انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں گاہک تربوز خریدنے سے کیوں ڈر رہے ہیں؟

تربوز
  • مصنف, شفاعت فاروق
  • عہدہ, نامہ نگار بی بی سی اردو، سرینگر

’کہا جا رہا ہے کہ تربوز میں کچھ ملاوٹ ہے اس لیے ہم اسے خریدنے سے ڈر رہے ہیں‘، جب پھل ہی ہمارے لیے مضر صحت بن جائے تو ہم لوگ کریں تو کریں کیا؟‘ یہ وہ فقرے ہیں کو آج کل انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں ہر شہری کی زبان پر ہیں۔

اگر آپ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے بازار میں نکل جائیں تو آپ کو وہاں بہت سے پھل فروش نظر آئیں گے جو لال لال، میٹھے اور رسیلے تربوز لیے بیٹھیں ہیں مگر ان کے پاس گاہک نہیں ہیں۔

تربوز کو ایک فرحت بخش اور خوش ذائقہ پھل تصور کیا جاتا ہے۔ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں لوگ عموماً اسے رمضان کے دوران کھانا پسند کرتے ہیں جبکہ کچھ لوگ اس کا جوس پسند کرتے ہیں مگر آج کل گاہک اسے خریدنے اور کھانے سے خوفزدہ ہے۔ مگر کیوں؟

جب یہ بات ہم نے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے ایک نوجوان سے پوچھی تو ان کا کہنا تھا کہ ’پہلے اگر دیکھا جائے تو یہاں کے لوگ رمضان میں پھل اور خصوصاً تربوز کھانا پسند کرتے تھے لیکن اب جو اس کے حوالے سے ایک تنازع بنا ہوا ہے کہ اس کو کھایا جائے یا نہ کھایا جائے اس نے اس کی مانگ پر بہت اثر ڈالا ہے۔‘

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے بازاروں کا اگر دورہ کریں تو آپ کو ایک مختلف صورتحال دکھائی دیتی ہیں کیونکہ بازاروں میں تربوز تو موجود ہیں لیکن ان کی فروخت بہت کم ہے۔

انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں یوں تو بہت سے پھل مقامی طور پر پیدا ہوتے ہیں مگر تربوز کا شمار اُن پھلوں میں ہوتا ہے کہ جو انڈیا کے دیگر شہروں سے کشمیر میں آتا ہے۔ گذشتہ برس تک رمضان میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والا پھل تربوز ہی تھا لیکن اس برس اچانک ایسا کیا ہوا کہ لوگ اسے خریدنے سے کترا رہے ہیں۔

Twitter پوسٹ نظرانداز کریں
Twitter کا مواد دکھانے کی اجازت دی جائے؟?

اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔

تنبیہ: بی بی سی دیگر ویب سائٹس کے مواد کی ذمہ دار نہیں ہے۔

Twitter پوسٹ کا اختتام

پھل فروش ہوں یا منڈیوں میں بیٹھے بڑے بیوپاری سب ہی پریشان ہیں اس کی وجہ کیا ہے؟

اس سب کی وجہ ایک غلط معلومات پر مبنی ٹویٹ ہے جو ایک مقامی ڈاکٹر کی جانب سے کی گئی تھی۔

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے ایک ڈاکٹر نے ایک ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’ اس بے موسمی تربوز سے بچیئے جسے مختلف نقصاندہ ادویات اور مسالے لگا کر مصنوعی طریقے سے پکایا گیا ہے اور اس میں رنگ کے انجیکشن لگائے جا رہے ہیں جس سے کینسر کا خطرے ہے۔‘

بازار میں جائیں تو لوگ رمضان کے لیے فروٹ کی خریدو فروخت بھی کرتے دکھائی دیتے ہیں لیکن تربوز کی ریڑھی پر اب ماضی جیسا رش نہیں۔

ایک ریڑھی پر محمد سمیر بھی فروٹ بیچ رہے ہیں انھوں نے کہا کہ ’اس سے پہلے ہم لگ بھگ ایک دن میں دس سے پندرہ من بیچتے تھے۔ لیکن ابھی بہت کم ہے کبھی ایک من اور یا پھر 50 کلو، یہ سب اس افواہ کی وجہ سے ہوا ہے۔‘

ایک بیوپاری ظہور احمد نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہمارا تو نقصان ہو گیا ہے ایک ایک بندے کی پانچ پانچ، چھ چھ لاکھ مالیت کے تربوزوں سے لدی گاڑیاں کھڑی ہیں کسی کے پاس دو گاڑیاں ہیں کسی کے پاس تین گاڑیاں ہیں اور سبھی پریشان ہیں۔‘

ایک اور تاجر نے کہا میں یہاں سامان بیچتا ہوں، مجھ جیسے غریب تو مارے گئے ناں۔ ہمارا روزگار ہی ختم ہو گیا ہے۔

YouTube پوسٹ نظرانداز کریں
Google YouTube کا مواد دکھانے کی اجازت دی جائے؟?

اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Google YouTube کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Google YouTube ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔

تنبیہ: بی بی سی دیگر ویب سائٹس کے مواد کی ذمہ دار نہیں ہے۔ YouTube کے مواد میں اشتہارات ہو سکتے ہیں۔

YouTube پوسٹ کا اختتام

اس معاملے پر بی بی سی نے نیو کشمیر فروٹ ایسوسی ایشن کے سیکریٹری جنرل چوہدری شوکت سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ ’بد اعتمادی کی وجہ سے ایسا ہو رہا ہے۔ تاجر بہت زیادہ مایوس ہیں لوگ تربوز کی گاڑیوں پر بیٹھے ہوئے ہیں لیکن خریدار کوئی نہیں ہے۔ اس کی وجہ وہ غلط معلومات ہیں جس کی وجہ سے عدم اعتماد ہے۔‘

پھلوں کے تاجر کہتے ہیں کہ گذشتہ برس کی نسبت تربوز کی فروخت میں 70 فیصد کمی آئی ہے۔ تاجروں کے مطابق گذشتہ برس رمضان میں تربوز کی فروخت پانچ کروڑ روپے یومیہ تھی جس میں اب 70 فیصد کمی دیکھی جا رہی ہے۔

تربوز

’ان میں کوئی خرابی نہیں پائی گئی یہ کھانے کے لیے محفوظ ہیں‘

تربوز

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں تربوز کے مضر صحت ہونے کی جانچ کے لیے حکومت کی جانب سے موقع پر ہی اس کا ٹیسٹ کرنے کے لیے موبائل وینز منڈیوں اور بازاروں میں موجود ہیں۔

حکومت کا کہنا ہے کہ علاقے میں تربوز کے ٹیسٹ کیے گئے ہیں اور ان کے قبل ازوقت پکنے کے دعوے بے بنیاد ہیں۔ یہی نہیں بلکہ مزید جانچ پڑتال کے لیے حکومت تربوز کے نمونے لیبارٹری میں بھی بھجوا رہی ہے۔

ڈپٹی کمشنر فوڈ اینڈ سیفٹی ڈیپارٹمنٹ شگوفہ جلال نے میڈیا کے نمائندوں کو اس حوالے سے بریفنگ دی۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے نا صرف لیبارٹری میں تربوز میں مصنوعی رنگ کے استعمال ہونے کے متعلق جاننے کے لیے ٹیسٹ لیے بلکہ ہم نے ان میں کیمیکل کے ممکنہ استعمال، کیڑے مار ادویات کے استعمال سے رہ جانے والے اثرات جاننے کے لیے ٹیسٹ کیے گئے۔

تاہم وہ کہتی ہیں کہ ایسے کوئی شواہد نہیں ملے کہ جس سے پتہ چلے کہ تربوز قابل استعمال نہیں ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’ان میں کوئی خرابی نہیں پائی گئی یہ کھانے کے لیے محفوظ ہیں۔‘