Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جہانگیر ترین، ڈیمو کریٹس یا کوئی اور: پی ٹی آئی متبادل کے دعویدار متزلزل کیوں؟

حالیہ دنوں میں جہانگیر ترین نے متعدد سیاستدانوں سے ملاقاتیں کی ہیں۔ (فوٹو: فیس بک)
پاکستان تحریک انصاف چھوڑ کے جانے والوں کا سلسلہ ابھی تھما نہیں اور یہاں سے ٹوٹ کر کہیں اور جا کر جڑنے والوں کا سلسلہ ابھی مکمل طور پر شروع نہیں ہوا۔
اگرچہ پی ٹی آئی کے 100 سے زیادہ رہنما اور الیکٹیبلز عمران خان کو چھوڑ گئے ہیں لیکن وہ کہاں جا کر نیا ٹھکانہ تلاش کرتے ہیں یہ ابھی مکمل طور پر واضح نہیں ہوا۔
نو مئی کے بعد کے پاکستان کے قومی منظر نامے پر پی ٹی آئی کے متبادل کے طور پر ابھرنے والے سیاسی گروہوں میں سب سے نمایاں عمران خان کے سابقہ ساتھی جہانگیر ترین کا گروہ ہے، لیکن وہ بھی ابھی مکمل طور پر اپنے خدوخال واضح نہیں کر سکے اور گذشتہ ایک ہفتے سے اپنی مجوزہ نئی سیاسی جماعت کے نام اور عہدوں کو حتمی شکل دینے کے مرحلے میں ہیں۔
توقع تھی کہ پیر تک وہ اس کی کوئی واضح شکل سامنے رکھیں گے لیکن ابھی تک ایسا نہیں ہو سکا۔
اب تک موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق وہ اپنی مجوزہ جماعت کے نام کا فیصلہ کرنے کے قریب ہیں اور اس کے لیے  پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی، عوام دوست پارٹی اور پاکستان انصاف پارٹی کے ناموں پر غورکر رہے ہیں۔
جہانگیر ترین نے گذشتہ تین ہفتوں میں متعدد سیاستدانوں سے ملاقاتیں کی ہیں جن میں فواد چوہدری، فیاض الحسن چوہان اور دیگر کئی لوگ شامل ہیں تاہم ابھی ان کے گروپ میں سے کسی نے اس بارے میں کھل کر اظہار نہیں کیا اور ان کے قریبی ذرائع کے مطابق وہ کسی بڑے نام کی طرف سے واضح یقین دہانی کا انتظار کر رہے ہیں۔ 
گذشتہ ہفتے تحریک انصاف کے ایک اور منحرف رہنما علیم خان نے بھی جہانگیر ترین سے ملاقات کی تھی لیکن اس کے بارے میں بھی دونوں شخصیات کی جانب سے کوئی واضح اعلان نہیں کیا گیا۔
فواد چوہدری جو جہانگیر ترین کے علاوہ اڈیالہ جیل میں شاہ محمود قریشی سے بھی ملے ہیں نے کچھ روز قبل کہا تھا کہ وہ 25 کروڑ لوگوں کو پی ڈی ایم کے سہارے نہیں چھوڑیں گے اور اس سے بچنے کے لیے ہم خیال لوگوں کے ساتھ مل کر جدوجہد کریں گے۔

فواد چوہدری نے کہا تھا کہ ملک کو پی ڈی ایم کے سہارے نہیں چھوڑ سکتے۔ (فوٹو: سکرین گریب)

تاہم اس کے بعد سے وہ بھی خاموش ہیں اور رابطہ کرنے والوں سے کہتے ہیں کہ وہ ابھی چند روز مزید صورتحال کے واضح ہونے کا انتظار کریں گے۔
دوسری طرف پی ٹی آئی سے جانے والے پنجاب کے صوبائی رہنماؤں مراد راس اور کرنل ہاشم ڈوگر نے ڈیمو کریٹ کے نام سے اپنے ایک باضابطہ گروپ کا اعلان کر دیا ہے۔
مراد راس نے اس گروپ کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ وہ فی الحال جہانگیر ترین یا کسی دوسری سیاسی قوت کے ساتھ شامل نہیں ہوں گے تاہم پی ڈی ایم کے خلاف سیاست ان کی جدوجہد کا منبع ہو گی۔
 پاکستانی سیاست کی نبض پر ہاتھ رکھنے والے سینیئر صحافی سہیل وڑائچ کے مطابق جتنے بھی نئے گروپ بن رہے ہیں یہ واضح شکل اختیار کرنے میں ابھی مزید وقت لیں گے۔
ان کی نظر پی ٹی آئی کے ووٹ بنک پر ہے۔ جب تک عمران خان کے مستقبل کا حتمی فیصلہ نہیں ہو جاتا، اور یہ پتہ نہیں چل جاتا کہ ان کا ووٹ بنک کدھر جائے گا تب تک یہ گروپ بھی کوئی واضح رستہ نہیں لیں گے۔ اور اس میں کافی وقت لگے گا۔‘
سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ پنجاب میں مقابلہ بالآخر پی ٹی آئی اور نواز لیگ کے ووٹ بینک کے درمیان ہونا ہے اور آخری وقت میں جس کا ووٹ زیادہ ہوا یہ چھوٹے دھڑے اسی طرف جائیں گے۔
انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’چھوٹے سیاسی دھڑوں کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی بھی اس صورت حال سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ الیکٹیبلز کو جگہ دے رہی ہے۔ لیکن یہ جنوبی پنجاب تک ہی کچھ کامیابی حاصل کر سکتی ہے اور یہاں اس نے جتنی بھی محنت کی اس کو 10 سے کم نشستیں ہی ملیں گی۔‘

ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے بھی پی ٹی آئی سے علیحدگی کا اعلان کیا تھا۔ (فوٹو: جہانگیر ترین فیس بک)

سینیئر تجزیہ کار حسن عسکری کے مطابق یہ گروپ ابھی اپنے کچھ پتے مخفی رکھنا چاہتے ہیں کیونکہ غیر یقینی کی صورتحال ہے۔
’ان کو یہ بھی خدشہ ہے کہ بہت تیزی سے آگے بڑھنے میں ان کو ناکامی بھی ہو سکتی ہے۔‘
انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ابھی صورتحال غیر یقینی ہے، اس لیے یہ گروہ تمام چیزیں بتا نہیں رہے، یہ آہستہ آہستہ حرکت کر رہے ہیں۔ دوسروں کا رد عمل دیکھ رہے ہیں۔‘
انہیں خدشہ ہے کہ کچھ اور دھڑے نہ آ جائیں سامنے۔ یا ایسا نہ ہو کہ یہ اعلان کر دیں اور ان کے ساتھ زیادہ لوگ شامل نہ ہوں۔‘
حسن عسکری کا کہنا تھا کہ ابھی مستقبل کا سیاسی منظر نامہ کافی حد تک الجھا ہوا ہے اس لیے کوئی بھی بڑا رسک لینے کو تیار نہیں ہے۔
ابھی کافی کنفیوژن ہے۔ کچھ پتہ نہیں ہے آگے کیا ہونے والا ہے۔ انتخابات کا بھی کچھ پتہ نہیں۔ یہ بھی نہیں پتہ کہ عمران خان کے ساتھ کیا ہو گا اس لیے سارا منظر ہی دھندلا ہے۔‘

شیئر: