کیا اب ٹیکنالوجی سے دور رہنے کا مطلب اپنے پیاروں سے بھی دوری ہوگا؟

خاتون

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, سوفیہ ایپسٹین
  • عہدہ, ورک اِن پراگریس

فروری میں ، یہ خبر سامنے آئی کہ ریاست کیلیفورنیا میں قائم انٹرنیٹ مارکیٹِنگ کی کمپنی ’سیلز فورس‘ کے سربراہ مارک بینوف نے اپنے دماغ کو ڈجیٹل آلات کے ’زہر سے پاک‘ کرنے کے لیے دس دن فرانس کے سیاحتی مقام پولینیشین ریزوٹ پر گزارے ہیں۔

مارک بینوف یا لوگوں کے ایک چھوٹے گروپ کے لیے جدید فون وغیرہ سے چند دن دور رہ کر ’ڈیجیٹل ڈیٹاکس‘ کرنا ایک قابل حصول خواب ہے، لیکن زیادہ تر لوگوں کے لیے یہ ایک ناممکن کام ہے، خاص طور پر آج کل۔

ڈجیٹل ڈیٹاکس کے لیے ضروری ہے کہ آپ کئی دنوں کے لیے اپنے تقریباً تمام ڈجیٹل آلات الماری میں رکھ دیں یعنی نہ تو سکرینوں کو دیکھیں، نہ سوشل میڈیا پر جائیں اور نہ کسی ویڈیو کانفرنس میں شرکت کریں۔ اس ڈجیٹل ڈیٹاکس کا مقصد اپنے دل و دماغ میں تناؤ یا اضطراب کو کم کرنا اور اپنے اردگرد کی حقیقی دنیا کے ساتھ دوبارہ منسلک ہونا ہے۔ یہ نیت تو اچھی ہے۔

اگرچہ سائنسی طور پر یہ ثابت نہیں ہوا ہے کہ چند دنوں کے لیے ٹیکنالوجی سے پرہیز واقعی ہمارے لیے فائدہ مند چیز ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ڈجیٹل ڈیٹاکس کا خیال دم توڑ رہا ہے، بلکہ یہ اب ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے۔

تاہم جب 2012 میں یہ اصطلاح پہلی مرتبہ استعمال کی گئی تھی، اس کے مقابلے میں آج کل اس چیلنج کو پورا کرنا کہیں زیادہ مشکل ہو گیا ہے۔

سنہ 2012 میں بھی کپمیوٹر اور فون سکرین اہم ہو چکی تھی اور سوشل میڈیا کے علاوہ کئی دوسری ایپس بھی اپنی ابتدائی شکل میں ہماری زندگی کا حصہ بن گئی تھیں۔ لیکن اس کے باوجود بھی اُن برسوں میں ڈجیٹل ڈیٹاکس آج کے مقابلے میں بچوں کا کھیل ہوتا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آج ہماری زندگی ٹیکنالوجی کے ساتھ اتنی زیادہ جُڑی ہوئی ہے کہ اسے الگ کرنا ناممکن ہو چکا ہے۔ سٹور میں خریداری کے بعد ہم ادائیگی فون کے ذریعے کرتے ہیں، ہم دفتر کا سارا کام کمپیوٹر پر کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ دیگر لوگوں سے اپنے تعلقات قائم رکھنے کے لیے مختلف ایپس استعمال کرتے ہیں۔ مزید یہ کہ کرونا کی وبا کے بعد سے ہماری زندگی اور ٹیکنالوجی کے درمیان تعلق بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ہم سنہ 2023 میں ڈجیٹل ڈیٹاکس کا سوچ رہے ہیں تو سمجھ نہیں آتی کہ آخر ہم شروع کہاں سے کریں؟

ماہرین کا کہنا ہے کہ چند دنوں کے لیے فون کے بغیر کسی دور دراز کے صحرا میں بھاگ جانے کے باوجود زیادہ تر لوگوں کے لیے ڈجیٹل ڈیٹاکس اب ممکن نہیں ہے۔

امریکی شہر سئیٹل سے تعلق رکھنے والی کنسلٹنٹ ایملی چرکن کہتی ہیں کہ ’ٹیکنالوجی اب ہمارا ایک حصہ ہے، ہم ایک ایپ کے ذریعے بینکنگ کرتے ہیں، فون پر ریستوران کے مینو پڑھتے ہیں اور یہاں تک کہ ورزش کرانے والے انسٹرکٹر کے ساتھ پسینہ بھی سکرین کے سامنے ہی بہاتے ہیں۔ ٹیکنالوجی ہماری زندگیوں میں اس قدر سرایت کر چکی ہے کہ اگر ہم یہ دعویٰ کریں کہ ہم ایک ہفتے کے لیے ’فون فری‘ ہونے جا رہے ہیں تو ہم اصل میں خود کو ناکامی کے لیے تیار کر رہے ہیں۔‘

جوں جوں ٹیکنالوجی پر لوگوں کا انحصار بڑھتا جا رہا ہے، لگتا نہیں کہ ڈجیٹل ڈیٹاکس کرنا کوئی قابل عمل حل ہے۔ لیکن ٹیکنالوجی کے زہر سے خود کو محفوظ رکھنے کے کئی دوسرے زیادہ قابل عمل طریقے اپنا سکتے ہیں جن کے ذریعے ہم ٹیکنالوجی سے مکمل کنارہ کشی کیے بغیر بھی، اپنی عادت پر قابو پا سکتے ہیں۔

سکرین، سکرین اور پھر سکرین

لوگ پہلے ہی اپنا بہت سا وقت ٹیکنالوجی پر صرف کر رہے تھے لیکن کورونا کی وبا کی وجہ سے ہمارے ’سکرین ٹائم‘ میں بہت تیزی آ گئی ہے۔ اس بات سے کوئی انکار نہیں کرتا کہ لاک ڈاؤن کے دوران لوگ بہت زیادہ وقت سکرین کے سامنے گزارتے رہے ہیں، خاص طور پر دوسرے لوگوں سے رابطہ قائم رکھنے کے لیے۔ لیکن اب لاک ڈاؤن ختم ہونے کے باوجود بھی جب لوگ گھروں سے باہر جانے میں آزاد ہیں، ہماری یہ عادت ختم نہیں ہوئی ہے۔

برطانیہ کی یونیورسٹی آف لیڈز نے 2022 میں ایک تحقیق کی تھی جس سے معلوم ہوا کہ برطانوی بالغ افراد میں سے 54 فیصد ایسے ہیں جو وبا سے پہلے کے مقابلے میں اب زیادہ وقت سکرین پر گزار رہے ہیں۔ اس جائزے میں شامل نصف افراد ہر روز 11 گھنٹے یا اس سے زیادہ وقت تک سکرین دیکھتے ہیں۔ 51 فیصد افراد وبا سے پہلے کے مقابلے میں اب زیادہ وقت سکرین پر گزار رہے ہیں جبکہ 27 فیصد کا کہنا تھا کہ وہ کام کے دوران زیادہ سکرین استعمال کر رہے ہیں۔

سکرین ٹائم میں اس اضافے نے ہمارے ایک دوسرے سے رابطے کے طریقے کو بھی بدل دیا ہے اور ہم اپنے اہم تعلقات کے لیے ڈجیٹل ذرائع استعمال کر رہے ہیں۔ ہم نے ان را بطوں اور تعلقات کے لیے واٹس ایپ گروپ اور کمیونٹیز بنا لی ہیں اور جہاں لوگ ہر دو ہفتے بعد کھانے پر اپنے خاندان کے لوگوں سے ملتے تھے اب اس کی جگہ ہفتہ وار ’فیس ٹائم کالز‘ نے لے لی ہے۔ یوں کووڈ 19 نے ہمارے بہت سے رابطوں کو ڈجیٹل دائرے میں آنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب ڈجیٹل ڈیٹاکس کا مطلب صرف یہ نہیں کہ آپ اپنے باس یا دوسرے دفتری ساتھیوں سے ’چیٹ‘ کرنا چھوڑ دیں بلکہ ڈیٹاکس کے لیے یہ بھی ضروری ہوگا کہ آپ کچھ عرصے کے لیے اپنے قریبی اور عزیز ترین لوگوں کے ساتھ تعلقات بھی منقطع کریں۔

گزشتہ برسوں میں جوں جوں انٹرنیٹ پر ڈیٹنگ کا رواج زیادہ ہوتا گیا، دوستیاں بنانے میں بھی ٹیکنالوجی کا کردار مرکزی ہو گیا ہے اور یقیناً وبا کے دنوں میں اس رجحان میں مزید اضافہ ہوا ہے۔

بی بی سی نے آن لائن ڈیٹنگ کی بڑی ایپ ’بمبل‘ کے اعدادوشمار کا جائزہ لیا ہے جس کے مطابق سنہ 2020 کے بعد سے اس کے صارفین میں خاصا اضافہ ہوا ہے۔ سنہ 2021 کے آخری دنوں میں بمبل کے چار کروڑ 20 لاکھ صارفین میں سے تقریباً 15 فیصد ایسے تھے جو کسی دوست کی تلاش میں تھے۔ یوں گزشتہ برس کے مقابلے میں ان صارفین کی تعداد میں دس فیصد اضافہ ہو چکا تھا۔ اور پھر سنہ 2022 کے آخر تک بمبل پر دوست تلاش کرنے والے مردوں کی تعداد میں مزید 26 فیصد کا اضافہ ہو چکا تھا۔

اس حوالے سے سات سو سے زیادہ سینسرز، آلات اور ایپس کا جائزہ لینے والے ماہر، کرس ڈینسی کا کہنا تھا کہ ’آپ اسے اچھا کہیں یا برا، لیکن بہت سے لوگوں کے لیے ٹیکنالوجی ہی رابطوں کا بڑا ذریعہ بن گئی ہے۔ یہ بات بہت سے بچوں، والدین، جیون ساتھیوں اور دوستوں کے حوالے سے درست ہے۔ مجھے یہ کہتے ہوئے بہت برا لگ رہا ہے، لیکن (یہ سچ ہے کہ) لوگ اب یہ بھول گئے ہیں کہ ٹیکنالوجی کے بغیر ایک دوسرے سے رشتے کیسے بناتے ہیں۔‘

سکرین

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

سکرین ٹائم میں اس اضافے نے ہمارے ایک دوسرے سے رابطے کے طریقے کو بھی بدل دیا ہے

نقطہ نظر میں تبدیلی

وبا کے دوران ہر ہفتے کچھ دن گھر سے کچھ دفتر میں کام کرنے کا رواج یا ’ہائبرڈ‘ ماڈل تقریباً دنیا بھر میں عام ہو گیا اور اکثر ممالک میں وبا ختم ہونے کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ یوں ہائبرڈ کام اور ہائبرڈ تعلقات کے اس دور میں ڈجیٹل ڈیٹاکس کا روایتی خیال بھی فرسودہ ہوگیا ہے اور اس پر عمل تقریباً ناممکن ہو گیا ہے۔

ڈجیٹل ڈیٹاکس کو اکثر ایک ایسی تکنیک سمجھا جاتا ہے جس کی مدد سے آپ اضطراب سے جان چھڑانے کے لیے کچھ دنوں کے لیے سکرینوں سے دور چلے جاتے ہیں اور اپنے ارد گرد کی حقیقی دنیا سے دوبارہ جُڑ جاتے ہیں۔ لیکن چونکہ اب ماضی کے مقابلے میں لوگوں کا رہن سہن اور ٹیکنالوجی آپس میں اتنے گڈ مڈ ہو چکے ہیں کہ انھیں الگ نہیں کیا جا سکتا، اس لیے اگر آج ہم ان دونوں کو ایک دوسرے سے الگ کرنے کی کوشش کریں گے تو ہو سکتا ہے ہماری پریشانی اور اضطراب میں کمی ہونے کی بجائے اضافہ ہو جائے۔

برطانیہ کی ٹیسائیڈ یونیورسٹی میں ڈیجیٹل انٹرپرائز کے سینئر لیکچرر سینا جونیڈی کہتے ہیں کہ ’میں ٹیکنالوجی کو بند نہیں کر سکتا کیونکہ ہم آج کل بہت سی مختلف وجوہات کی بنا پر سکرین پر موجود رہتے ہیں۔‘

سینا جونیڈی ڈجیٹل ڈیٹاکس کو مختلف انداز میں دیکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بدھ مت میں ’خواہشمندانہ لگاؤ‘ کا نظریہ پایا جاتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی انسان کسی چیز کی خواہش اس لیے کرتا ہے کہ وہ چیز ملنے سے اسے خوشی ہو گی، لیکن ڈجیٹل ڈیٹاکس کا معاملہ اس سے الٹ ہے کیونکہ ڈیٹاکس کے دوران جب آپ ٹیکنالوجی سے دور ہو جاتے ہیں تو آپ کی بے چینی کم ہونے کی بجائے بڑھ جاتی ہے۔

سینا جونیڈی کہتے ہیں کہ وہ ٹیکنالوجی کو مکمل طور پر ختم کرنے کے بجائے اپنی ذہن سازی پہ کام کرتے ہیں۔’میں اس بات کو یقینی بناتا ہوں کہ میرا ٹیکنالوجی کا استعمال بامقصد ہو۔ ڈیجیٹل ذہن سازی کچھ لوگوں کے لیے مکمل ڈیٹاکس کے بجائے زیادہ بہتر حکمت عملی ہوسکتی ہے، یعنی ٹیکنالوجی کو مکمل طور پر ختم کرنے کے بارے میں فکر کم کریں بلکہ اس کا استعمال سوچ سمجھ کر کریں۔‘

اس لیے وہ کہتے ہیں کہ ٹیکنالوجی کے نشے کی لت میں مبتلا ہونے کے بجائے، صارفین ڈجیٹل طور پر زیادہ ہوشیار ہو کر ٹیکنالوجی کے ساتھ بھی اپنی زندگی کو بہتر بنا سکتے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر لوگ مکمل طور پر سکرینوں سے دور نہیں جا سکتے تو بھی کچھ مخصوص قسم کی ٹیکنالوجی پر توجہ دینے سے انھیں ٹیکنالوجی کو زیادہ سوچ سمجھ کر استعمال کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

امریکی ریاست اوریگون سے تعلق رکھنے والی ماہر بشریات امبر کیس کہتی ہیں کہ ’میں نے اپنے فون پر ٹریکنگ کے بہت سے مختلف ٹولز استعمال کرنا شروع کیے‘ تو انھیں معلوم ہوا کہ وہ دن میں 80 مرتبہ انسٹاگرام پر کلک کرتی ہیں۔ لہذا انھوں نے اپنے فون پر ’ون سیکنڈ‘ نامی پلگ اِن ڈاؤن لوڈ کرلیا جس سے صارفین اپنے فون پر موجود ایپس کھولنے اور ان تک رسائی حاصل کرنے سے پہلے گہری سانس لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ یہ پلگ اِن صارفین کو لاگ آن کرنے سے پہلے ایک لمحہ رک جانے پر مجبور کرتا ہے اور انھیں بلا سوچے سمجے ایپ کھولنے یا ’آٹو پائلٹ موڈ‘ میں جانے سے دور رکھتا ہے۔

امبر کیس یہ مشورہ بھی دیتی ہیں کہ ہمیں فون پر مسلسل سکرول کرتے جانے کی عادت کو بھی بدلنا چاہیے۔ اس کے لیے ہمیں چاہیے کہ جب ہمیں واقعی ’ضرورت نہ ہو‘ تو اپنا فون اپنے سے دور کسی جگہ رکھ دیں۔

’لوگ اپنے فون پر ایسے ہی کش لیتے رہتے ہیں جیسے آپ سگریٹ کے کش لیتے ہیں۔ اصل میں وہ اپنے خالی وقت کو دوسرے لوگوں کے خیالات سے بھرنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔‘ امبر کیس کہتی ہیں کہ اس کی بجائے لوگوں کو چاہیے کہ وہ آرام سے بیٹھے خلا میں گھورتے رہیں اور خود کو ایک منٹ کے لیے بے خیال ہو کر بور یا بیزار ہونے دیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ آپ کا مقصد یہ نہیں ہونا چاہیے کہ ٹیکنالوجی کو اپنی زندگی سے منقطع کر دیا جائے یا اسے مکمل روک دیا جائے یا اپنے دماغ پر یہ دباؤ ڈالا جائے کہ میں ٹیکنالوجی سے جان کیوں نہیں چھڑا پا رہا۔ لوگوں کو اب بھی ای میل بھیجنے یا اپنے فون کی سکرین سے تصویر اور دیگر مواد کو ہٹانے کی ضرورت پڑتی ہے ، لیکن لوگ اب آن لائن مواد میں بھٹکے بغیر بھی یہ کام کر سکتے ہیں۔

ڈینسی اس نقطہ نظر کو ’گرے ڈیٹاکسنگ‘ کہتے ہیں، یعنی نہ مکمل سفید نہ سیاہ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نہ تو آپ ٹیکنالوجی میں غرق رہیں اور نہ اسے مکمل طور پر ترک کر دیں۔ اور اس ہدف تک پہنچنے کا صرف ایک طریقہ نہیں بلکہ آپ اس حوالے سے مختلف طریقے اپنا سکتے ہیں۔

ڈینسی جو طریقے بتاتے ہیں اس میں اپنے فون پر کوئی ایسی ایپ یا پلگ اِن ڈاؤن لوڈ کرنا شامل ہے جس کی مدد سے آپ اپنی ترجیحات کو پوشیدہ رکھ سکتے ہیں اور یوں سوشل میڈیا پر آپ غیر متعلقہ مواد سے جان چھڑا سکتے ہیں۔ ایک اور طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ آپ اپنے گھر کے کسی دوسرے فرد سے فون بدل لیں، مثلاً میاں بیوی آپس میں فون بدل لیں تاکہ آپ دونوں ایک دوسرے کی سکرینوں کے ذریعے آپس میں جُڑ سکیں۔

’ہر آخر ہفتہ یا ویک اینڈ پر میں اپنے شوہر کا فون استعمال کرتی ہوں اور وہ میرا فون۔‘ دونوں ایک دوسرے کے فون پر آنے والے پیغامات کا جواب دیتے ہیں، ایک دوسرے کی پسند کا میوزک سنتے ہیں۔

’یہ دراصل ایک دوسرے کی زندگی میں غرق ہونے جیسا ہے، یعنی دوسرے کی ڈجیٹل زندگی میں اور بعض اوقات ان کی نجی زندگی میں بھی۔‘

اگر آپ ارب پتی نہیں ہیں تو شاید آپ کے لیے ڈیٹاکس کا سنہ 2012 والا طریقہ متروک ہو چکا ہے، لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ ہم باقی ساری زندگی بغیر سوچے سمجھے اپنے فون پر سکرول کرنے میں گزار دیں۔ ایک ہفتہ فون سے دور رہ کر خود کو مزید پریشان کرنے کی بجائے ہم سکرین پر اپنے وقت کو درست انداز میں گزار سکتے ہیں، اپنی اپنی ذاتی زندگی کے مطابق۔ ہمارے لیے دس دنوں کے لیے فرانس کے سیاحتی مقام ’پولینیشین ریزورٹ‘ پر جانا ضروری نہیں ہے۔