ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کا کہنا ہے کہ جعفر ایکسپریس میں دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہونے والے 26 افراد میں سے 18 کا تعلق آرمی اور ایف سی سے ہے۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آپریشن کے دوران 26مسافر شہید ہوئے ،21مسافروں کی لاشیں ٹرین کے قریب ، 5کی لاشیں کچھ فاصلے پر ملیں ،اس آپریشن میں33دہشت گرد ہلاک ہوئے،تعداد ان کی زیادہ تھی۔
پاکستان کی آئی ایم ایف کو 2 ارب ڈالر قرض کی درخواست
26مسافر شہید ہوئے جن کی تعداد بڑھ سکتی ہے ،354بازیاب مسافروں میں سے37زخمی ہیں۔26میں سے 18شہدا کا تعلق ایف سی اور پاک آرمی سے تھا ،3ایف سی اہلکار چوکی پر حملے کے دوران شہید ہوئے ،شہدا میں 3افراد کا تعلق ریلوے و دیگر اداروں اور 5افراد سویلین شامل ہیں۔
انہوں نے واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ 11مارچ کوایک بجےبولان کےقریب ریلوےٹریک کودھماکےسے اڑایاگیا،دشوار گزار پہاڑی علاقے میں ریلوے ٹریک کودھماکہ خیزمواد سے اڑایاگیا۔
دہشت گردوں نےجعفر ایکسپریس کو روک کرمسافروں کویرغمال بنایا،دہشت گرد اپنےسہولت کاروں سےرابطے میں تھے،دہشت گردوں نے یرغمالیوں کو ٹرین سے اتار کر زمین پر اکھٹا کیا۔
دہشت گرد مختلف گروپس میں تھے اور بلندیوں پر بیٹھے تھے ،دہشت گردوں نے مسافروں کو مختلف ٹولیوں کی شکل میں بٹھایا ،بھارتی میڈیا نے جعفر ایکسپریس پر حملے کوبہت کوریج دی ،اے آئی تصاویراور دہشت گرد گروپ کی دی گئی ویڈیو کےذریعے بیانیہ بنایاگیا۔
دہشت گردوں کی سپورٹ سے انفارمیشن وار فیئر بھی چل رہی تھی ،انفارمیشن وار فیئر کو بھارتی میڈیا لیڈ کر رہا تھا،بھارتی میڈیا ایک عالمی دہشت گرد گروپ کی شیئر کردہ ویڈیو چلا رہا تھا۔
بھارتی میڈیا دہشت گردوں کی شیئر کردہ ویڈیو کےذریعے پروپیگنڈا کر رہا تھا ،شام کے وقت دہشت گردوں نے یرغمالیوں کے ایک گروپ کو چھوڑا ،کچھ یرغمالیوں کو چھوڑنے کی وجہ بڑی تعداد کو ہینڈل نہ کرسکنا بھی تھا۔
کچھ یرغمالیوں کو چھوڑ کر انسانی ہمدرد بننے کی جھوٹی کوشش کی گئی ،مصنوعی ذہانت کا سہارالیکر سوشل میڈیا پر جھوٹی وڈیوز بنائی گئیں،دہشتگردوں نے منظم انداز میں کارروائی کی ،جعفرایکسپریس حملے سے پہلے دہشتگردوں نے ایف سی چیک پوسٹ پر حملہ کیا۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے پریس کانفرنس میں مزید کہا کہ 12مارچ کی صبح پاک آرمی نے منصوبہ بندی سے دہشتگردوں کو انگیج کیا،دہشتگردی کے لیے انتہائی دشوار گزار راستے کا انتخاب کیا گیا۔
دہشتگرد افغانستان میں اپنے ہینڈلرز سے مسلسل رابطے میں تھے،خود کش بمباروں کو یرغمالیوں کے پاس چھوڑا گیا ، کچھ دہشت گردپہاڑوں کی طرف بھاگ گئے،12مارچ کی صبح فائرنگ کے دوران موقع پا کر کچھ یرغمالی بھاگے۔
مختلف سمت میں بھاگنے والے یرغمالیوں کو ایف سی نے ریسکیو کیا ،بھاگنے والے یرغمالیوں پر دہشت گردوں نے فائرنگ بھی کی ،کچھ یرغمالی دہشت گردوں کی فائرنگ سے زخمی بھی ہو ئے۔
پورے آپریشن میں کسی یرغمالی مسافر کو نقصان نہیں پہنچا ،دہشتگرد دہشت برقرار رکھنے کے لیے یرغمال مسافروں کو مارتے رہے، ضرار کے جوانوں نے آپریشن ٹرین کے انجن سے شروع کیا۔
ضرار کے جوانوں نے بوگی بائی بوگی کلیئر کیا ،آپریشن کے دوران ٹرین میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے ،آپریشن کےدوران ایک بھی یرغمالی کو نقصان نہیں پہنچا ،آپریشن انتہائی مہارت اور احتیاط سے کیا گیا۔
آپریشن کے دوران تمام دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا گیا ،ٹرین یرغمالیوں کے واقعات میں سے یہ کامیاب ترین آپریشن کیاگیا ہے ،36گھنٹے کے اندر اندر مشکل ترین آپریشن مکمل کیا گیا۔
واقعے کے ارد گرد کے علاقوں میں ابھی بھی کلیئرنس جاری ہے،بڑی مہارت اور بہادری سے سیکیورٹی فورسز نے آپریشن کیا ،اس دہشت گردی کے واقعے کے تانے بانے افغانستان سے ملتے ہیں۔
یہ ایک پراسس کا حصہ ہے جو چل رہا ہے ،افغانستان سے آنے والی تشکیلوں میں یہ شامل ہوتے ہیں ،خارجی بدرالدین نائب گورنر صوبہ باغدیز کا بیٹا ہے جو یہاں مارا گیا ،دہشت گردی کرنےوالاخارجی مجیب الرحمان افغانستان آرمی میں بٹالین کمانڈر ہے۔
پاکستان کرپٹو کونسل کا باضابطہ قیام عمل میں آگیا،وفاقی وزیر خزانہ سربراہ مقرر
اس واقعہ کا مین اسپانسر مشرقی ہمسایہ ملک ہے ،جعفر ایکسپریس کا واقعہ ایک تسلسل کا نتیجہ ہے ،دہشت گردی کیخلا ف پوری قوم نے لڑنا ہوتا ہے ،2014کے بعد اتفاق رائے سے نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا تھا۔
تمام سیاسی جماعتوں اور اسٹیک ہولڈر نے بیٹھ کر نیشنل ایکشن پلان بنایا ،پچھلی حکومت نے اسی نیشنل ایکشن پلان کو ریویو کیا ،تمام اسٹیک ہولڈر متفق ہیں کہ یہ14کام کریں گے تو دہشت گردی پر قابو ہوگا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے مزید کہا کہ 2024میں 55ہزار775انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کیے،رواں سال 11 ہزار654انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کر چکے ہیں ،اس سال روزانہ کی بنیاد پر180انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کیے جا رہےہیں۔
1250کے قریب دہشت گرد 2024سے اب تک ہلاک ہو چکے،2024سے اب تک 563جوان شہید ہوئے ،افغانستان میں ہر طرح کی دہشت گردی کی اسپیس بڑھ رہی ہے،ہمارے پاس فتنہ الخوارج اور دیگر دہشت گردوں کی افغانستان میں موجودگی کے شواہد ہیں۔
دہشت گردوں کے افغانستا ن میں مراکز ہیں ان کی لیڈر شپ وہاں موجود ہے،افغانستا ن میں دہشت گردی کی تربیت اورسہولت کاری ہو رہی ہے،امریکا کے انخلا کے بعدنائٹ ویژن ڈیوائسز بھی دہشت گردوں کے پاس موجود ہیں۔
پاکستان غیر قانونی اسپیکٹرم کیخلاف کارروائیاں کر رہا ہے ،اسمگلنگ ، نان کسٹم گاڑیاں اور ایرانی تیل جیسا اسپیکٹرم شامل ہے ،یہ غیر قانونی اسپیکٹرم کا کئی اربوں ڈالر کا مافیہ ہے ،مافیہ نہیں چاہتا کہ ان کا کام ختم ہو۔
مسنگ پرسن کے حوالے سے ایک کمیشن بنایا ہوا ہے،مسنگ پرسن کے کمیشن کے پاس 10ہزار405کیسز لائے گئے،10ہزار405کیسز میں سے8ہزار144کیسز حل کئے گئے،لاپتہ افراد کے 2261کیسز انڈر انویسٹی گیشن ہیں۔
اس کمیشن میں بلوچستان سے ٹوٹل 2911کیسز رپورٹ ہوئے،2911کیسز میں سے صرف 452رہ گئے ہیں،مسنگ پرسنز کے معاملے پر اسٹیٹ کی طرف سے بھی سوال بنتے ہیں،سوال یہ ہے کہ بی ایل اے میں کون لوگ ہیں،ان کی فہرست کہاں ہے؟
بی ایل میں شامل افراد کون ہیں، کیا وہ مسنگ ہیں،افغانستان میں تربیتی مراکز میں جو ہیں ان کی لسٹیں دے دیں،فٹ پاتھوں پر محنت مزدوری کرنے والے کئی لوگ لاوارث ہو کر ان کو دفنایا جاتا ہے۔
کیا امریکا ،یوکے اور بھارت میں لاپتہ افراد کا مسئلہ نہیں،پوری دنیا میں لوگ لاپتہ ہوتے ہیں،اس طرح کا بیانیہ بنا کرکہاں اپنی افواج اوراپنے اداروں پر چڑھ دوڑتے ہیں،پاکستان میں ہزاروں لوگ دہشت گردی کے ہاتھوں شکار ہوئے۔
دہشتگردی کے ہاتھوں شہید ہونے والوں میں ہر طبقہ فکر کے لوگ شامل ہیں،آپ لوگ اس بیانیہ کو سمجھیں کہ کہاں سے آتا ہے اور کس کیلئے بنایا جاتا ہے،انٹیلی جنس میں نہیں بتایا جاتا کہ ہم کیسے اورکیا کررہے ہیں۔
انٹیلی جنس ایجنسیاں دن رات شہریوں کی حفاظت کیلئے لگی ہوئی ہیں ،اس کو انٹیلی جنس فیلئر کہنے سے احتیاط کرنا چاہئے،انٹیلی جنس ادارے جانتے ہیں کہ کہاں تھریٹ ہے؟
جعفر ایکسپریس واقعے میں ہماری انٹیلی جنس ایجنسیز نے بھی اہم کردارادا کیا ہے،انٹیلی جنس ایجنسیاں جانتی ہیں کہ سبی کے ایریا میں ایک تھریٹ ہے،ریسپانس میں اہم کردار ایجنسیوں نے ادا کیا ہے۔
اس موقع پر وزیراعلیٰ بلوچستان سرفرازبگٹی کا کہنا تھا کہ جعفرایکسپریس پرحملے کے واقعے کی مذمت کرتے ہیں ،سیکیورٹی فورسز نے دہشت گردوں کا بہادری سے مقابلہ کیا،سیکیورٹی فورسزنے یرغمالیوں کو بازیاب کرایا۔
بین الاقوامی برادری نے جعفرایکسپریس حملے کی مذمت کی اور اظہا ریکجہتی کیا،دہشت گردوں کااسلام سے کوئی تعلق نہیں ،معاشرے میں مہمان اور مسافر کا ایک احترام ہے ،دہشت گردوں نے مہمانوں کو دیکھا اور نہ ہی مسافروں کا احترام کیا۔
افغانستان کی سرزمین پاکستان کیخلاف استعمال ہو رہی ہے ،پچھلی حکومت میں دہشت گردوں کو جیلوں سے نکالا گیا ،بلوچستان میں بھی علیحدہ پسندوں کے لیڈرز کو جیلوں سے چھوڑا گیا،جیلوں سے چھوڑے گئے علیحد گی پسندلیڈروں نے دوبارہ کیمپس لگائے۔
پاکستان میں تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی سے نمٹنے کی فوری ضرورت ہے،ڈاکٹر علی میر
بلوچستان کے حوالے سے ریاست ڈیول مائنڈ سیٹ میں ہے،یہ جو تشدد ہے اس کا ہمارے روایات،حقوق سے کوئی تعلق نہیں،اس دہشت گردی کو میڈیا نے ناراض بلوچ کا نام دیا،رائٹ آف وائلنس صرف اور صرف ریاست کے پاس ہے۔
افغانستان کے اندر بیٹھ کر پلان کیا جاتا ہے،اسٹیٹ کے پاس تمام ثبوت ہیں،ہماری سیکیورٹی فورسزمیں ان دہشت گردوں سے نمٹنے کی صلاحیت ہے،ایک شخص بھی لاپتہ ہے تو اس کی کوئی جسٹی فکیشن نہیں۔
کوئی شخص لاپتہ ہے تو اس کو ڈھونڈنا حکومت کی ذمہ داری ہے،لاپتہ افراد کو پراپیگنڈا ٹولز کے طور پراستعمال کیاجائے تو اس کی مذمت کرنی چاہئے،کیا صرف پاکستان میں لاپتہ افراد ہیں۔
آج دنیا کے ترقی پذیر ممالک میں بھی لاپتہ افراد موجو دہیں ،بلوچستان میں بار بار لاپتہ افراد کا ذکر کر کے پراپیگنڈا کیا جاتا ہے،دہشت گرد ہمارے ملک کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں،انسانی حقوق کی خلا ف ورزی بی ایل اے کی طرف سے ہورہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بلوچستان کا سب سے خوبصورت لمحہ پاکستان کے ساتھ الحاق ہے،ہم نے اپنی مرضی سے پاکستان کے ساتھ الحاق کیا جس کو مزید مضبوط کرنا ہے،افغانستان پاکستان کیخلاف کسی ملک کی پراکسی بنا ہوا ہے۔
ان کے ہینڈلرز کون ہیں جو ان کو اکٹھا کرتے ہیں،آئیڈیالوجیکلی خوارج اور بی ایل اے دونوں بہت مختلف ہیں،یہ دونوں مل کر آپریٹ کررہے ہیں،مل کر آپریٹ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ان کو اکٹھا کیاجارہا ہے جو ان کو پیسے دیتے ہیں۔
ہینڈلرز ان کو اکٹھا کررہے ہیں جو ان کو پیسے اور ٹرین کرتے ہیں،افغانستان واحد ملک ہے جس نے پاکستان کی مخالفت کی،افغانستان نے اقوام متحدہ میں تسلیم کرنے سے انکار کیا،افغانستان نے پشتون زلمے بنایا، چارسدہ میں شیرپاؤ کا قتل کیا۔
ہم نے ہمیشہ افغانستان کی مدد کی،ہم نے افغانی مہاجرین کو پاکستان میں پناہ دی،افغان مہاجرین کی وجہ سے ہمارے کاروبار تباہ ہورہے تھے،ہم نے برادر اسلامی ملک کیلئے ہمیشہ بہتر سوچا،آج بی ایل اے افغانستان میں رہ رہے ہیں،اسلحہ لیکر پھر رہے ہیں۔
میں مالٹا کا نام کیوں نہیں لےرہا؟افغانستان کررہا ہے تواس کا نام لوں گا ،افغانستان اپنے وعدے بھی پورے نہیں کررہا،
سیاست میں ڈائیلاگ کا راستہ ہمیشہ کھلا رہتا ہے،ریاست کے خلاف اسلحہ اٹھانے والوں کے ساتھ کوئی ڈائیلاگ نہیں ہوگا۔
اپوزیشن لیڈر کو عوامی مسائل کی فکر نہیں،اسپیکر قومی اسمبلی
یہ سیاسی مسئلہ نہیں دہشت گردی کا مسئلہ ہے،425مسافروں کو ٹکٹ ایشو ہوئے ہیں،ضروری نہیں کہ ٹکٹ لینے والا ہر مسافر سفر کرے،کچھ مسافروں نے سفر نہیں کیاہوگا، کچھ لوگوں نے اگلے اسٹیشن پر جانا تھا۔
ایک دو لوگ جو بھاگ گئے تھے ہوسکتا ہے وہ دوبارہ ان کے ہاتھ لگ گئے ہوں، کل شام کو بھی بھاگنے والے2افرادایف سی کی چیک پوسٹ پر آئے،ساری قیادت کہہ رہی ہے کہ مشکل آپریشن تھا۔