تین دن میں اقلیتی برادری کے تین افراد کا قتل: ’یہ کوئی اناڑی نہیں انتہائی تربیت یافتہ شارپ شوٹر تھا‘

سردار دیال سنگھ، کاشف مسیح، ڈاکٹر بیربل گیانی

،تصویر کا ذریعہCredit: Asif, Radhish singh Toni

  • مصنف, محمد زبیر خان
  • عہدہ, صحافی

’سردار دیال سنگھ انتہائی بے ضرر انسان تھے۔ ان کی کسی کے ساتھ کوئی دشمنی نہیں تھی۔ وہ غم روزگار کے مارے ہوئے تھے، کسی کے ساتھ کیا دشمنی کرتے؟‘

یہ کہنا ہے سردار گوپال سنگھ چاولہ کا جو پشاور میں ہلاک ہونے والے سردار دیال سنگھ کے قریبی عزیز ہیں۔

گزشتہ تین دنوں میں کراچی اور پشاور میں مجموعی طور پر اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے تین افراد کو ہلاک کیا گیا جن میں کراچی کے ڈاکٹر بیربل گیانی، پشاور کے سردار دیال سنگھ اور پشاور کے ہی کاشف مسیح شامل ہیں۔

بظاہر ان تینوں افراد کا آپس میں کوئی تعلق نہیں تاہم یہ تینوں مختلف اقلیتی برادریوں سے تعلق رکھتے ہیں جس کی وجہ سے اس خدشے کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ پاکستان میں ٹارگٹ کلنگ کی کسی نئی لہر کا آغاز ہوا ہے۔

تاہم اب تک کسی نے زمہ داری قبول نہیں کی جبکہ پولیس دہشت گردی کے ساتھ ساتھ دیگر محرکات کا بھی جائزہ لے رہی ہے۔

سنیچر کے روز پشاور میں ہلاک ہونے والے کاشف مسیح کے بھائی آصف مسیح نے بی بی سی کو بتایا، ’ہم محنت مزدوری کرنے والے لوگ ہیں ہماری کسی سے کوئی دشمنی نہیں ہے ہمارے ہاں تو لڑائی جھگڑا بھی زبانی کلامی سے آگے نہیں بڑھتا ہے۔‘

کراچی میں قتل ہونے والے ڈاکٹر بیربل گیانی کے قریبی دوست ہارون گل نے بتایا کہ ’ڈاکٹر صاحب تو لوگوں میں روشنیاں بانٹتے تھے، روشنیاں باٹنے والا کسی کے ساتھ کیا دشمنی کرے گا؟‘

قتل کے یہ واقعات کیسے رونما ہوئے؟

پشاور میں سردار دیال سنگھ قتل مقدمہ میں کہا گیا ہے کہ ’انھیں ان کی دکان میں قتل کیا گیا۔‘ مدعی مقدمہ سردار دیال سنگھ کے بھائی ہیں۔

درج مقدمہ میں کہا گیا ہے کہ ’سردار دیال سنگھ اور ہماری کسی کے ساتھ کوئی بھی دشمنی وغیرہ نہیں ہے۔ نامعلوم دہشت گرد واقعہ کے ذمہ دار ہیں۔‘

سردار دیال سنگھ نے سوگواروں میں تین بچے اور بیوہ چھوڑی ہیں۔

پشاور پولیس کے مطابق پشاور میونسپل میں خاکروب کے فرائض ادا کرنے والے کاشف مسیح سنیچر کے روز اپنے فرائض ادا کر کے گھر واپس آ رہے تھے کہ گھر کے قریب نامعلوم موٹر سائیکل سوار نے فائرنگ کر کے انھیں قتل کر دیا۔

پولیس کے مطابق تفتیشی ٹیم نے جائے وقوعہ سے مختلف شواہد اکھٹے کر لیے ہیں۔

کاشف مسیح کے بھائی آصف مسیح کے مطابق ’ہم نے پولیس کو نامعلوم دہشت گردوں کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی درخواست کی ہے۔‘

کاشف مسیح نے سوگواروں میں تین بچے اور بیوہ چھوڑی ہیں۔

ایس ایس پی آپریشنل پشاور ہارون رشید نے ان کی ہلاکت کی تفصیل سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ ’سردار دیال سنگھ کو ٹارکٹ کیا گیا تھا۔ جس وجہ سے پولیس نے اس مقدمے میں دہشت گردی کی دفعات شامل کر دی ہیں جبکہ ہم کاشف مسیح کے قتل کو ابھی دیکھ رہے ہیں کہ اس میں قتل محرک کی کوئی اور وجہ نہ ہو۔ اس کے بعد فیصلہ کیا جائے گا کہ اس کے قتل مقدمہ میں بھی دہشت گردی کی دفعات لگائی جائیں یا نہیں۔‘

crime scene

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ہارون رشید کا کہنا تھا کہ سردار دیال سنگھ اور کاشف مسیح قتل کیس دونوں میں موٹر سائیکل اور ابھی تک کی تفتیش کے مطابق 30 بور پستول استعمال ہوا ہے۔ دونوں واقعات میں پولیس اس وقت تفتیش کررہی ہے، شواہد اکھٹے کیے جارہے ہیں۔

ادھر کراچی پولیس کے مطابق ڈاکٹر بیربل گیانی کو کراچی میں لیاری ایکسپریس وے پر نیو گارڈن انٹرچینج پر نشانہ بنایا گیا ہے۔

ایس ایس پی سٹی ڈاکٹرعارف عزیز نے میڈیا کے ساتھ بات کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ’یہ قتل ٹارگٹ کلنگ معلوم ہوتا ہے۔ قتل کے محرکات کے بارے میں واضح اطلاعات نہیں ہیں۔ پولیس واقعہ کی تفتیش کر رہی ہے۔‘

ڈاکٹر عارف عزیز کے مطابق لگتا ہے کہ حملہ آور مقتول ڈاکٹر کی نقل و حرکت کے حوالے سے مکمل معلومات رکھتا تھا۔

سابق سیکرٹری داخلہ اور انسپکٹر جنرل پولیس خیبر پختونخواہ ڈاکٹر سید اختر شاہ کا کہنا تھا کہ بظاہر تو لگ رہا ہے کہ دوبارہ دہشت گردی کی وارداتوں میں اضافہ ہو چکا ہے۔

تاہم ابھی تک کسی بھی گروپ نے ان وارداتوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی ۔

’اقلیتیں نشانے پر ہیں‘

پشاور سے اقلیتی کمیشن آف پاکستان کے ممبر ڈاکٹر سروپ سنگھ کہتے ہیں کہ پشاور میں سکھوں کے ساتھ ہر سال ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ ’کوئی سال ایسا نہیں گزرتا جب یہ واقعات نہ ہوتے ہوں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’گذشتہ سال بھی پشاور میں سکھوں کی ٹارگٹ کلنگ ہوئی تھی۔ اس سال بھی ہوگئی ہے۔ میں دعوی سے کہتا ہوں کہ اب تک ٹارکٹ کلنگ میں مارے جانے والے کسی بھی سکھ کا کوئی بھی مجرم نہیں پکڑا گیا ہے۔ ان واقعات میں ایک اور مماثلت یہ ہے کہ زیادہ تر یہ واقعات رمضان کے ماہ میں ہی ہوئے ہیں۔‘

 minorities

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ڈاکٹرسروپ سنگھ کا کہنا تھا کہ گذشتہ سال بھی رمضان میں پشاور میں سکھوں کو ٹارگٹ کیا گیا تھا۔

’چار سال قبل میرے بھتیجے چرنجیت سنگھ کو بالکل اسی طرح مارا گیا جس طرح سردار دیال سنگھ کو ٹارکٹ کیا گیا ہے۔ انھیں بھی اپنی دکان پر ٹارکٹ کیا گیا تھا۔ ابھی تک مجرموں کو کچھ پتا نہیں چل سکا۔‘

’اسی طرح چند ماہ قبل رنجیت سنگھ اور گلجیت سنگھ کو ٹارکٹ کیا گیا تھا اور بھی کئی نام ہیں جو مختلف اوقات میں نشانہ بن چکے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’رمضان کے ماہ میں نوجوان سکھ مسلمانوں کو افطاریاں کرواتے ہیں۔ سستی اشیا فراہم کرتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ کسی کو ان سے یہ گلہ شکوہ ہو کہ وہ یہ نیکی کا کام کیوں کر رہے ہیں۔‘

ڈاکٹر سید اختر شاہ کا کہنا تھا کہ ’ان واقعات میں مخصوص انتہا پسند ذہنیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔

’ایسے عناصر موجود ہیں جن کی برین واشنگ ہوئی ہوتی ہے اور وہ موقع کی تاک میں رہتے ہیں۔ جس کے لیے وہ انتہائی قدم اٹھانے کو تیار رہتے ہیں۔ جس کے پیچھے کئی محرکات ہو سکتے ہیں۔‘

’قتل کا انداز بتا رہا ہے کہ یہ اناڑی نہیں بلکہ تربیت یافتہ اور شارپ شوٹر تھا‘

ڈاکٹر سید اختر شاہ کہتے ہیں کہ پشاور میں دونوں قتل کے واقعات بہت زیادہ ملتے جلتے ہیں اور محسوس ہو رہا ہے کہ ایک ہی طریقے سے کئے گئے ہیں۔ سردار دیال سنگھ کو قتل کرنے و الا موٹر سائیکل سوار تھا اور کاشف مسیح بھی موٹر سائیکل سوار کا نشانہ بنا۔

ڈاکٹر سید اختر شاہ کا کہنا تھا کہ ’دونوں کو قتل کرنے والے نامعلوم موٹر سائیکل سوار نے ہیلمٹ پہنا ہوا تھا۔ پولیس کو دونوں جائے وقوعہ سے 30 بور پستول کے خول ملے ہیں۔ تاہم ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ فائرنگ میں استعمال ہونے والا پستول ایک ہی تھا یا نہیں اس بارے میں فارنزیک رپورٹ ہی سے معلومات دستیاب ہوسکیں گی۔ ‘

ڈاکٹر سید اختر شاہ کا مزید کہنا تھا کہ ’قتل کرنے کا انداز بتا رہا ہے کہ یہ کوئی اناڑی نہیں بلکہ انتہائی تربیت یافتہ اور شارپ شوٹر تھا۔ جس نے دونوں کو قتل کرنے میں بالکل بھی وقت ضائع نہیں کیا تھا۔‘

ڈاکٹر سید اختر شاہ کہتے ہیں کہ ابھی تک تو دونوں واقعات کے پیچھے قتل کا کوئی اور محرک سامنے نہیں آئے ہیں۔ اگر کوئی اور محرک سامنے نہیں آتا ہے تو جس طریقے سے یہ قتل ہوئے ہیں اور پہ در پہ واقعات ہوئے ہیں۔ اس سے تو لگتا ہے کہ یہ دہشت گردی کی منظم وارداتیں ہیں۔ جن کے پیچھے لمبی اور طویل منصوبہ بندی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہوس کتا ہے کہ یہ کوئی پرانا نیٹ ورک ہی ہو۔ کسی نئے نیٹ ورک کے حوالے سے بھی کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے۔ ویسے بھی اس وقت دھشت گردی کی واردتوں میں اضافہ تو ہوا ہی ہے۔ یہ اسی سلسلے کی کوئی کڑی نظر آتی ہے۔

ڈاکٹر سید اختر شاہ کا کہنا تھا کہ ’دہشت گرد عموماً ایسے ٹارگٹ کو چنتے ہیں۔ جس سے ان کو میڈیا میں شہ سرخیاں ملنے کے علاوہ ملکی اور بین الاقوامی سطح پر توجہ ملے۔ واردات کے بعد خوف و ہراس پیدا ہو اس کے نتیجے میں یہ سمجھا جائے کہ امن و امان کا مسئلہ سنگیں ہوچکا ہے۔

’پاکستان میں ویسے بھی اقلیتوں کے حوالے سے سوال تو اٹھتے رہتے ہیں۔ جب بھی اقلیتوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے تو ملکی اور بین الاقوامی میڈیا میں سرخیاں بن جاتی ہیں۔ جس سے دہشت گردوں کے مقاصد پورے ہوتے ہیں۔‘

 minorities

’اقلیتی برادری آسان ٹارگٹ ہوتے ہیں‘

ڈاکٹر سروپ سنگھ کہتے ہیں کہ بدقسمتی سے اقلیتوں پر حملوں کے جتنے بھی واقعات ہوئے ہیں ان کو دیکھا جائے تو سمجھ میں آتا ہے کہ دہشت گردی کا نشانہ بننے والے غریب لوگ ہی ہوتے ہیں۔

’مقتول سکھ ایک غریب دکاندار تھا۔ عیسائی ایک غریب ملازمت پیشہ شخص تھا۔ اگر انھیں کوئی نقصان پہنچانے کا فیصلہ کرے تو یہ لوگ اس وقت تک اپنا دفاع کرنے کے صلاحیت نہیں رکھتے ہیں جب تک ان کو حکومت اور ریاست کی مکمل مدد حاصل نہ ہو۔ ‘

ان کا کہنا تھا کہ ’سکھ تو پشاور میں ٹارگٹ ہوتے ہی رہتے ہیں۔ مگر اب جب ایک بے ضرر عیسائی کو بھی ٹارکٹ کیا گیا تو لگتا ہے کہ یہ دہشت گردی کی کوئی نئی لہر ہے جس میں خاص طور پر اقلیتوں کو ٹارگٹ کیا جارہا ہے۔ جس کا مقصد خوف و ہراس پیدا کرنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ اقلیتیں اس وقت عدم تحفظ کا شکار ہوچکی ہیں۔‘

ڈاکٹر سروپ سنگھ ککے مطابق سردار دیال سنگھ کا تعلق خیبر ضلع کے مشہور علاقے باڑہ سے ہے۔

’یہ لوگ باڑہ کو گذشتہ دہشت گردی کی لہر کے دوران چھوڑ کر پشاور کے کونے کھدروں میں رہائش پزیر ہو گئے تھے۔

’یہ بہت زیادہ منظر عام پر نہیں آتے تھے۔ اس سے پہلے بھی باڑہ اور قبائلی علاقہ جات کے سکھوں کی بہت زیادہ ٹارگٹ کلنگ ہوئی تھی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے ماضی میں دیکھا تھا کہ دہشت گردی کی بہت بڑی وارداتوں اور لہر سے پہلے سکھوں اور دیگر اقلیتوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

’اب بھی ایسا ہی لگ رہا ہے کہ اقلیتوں پر حملے کسی بڑی دہشت گردی کی لہر اور وارداتوں کا نقطہ آغاز نہ ہو۔‘

ڈاکٹر سید اختر شاہ کہتے ہیں کہ ’کاشف مسیح کو قتل کرنے سے قبل موٹر سائیکل سوار نے پوچھا کہ مدرسہ کدھر ہے۔ اس کو اپنے پاس بھی بلایا تھا۔ وہ اپنے کام سے واپس گھر آ رہے تھے۔ جس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ قاتل نے اپنے ٹارگٹ کی شناخت کر رکھی تھی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے خطے کے اندر تو مذہبی انتہا پسندی ہی دہشت گردی کی بڑی وجہ بنتی رہی ہے۔ اب اس میں کون سا گروپ ملوث ہے اس بارے میں کچھ حتمی طور پر نہیں کہا جا سکتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم دیکھ رہے ہیں کہ 2022 سے دھشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ایسا ہی ہمیں 2023 میں بھی دیکھنے کو مل رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

آصف مسیح کہتے ہیں کہ واقعہ سے ایک رات پہلے ہم دونوں بھائی اپنے فالج زدہ والد کے پاس موجود تھے۔ ان کی ٹانگیں دبا رہے تھے اور گپ شپ ہورہی تھی۔

’اس موقع پر کاشف مسیح اپنے بچوں کی تعلیم کے حوالے سے بہت پریشان تھا وہ کہہ رہا تھا کہ اتنی آمدن نہیں ہے کہ بچوں کو اچھے تعلیمی ادارے میں داخل کروا سکوں۔‘

آصف مسیح کا کہنا تھا کہ ’کاشف مسیح کہہ رہے تھے کہ وہ منصوبہ بنا رہے ہیں کہ کوئی اور پارٹ ٹائم کام مل جائے تاکہ گزر بسر اچھی طرح ہو سکے۔‘