Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آڈیو لیکس: ’پہلے تضحیک پھر تحقیقات، کیا خوبصورت طریقہ‘

وفاقی حکومت نے گزشتہ ماہ ججز اور اُن کے اہلخانہ کی آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لیے کمیشن قائم کیا تھا۔ فائل فوٹو: اردو نیوز
پاکستان کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے آڈیو لیکس سے متعلق کیس کی سماعت کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ’پہلے ججز کی تضحیک کی پھر کہا اب آڈیوز کے سچ ہونے کی تحقیق کرا لیتے ہیں۔‘
منگل کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے مبینہ آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لیے تشکیل دیے گئے جوڈیشل کمیشن کے خلاف درخواستوں کی سماعت کی۔ 
 بینچ میں جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید شامل ہیں۔
 سماعت کا  آغاز ہوا تو درخواست گزار کا کہنا تھا کہ آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کے خلاف توہین عدالت کی درخواست مقرر نہیں ہوئی۔ 
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ’توہین کا معاملہ عدالت اور توہین کرنے والے کے درمیان ہوتا ہے۔ توہین عدالت کی درخواست میں جج کو فریق نہیں بنایا جا سکتا۔ توہین عدالت کی درخواست بھی دیکھ لیں گے۔ توہین عدالت کی درخواست پر لگے اعتراضات ختم کیے جائیں۔‘
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان روسٹرم پر آئے تو انہوں نے کہا کہ ہماری درخواست کے پہلے حصے میں انکوائری کمیشن کی تشکیل کے خلاف کیس سننے والے بینچ پر اعتراض اٹھایا گیا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیسے مفروضے پر بات کر سکتے ہیں کہ کیس میں چیف جسٹس سمیت دو ججز کا مفاد وابستہ ہے؟ ایگزیکٹو سپریم کورٹ کے اختیارات میں مداخلت نہ کرے۔ انکوائری کمیشن بنانے سے قبل ہم سے پوچھا تک نہیں گیا۔ محض الزامات کی بنیاد پر ججز پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔
اس دوران اٹارنی جنرل نے ججز کے ذاتی مفاد سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلوں کا حوالہ دیا۔ 
درخواست کے قابل سماعت ہونے پر اٹارنی جنرل کے دلائل
جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ آپ پہلے اپنی درخواست کے قابل سماعت ہونے پر دلائل دیں۔ انکوائری کمیشن کے ٹی او آرز کے بارے میں پہلے بتائیں کہ حکومت کا کیا یہ کیس ہےکہ آڈیوز اوریجنل ہیں، کیا حکومت آڈیوز کی تصدیق ہونے اور درست ہونے کا موقف اپنا رہی ہے؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ حکومت نے آڈیوز کو مبینہ کہا ہے اور تحقیقات کے لیے کمیشن قائم کیا۔
جسٹس منیب اختر نےکہا کہ کیا یہ درست ہے کہ ہیکر نے آڈیوز لیک کیں اور وزرا نے پریس کانفرنس کر کے پبلک کیا؟ وفاقی وزیر داخلہ نے آڈیوز لیکس سے متعلق پریس کانفرنس کی۔ کیا یہ ان سے متعلقہ معاملہ تھا؟ آڈیوز کی تحقیقات کیے بغیر کیا میڈیا پر ان کی تشہیر کی جا سکتی ہے؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ججز کا ضابطہ اخلاق کا آرٹیکل چار کہتا ہے کہ ججز کو قریبی عزیزوں اور دوستوں سے متعلق مقدمات نہیں سننے چاہئیں۔
 

اٹارنی جنرل نے آڈیو لیکس کمیشن کے ٹی او آرز پڑھ کر سنائے اور کہا کہ لیک آڈیوز میں ایک چیف جسٹس کی ساس سے متعلق ہے۔ فوٹو: اردو نیوز

کیا بغیر حقیقت جانے حکومتی عہدیدار جج پر الزام لگا سکتا ہے، جسٹس منیب اختر
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ’آڈیوز کے درست ہونے یا نہ ہونے سے پہلے ہی حکومت نے پبلک کر کے اپنا فیصلہ سنا دیا۔ تحقیقات کے بغیر کیا پریس کانفرنسز کرنی چاہیے تھیں؟ وزیراعظم کو  آ کر کہنا چاہیے تھا کہ وزرا کی پریس کانفرنس سے تعلق نہیں۔ قانون کے مطابق کیا بغیر حقیقت جانے حکومتی عہدیدار جج پر الزام لگا سکتا ہے؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ کسی وزیر کی پریس کانفرنس کو کابینہ کا فیصلہ یا بیان نہیں کہہ سکتے۔ یہ دیکھنا ہوگا کہ وزرا کے بیانات 9 مئی سے پہلے کے ہیں یا بعد کے۔
اس پر جسٹس منیب اختر نےکہا کہ وزیر اگر اپنی مرضی سے بات کرے تو یہ کابینہ کا بیان تصور ہوگا، وزرا پریس کانفرنسز میں سب کہہ چکے تو درخواست کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ 9 مئی کے بعد حکومت نے انکوائری کمیشن قائم کیا۔
چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ کیا حکومت نے اپنے وسائل استعمال کر کے پتہ لگایا کہ آڈیوز ریکارڈ کہاں اور کیسے ہو رہی ہیں؟
اس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ حکومت نے آڈیوز کی تحقیقات اور اسی لیے کمیشن تشکیل دیا تھا، حکومت چاہتی تھی کہ انکوائری کمیشن آڈیوز کی تمام تر تحقیقات کرے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے ’کتنا منفرد اور خوبصورت انصاف ہے کہ بڑی عدالت کے ججز پر الزام لگا دیا جائے۔ کیا انصاف دینے والوں پر اس طرح الزام تراشی کرنا انصاف ہے۔ پریس کانفرنس کر کے ججز پر الزامات لگائے گئے ہیں۔‘
اٹارنی جنرل نے کہا ’میں کابینہ کے موقف کا دفاع کروں گا کسی انفرادی وزیر کا نہیں۔‘
’ٹوئٹر ہینڈل ’انڈی بیل‘ کا پتہ چلائیں، کہاں سے آپریٹ ہوتا ہے؟‘
چیف جسٹس نے کہا کہ میڈیا اور پیمرا سے جواب مانگیں گے کہ ججز پر الزامات کی تشہیر کیسے کی گئی۔  قرآن پاک بھی کسی پر الزام تراشی سے منع کرتا ہے،’انڈی بیل‘ کاپتہ چلا؟ اس ٹوئٹر ہینڈل کا پتہ کریں کہ وہ ملک سے یا بیرون ملک سے آپریٹ ہو رہا ہے؟
چیف جسٹس نے کہا کہ میڈیا اور پیمرا سے جواب مانگیں گے کہ ججز پر الزامات کی تشہیر کیسے کی گئی۔  قرآن پاک بھی کسی پر الزام تراشی سے منع کرتا ہے، ’انڈی بیل‘ کا پتہ چلا؟ اس ٹوئٹر ہینڈل کا پتہ کریں کہ وہ ملک سے یا بیرون ملک سے آپریٹ ہو رہا ہے؟
جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ کوئی بھی ’انڈی بیل‘ ہیکر سے کہہ کر ججز کے خلاف جھوٹی خبریں لگوا سکتا ہے، ایسے نہیں ہوتا کہ کوئی اعتراض اٹھائے اور جج بینچ سے الگ ہو، سوشل میڈیا کے منفی پہلو بھی ہیں۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ لیک آڈیوز میں ایک چیف جسٹس کی ساس سے متعلق ہے۔ جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ کیا آپ کا اس وقت کیس یہ ہے کہ آڈیوز بادی النظر میں درست ہیں؟
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت نے اس معاملے پر ابھی صرف کمیشن بنایا ہے، یہ نہیں معلوم کہ آڈیوز واٹس ایپ کال کی ہیں یا فون کال کی۔
جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ ایگزیکٹو نے اختیارات کی تقسیم میں مداخلت کی۔ اب حکومت آکر کہہ رہی ہے کہ یہ ججز کیس نہ سنیں۔ بغیر تحقیق بیان دینے پر تو اس وزیر کو ہٹا دیا جاتا یا وہ مستعفی ہو جاتا۔ 
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت کا یہ کیس بالکل نہیں کہ کیس میں ججز کی بدنیتی شامل ہے، وفاقی حکومت کا کیس تعصب کا نہیں مفادات کے ٹکراؤ کا ہے۔ کالز کیسے ریکارڈ کی گئیں کمیشن کے ذریعے تمام عوامل کا جائزہ لیا جائے گا، معاملہ اگر سپریم کورٹ کے تمام ججز سے متعلق نکل آئے پھر نظریہ ضرورت پر عمل ہوسکتا ہے۔ 
چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ ’آپ نے میرے علاوہ دو اور ججز پر بھی اعتراض کیا ہے کیا آپ چاہتے ہیں کہ باری باری سب پر اعتراض کیا جائے۔ کیا یہ اعتراض صرف جوڈیشل کارروائی  پر بنتا ہے یا انتظامی امور کی انجام دہی پر بھی ہے؟
 اٹارنی جنرل کے بینچ پر اعتراض سے متعلق دلائل مکمل ہوئے تو درخواست گزار عابد زبیری کے وکیل شعیب شاہین نے دلائل کا آغاز کیا۔
وکیل شعیب شاہین کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل جس فیصلےکا حوالہ  دے رہے ہیں وہ تو اقلیتی رائے تھی، اگر کسی جج  پر اعتراض ہو تو بھی اس پر کیس سننے کی ممانعت نہیں۔ حکومت انتخابات سمیت تمام مقدمات میں مدعی ہے اور خود ہی بینچ بناناچاہتی ہے۔
بعد ازاں عدالت نے حکومتی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔

شیئر: