پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے سابق رہنما اچانک سابق وزیر اعظم عمران خان کی رہائی کے لیے متحرک ہو گئے ہیں اور ان کی جماعت کے نائب چیئرمین شاہ محمود قریشی سے ملاقات کا بھی چرچا ہو رہا ہے۔
سابق وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری، جنھوں نے 2023 کے دوران نو مئی کے حملوں کے بعد جماعت سے علیحدگی اختیار کی تھی، کا دعویٰ ہے کہ اُن کی شاہ محمود قریشی سے جیل اور ہسپتال میں دو ملاقاتیں ہوئی ہیں۔
فواد چوہدری کے بقول اُن کا مقصد ملک میں ’بڑھتا ہوا سیاسی درجہ حرارت‘ کم کرنا ہے اور عمران خان سمیت دیگر سیاسی اسیروں کی رہائی ممکن بنانا ہے۔
اُنھوں نے دعویٰ کیا کہ شاہ محمود قریشی نے بھی اُن کی ان کوششوں کی بھرپور حمایت کی ہے۔
تاہم شاہ محمود قریشی کے وکیل کا کہنا ہے کہ سابق پی ٹی آئی رہنما اچانک ہسپتال پہنچ گئے تھے اور اُن کی صرف کچھ دیر کے لیے شاہ محمود قریشی سے ملاقات ہوئی۔
دوسری جانب پاکستان تحریکِ انصاف کی موجودہ قیادت کا کہنا ہے کہ سابق رہنماؤں کا پارٹی سے کوئی تعلق نہیں ہے اور وہ صرف متعلقہ رہنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
یہ معاملہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پی ٹی آئی کی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ سے دُوریوں کا تاثر عام ہے اور خیبر پختونخوا میں نئے وزیر اعلِی سہیل آفریدی بھی جارحانہ بیانات دے رہے ہیں۔
بی بی سی نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ سابق پی ٹی آئی رہنما اچانک اتنے متحرک کیوں ہو رہے ہیں اور وہ اِن ملاقاتوں سے کیا حاصل کر سکتے ہیں۔
سابق رہنماؤں کی شاہ محمود قریشی سے ’اچانک‘ ملاقات
سابق وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری کا دعویٰ ہے کہ اُن کی شاہ محمود قریشی سے 45 منٹ تک ملاقات ہوئی جس میں اُنھوں نے بھی عمران خان کی رہائی کے لیے شروع کی جانے والی ان نئی کوششوں کی حمایت کی ہے۔
لیکن بی بی سی نے اس ملاقات پر شاہ محمود قریشی کے وکیل رانا مدثر عمر سے رابطہ کیا جن کا کہنا تھا کہ شاہ محمود قریشی کے لیے یہ سب بہت حیران کن تھا۔
اُن کے بقول شاہ محمود قریشی کو پتے میں تکلیف کی وجہ سے ڈیفنس لاہورمیں واقع پاکستان کڈنی اینڈ لیور ٹرانسپلاٹ انسٹی ٹیوٹ (پی کے ایل آئی) منتقل کیا گیا تھا، جہاں یہ افراد جمعرات کو اچانک پہنچ گئے تھے۔
رانا مدثر نے دعویٰ کیا کہ شاہ محمود قریشی نے ’مروتاً ان سے ملاقات کی‘ اور اس دوران شاہ محمود قریشی کی دو بہنیں بھی وہاں موجود تھے۔
رانا مدثر فواد چوہدری کی جانب سے ملاقات کے 45 منٹ دورانیے کو رد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’ان لوگوں نے قریشی صاحب کی عیادت کی اور وہاں سے چلے گئے۔ اس دوران کوئی سیاسی گفتگو نہیں ہوئی۔‘
واضح رہے کہ شاہ محمود قریشی نو مئی کے مختلف مقدمات میں بری ہو چکے ہیں تاہم اب بھی اُنھیں مختلف مقدمات کا سامنا ہے جس کا ٹرائل لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں ہی ہو رہا ہے۔
EPAفواد چوہدری کا کہنا ہے کہ سابق پی ٹی آئی رہنما بھی عمران خان کی رہائی کے لیے مہم میں شریک ہیں’انقلاب تو آنے سے رہا، اب رابطے ہی کرنا پڑیں گے‘
سابق وزیر اطلاعات اور ایک وقت میں عمران خان کے قریب سمجھے جانے والے فواد چوہدری کہتے ہیں کہ اُن کا مقصد صرف ملک میں سیاسی درجہ حرارت کم کرنا ہے۔
بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے اُنھوں نے دعویٰ کیا کہ اُن کی عمران اسماعیل اور مولوی محمود کے ہمراہ شاہ محمود قریشی سے تقریباً 45 منٹ تک ملاقات ہوئی۔
فواد چوہدری نے دعویٰ کیا کہ سابق گورنر پنجاب چوہدری سرور سمیت پی ٹی آئی کے متعدد سابق رہنما عمران خان کو ’رہا کروانے کی اس مہم میں اُن کے ساتھ ہیں۔‘
5 اگست یا 90 دن: عمران خان کی رہائی اور پی ٹی آئی رہنماؤں کی الجھنیںعمران خان کی میڈیکل رپورٹ: ’ورٹیگو‘ اور ’ٹائنائٹس‘ کیا ہوتا ہے؟علیمہ خان، اسٹیبلشمنٹ یا امن و امان: عمران خان نے علی امین گنڈاپور کو ہٹانے کا فیصلہ کیوں کیا؟شہریز خان: عمران خان کے ’بین الاقوامی ایتھلیٹ‘ بھانجے کو پولیس نے نو مئی کے دو برس بعد کیوں گرفتار کیا؟
فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ملک میں ’تقریباً ڈھائی سال سے ایک گھٹن زدہ ماحول ہے۔ عمران خان سمیت پی ٹی آئی کے متعدد رہنما قید میں ہیں۔ آئے روز ہم لوگ پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ لوگوں کے کاروبار ٹھپ ہو گئے ہیں۔ اب یہ سب کچھ ختم ہونا چاہیے۔‘
اُن کا کہنا تھا کہ وہ بہت جلد حکومتی وزرا سمیت مولانا فضل الرحمن اور دیگر سیاسی قائدین سے ملاقاتیں کریں گے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ پی ٹی آئی ایک قدم آگے بڑھے اور حکومت ایک قدم پیچھے ہٹے۔ بات سادہ سی ہے کہ انقلاب تو آ نہیں رہا اور نہ ہی لانگ مارچ ہو سکتا ہے۔ تو اب بات چیت کے ذریعے ہی کوشش کریں۔‘
فواد چوہدری نے الزام لگایا کہ پی ٹی آئی کی موجودہ قیادت عمران خان کی رہائی کے لیے سنجیدہ نہیں ہے۔ ’عمران خان رہا ہو گئے تو یہ لوگ غیر متعلقہ ہو جائیں گے اور اس سے کئی یوٹیوبرز، وکلا اور فنڈر ریزرز کا کام بند ہو جائے گا۔‘
https://twitter.com/ImranIsmailPTI/status/1984259244649296283
شاہ محمود قریشی سے ملاقات کے لیے جانے والے ایک دوسرے سابق پی ٹی آئی رہنما عمران اسماعیل نے بھی اپنی رائے کا اظہار کیا۔
انھوں نے ایکس پر پیغام میں کہا کہ ’شاہ محمود قریشی کئی دنوں سے ہسپتال میں علیل ہیں۔ ان سے ملنے ان کے حلقے کے لوگ اور فیملی جاتی ہے۔ اگر تحریک انصاف کی قیادت ان کا پتا کرنے بھی نہیں جا سکتی تو یہ کہنا کہ ہم ان کی عیادت کرنے بھی نہ جائیں عجیب منطق ہے۔‘
عمران اسماعیل نے مزید کہا کہ ’ہم نے صرف (ہسپتال میں) شاہ محمود قریشی سے (ہی) نہیں (بلکہ) کوٹ لکھپت جیل میں بھی کارکنوں اور لیڈرشپ سے (بھی) ملاقات کی ہے۔
’تمام پارٹی صرف عمران خان کی رہائی چاہتی ہے، ماسوائے ان کے جو اس لیے ماحول تلخ کر رہے ہیں کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ میں تلخیاں بڑھیں اور وہ مزید جیل رہیں تاکہ ان کی اپنی لیڈری چمکتی رہے۔‘
یاد رہے کہ سابق گورنر سندھ عمران اسماعیل نے بھی نو مئی کے واقعات کے بعد تحریک انصاف چھوڑ دی تھی جس کا اعلان انھوں نے ایک پریس کانفرنس میں کیا تھا۔ انھوں نے کور کمانڈر ہاؤس لاہور سمیت دیگر عسکری تنصیبات پر حملوں کی مذمت کی تھی۔
سابق رکن قومی اسمبلی مولوی محمود نے کہا ہے کہ وہ اور دیگر سابقہ پی ٹی آئی رہنما چاہتے ہیں کہ ’عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ایک موثر رابطے کا کردار ادا کیا جائے۔‘
پی ٹی آئی کا ردِعمل
بی بی سی نے سابق پارٹی رہنماؤں کی جیل میں شاہ محمود قریشی سے ملاقات پر موقف کے لیے پارٹی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر اور سکریٹری جنرل سلمان اکرم راجہ سے رابطہ کیا، لیکن اُن کی جانب سے تاحال کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔
لیکن سنیچر کو جیو نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے پارٹی کے سیکریٹری اطلاعات شیخ وقاص اکرم کا کہنا تھا کہ ان سابقہ رہنماؤں کا اب تحریک انصاف سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ان افراد نے ’گذشتہ ڈیڑھ سال میں کئی بار خود کو اہم ثابت کرنے کی کوشش کی، یہاں تک کہ اڈیالہ جیل کے باہر بھی سیاسی بیانیہ بیچنے کی کوشش کی گئی مگر انھیں کوئی پذیرائی نہیں ملی۔‘
EPAتجزیہ کار اور صحافی سلمان غنی کہتے ہیں کہ جن لوگوں نے عمران خان کی رہائی مہم شروع کی ہے، انھوں نے ’مشکل وقت میں پی ٹی آئی کو چھوڑا تھا‘کیا حکومت اور عمران خان لچک دکھائیں گے؟
دوسری جانب پی ٹی آئی کے رہنما اسد عمر نے عمران خان کی نئی رہائی مہم سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ عمران خان کی رہائی کے لیے وہ ’کسی بھی کاوش کی حمایت کرتے ہیں‘ لیکن اس مذکورہ مہم کا حصہ نہیں۔
اسد عمر کا خیال ہے کہ سیاسی بحران ’مذاکرات سے ختم ہو گا۔
’لیکن حکومت تحریک انصاف/عمران خان کو دیوار سے لگا کر صرف ایک بڑے احتجاج کا راستہ چھوڑ رہے ہیں۔ ایک دفعہ احتجاج کی کال آ گئی تو پھر مذاکرات سیاسی حل نہیں،ٹرک کی بتی نظر آئیں گے۔ پھر جو بھی ہو گا اس کی ذمہ داری حکومت کی ہو گی۔‘
تجزیہ کار اور صحافی سلمان غنی کہتے ہیں کہ جن لوگوں نے عمران خان کی رہائی مہم شروع کی ہے، انھوں نے ’مشکل وقت میں پی ٹی آئی کو چھوڑا تھا۔‘
بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے سلمان غنی کا کہنا تھا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ اس رہائی مہم کو سنجیدگی سے لینا چاہیے۔
اُن کا کہنا تھا کہ جہاں تک جیل میں قید پی ٹی آئی کے رہنماؤں کی بات ہے ’وہ تو پہلے سے ہی مفاہمت کی بات کرتے رہے ہیں۔‘
واضح رہے کہ رواں برس جولائی میں پاکستان تحریک انصاف کے جیل میں قید رہنماؤں شاہ محمود قریشی، اعجاز چوہدری، ڈاکٹر یاسمین راشد، میاں محمود الرشید اور عمر سرفراز چیمہ کا کوٹ لکھپت جیل سے عمران خان کے نام لکھا گیا ایک خط منظر عام پر آیا تھا۔
یہ خط پاکستان تحریک انصاف کے آفیشل ایکس اکاونٹ سے بھی شیئر کیا گیا جس میں ان تمام اسیر رہنماوں نے مذاکرات پر زور دیا تھا۔
سلمان غنی کے بقول عمران خان نے ان رہنماؤں کی اس تجویز کو مسترد کرتے ہوئے احتجاج کے آپشن کو استعمال کرنے کی بات کی تھی۔
سلمان غنی کہتے ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف میں فیصلے کا حتمی اختیار عمران خان کے پاس ہے اور فی الحال عمران خان کسی لچک میں موڈ میں نہیں ہیں۔
کیا یہ ملاقات کسی اشارے پر ہوئی؟ اس سوال کے جواب میں سلمان غنی کا کہنا تھا کہ حکومت، تحریک انصاف سے مذاکرات کے حق میں رہی ہے اور اس ملاقات پر اُنھیں کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار مجیب الرحمان شامی کہتے ہیں کہ جیل یا ہسپتال میں قیدیوں سے ملنا، بہت مشکل ہوتا ہے۔ ’ہو سکتا ہے کہ ان افراد کو کسی نہ کسی ’حلقے‘ کا آشیر باد حاصل ہو۔‘
بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو غیر متعلقہ ہو چکے ہیں۔ ’اُنھیں یہ اُمید ہے کہ عمران خان کی رہائی مہم چلا کر وہ اُن کے قریب آ سکتے ہیں اور آگے چل کر اُن کا اعتماد حاصل کر سکتے ہیں۔‘
مجیب الرحمان شامی کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کی موجودہ قیادت تو ان سے لاتعلقی کا اظہار کر رہی ہے۔
مجیب الرحمان شامی کہتے ہیں کہ یہ معنی خیز ہے کہ ان افراد کو جیل یا ہسپتال میں موجود لوگوں تک رسائی کون دے رہا ہے۔ ’لگتا ہے کہ ان افراد کہیں نہ کہیں کوئی رابطہ ہوا جس کے بعد انھیں یہ موقع ملا ہے۔‘
واضح رہے کہ رواں برس کے آغاز پر حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان مذاکرات کے چار ادوار ہوئے تھے۔
تاہم نو مئی اور 26 نومبر کے واقعات پر جوڈیشل کمیشن کے معاملے پر اختلافات کے باعث یہ مذاکرات ناکام ہو گئے تھے۔
علیمہ خان، اسٹیبلشمنٹ یا امن و امان: عمران خان نے علی امین گنڈاپور کو ہٹانے کا فیصلہ کیوں کیا؟شہریز خان: عمران خان کے ’بین الاقوامی ایتھلیٹ‘ بھانجے کو پولیس نے نو مئی کے دو برس بعد کیوں گرفتار کیا؟عمران خان کی میڈیکل رپورٹ: ’ورٹیگو‘ اور ’ٹائنائٹس‘ کیا ہوتا ہے؟5 اگست یا 90 دن: عمران خان کی رہائی اور پی ٹی آئی رہنماؤں کی الجھنیںعمران خان کے بیٹوں کی گرفتاری سے متعلق بیان پر جمائما کا ردعمل: ’یہ سیاست نہیں، ذاتی دشمنی ہے‘