈوائزری کمیٹی بنائی گئی جو اس پر کام کررہی ہے، پی ٹی اے نے اس حوالے سے نومبر میں کنسلٹنٹ کو ہائیر کیا جس نے رپورٹ جمع کرائی ہے۔

مزید بتایا کہ فائیو جی کے لیے زیادہ اسپیکٹرم کی ضرورت ہوتی ہے، تاہم فائیو جی کے حوالے سے کئی مشکلات درپیش ہیں، یوفون میں ٹیلی نار کے ضم ہونے کا کیس سی سی پی میں ہے، مارکیٹ میں 3 یا 4 کھلاڑیوں کو مدنظر رکھ کر فائیو جی کے اسپیکٹرم کا فیصلہ کیا جائے گا۔

وزارت آئی ٹی حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ فائیو جی کو لانچ کرنے کے بعد بھی سارے لوگ ایک ساتھ فائیو جی پر شفٹ نہیں ہوجائیں گے، فائیو جی کے اسپیکٹرم سے تھری اور فور جی کی رفتار بھی تیز ہو جائے گی، پاکستان میں اس وقت 3 کیٹگریز کے بیند موجود ہیں۔

اجلاس میں یو ایس ایف حکام نے گزشتہ 3 سالوں کے پروجیکٹس پر قائمہ کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ یو ایس ایف کا مینڈیٹ دیہی، دور دراز علاقوں میں ٹیلی کام سروسز فراہم کرنا ہے۔

حکام کا کہنا تھا کہ گزشتہ 3 سالوں میں 63 پروجیکٹ مختلف دیہی علاقوں میں مکمل کیے ہیں، یو ایس ایف کی مدد سے ملک کے مختلف گاؤں میں سروسز فراہم کی گئی ہیں۔

سینیٹر ہمایوں مہمند نے کہا کہ بلوچستان کے علاقوں سے کئی شکایات آتی ہیں، جس پر یو ایس ایف حکام نے جواب دیا کہ بلوچستان میں سیکیورٹی مسائل کی وجہ سے سروسز ڈاؤن کی جاتی ہیں جب کہ شمالی اور جنوبی وزیرستان میں پروجیکٹ مکمل کرنے میں مسائل آرہے ہیں۔

چیئرمین کمیٹی نے استفسار کیا کہ موٹر وے پر انٹرنیٹ خلل کی وجہ کیا ہے؟ یو ایس ایف حکام نے جواب دیا کہ پی ٹی اے نے اس مسئلہ کو ٹیک اپ کیا ہے، اس پر کام جاری ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More