انڈیا کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش میں پیغمبر اسلام کے بارے میں متنازع بیان کے خلاف جمعے کو ہونے والے مظاہروں کے بعد مظاہرین کی گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے۔
حکومت کا کہنا ہے کہ یہ مظاہرے بغیر اجازت ہوئے تھے جبکہ بعض جگہ یہ مظاہرے پرتشدد بھی ہو گئے۔
پورے اتر پردیش میں مجموعی طور پر 255 مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جن میں فیروز آباد میں 13، علی گڑھ میں تین، ہاتھرس میں 50، مراد آباد میں 27، امبیڈکر نگر میں 28، سہارنپور میں 64، جالون میں دو اور پریاگ راج یعنی الہ آباد میں 68 لوگ شامل ہیں۔
لکھیم پور کھیری میں مظاہروں کے بعد مقدمہ درج کیا گیا تاہم کسی کو گرفتار نہیں کیا گیا۔
انڈیا کے سوشل میڈیا پر ان مظاہروں میں شامل افراد کی گرفتاریوں کے لیے پولیس پر یکطرفہ کارروائی کرنے کا الزام عائد کیا جا رہا ہے۔
سوشل میڈیا صارفین مظاہرین ہر پولیس تشدد کی ویڈیوز کے ساتھ ساتھ مسلم اکثریتی علاقوں میں مکانات کو بلڈوزر کے ذریعے گرائے جانے کی ویڈیوز بھی شیئر کر رہے ہیں۔ چند صارفین ان کارروائیوں کی حمایت میں بات کر رہے ہیں تو بہت سے مسلمانوں کے خلاف کیے جانے والے حکومتی اقدام کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
مظاہرے ایک ٹی وی مباحثے کے دوران بے جے پی کی ترجمان نوپور شرما کی جانب سے پیغمبر اسلام کے بارے میں متنازع بیان کے خلاف کیے گئے۔ قطر اور ایران سمیت دیگر اسلامی ممالک نے بھی اس واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے انڈین حکومت کو اس کے خلاف متنبہ کیا ہے۔
اس کے علاوہ انڈیا کی مشرقی ریاست جھارکھنڈ میں جمعے کو ہونے والے مظاہروں میں دو افراد ہلاک اور درجن بھر افراد زخمی ہو گئے تھے۔