اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ، قرارداد ویٹو نہ کرنے پر اسرائیل امریکہ سے ناراض

اقوام متحدہ

،تصویر کا ذریعہReuters

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے غزہ میں فوری جنگ بندی کی قرارداد منظور کرتے ہوئے تمام یرغمالیوں کی فوری اور غیر مشروط رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔

امریکہ نے اس قراردار پر ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا جبکہ سلامتی کونسل کے 15میں سے 14 ارکان نے قرارداد کی حمایت کی۔

فوری جنگ بندی کی یہ قرارداد سلامتی کونسل کے 10 رکن ممالک نے پیش کی۔

واضح رہے کہ غزہ کی وزارتِ صحت کا کہنا ہے کہ سات اکتوبر 2023 کے بعد غزہ میں اسرائیلی حملوں میں ہلاک ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 32 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔

اسرائیل پر فلسطین میں جاری کارروائیوں کے بعد سے عالمی دُنیا کی جانب سے دباؤ کا بھی سامنا ہے کہ وہ اس بات کے شواہد بھی دُنیا کے سامنے پیش کرے کے اس کی کارروائیاں صرف حماس کے خلاف ہیں۔

اسرائیلی فوج کا دعویٰ ہے کہ حماس کے سات اکتوبر کے حملوں میں 1200 افراد کی ہلاکت کے جواب میں اب تک حماس کے 10 ہزار جنگجو فضائی حملوں اور زمینی کارروائیوں میں مارے گئے ہیں۔

اسرائیلی فوج نے مسلسل اپنی حکمت عملی کا دفاع کیا ہے اور مُصر ہے کہ وہ عام لوگوں کی ہلاکتوں کو کم سے کم رکھتے ہوئے صرف حماس کے جنگجوؤں اور تنصیبات کو نشانہ بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔

اسرائیل کا اپنا وفد امریکہ نہ بھیجنے کا اعلان

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں قرارداد کی منظوری کے فوراً بعد اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے امریکہ پر اپنے سابقہ ​​موقف سے ’پیچھے ہٹنے‘ کا الزام لگایا ہے۔

اسرائیلی وزیر اعظم کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’امریکہ نے اقوام متحدہ میں آج اپنی پالیسی ترک کر دی۔ ابھی کچھ دن پہلے ہی امریکہ نے سلامتی کونسل کی ایک قرارداد کی حمایت کی تھی جس میں جنگ بندی کے مطالبے کو یرغمالیوں کی رہائی سے جوڑا گیا تھا۔‘

بیان کے مطابق ’چین اور روس نے اس قرارداد کو جزوی طور پر ویٹو کیا تھا کیونکہ انھوں نے ایسی جنگ بندی کی مخالفت کی تھی جس کا تعلق یرغمالیوں کی رہائی سے تھا۔ پھر بھی آج، روس اور چین نے دیگر ممالک کے ساتھ مل کر اس نئی قرارداد کی حمایت کی کیونکہ اس کا ایسا کوئی تعلق نہیں۔‘

’افسوس کے ساتھ امریکہ نے اس نئی قرارداد کو ویٹو نہیں کیا، جس میں ایسی جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا، جو یرغمالیوں کی رہائی پر منحصر نہیں۔ یہ جنگ کے آغاز سے ہی سلامتی کونسل میں امریکہ کے مستقل موقف سے الگ ہے۔‘

اسرائیلی وزیر اعظم کے دفتر سے جاری اس بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’آج کی قرارداد حماس کو امید دلاتی ہے کہ وہ بین الاقوامی دباؤ کی بدولت اسرائیل کو اپنے یرغمالیوں کی رہائی کے بغیر جنگ بندی پر مجبور کرے گا، اس طرح جنگی کوششوں اور یرغمالیوں کی رہائی کی کوشش دونوں کو نقصان پہنچے گا۔

بیان کے مطابق ’وزیر اعظم نیتن یاہو نے کل رات ہی واضح کیا تھا کہ اگر امریکہ اپنی اصولی پوزیشن سے پیچھے ہٹتا ہے اور اس نقصان دہ قرارداد کو ویٹو نہیں کرتا تو وہ اسرائیلی وفد کا دورہ امریکہ منسوخ کر دیں گے۔ امریکی پوزیشن میں تبدیلی کو سامنے رکھتے ہوئے وزیر اعظم نیتن یاہو نے فیصلہ کیا ہے کہ وفد اسرائیل میں ہی رہے گا۔‘

Twitter پوسٹ نظرانداز کریں
Twitter کا مواد دکھانے کی اجازت دی جائے؟?

اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔

تنبیہ: بی بی سی دیگر ویب سائٹس کے مواد کی ذمہ دار نہیں ہے۔

Twitter پوسٹ کا اختتام

اسرائیل کی چار یورپی مُمالک کو تنبیہ

اس سے قبل پیر ہی کے روز اسرائیل نے چار یورپی ممالک کو متنبہ کیا کہ اُن کی جانب سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے لیے جاری منصوبہ بندی اس تنازع کو کم کرنے کے لیے ہونے والے مُمکنہ مذاکرات کے امکانات کو کم کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔

واضح رہے کہ سپین کی جانب سے جمعے کو جاری ہونے والے ایک بیان میں ’مشرقِ وسطیٰ میں امن‘ کے نام سے ایک معائدے سے متعلق بتایا گیا تھا۔

سپین کی جانب سے کہا گیا تھا کہ اُس سمیت آئرلینڈ، مالٹا اور سلووینیا نے اسرائیل کے زیرِ قبضہ مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں کی جانب سے اعلان کردہ ریاست کو تسلیم کرنے کے لیے پہلا قدم اٹھانے پر اتفاق کیا ہے۔

اسرائیلی وزیر خارجہ اسرائیل کاٹز کی جانب سے ایکس (سابق ٹویٹر) پر جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ ’7 اکتوبر کے قتل عام کے بعد فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے سے حماس اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کو یہ پیغام جاتا ہے کہ اسرائیلیوں پر قاتلانہ دہشت گرد حملوں کا جواب فلسطینیوں کو سیاسی یا بات چیت کی صورت میں دیا جائے گا۔‘

اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’تنازع کا حل صرف فریقین کے درمیان براہ راست مذاکرات کے ذریعے ہی ممکن ہو گا۔ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے میں کسی بھی طرح کی شمولیت صرف ایک حل تک پہنچنے کی کوشش میں خلل کا باعث بنے گی اور نہ صرف یہ بلکہ اس سے علاقائی عدم استحکام میں اضافہ ہوگا۔‘

حماس

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES

اسرائیل کے چار ہمسایہ مُمالک کیا چاہتے ہیں؟

برسلز میں یورپی کونسل کے اجلاس کے بعد سپین کے وزیر اعظم پیڈرو سانچیز نے کہا تھا کہ سپین نے آئرلینڈ، مالٹا اور سلووینیا کے رہنماؤں کے ساتھ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے لیے پہلا قدم اٹھانے پر اتفاق کیا۔

سپین کی جانب سے بات کرتے ہوئے سانچیز نے بتایا کہ یہ معاہدہ جمعے یعنی 22 مارچ کی صبح کونسل کے اجلاس کے موقع پر اپنے آئرش، مالٹا اور سلووینیا کے ہم منصبوں سے ملاقات کے بعد طے پایا۔

ان چار مُمالک کے درمیان ہونے والی ملاقات کے بعد آئرلینڈ کی جانب سے جاری ہونے والے مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ہم اس بات پر متفق ہیں کہ خطے میں دیرپا امن و استحکام کے حصول کا واحد راستہ دو ریاستی حل پر عمل درآمد ہے۔‘

واضح رہے کہ عرب ممالک اور یورپی یونین نے نومبر میں سپین میں ہونے والے ایک اجلاس میں اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ فلسطین اسرائیل تنازع کا حل دو ریاستی حل ہے۔