’یارکرز، جو ڈھونڈتے ڈھونڈتے میچ ہی کھو گیا‘ سمیع چوہدری کا کالم

پاکستان بمقابلہ افغانستان

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, سمیع چوہدری
  • عہدہ, کرکٹ تجزیہ کار

نسیم شاہ کے وہ دو چھکے زیادہ پرانے نہیں ہو پائے کہ ان کے گمراہ یارکرز پر دو نئے افغان چھکوں نے ایک نئی تاریخ رقم کر دی اور پہلی ہی دو طرفہ سیریز میں پاکستان پر اپنی برتری عیاں کر دی۔

سوال یہ نہیں کہ اگر بابر اعظم، محمد رضوان، حارث رؤف اور شاہین آفریدی اس سکواڈ کا حصہ ہوتے تو کیا یہ تاریخ پلٹی جا سکتی تھی بلکہ سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کے یہ نوجوان چہرے افغانستان کو قابو میں رکھنے کی صلاحیت رکھتے تھے؟

پی ایس ایل میں صائم ایوب کی پے در پے طوفانی اننگز ابھی چار ہی دن پہلے کی بات ہیں۔ طیب طاہر اپنی صلاحیت کے بل پر اس الیون کا حصہ بنے ہیں۔ اعظم خان کی میچ وننگ اننگز ان کے ٹیلنٹ کی شاہد ہیں۔ احسان اللہ پی ایس ایل کے کامیاب ترین بولرز میں سے ہیں۔ زمان خان مختصر سے کرئیر میں آخری اوور کے سپیشلسٹ کا درجہ حاصل کر چکے ہیں۔

زیادہ دن نہیں گزرے کہ محمد حارث ہی ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ میں پاکستان کی ڈوبتی ناؤ کو فائنل تک لانے کی کلید بنے تھے جبکہ عبداللہ شفیق کرئیر کے اوائل میں ہی اس کھیل کے عظیم ترین برجوں کے ہم پلہ اننگز کھیل چکے ہیں۔

یہ پچ اگرچہ ویسی سپن کی جنت نہیں تھی جیسی پچھلے میچ میں بچھائی گئی تھی مگر بہرطور بلے بازوں کے لیے یہ کٹھن ہی تھی۔ یہاں اننگز بڑھانے کو رکنا ضروری تھا مگر افغان پیسرز میں وہ درستی اور پھرتی تھی کہ حارث کی سی جوابی جارحیت کے سوا کوئی لائحہ عمل ممکن ہی نہیں تھا۔

مگر جو سوجھ بوجھ کی خطا شاداب خان سے ہوئی، وہ دراصل پاکستانی بیٹنگ کے لیے حرزِ جاں ہو رہی اور اس پچ کے اعتبار سے وہ مسابقتی مجموعہ یقینی نہ ہو پایا کہ جہاں سے پاکستانی بولنگ کو اکا دکا غلطیوں کی بھی گنجائش مل جاتی۔

شاداب خان

،تصویر کا ذریعہPCB

،تصویر کا کیپشناس بیٹنگ آرڈر میں شاداب خان ہی تجربہ کار ترین بلے باز تھے اور نجانے کیا سوچ کر انھوں نے ساتویں نمبر پر بیٹنگ کو ترجیح دی

شاداب خان بطور بلے باز مؤثر ہمیشہ تبھی ہوئے ہیں جب انھیں کریز پر زیادہ سے زیادہ رکنے کا موقع ملا ہے اور یہ بات بھی یقیناً ان سے پوشیدہ نہ ہو گی کہ ٹی ٹوئنٹی بیٹنگ میں مڈل آرڈر ہی اننگز کی سمت طے کیا کرتا ہے جبھی دنیا کی کامیاب ترین ٹیمیں اپنے تجربہ کار ترین بلے بازوں کو چوتھے نمبر پر کھلاتی ہیں۔

اس بیٹنگ آرڈر میں شاداب خان ہی تجربہ کار ترین بلے باز تھے اور نجانے کیا سوچ کر انھوں نے ساتویں نمبر پر بیٹنگ کو ترجیح دی حالانکہ بعد ازاں عماد وسیم کے ہمراہ وہی مڈل آرڈر کے مؤثر ترین کھلاڑی ثابت ہوئے۔

یہیں اگر وہ دباؤ کے ہنگام اپنے نوآموز بلے بازوں کے لیے ڈھال بن جاتے تو حالات یکسر مختلف ہو سکتے تھے۔

جو ہمت اور استقامت عماد وسیم نے دکھائی، وہی کچھ شاداب خان بھی کر سکتے تھے مگر بے وجہ دور اندیشی آڑے آ گئی اور وہ ڈیتھ اوورز تک ڈریسنگ روم میں رکنے کو بہتر جانے حالانکہ اگر پاکستانی بیٹنگ یہاں 140 رنز بھی جوڑ پاتی تو اس پچ پر اسی بولنگ اٹیک کے ساتھ دفاع ممکن تھا۔

مگر المیہ تو یہ ہے کہ بولنگ تبدیلیوں کے بیچ بھی شاداب خان جیت کے عین قریب آ کر ہار کی طرف نکل گئے۔

نسیم شاہ کا پہلا اوور بھی ان کے آخری اوور سے کچھ الگ نہیں تھا اور درستی کا تقاضہ کرتی پچ پر بے سبب زور آزمائی اسی انجام کی مستحق بھی تھی لیکن احسان اللہ اور زمان خان نے دباؤ واپس افغان اوپنرز کو لوٹایا اور مڈل اوورز میں محمد نواز کے سپیل نے باؤنڈریز کا کال پیدا کیا۔

خود شاداب خان نے اپنے تیسرے اوور میں صرف ایک رن دیا مگر جہاں سپن اس قدر مؤثر ثابت ہو رہی تھی، وہاں شاداب خان اور عمر گل نے نسیم شاہ کے تجربے سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔

جہاں سست رفتار گیند وکٹ سے گرفت لے رہی تھی اور بلے بازوں کو ٹائمنگ میں دقت دے رہی تھی، وہاں نسیم شاہ کے آتے ہی گیند بلے کے بیچ ٹکرانے لگا اور کئی اوورز سے جمود کا شکار سکور کارڈ پھر تیزی سے چل پڑا۔

شاداب خان کے لیے امکانات کا دائرہ اس قدر وسیع تھا کہ وہ اس کی وسعت کی تاب نہ لا پائے اور تین سپنرز دستیاب ہونے کے باوجود گیارہ اوورز پیسرز کو سونپ دیے جبکہ نسیم شاہ پہلے اوور سے ہی مہنگے ثابت ہو رہے تھے۔

یہاں وکٹ گرانے کی ضرورت ہی نہ تھی۔ بس حالات کو اس نہج پر لانا تھا کہ رن ریٹ کا دباؤ اعصاب پر سوار ہوتا اور افغان بلے بازی کسی مضحکہ خیز انہدام کا شکار ہو جاتی اور اگر وکٹ لینا بھی مقصود تھا تو عماد وسیم کے سست وار نسیم شاہ کے ان تیز ترین یارکرز سے کہیں مؤثر ہو سکتے تھے جنھیں ڈھونڈتے ڈھونڈتے میچ ہی کھو گیا۔