سرکاری ملازمت چھوڑ کر ایکٹر بننے والے راشد فاروقی: ’پاگل واگل تو نہیں ایکٹنگ سے بھی کوئی کماتا ہے‘

راشد فاروقی

،تصویر کا ذریعہRamchand Pakistani/Poster

  • مصنف, شمائلہ خان
  • عہدہ, صحافی

پاکستان کی فلم اور ٹی وی انڈسٹری کے مقبول اداکار راشد فاروقی کا کہنا ہے کہ اگر پاکستانی سنیما ترقی نہیں کرتا ہے تو اس کی بہت بڑی وجہ یہ ہے کہ جو پاکستانی ڈائریکٹرز اور فلم میکرز ہیں وہ یہاں کے لوگوں کے معیار کی فلم نہیں بنا پا رہے۔

راشد نے اپنے کریئر میں اب تک پاکستان کی پانچ فیچر اور دو مختصر دورانیے کی فلموں میں کام کیا ہے جبکہ وہ جلد ہی اداکار فواد خان کی آنے والی فلم ’نیلوفر‘ سمیت مختصر دورانیے کی فلم ’بیوٹی باکسڈ‘ میں بھی نظر آئیں گے۔

سنہ 2019 میں ریلیز ہونے والی فلم ’لال کبوتر‘ میں راشد فاروقی نے انسپکٹر ابراہیم کا کردار نبھایا تھا اور شاید یہ پاکستان کی وہ واحد فلم ہے جو انتہائی کم بجٹ میں بنی لیکن شائقین نے اسے بے حد پسند کیا۔ اس فلم کی مقبولیت کے باعث ہی اسے پاکستان کی طرف سے آسکرز ایوارڈ کی نامزدگی کے لیے بھیجا گیا تھا۔

میں نے اُن سے جاننا چاہا کہ کیا پاکستان میں شائقین سنجیدہ موضوعات پر بنی فلمیں دیکھنا چاہتے ہیں تو اُن کا جواب تھا کہ ’ دیکھنا چاہتے ہیں تبھی ’لال کبوتر‘ جیسی فلم ہٹ ہوئی تھی۔‘

’لال کبوتر کی طرح کی فلمیں بنانا بہت ضروری ہے۔ یہ نہیں ہے کہ یہ کمال فلمیں ہیں بلکہ یہ وہ فلمیں ہیں جو کمال فلموں تک پہنچائیں گی۔ یہ ایک پراسیس ہے۔ کم بجٹ کے باوجود اس کی میکنگ اس کی ایسی تھی جو کہ ماڈرن تھی۔ اس کی موسیقی اور ایڈیٹنگ ایسی تھی جو ماڈرن تھی۔۔۔ فوراً نہیں مگر کچھ عرصہ کی کوششوں کے بعد آپ ایک اچھی اور معیاری فلم بنا سکیں گے جو یہاں کے لوگوں کو پسند آئے۔‘

’نیلوفر‘ اور ’بیوٹی باکسڈ ‘

راشد فاروقی

،تصویر کا ذریعہRashid Farooqi/ Instagram

راشد فاروقی کافی عرصہ سے سکرین سے غائب نظر آنے پر بتاتے ہیں کہ وہ کچھ صحت کے مسائل سے گزر رہے تھے جس کی وجہ سے کچھ وقت کےلیے وہ کام نہیں کر پائے تاہم ان کا کہنا تھا کہ وہ کام کر رہے ہیں اور بہت جلد وہ سکرین پر بہت زیادہ نظر آئیں گے۔

البتہ چھوٹے پردے پر ہمیں وہ حال ہی میں مقبول ڈرامہ سیریل ’تیرے بِن‘ میں پیر کے ایک چھوٹے سے رول میں نظر آئے۔

’چھوٹا سا کردار ہے لیکن میں بڑی بات بول رہا ہوں۔ میں کام کر رہا ہوں۔ کام کے بغیر میں زندہ نہیں رہ سکتا۔ میرا دم گھٹنے لگتا ہے اگر میں کچھ عرصہ کام نہ کروں۔ بہت جلد میں سکرین پر اتنا نظر آؤں گا کہ آپ دیکھیں گی۔‘

راشد فاروقی نے بتایا کہ وہ ماہرہ خان اور فواد خان کی فلم ’نیلوفر‘ میں بھی ایک کردار نبھاتے نظر آئیں گے جو ممکنہ طور پر اسی سال ریلیز کی جائے گی۔ فواد خان نے خود اس فلم کو پروڈیوس کیا ہے اور لاہور میں بننے والی اس فلم میں ایک کردار کے لیے راشد فاروقی کو کراچی سے مدعو کیا گیا۔

’اُس نے کچھ اہم کرانا ہو گا تبھی اُس نے لاہور میں بننے والی فلم میں کراچی سے مجھے بُلایا۔ وہ بھی کمرشل فلم نہیں ہے۔ وہ بھی حقیقت پر مبنی سنجیدہ سی فلم ہے جس میں میں نے سُنا ہے کہ ماہرہ خان اندھی لڑکی کا رول کر رہی ہیں۔‘

راشد فاروقی نے حال ہی اپنے انسٹا گرام پر فلم ’بیوٹی باکسڈ‘ کا پوسٹر شیئر کیا ہے۔ مختصر دورانیے کی اس فلم کو بحریہ یونیورسٹی کے چند سٹوڈنٹس نے بنایا ہے جسے جلد ریلیز کیا جائے گا۔

اس فلم میں اپنے کردار کے بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ’دو تین ہی کردار ہیں اِس فلم میں۔ ایک میل اور ایک فیمیل۔ فیمیل کردار میل کردار سے عمر میں بہت چھوٹی ہے اور ان کی شادی ہے۔ بہت زیادہ تو نہیں بتا سکتا لیکن یہ ہے کہ وہ ایک اچھا آدمی نہیں ہے، پُرتشدد آدمی ہے، بنیادی طور پر کردار بھی اُس کا ٹھیک نہیں ہے۔ وہ ریلوے میں کہیں جاب کرتا ہے اور وہ اپنی بیوی کو تشدد کا نشانہ بنا رہا ہے۔‘

رام چند پاکستانی : ’لوکل انڈسٹری نے تسلیم کر لیا کہ آپ ایک ایکٹر ہیں‘

راشد فاروقی

ہدایتکار مہرین جبار کی فلم ’رام چند پاکستانی‘ راشد فاروقی کے کریئر کا وہ کام ہے جس سے بطور اداکار اُنھیں پہچان ملی۔ 2008 میں ریلیز ہونے والی اس فلم میں اُنھوں نے ایک تھر کے شہری کا کردار ادا کیا جو اپنے نوعمر بچے کے پیچھے پیچھے سرحد پار انڈیا چلا جاتا ہے اور وہاں گرفتار ہو کر ایک طویل وقت جیل میں گزارتا ہے۔

رام چند پاکستانی کے سیٹ سے انھوں نے ایک دلچسپ واقعہ بتایا کہ ’فلم کے شروع میں، میں ایک کھیت میں ہل چلا رہا ہوں۔ تو ہوا یہ کہ مجھے جس بیل سے ہل چلانا تھا، وہ مجھ سے مانوس نہیں تھا۔ مجھے اندازہ ہی نہیں تھا کہ مجھے بیل چلانا پڑے گا۔ میں اُس کے قریب جاتا تو وہ اکڑ کے کھڑا ہو جاتا۔ تو اُس بیل کا مالک بضد ہو گیا کہ اِس کو ہٹاؤ، اِسے تو بیل چلانا نہیں آتا، مجھے رکھو اِس کی جگہ پر۔ میں کروں گا یہ رول۔‘

یہ بھی پڑھیے

راشد فاروقی کے بقول رام چند پاکستانی سے اُن کی جذباتی وابستگی ہے۔ اُس وقت کو یاد کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ اُنھیں اس فلم کےلیے کی گئی محنت کا صلہ انٹرنیشنل ایوارڈز کی صورت میں ملا۔ انھوں نے مُسکراتے ہوئے کہا کہ ’اُس (فلم) کی بہت پروموشن ہوئی اور اُس کے بعد سے یہاں کی لوکل انڈسٹری نے تسلیم کر لیا کہ آپ ایک ایکٹر ہیں۔‘

رام چند پاکستانی میں راشد فاروقی کے مقابل انڈیا کی مقبول اداکارہ نندتا داس نے کام کیا تھا جن کی تعریف کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’میں اُن کے کام اور شخصیت کو ایک ہی لفظ میں بیان کر سکتا ہوں اور وہ ہے بے حد پروفیشنل۔حالانکہ ہم اُن کے پروٹوکول کے حساب سے اُنھیں پوری طرح سہولیات فراہم نہیں کر پائے لیکن پھر بھی انھوں نے ایک لفظ نہیں کہا۔ اپنا کام کیا اور چلی گئیں۔‘

راشد فاروقی بتاتے ہیں کہ اِس فلم کے لیے اُنھوں نے اپنا وزن گھٹانے پر بے حد محنت کی۔

’تھر میں لوگ عموماً موٹے نہیں ہوتے۔ جب اس کردار کی پیشکش ہوئی تو میں کافی وزنی تھا یعنی کافی چربی چڑھی ہوئی تھی، آسودہ حالی تھی تو اُسے کم کرنا تھا۔ میں نے کافی سوچا کہ کیا ہوتا ہے کہ اِن (تھر کےلوگ) کا وزن کم ہوتا ہے۔ دماغ میں بات آئی کہ وہاں سواری نہیں ہوتی۔‘

’صحرا ہے، میلوں پیدل چلتے ہیں اور زیادہ کھانا نہیں ہوتا۔ کھانے کےنام پر اچار اور روٹی یا پیاز اور روٹی یا بہت ہوا تو مونگ کی دال وہاں اُگتی ہے تو مونگ کی دال اور روٹی۔ یہ خوراک ہوتی ہے اور بہت زیادہ پیدل چلنا ہوتا ہے۔ تو میں نے بھی اپنی خوراک کو آدھا کر دیا اور واک بڑھا دی۔ اتنی بڑھا دی کہ میں روزانہ صبح گلستان جوہر میں اپنے گھر سے پیدل چلتا ہوا صدر چلا جاتا تھا۔ یعنی کوئی آٹھ دس کلومیٹر پیدل گئے اور واپس آ گئے۔ تو ظاہر ہے میرا وزن گرنا شروع ہو گیا۔‘

’بازار کام کر رہا ہے تو بازاری کام ہی ہو گا نہ‘

راشد فاروقی

راشد فاروقی فلموں میں تو کام کرتے ہی ہیں لیکن گھر گھر اُن کی پہچان ڈرامہ سیریز میں اُن کے منفرد کردار ہیں۔ ڈراموں میں مردوں کے کرداروں میں تنوع کے فقدان پر بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’اب پروڈیوسر کام نہیں کر رہا، اب مارکیٹنگ کام کر رہی ہے۔ مارکیٹنگ کو میں اُردو میں کہوں تو بازار کام کر رہا ہے۔ بازار کام کر رہا ہے تو بازاری کام ہی ہو گا نا۔‘

’اس میں ایکٹرز کے لیے بہت زیادہ مارجن نہیں ہوتا۔ اُنھیں کہا جاتا ہے کہ اِس طرح کا کیریکٹر ہے، سٹیریو ٹائپ کیریکٹر ہوتے ہیں، اُن میں اُسی طرح کی کاسٹنگ ہوتی ہے کہ یار یہ بندہ اس میں صحیح ہو گا، اُس نے اُس والے میں بھی اتنا اچھا کیا تھا اُس کو رکھ لو۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ صورتحال بالکل ہی اندھیر نگری والی ہو۔ بیچ بیچ میں ضرور ایسا کام ہوتا ہے جس میں اپنا فن دِکھانے کا بھرپور موقع ملتا ہے۔ لیکن وہ مواقع کم ہوتے ہیں۔‘

لیکن کیا پاکستانی ڈرامے کبھی ریٹنگ اور ساس بہوؤں والی کہانیوں کے چکر سے باہر آ سکیں گے؟ راشد فاروقی پُرامید ہیں کہ یہ سلسلہ آخرِ کار ختم ہو جائے گا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ریٹنگ کے چکر کا مجھے نہیں پتا کہ یہ کس حد تک جائے گا اور کس حد تک رہے گا۔ البتہ ساس بہو والا ٹرینڈ چینج ہو گا۔ کوئی بھی ٹرینڈ بہت دیر تک نہیں رہتا۔ ابھی کوئی دوسرا ڈرامہ کسی اور طرح کا آ جائے گا تو ٹرینڈ اُس طرح کا چلا جائے گا۔‘

’ہر سوسائٹی میں دو طرح کی چیزیں ہوتی ہیں۔ ایک بازاری چیزیں ہوتی ہیں اور ایک غیر بازاری چیزیں ہوتی ہیں۔ وہ اسی طرح چلے گا۔ آپ کچھ بھی کر لیں۔ آپ کہیں کہ جی اب ایسا ہو جائے کہ ہماری جو پوری انڈسٹری ہے وہ بہت سنجیدہ لوگوں پر مشتمل ہو اور سنجیدہ کام ہو رہا ہو تو ایسا نہیں ہو گا۔ بازار بھی ہے تو بازاری کام بھی ہو گا اور آرٹ ہے تو آرٹسٹک کام بھی ہو گا۔‘

’میں نے پیسے نہیں کمائے‘

راشد فاروقی

،تصویر کا ذریعہRashid Farooqi/ Instagram

،تصویر کا کیپشنسنہ 2019 میں ریلیز ہونے والی فلم ’لال کبوتر‘ میں راشد فاروقی نے انسپکٹر ابراہیم کا کردار نبھایا تھا اور شاید یہ پاکستان کی وہ واحد فلم ہے جو انتہائی کم بجٹ میں بنی

راشد فاروقی نے 1991 میں تھیٹر سے اپنے کریئر کا آغاز کیا اور پھر بے شمار ڈرامے اور کئی فلمیں کیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انھیں بچپن سے اداکاری شوق نہیں تھا، وہ بطور کلرک ایک سرکاری نوکری کر رہے تھے کہ حادثاتی طور پر اس پیشے میں آ گئے اور پھر کبھی کوئی اور کام نہیں کیا۔

وہ بتاتے ہیں کہ اُن کے والدین حیران تھے کہ وہ اداکاری کو باقاعدہ پیشے کے طور پر اپنانا چاہتے ہیں۔ راشد فاروقی کے الفاظ میں ’میری والدہ نے بھی کہا کہ پاگل واگل تو نہیں ہے۔ کہیں ایسا بھی ہوتا ہے کوئی ایکٹنگ سے بھی کھاتا ہے! میں نے کہا میں تو کھاؤں گا۔‘

مزید پڑھیے

وقت کے ساتھ لوگوں نے تسلیم کیا کہ اِس پیشے میں رہ کربھی کمایا جا سکتا ہے۔ لیکن راشد فاروقی بتاتے ہیں کہ اُن کی بیگم اُن کے کام سے متاثر نہیں ہوتیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’کوئی بھی بیگم اپنے میاں کے سامنے یہ نہیں کہے گی کہ واہ تم کیا آدمی ہو، زبردست ہو لیکن اندر سے فخر ہی کرتی ہوں گی۔‘

انھوں نے کہا کہ ’میں نے پیسے نہیں کمائے۔ مجھے پیسے سے کوئی بہت زیادہ دلچسپی نہیں ہے۔ مجھے صرف اتنا پیسا چاہیے ہوتا ہے جتنی میری ضرورت ہے۔ تو ظاہر ہے میں بہت اچھا اور بہت بڑا گھر نہیں بنا سکا ہوں گا۔ یا میں بہت سی ضرورتیں وقت پر پوری نہیں کر سکوں گا۔ اُس کو میری ذات سے بہت ساری تکلیفیں ہوئی ہوں گی۔‘

نوے کی دہائی میں مداحوں سے ملنے والی پذیرائی

راشد فاروقی نے بتایا کہ ’میں نے ایک ہی ڈرامہ کیا تھا جس سے مجھے مقبولیت ملی تھی۔ میری بیوی کو نہیں پتا تھا کہ یہ کیا شخصیت ہے۔ ہم ہنی مون کے سوات گئے تھے۔ وہاں پر کالج کی ایک بس تھی جس میں سٹوڈنٹس پکنک منانے آئے ہوئے تھے۔‘

’اُس وقت سیلفی کا رواج نہیں تھا۔ فون نہیں ہوتے تھے۔ انھوں نے آٹوگراف لیے، کھڑے ہو کر باتیں کیں۔پھر ایک ہوٹل میں ہم کھانا کھا رہے تھے کہ ایک اور ٹیبل سے ایک صاحب نے ہمیں دو آم بھیجے۔ میں نے شکریہ ادا کیا تو انھوں نے کہا کہ آپ کو ہم دیکھتے ہیں ٹی وی پر تو ہم نے کہا آپ سے ہیلو ہائے کریں۔ تو اُس وقت مجھے بہت خوشی ہوئی۔ بیوی کے سامنے ذرا چوڑا ہو گیا کہ ہم بھی کچھ ہیں۔‘