گاندھی کی تعلیمی قابلیت اور قانون کی ڈگری کی حقیقت کیا ہے؟

Gandhi

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, دیپک منڈل
  • عہدہ, بی بی سی نامہ نگار

انڈیا میں آج کل گاندھی کی تعلیمی قابلیت اور ڈگری سے متعلق بحث جاری ہے اور اس کا آغاز اس وقت ہوا جب انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے نائب گورنر منوج سنہا نے 23 مارچ کو ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ موہنداس کرمچند گاندھی کے پاس یونیورسٹی کی کوئی ڈگری نہیں تھی۔

انھوں نے کہا کہ پڑھے لکھے لوگوں کو بھی یہ غلط فہمی ہے کہ گاندھی کے پاس قانون کی ڈگری تھی لیکن گاندھی کے پاس کوئی ڈگری نہیں تھی۔

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے نائب گورنر نے گوالیار میں آئی ٹی ایم یونیورسٹی میں ڈاکٹر رام منوہر لوہیا کے لیکچر میں بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔ یہاں ڈاکٹر منوہر لوہیا کی ایک کتاب کے اجراء کے بعد منوج سنہا نے گاندھی جی کی تعریف کرتے ہوئے اپنی تقریر کا آغاز کیا۔

انھوں نے کہا ’گاندھی نے بہت اچھا کام کیا، میں دہرانا نہیں چاہتا۔ ملک کو آزادی دلوائی، لیکن جو کچھ بھی حاصل ہوا اس کے مرکز میں صرف ایک چیز تھی، سچائی۔‘

’وہ اپنی ساری زندگی سچائی کے پابند رہے، اور انھوں نے سچائی کا ہی ساتھ دیا۔ ان کی زندگی کے ہر پہلو کو پرکھیں تو ان کی زندگی میں اور کچھ نہیں تھا۔ صرف چیلنجز اور آزمائشیں تھیں۔ سچ نے کبھی ہار نہیں مانی تھی اسی طرح مہاتما گاندھی نے اپنے اندر کی آواز کو پہچان لیا تھا اور اس ہی وجہ سے وہ بابائے قوم بن گئے۔

گاندھی کی تعلیمی قابلیت پر سوال

گاندھی

،تصویر کا ذریعہGANDHI NATIONAL MUSEUM

منوج سنہا نے گاندھی کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کی تعلیمی قابلیت پر سوال اٹھایا۔

انھوں نے اپنے خطاب کے دوران دعویٰ کیا کہ ’میں آپ کو ایک اور بات بتانا چاہتا ہوں، ملک کے بہت سے لوگوں اور خصوصاً پڑھے لکھے لوگوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ موہنداس کرمچند گاندھی کے پاس قانون کی ڈگری تھی، ان کے پاس کوئی ڈگری نہیں تھی۔ کچھ لوگ یقیناً میری اس بات کے کے بعد جوابی کارروائی کریں گے۔ لیکن میں حقائق کے ساتھ مزید بات کروں گا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’کون کہے گا کہ گاندھی پڑھے لکھے نہیں تھے، مجھے نہیں لگتا کہ کسی میں یہ کہنے کی ہمت ہے۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ ان کے پاس ایک بھی یونیورسٹی کی ڈگری یا تعلیمی قابلیت نہیں تھی۔‘

سنہا نے کہا کہ ’ہم میں سے بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ ان کے پاس قانون کی ڈگری تھی۔ لیکن ایسا نہیں ہے، ان کی واحد تعلیمی قابلیت ہائی سکول ڈپلومہ تھی۔‘

Twitter پوسٹ نظرانداز کریں, 1
Twitter کا مواد دکھانے کی اجازت دی جائے؟?

اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔

تنبیہ: بی بی سی دیگر ویب سائٹس کے مواد کی ذمہ دار نہیں ہے۔

Twitter پوسٹ کا اختتام, 1

جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر نے کہا کہ ’گاندھی اگرچہ قانون کی پریکٹس کرنے کے اہل تھے لیکن ان کے پاس قانون کی ڈگری نہیں تھی، لیکن دیکھیں کہ ان میں بابائے قوم بننے کے لیے کتنی قابلیت تھی۔‘

منوج سنہا نے اپنی تقریر میں گاندھی کی ڈگریوں کے بارے میں کہا کہ وہ اس پر حقائق کے ساتھ بات کریں گے۔ لیکن انھوں نے ایسے کوئی حقائق فراہم نہیں کیے، جن سے ان کے دعوؤں کی تصدیق ہوتی ہو۔لیکن موہنداس کرمچند گاندھی کی تعلیم سے متعلق دستاویزات منوج سنہا کے دعوؤں کے برعکس حقائق پیش کرتی ہیں۔

بی بی سی ہندی کی نیشنل گاندھی میوزیم سے حاصل کردہ دستاویزات کے مطابق، گاندھی نے اپنی قانون کی ڈگری انر ٹیمپل سے حاصل کی، جو کہ لندن یونیورسٹی سے منسلک ایک لاء کالج ہے۔

گاندھی کو 1891 میں بار ایٹ لا سرٹیفکیٹ جاری کیا گیا تھا۔ اس سرٹیفکیٹ کے علاوہ بار کے سامنے گاندھی کی دستخط شدہ دستاویز بھی موجود ہے۔

انر ٹیمپل میں ان کی وکالت کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے داخلے کی دستاویز بھی موجود ہے۔ اس دستاویز کا نمبر 7910 ہے۔ اس میں ان کے انر ٹیمپل میں داخلہ فارم بھی موجود ہے۔ اس دستاویز میں داخلہ کے اخراجات، سٹیمپ ڈیوٹی، لیکچر میں شرکت کی فیس وغیرہ درج ہے۔

لندن میں قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد گاندھی ہندوستان واپس آئے اور بمبئی ہائی کورٹ میں قانون کی پریکٹس شروع کی۔ لیکن یہاں ان کی وکالت چل نہ سکی تھی۔

گاندھی

،تصویر کا ذریعہGANDHI NATIONAL MUSEUM

گاندھی کی تعلیمی قابلیت کے دستاویزات کیا کہتے ہیں؟

گاندھی

،تصویر کا ذریعہGANDHI RASHTRIYA SANGHRALYA

بی بی سی نے نیشنل گاندھی میوزیم سے جو دستاویزات حاصل کی ہیں ان میں گاندھی کی جانب سے لکھی گئی ایک درخواست کی کاپی شامل ہے جسے 2020 میں دہلی ہائی کورٹ میں ’گاندھی بطور وکیل‘ کے عنوان سے نمائش میں شامل کیا گیا تھا۔ انھوں نے یہ درخواست بمبئی ہائی کورٹ میں پریکٹس شروع کرنے کے لیے دی تھی۔ درخواست 1891 میں دی گئی تھی۔ اس دستاویز پر گاندھی کے دستخط بھی ہیں۔

لیکن گاندھی کی وکالت بمبئی ہائی کورٹ میں نہ چل سکی اور وہ کاٹھیاواڑ پولیٹیکل ایجنسی میں پریکٹس کرنے راجکوٹ چلے گئے۔

راجکوٹ پولیٹیکل ایجنسی گزٹ میں بھی وہاں کی عدالتوں میں گاندھی کی پریکٹس کی درخواست کا نوٹس دیا گیا ہے۔

اسی طرح سنہ 1892میں جاری ہونے والی ایجنسی کے نوٹیفکیشن نمبر 16 میں کہا گیا ہے کہ ’بیرسٹر آف لاء مسٹر ایم کے گاندھی نے کاٹھیاواڑ پولیٹیکل ایجنسی کی عدالتوں میں پریکٹس کرنے کی اجازت مانگی تھی اور اسے دی گئی تھی۔‘

تاہم کاٹھیاواڑ میں بھی انھیں وکالت کی پریکٹس میں کوئی خاص کامیابی نہیں ملی۔

سنہ 1893 میں کاٹھیاواڑ کے ایک مسلمان تاجر دادا عبداللہ نے موہن داس کرم چند گاندھی سے رابطہ کیا۔ دادا عبداللہ کا جنوبی افریقہ میں شپنگ کا کامیاب کاروبار تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ گاندھی وہاں جائیں اور ان کے کاروباری مقدمات لڑیں۔

دادا عبداللہ کے دور کے رشتہ دار کے بھائی کو بھی وکیل کی ضرورت تھی اور وہ چاہتے تھے کہ وکیل کاٹھیاواڑی ہو تو بہتر رہے گا۔

دادا عبداللہ کی دعوت پر گاندھی افریقہ بھی گئے۔ انھیں دادا عبداللہ کے مقدمات لڑنے کے لیے ایک سال تک جنوبی افریقہ کے شہر نٹال میں رہنا پڑا۔ اس وقت جنوبی افریقہ بھی انگریزوں کی کالونی تھا۔

اپریل 1893 میں 23 سال کی عمر میں گاندھی عبداللہ کے کزن کے وکیل بننے کے لیے جنوبی افریقہ پہنچے۔

گاندھی

،تصویر کا ذریعہGANDHI RASHTRIYA SANGHRALYA

گاندھی کے پوتے کا کیا کہنا ہے؟

گاندھی کی ڈگریوں پر منوج سنہا کے دعوے کے بعد ان کے پوتے تشار گاندھی نے بھی رد عمل ظاہر کیا۔ انھوں نے سلسلہ وار ٹویٹس کر کے منوج سنہا کے دعوے کی تردید کی۔

ایک ٹویٹ میں انھوں نے لکھا کہ ’موہنداس کرمچند گاندھی نے دو بار میٹرک کیا۔ ایک الفریڈ ہائی سکول راجکوٹ سے اور دوسرا لندن میں برٹش میٹرک کے برابر۔ انھوں نے لندن یونیورسٹی سے منسلک ایک لاء کالج، انر ٹیمپل س قانون کی تعلیم حاصل کی۔‘

Twitter پوسٹ نظرانداز کریں, 2
Twitter کا مواد دکھانے کی اجازت دی جائے؟?

اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔

تنبیہ: بی بی سی دیگر ویب سائٹس کے مواد کی ذمہ دار نہیں ہے۔

Twitter پوسٹ کا اختتام, 2

انھوں نے لکھا کہ ’گاندھی نے قانون کی ڈگری کے ساتھ ساتھ دو ڈپلومے حاصل کیے۔ ایک لاطینی میں اور دوسرا فرانسیسی زبان میں۔‘

Twitter پوسٹ نظرانداز کریں, 3
Twitter کا مواد دکھانے کی اجازت دی جائے؟?

اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔

تنبیہ: بی بی سی دیگر ویب سائٹس کے مواد کی ذمہ دار نہیں ہے۔

Twitter پوسٹ کا اختتام, 3

ایک اور ٹویٹ میں انھوں نے لکھا کہ ’میں نے باپو کی سوانح عمری جموں کے راج بھون میں اس امید کے ساتھ بھیجی ہے کہ لیفٹیننٹ گورنر اسے پڑھ کر علم حاصل کر سکیں گے۔‘