’کہ یہ حصارِ ستم کوئی تو گرائے گا‘: سپریم کورٹ کے دو سینیئر ججوں کے استعفوں کے بعد عدلیہ کی آزادی پر بحث

بی بی سی اردو  |  Nov 14, 2025

پاکستان میں گذشتہ دو ہفتوں سے 27 ویں آئینی ترمیمی پر بحث زور و شور سے جاری ہے تاہم اس کے باقاعدہ اثرات گذشتہ شام اُس وقت دیکھنے کو ملے جب سپریم کورٹ کے دو سینیئر ججوں، جسٹس منصور علی خان اور جسٹس اطہر من اللہ، نے اس ترمیم پر شدید تنقید کرتے ہوئے اسے ’آئین پاکستان پر سنگین حملہ‘ قرار دیا اور اپنے عہدوں سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا۔

اس سے قبل ان دونوں ججوں نے اس آئینی ترمیم پر چیف جسٹس آف پاکستان کو خطوط لکھے تھے اور اپنے تحفظات اور خدشات کا اظہار بھی کیا تھا۔

یاد رہے کہ جسٹس منصور علی شاہ موجود چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کے بعد سپریم کورٹ کے سینیئر ترین جج ہیں۔

اپنے استعفوں میں ان ججوں نے موقف اختیار کیا کہ اس آئینی ترمیم کے ذریعے ’عدلیہ کو حکومت کے ماتحت بنا دیا گیا ہے‘ اور یہ کہ ’یہ ترمیم ہماری آئینی جمہوریت کی روح پر کاری ضرب ہے۔‘

اس شدید تنقید پر ردعمل دیتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف کے مشیر رانا ثنا اللہ نے الزام عائد کیا ہے ’یہ ججز سیاسی اور ذاتی ایجنڈا پر تھے اور اُن کو یہ استحقاق حاصل نہیں کہ وہ سیاسی معاملات یا پارلیمان کی کارکردگی پر تنقید کریں۔‘

انھوں نے جسٹس منصور کے استعفے کے چند جملوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا اسے ’سیاسی تقریر اور سیاسی تحریر‘ قرار دیا ہے۔

دوسری جانب سینیئر قانون دان مخدوم علی خان نے لا اینڈ جسٹس کمیشن کی رکنیت سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا ہے۔

کمیشن چیئرمین کو لکھے گئے اپنے استعفے میں مخدوم علی خان نے کہا کہ ’مشاورت، حکمت عملی اور دلیل کے ذریعے بہتری ممکن ہے لیکن اب عدلیہ کی آزادی کے بغیر قانون کی اصلاح ممکن نہیں۔‘ انھوں نے کہا کہ ’26 ویں آئینی ترمیم سے نوجوان وکیل مایوس ہوئے ہیں۔‘

یاد رہے کہ لا اینڈ جسٹس کمیشن کی سربراہی چیف جسٹس آف پاکستان کرتے ہیں جبکہ چاروں ہائیکورٹ کے چیف جسٹس، اٹارنی جنرل اور چیف جسٹس شریعہ کورٹ سمیت مختلف صوبوں سے ممتاز قانون دانوں اس کمیشن کے رکن ہوتے ہیں۔ لا اینڈ جسٹس کمیشنوفاقی سطح پر بنایا گیا کمیشن ہے، جس کا مقصد مختلف شعبوں میں اصلاحات اور قوانین سازی کے لیے حکومت کی مشاورت کرنا اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانا ہے۔

’یہ حصار ستم کوئی تو گرائے گا‘: جسٹس منصور علی شاہ نے مستعفی ہونے کی کیا وجوہات بیان کیں؟

سپریم کورٹ کے سینیئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ نے اُردو اور انگریزی زبانوں میں تحریر کردہ اپنا طویل استعفی صدر مملکت کو بھجوایا ہے۔

انھوں نے لکھا کہ ’27ویں ترمیم آئین پاکستان پر سنگین حملہ ہے جس نے سپریم کورٹ کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے ہیں۔‘

انھوں نے دعویٰ کیا کہ’27ویں آئینی ترمیم نے عدلیہ کو حکومت کے ماتحت بنا دیا اور ہماری آئینی جمہوریت کی روح پر کاری ضرب لگائی ہے۔‘

جسٹس منصور نے اپنے استعفے میں یہ بھی کہا کہ اعلیٰ عدالت کو منقسم کر کے عدلیہ کی آزادی پامال کی گئی ہے جبکہ انصاف عام آدمی سے دور جبکہ کمزور اور طاقت کے سامنے بے بس ہو گیا ہے۔

انھوں نے الزام عائد کیا کہ ’حکومت اور متنازع عدالتی قیادت نے ترمیم کو قبول کیا جبکہ چیف جسٹس نے ادارے کے دفاع کی بجائے اپنے عہدے کو ترجیح دی۔‘

جسٹس منصور علی شاہ نے دعویٰ کیا کہ سنہ 2024 میں ہونے والی 26 ویں آئینی ترمیم عدلیہ کی آزادی کو کمزور کرنے کی جانب پہلا قدم تھی اور اُمید تھی کہ سپریم کورٹ بطورِ فل کورٹ اس ترمیم کا جائزہ لے گی، لیکن اب یہ امید بھی ختم ہو گئی ہے۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ آئین کی بالادستی، بنیادی حقوق کا تحفظ اور قانون کی حکمرانی میری زندگی کا مقصد تھا لیکن میں ایک ایسی عدالت میں بیٹھوں جس کے پاس اپنا آئینی اختیار ہی نہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’یہ وہ عدالتی زندگی نہیں جس کا میں نے انتخاب کیا تھا، اس لیے میں بطور جج سپریم کورٹ آف پاکستان سے استعفیٰ دے رہا ہوں۔‘

27ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد پاکستان کے عدالتی نظام میں کیا تبدیلیاں آئیں گی؟’ہنسیں، مسکرائیں یا روئیں‘: 27ویں آئینی ترمیم کے مسودے پر سوشل میڈیا پر دلچسپ تبصرےچیف آف ڈیفینس فورسز کا عہدہ، آئینی عدالت اور ججز کے تبادلے: سینیٹ کے بعد 27ویں آئینی ترمیم قومی اسمبلی سے بھی منظور27ویں آئینی ترمیم قومی اسمبلی سے منظور: ’ڈوگر صاحب، جو کھڑے ہوں گے وہ گن لیے جائیں گے‘ کے بعد پی ٹی آئی ممبر کا تنہا احتجاج

اپنے طویل استعفے کے اختتام پر جسٹس منصور علی شاہ نے شاعر احمد فراز کے کچھ اشعار تحریر کرتے ہوئے لکھا کہ یہ اشعار ’میرے یقین کا سہارا ہیں۔‘

مرا قلم تو امانت ہے میرے لوگوں کی

مرا قلم تو عدالت میرے ضمیر کی ہے

اسی لیے تو جو لکھا تپاک جاں سے لکھا

جبھی تو لوچ کماں کا زباں تیر کی طرح

میں کٹ گروں کہ سلامت رہوں یقین ہے مجھے

کہ یہ حصار ستم کوئی تو گرائے گا

تمام عمر کی ایذا نصیبیوں کی قسم

مرے قلم کا سفر رائیگاں نہ جائے گا

جیو نیوز کے پروگرام ’آج شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ‘ میں گفتگو کرتے ہوئے مشیر وزیر اعظم رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ جج کا کام انصاف سے فیصلے کرنا ہوتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’ججز نہیں بلکہ اُن کے فیصلہ بولتے ہیں لیکن ہمارے ججز فیصلے کم کرتے ہیں، ان کے فیصلے بولتے نہیں مگر ججز خود بولے جاتے ہیں اور جن جج صاحبان نے آج استعفی دیا ان کے استعفے کا ایک ایک لفظ سیاسی ہے۔ ایک ایک لفظ ظاہر کر رہا ہے کہ وہ سیاسی اور ذاتی ایجنڈے پر تھے۔‘

جسٹس اطہر من اللہ: ’جس آئین کے تحفظ کا حلف لیا تھا وہ اب نہیں رہا‘

سپریم کوٹ کے جج جسٹس اطہر من اللہ نے بھی اپنا استعفیٰ صدر کو بھجوایا جو صرف ایک صفحے پر مشتمل ہے اور انگریزی زبان میں ہے۔

اپنے استعفے میں انھوں نے لکھا کہ 11 سال قبل انھوں نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج کے طور پر حلف اٹھایا، چار سال بعد چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کا حلف لیا اور مزید چار سال بعد سپریم کورٹ کے جج کے طور پر حلف اٹھایا۔

انھوں نے لکھا کہ ’تمام ادوار میں حلف کا بنیادی وعدہ ایک ہی تھا۔ یہ حلف کسی آئین نہیں بلکہ آئینِ پاکستان سے وفاداری کا حلف تھا۔‘

جسٹس اطہر من اللہ نے مزید لکھا کہ 27ویں آئینی ترمیم سے قبل انھوں نے چیف جسٹس پاکستان کو خط لکھا تھا اور مجوزہ ترمیم پر شدید تشویش کا اظہار کیا تھا تاہم خط کے مندرجات یہاں (استعفے میں) دہرانے کی ضرورت نہیں۔

انھوں نے مزید لکھا کہ ’خاموشی اور بے عملی کے پس منظر میں یہ خدشات درست ثابت ہوئے۔‘

خط میں جسٹس اطہر من اللہ نے یہ بھی کہا کہ ’پاکستان کے عوام کی خدمت میرے لیے سب سے بڑا اعزاز رہا۔ میں نے اپنے حلف کے مطابق بہترین صلاحیت سے فرائض انجام دیے، آج وہی حلف مجھے باقاعدہ استعفیٰ دینے پر مجبور کر رہا ہے، جس آئین کے تحفظ کا حلف لیا تھا وہ اب باقی نہیں رہا۔‘

’خود کو قائل کرنے کی بہت کوشش کی مگر ممکن نہ ہو سکا، نئے ڈھانچے جن بنیادوں پر تعمیر ہو رہے ہیں، وہ آئین کے مزار پر کھڑے ہیں، جو باقی رہ گیا ہے وہ صرف ایک سایہ ہے، آئینی روح سے خالی ہے۔‘

’جو عدالتی چُوغے ہم پہنتے ہیں، وہ محض رسمی لباس نہیں، یہ اُس مقدس اعتماد کی علامت ہے جو قوم نے عدلیہ پر کیا، تاریخ گواہ ہے اکثر اوقات یہ لباس خاموشی کی وجہ سے دھوکے کی علامت بن گیا۔‘

جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ ’آنے والی نسلوں نے ان کو مختلف طور پر نہ دیکھا، تو ہمارا مستقبل بھی ہمارے ماضی جیسا ہی ہو گا۔ اسی امید کے ساتھ میں آج یہ چُوغہ آخری بار اُتار رہا ہوں اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج کے عہدے سے اپنا استعفیٰ فوری طور پر پیش کرتا ہوں۔‘

استعفے کا اختتام انھوں نے اس جملے پر کیا کہ ’خدا کرے کہ جو انصاف کریں، وہ سچائی کے ساتھ کریں۔‘

’یہ پاکستانی عدلیہ کا بہت بڑا نقصان ہے‘BBC

یہ استعفے سامنے آنے کے بعد وکلا کمیونٹی کی جانب سے اس پر شدید ردعمل کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

وکیل اور سماجی کارکن ایمان مزاری نے لکھا کہ ’جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ کے استعفوں میں اس ملک کے لیے امید ہے۔ کوئی بھی اس نظام کے اندر اس کے خلاف نہیں لڑ سکتا۔ 26ویں ترمیم کے بعد اسے آزمایا گیا۔‘

انھوں نے مزید لکھا کہ ’پاکستان کے لوگ اپنے آئین پر اس حملے کو خاموشی سے قبول نہیں کریں گے۔ ہم مزاحمت کریں گے، ہمیں مزاحمت کرنی ہو گی۔‘

پلڈاٹ کے صدر احمد محبوب بلال نے جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ کے اقدام کو سراہتے ہوئے لکھا کہ ’ان کے لیے نئے حالات میں اپنے ضمیر اور وژن کے مطابق کام کرنا ناممکن ہوتا۔ دونوں جج صاحبان انتہائی ذہین اور آزاد خیال تھے۔ یہ پاکستانی عدلیہ کا بہت بڑا نقصان ہے۔‘

صحافی مبشر زیدی نے لکھا کہ ’جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔۔۔‘

سماجی کارکن جلیلہ حیدر نے لکھا کہ ’جب سالمیت کی آوازوں کو ایک طرف دھکیل دیا جاتا ہے تو ادارے کمزور ہو جاتے ہیں اور عوام کا انصاف پر اعتماد ختم ہو جاتا ہے۔ اس طرح کے لمحات ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ ہمیں آئینی اقدار، عدالتی آزادی، اور دباؤ کے باوجود سچ بولنے کی ہمت کی کتنی اشد ضرورت ہے۔‘

شہزاد غیاص شیخ نے لکھا کہ ’27ویں ترمیم پہلی بار ہے جب ایگزیکٹو نے عدلیہ کو تباہ کرنے کی کوشش کی جبکہ عدلیہ نے ماضی میں کئی بار ایگزیکٹیو کو تباہ کرنے کی کوشش کی۔ پاکستان کی عدلیہ نے ماضی میں تقریباً ہمیشہ ہی فوج کا ساتھ دیا۔‘

جس کے جواب میں وکیل صلاح الدین نے اس تاثر کی تردید کی کہ عدلیہ پر ’پہلی بار حملہ‘ کیا گیا۔

انھوں نے یاد کرواتے ہوئے لکھا کہ بھٹو کی پانچویں اور چھٹی ترمیم؟ سنہ 1994 سے 1996 میں بے نظیر کا دور حکومت، سنہ 1997 میں نواز شریف کے حامیوں کا سپریم کورٹ پر حملہ اور قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف عمران خان کا ریفرنس۔

انھوں نے لکھا کہ ’ماضی میں ہم عدلیہ کے جی ایچ کیو کی جانب جھکاؤ سے نفرت کرتے تھے اور اب جی ایچ کیو کے سامنے مزاحمت کرنے والے ججز سے نفرت کرتے ہیں۔۔۔‘

صارف احسن خان نے لکھا کہ ’منصور علی شاہ اور اطہر من اللہ وہی دو جج ہیں جنہوں نے 90 دن میں الیکشن والے فیصلے کو 3/4 سے الجھایا۔ اور آج وقت کی ستم ظریفی میں خود الجھ گئے۔‘ ایک اور صارف نے لکھا کہ ’عدلیہ وہی کاٹ رہی ہے جو اس نے بویا تھا۔‘

27ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد پاکستان کے عدالتی نظام میں کیا تبدیلیاں آئیں گی؟27ویں آئینی ترمیم قومی اسمبلی سے منظور: ’ڈوگر صاحب، جو کھڑے ہوں گے وہ گن لیے جائیں گے‘ کے بعد پی ٹی آئی ممبر کا تنہا احتجاج’ہنسیں، مسکرائیں یا روئیں‘: 27ویں آئینی ترمیم کے مسودے پر سوشل میڈیا پر دلچسپ تبصرےچیف آف ڈیفینس فورسز کا عہدہ کیوں تخلیق کیا گیا اور برّی فوج کے سربراہ کو ہی یہ اضافی عہدہ دینے کی تجویز کیوں ہے؟چیف آف ڈیفینس فورسز کا عہدہ، آئینی عدالت اور ججز کے تبادلے: سینیٹ کے بعد 27ویں آئینی ترمیم قومی اسمبلی سے بھی منظوروزیراعظم شہباز شریف کا آئینی استثنیٰ لینے سے انکار: ’تاحیات استثنیٰ صرف بادشاہوں کو حاصل ہوتا ہے‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More