Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان کے زیرِانتظام کشمیر میں نایاب نسل کے ’گرے لنگور‘ کی پراسرار موت

پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے علاقے تراڑ کھل میں ایک نایاب نسل کا بندر مردہ حالت میں پایا گیا ہے۔
’گرے لنگور‘ کی طرح دکھائی دینے والے اس بندر کی تصاویر پیر کو سوشل میڈیا پر وائرل ہونا شروع ہوئیں۔
ایک ویڈیو میں وہ بندر کھیت کے کنارے چلتا دکھائی دیتا ہے جبکہ دوسری تصویر میں اس کی خون آلود لاش نظر آتی ہے۔
اردو نیوز کے رابطہ کرنے پر مقامی شہری فہیم اکبر نے بتایا کہ ’یہ بندر چار پانچ دن قبل تراڑ کھل کے نواحی گاؤں پپے ناڑ میں دیکھا گیا تھا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’اس کے بعد کچھ مقامی نوجوانوں نے اسے پکڑنے کی کوشش کی لیکن وہ بھاگ کر قریبی جنگل میں غائب ہو گیا تھا۔‘
بندر کی پراسرار موت کے حوالے سے فہیم اکبر کا کہنا ہے کہ ’میری معلومات کے مطابق ’یہ بندر بیمار پڑ گیا تھا۔ اسے کسی نے حملہ کر کے نہیں مارا بلکہ لگتا ہے کہ درخت سے گر کر یہ موت کا شکار ہوا ہے۔‘
ایک اور مقامی نوجوان کاشف خورشید نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’یہ بندر چند دن قبل ہمارے گاؤں میں آیا جسے خواتین نے دیکھا۔ اسے پپے ناڑ گاؤں میں لڑکوں نے پکڑنے کی کوشش کی لیکن وہ بھاگ گیا۔‘
انہوں نے بتایا کہ’یہی بندر پھل جڑی اور گڑالہ نامی گاؤں میں بھی دیکھا گیا۔ لوگوں نے اسے سوکھی روٹی اور دیگر کھانے پینے کی چیزیں دینے کی کوشش کی لیکن اس نے کچھ نہیں کھایا۔‘
کاشف خورشید کے مطابق ’یہ بندر آخری دو دن تک ایک بہت اونچے درخت پر بیٹھا رہا۔ شاید یہ بھوک سے نڈھال تھا۔ اسے مقامی بچوں نے وہیں بیٹھے دیکھا۔‘
یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ ’لنگور نے ایک درخت سے دوسرے درخت پر چھلانگ لگانے کی کوشش کی لیکن فاصلہ زیادہ ہونے کی وجہ سے یہ زمین پر جا گرا جس سے وہ شدید زخمی ہو کر موت کے منہ میں چلا گیا۔ شاید بھوک کی وجہ سے یہ نڈھال بھی تھا۔‘
کیا مقامی نوجوانوں نے محکمہ وائلڈ لائف کو اس بارے میں بتایا؟ اس سوال کے جواب میں کاشف کا کہنا تھا کہ ’نہیں کسی نے وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ سے رابطہ کیا اور نہ ہی وائلڈ لائف کے محکمے کے اہلکار وہاں آئے۔‘
سوشل میڈیا پر صارفین گرے لنگور کی تصاویر پوسٹ کر یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ اسے کسی نے نشانہ بنایا ہے تاہم اس دعوے کی ابھی تک تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔

’تحقیق کر رہے ہیں: محکمہ وائلڈ لائف

دوسری جانب محکمہ وائلڈ لائف کے مقامی اہلکار محمد نعیم کا کہنا ہے کہ ’اس طرح کا بندر یہاں پہلے نہیں دیکھا گیا ہے۔‘
انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ہمیں ہیڈ آفس سے بھی کہا گیا ہے۔ ہم اس معاملے کی تحقیق کر رہے ہیں۔ محکمہ جنگلات کے اہلکار بھی کوشش کر رہے ہیں۔‘
دوسری جانب سوشل میڈیا پر مقامی صارفین دعویٰ کر رہے ہیں کہ لنگور کو کچھ افراد نے پتھر مار مار کر زخمی کر دیا تھا اور کچھ افراد تین دن سے اس کا پیچھا کر رہے تھے۔
واقعے کے اگلے روز یعنی منگل کو اطلاعات ملیں کہ لنگور کی ڈیڈ باڈی محکمہ وائلڈ لائف کے اہلکاروں نے برآمد کر لی ہے۔
منگل اس واقعے سے متعلق محکمہ وائلڈ لائف کی مدعیت میں ایک ایف آئی آر بھی درج ہوئی جس کے مطابق ایک مقامی شخص نے لنگور کو جان سے مارنے کا اعتراف کیا ہے۔
اس کے بعد پارک رینج آفیسر وائلڈ لائف و فشیریز مظفرآباد نے نائب ناظم کے نام ایک رپورٹ بھی بھیجی جس میں گرے لنگور کی ڈیڈ باڈی تحویل میں لینے اور مقامی تھانے میں ملزم کے خلاف ایف آر درج کرانے کی اطلاع دی گئی۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ یہ گرے لنگور غیرقانونی طور پر شکار کیا گیا ہے۔

ملزم کے خلاف ایف آئی آر درج

وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر نعیم ڈار نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ملزم کے خلاف وائلڈ لائف ایکٹ 2014ء کی دفعہ 10 کے تحت کارروائی ایف آئی آر درج کی گئی ہے جس کے تحت زیادہ سے زیادہ 30 ہزار روپے جرمانہ یا تین سے چھ ماہ تک قید سزا ہو سکتی ہے۔‘

لنگور کو مارنے والے شخص کے خلاف ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے (فوٹو: محکمہ وائلڈ لائف)

واضح رہے کہ دو ماہ قبل اپریل میں پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے ضلع حویلی میں تیندوے کے تین نوزائیدہ بچے پراسرار طور پر غائب ہونے کا واقعہ پیش آیا تھا۔

گرے لنگور کہاں پایا جاتا ہے؟

گرنے لنگور بندروں کی ایک منفرد قسم ہے جن کے جسم پر عام بندر کی نسبت ذرا لمبے بال ہوتے ہیں۔ یہ انڈیا، پاکستان۔ بنگلہ دیش، سری لنکا اور کشمیر کے مختلف علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔
اس کی زیادہ تر قسمیں سطح سمندر سے کم بلندی پر پائی جاتی ہیں لیکن نیپال گرے لنگور اور کشمیر گرے لنگور کوہ ہمالیہ میں سطح سمندر سے 13 ہزار فٹ بلندی پر پائے جاتے ہیں۔
یہ سبزی خور جانور ہیں اور ان میں مادہ کی نسبت نر کی جسامت بڑی ہوتی ہے۔ ان کا اوسط وزن 18 کلوگرام ہوتا ہے۔
گرے لنگور کی بعض علاقوں میں آبادی کی شرح مستحکم ہے لیکن سیاہ پاؤں والے لنگور اور کشمیر گرے لنگور کم تعداد میں پائے جاتے ہیں جبکہ کشمیر گرے لنگور کو عالمی تنظیم بین الاقوامی اتحاد برائے تحفظ قدرت(آئی یو سی این) نے خطرے کی شکار انواع کی فہرست میں شامل کیا ہے۔

شیئر: