بتائیے کہ آپ کوکیز کے بارے میں متفق ہیں

ہم آپ کو بہترین آن لائن تجربہ دینے کے لیے کوکیز استعمال کرتے ہیں۔ برائے مہربانی ہمیں بتائیں کہ آپ ان تمام کوکیز کے استعمال سے متفق ہیں

ماہرنگ بلوچ سمیت بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں کے خلاف تین افراد کے قتل اور دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمات درج

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں کو سنیچر کے روز ایم پی او کے تحت گرفتار کیا گیا تھا تاہم اب ان پر بلوچ یکجہتی کمیٹی کے دھرنے پر پولیس کی کریک ڈاؤن کے دوران مارے گئے تین افراد کے قتل کے مقدمے میں بھی نامزد کر دیا گیا ہے۔ کمیٹی کا دعویٰ ہے کہ یہ افراد پولیس کی فائرنگ سے ہلاک تھے اس کے برعکس پولیس کا الزام ہے کہ یہ لوگ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ’بلوائیوں‘ کی فائرنگ سے ہلاک اور زخمی ہوئے

خلاصہ

  • کینیڈا کے نئے وزیر اعظم مارک کارنی نے مُلک میں فوری اور قبل از وقت انتخابات کروانے کا اعلان کر دیا ہے۔
  • ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے دیگر رہنماؤں کو اگرچہ سنیچر کے روز ایم پی او کے تحت گرفتار کیا گیا تھا لیکن اب ان کو ان تین افراد کے قتل کے مقدمے میں بھی نامزد کر دیا گیا ہے۔
  • پاکستانی سکیورٹی فورسز نے افغان سرحد پر شدت پسندوں کی جانب سے در اندازی کی کوشش ناکام بنانے ہوئے 16شدت پسندوں کو ہلاک کر دیا ہے۔
  • ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان کے اہم حریف کو باضابطہ طور پر گرفتار کر لیا گیا ہے اور ان پر بدعنوانی کے الزامات عائد کیے گئے ہیں تاہم امام اوغلو ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔

لائیو کوریج

  1. یہ صفحہ مزید اپ ڈیٹ نہیں کیا جا رہا ہے!

    بی بی سی اردو کی لائیو پیج کوریج جاری ہے تاہم یہ صفحہ مزید اپ ڈیٹ نہیں کیا جا رہا ہے۔

    24 مارچ کی خبریں جاننے کے لیے یہاں کلک کریں

  2. کینیڈین وزیر اعظم کا مُلک میں قبل از وقت انتخابات کا اعلان

    Getty

    ،تصویر کا ذریعہGetty Images

    کینیڈا کے نئے وزیر اعظم مارک کارنی نے مُلک میں فوری اور قبل از وقت انتخابات کروانے کا اعلان کر دیا ہے۔

    کینیڈا کے وزیر اعظم مارک کارنی کی جانب سے قبل از وقت انتخابات کا اعلان کیے جانے کے بعد کینیڈین عوام اب 28 اپریل کو ووٹ ڈالیں یعنی اپنے حقِ رائے دہی کا استعمال کریں گے۔

    کینیڈا کے وزیراعظم مارک کارنی کا کہنا ہے کہ ’ان کی حکومت ’مضبوط مثبت مینڈیٹ‘ چاہتی ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے محصولات ’ہماری زندگیوں کے سب سے اہم خطرات‘ میں سے ایک ہیں۔

    کارنی کا مزید کہنا تھا کہ ’انھیں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سخت اقدامات سے نمٹنے اور ایک ایسی معیشت بنانے کے لیے ایک واضح اور مثبت مینڈیٹ کی ضرورت ہے جس سے سب کو فائدہ ہو۔‘

    وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ان کی نسل خوش قسمت ہے، جبکہ آج نوجوانوں کو اپنے بچوں کے مستقبل کے لئے کرایہ اور بچت کے اخراجات برداشت کرنے کے لئے سخت محنت کرنی پڑتی ہے۔

    کینیڈا کے وزیراعظم مارک کارنی کے مُلک میں قبل از وقت انتخابات کے اس اعلان سے مُلک ایک انتخابی مہم کا آغاز ہوا ہے جس میں کارنی کو ان کے اہم حریف کنزرویٹو پارٹی کے پیئر پولییور کے خلاف کھڑا کیا گیا ہے۔

    کینیڈین وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ پولییور کا نقطہ نظر ڈونلڈ ٹرمپ کے نقطہ نظر سے ’غیر معمولی طور پر ’مماثلت‘ رکھتا ہے۔

    دریں اثنا، کارنی کے اعلان سے پہلے، پولییور نے اپنی مہم کا آغاز کرتے ہوئے ٹیکسوں میں کٹوتی، قدرتی وسائل کو ’استعمال‘ کرنے اور کینیڈا میں ملازمتوں کے مواقعے واپس لانے پر زور دیا ہے۔

  3. ماہرنگ بلوچ سمیت بلوچ یکجہتی کمیٹی کے دیگر رہنماؤں کے خلاف تین افراد کے قتل اور دہشت گردی کی دفعات کے تحت بھی مقدمات درج, محمد کاظم، بی بی سی اردو، کوئٹہ

    BBC

    ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے دیگر رہنماؤں کو اگرچہ سنیچر کے روز ایم پی او کے تحت گرفتار کیا گیا تھا لیکن اب ان کو ان تین افراد کے قتل کے مقدمے میں بھی نامزد کر دیا گیا ہے۔

    قتل ہونے والے یہ تینوں افراد بلوچ یکجہتی کمیٹی کے دھرنے پر پولیس کی کریک ڈاؤن کے دوران مارے گئے تھے۔

    بلوچ یکجہتی کمیٹی کا دعویٰ ہے کہ یہ تین افراد پولیس کی جانب سے مظاہرین پر ہونے والے کریک ڈاؤن کے دوران براہ راست پولیس کی فائرنگ سے ہلاک اور زخمی ہوئے۔‘

    تاہم اس کے برعکس پولیس کی جانب سے درج تین ایف آئی آرز میں سے ایک میں یہ الزام عائد کیا گیا ہے کہ یہ لوگ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ’بلوائیوں‘ کی فائرنگ سے ہلاک اور زخمی ہوئے۔

    بی وائی سی کے رہنمائوں کے خلاف قتل کا مقدمہ کس پولیس سٹیشن میں درج کیا گیا ہے؟

    بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیر اہتمام جمعرات کے روز یونیورسٹی آف بلوچستان کے قریب دھرنا جعفر ایکسپریس کے حملے کے بعد ہلاک ہونے والے مبینہ عسکریت پسندوں کی لاشوں کو حوالے نہ کرنے اور کمیٹی کے رہنمائوں کی گرفتاری کے خلاف دیا گیا تھا۔

    یہ علاقہ سریاب پولیس تھانے کی حدود میں آتا ہے۔ 21 مارچ کو سریاب پولیس سٹیشن میں درج ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ ’ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، بیبو بلوچ، گلزادی، صبیحہ بلوچ اور صبغت اللہ کی قیادت میں سریاب روڈ پر چار سو سے پانچ سو ’بلوائی کالعدم تنظیموں‘ کی حمایت میں جمع تھے اور وہ ریاست مخالف نعرے لگارہے تھے۔‘

    ایف آئی آر میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ ’بلوائیوں نے توڑ پھوڑ کی اور ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور دیگر افراد دھرنے میں شامل مظاہرین کو مسلسل پولیس پر حملے کے لیے اکساتے رہے۔‘

    ایف آئی آر میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ’بلوائیوں نے پولیس پارٹی پر آتشیں اسلحے سے فائرنگ کی جس سے پولیس اہلکاروں کے علاوہ راہگیر اور بلوائیوں کے اپنے ساتھی بھی زخمی ہوگئے۔‘

    ایف آئی آر کے مطابق زخمیوں کو ہسپتال منتقل کیا جارہا تھا کہ ان میں سے تین افراد بولان میڈیکل کمپلیکس ہسپتال منتقلی کے دوران ہلاک ہوگئے۔

    اس ایف آئی آر میں ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، بلوچ یکجہتی کمیٹی کے متعدد رہنمائوں کے علاوہ دیگر افراد کے خلاف قتل اور اقدامِ قتل سمیت تعزیراتِ پاکستان کی 16 دفعات کے علاوہ انسداد دہشت گردی کے دفعات کے تحت بھی مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

    X/BalochYakjehti

    ،تصویر کا ذریعہX/BalochYakjehti

    ،تصویر کا کیپشنفائل فوٹو

    عسکریت پسندوں کی لاشوں کو زبردستی لے جانے کے خلاف سول لائنز پولیس سٹیشن میں مقدمے کا اندراج

    سریاب پولیس سٹیشن میں مقدمے سے قبل کوئٹہ میں واقع سول ہسپتال کے مردہ خانے سے عسکریت پسندوں کی لاشوں کو زبردستی لے جانے کے الزام میں ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ سمیت ڈیڑھ سو افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔

    یہ مقدمہ سول لائنز پولیس کے سب انسپیکٹر نعمت اللہ کی مدعیت میں 19 مارچ کو سول لائنز پولیس سٹیشن میں درج کیا گیا ہے۔

    اس سلسلے میں درج ایف آئی آر کے مطابق ’مدعی دیگر پولیس اہلکاروں کے ہمراہ گشت پر تھے کہ انھیں اطلاع ملی کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے اراکین ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور بیبرگ بلوچ اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ پریس کانفرنس کی۔‘

    ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ ’انھوں نے یہ پریس کانفرنس مارے جانے والے عسکریت پسندوں کی تحسین اور دہشتگردی کی بیانیے کو بڑھوتری دینے کے لیے کی اور کہا کہ وہ سول ہسپتال میں موجود لاشوں کو لے جائیں گے۔‘

    ایف آئی آر کے مطابق ’19 مارچ کو ڈاکٹر ماہ رنگ اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کی ایما پر سو سے ڈیڑھ سو افراد سول ہسپتال کوئٹہ پہنچے اور سول ہسپتال پر دھاوا بول دیا اور مردہ خانے کے دروازے کو توڑ کر ہنگامہ آرائی کرتے ہوئے جعفر ایکسپریس پر حملہ کرنے والوں کی لاشیں زبردستی چھین کر لے گئے جو کہ سول ہسپتال میں امانتاً رکھوائی گئی تھیں۔‘

    ایف آئی آر میں ڈاکٹر ماہ رنگ اور دیگر کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کے علاوہ تعزیرات پاکستان کے مختلف دفعات لگائے گئے ہیں۔

    Getty Images

    ،تصویر کا ذریعہGetty Images

    ،تصویر کا کیپشنفائل فوٹو

    اس کے علاوہ ایک اور ایف آئی آر بروری پولیس سٹیشن میں درج کی گئی ہے۔

    ابتدائی طور پر بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنمائوں کو تین ایم پی او کے تحت گرفتار کیا گیا۔

    بیبرگ بلوچ سمیت بلوچ یکجہتی کمیٹی کے بعض رہنمائوں کو پہلے گرفتار کیا گیا تھا تاہم خود ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور بعض دیگر رہنمائوں کو جمعہ کو علی الصبح گرفتار کیا گیا۔

    کوئٹہ میں انتظامیہ کے ایک سینئر اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ حالیہ احتجاج کے حوالے سے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے 36 رہنماؤں اور کارکنوں کو 3 ایم پی او کے تحت گرفتار کیا گیا۔

    تاہم بلوچ یکجہتی کمیٹی کے وکیل عمران بلوچ نے بتایا کہ گرفتار افراد کی تعداد اس سے زیادہ ہے اور بعض لوگوں کو مختلف تھانوں میں رکھا گیا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، بیبو بلوچ اور 12 سے 13 سال کی دو بچیوں کے علاوہ بعض دیگر لوگوں کو پہلے بجلی گھر تھانہ منتقل کیا گیا جبکہ اس کے بعد ان کو ڈسٹرکٹ جیل منتقل کیا گیا۔

    ان کا کہنا تھا کہ ’اگر یہ ایم پی او کے تحت گرفتار نہیں ہوتے تو ان کو جیل منتقل نہیں کیا جاتا اور ان کو تھانے میں ہی رکھا جاتا لیکن اب ان کے خلاف بدنیتی کی بنیاد پر مختلف تھانوں میں مقدمات درج کیے گئے ہیں۔‘

    عمران بلوچ نے بتایا کہ ’انھیں سرکاری حکام کی جانب سے فون آیا کہ جیل آئیں اور گرفتار کی جانے والی دونوں بچیوں اور بیبو بلوچ کو لے جائیں لیکن جب وہ جیل گئے تو دونوں بچیوں کو رہا گیا لیکن بیبو بلوچ کو نہیں چھوڑ دیا گیا۔‘

    انھوں نے بتایا کہ ’بچیوں کو شاید بدنامی سے بچنے کے لیے رہا کیا گیا لیکن بیبو بلوچ کے حوالے سے بتایا گیا کہ ان کے خلاف دوسرے مقدمات درج ہوئے ہیں اس لیے ان کو رہا نہیں کیا جاسکتا ہے۔‘

    درایں اثنا بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنمائوں نے اتوار کو ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے تین افراد کے قتل اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں اور کارکنوں کی گرفتار کی مذمت کی۔‘

    انھوں نے کہا کہ ’حکمران بلوچستان کے حالات کو مزید تباہی کی جانب دھکیل رہے ہیں۔‘

  4. افغان سرحد پر در اندازی کی کوشش ناکام، 16 شدت پسند ہلاک: آئی ایس پی آر

    فائل فوٹو

    ،تصویر کا ذریعہGetty Images

    ،تصویر کا کیپشنفائل فوٹو

    پاکستانی سکیورٹی فورسز نے افغان سرحد پر شدت پسندوں کی جانب سے در اندازی کی کوشش ناکام بنانے ہوئے 16شدت پسندوں کو ہلاک کر دیا ہے۔

    پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ کی جانب سے جاری ایک بیان کے مطابق شمالی وزیرستان کے علاقے غلام خان کلے میں 22 اور 23 مارچ کی درمیانی شب دراندازی کی کوشش کی گئی جس پر سکیورٹی فورسز نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے شدید فائرنگ کے تبادلے میں 16 شدت پسندوں کو ہلاک کردیا۔

    آئی ایس پی آر کا کہنا کہ ’پاکستان بار بارافغان عبوری حکومت سےمؤثر بارڈر مینجمنٹ کےلیے کہتا رہا ہے، توقع ہے افغان عبوری حکومت اپنی ذمہ داریاں پوری کرےگی۔‘

    آئی ایس پی آر نے مطالبہ کیا ہے کہ افغانستان شدت پسندوں کو پاکستان مین دہشتگردی کے لیے اپنی سرزمین استعمال کرنے سے روکے۔

    بیان کے مطابق سکیورٹی فورسز اپنی سرحدوں کو محفوظ بنانےکے لیے پرعزم ہیں۔

  5. انتخابات میں ترکی کے صدر اردوغان کے ممکنہ حریف اور استنبول کے میئر باضابطہ گرفتار، ترکی میں احتجاجی مظاہرے

    اکرام امام اوغلو

    ،تصویر کا ذریعہGetty Images

    ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان کے اہم حریف کو باضابطہ طور پر گرفتار کر لیا گیا ہے اور ان پر بدعنوانی کے الزامات عائد کیے گئے ہیں تاہم امام اوغلو ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔

    ترکی کے شہر استنبول کے میئر اکرام امام اوغلو کو اتوار کے روز ہونے والی رائے شماری میں حزب اختلاف کی رپبلکن پیپلز پارٹی(سی ایچ پی) کے 2028 کے صدارتی امیدوار کے طور پر منتخب کیے جانے کا امکان ہے۔

    مقدمے کی سماعت تک حراست میں رکھے جانے کے بعد ان کا کہنا تھا کہ ’میں کبھی نہیں جھکوں گا‘۔

    بدھ کے روز انھیں حراست میں لیے جانے کے اقدام نے ایک دہائی سے زیادہ عرصے میں سب سے بڑے مظاہروں کو جنم دیا ہے۔

    ترکلی احتجاج

    ،تصویر کا ذریعہGetty Images

    اردوغان نے مظاہروں کی مذمت کی ہے اور سی ایچ پی پر ’امن میں خلل ڈالنے اور لوگوں کو پولرائز کرنے‘ کی کوشش کرنے کا الزام لگایا ہے۔

    استغاثہ نے اعلان کیا کہ امام اوغلو کو ’ایک مجرمانہ تنظیم قائم کرنے اور اس کا انتظام کرنے، رشوت لینے، بھتہ خوری، غیر قانونی طور پر ذاتی ڈیٹا ریکارڈ کرنے اور ٹینڈر میں دھاندلی کرنے‘ کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔

    امام اوغلو پر ’مسلح دہشت گرد تنظیم کی مدد‘کے الزامات بھی عائد کیے گئے تھے لیکن ترک عدالت کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں ان کی گرفتاری ’اس مرحلے پر ضروری نہیں‘ کیونکہ وہ پہلے ہی گرفتار ہو چکے ہیں اور ان پر بدعنوانی کے الزامات عائد کیے جا چکے ہیں۔

    سی ایچ پی نے گذشتہ سال کے بلدیاتی انتخابات کے سلسلے میں کرد نواز پیپلز ایکوالٹی اینڈ ڈیموکریسی پارٹی (ڈی ای ایم) کے ساتھ حقیقی اتحاد کیا تھا۔

    ڈی ای ایم پر پی کے کے یا کردستان ورکرز پارٹی سے وابستہ ہونے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔

    پی کے کے نے 1984 سے ترکی کے خلاف بغاوت کرنے کے بعد جنگ بندی کا اعلان کیا ہے۔ اسے ترکی، یورپی یونین، برطانیہ اور امریکہ میں ایک دہشت گرد گروپ کے طور پر کالعدم قرار دیا گیا ہے۔

    ترکی ، احتجاج

    ،تصویر کا ذریعہGetty Images

    سنیچر کے روز استنبول میں میئر کے دفتر کے باہر ہوا میں آنسو گیس فائر کی گئی مظاہروں شام تک بڑی تعداد میں لوگ شامل ہو گئےاس لیے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے بہت زیادہ مقدار میں آنسو گیس فائر کی گئی۔

    مظاہرین نے اوغلو کی غیر قانونی حراست کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے اجتماعات پر حکومتی پابندی کی خلاف ورزی کی۔ سیاہ لباس میں ملبوس اور چہرے پر ماسک پہنے ایک نوجوان خاتون نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ سیاسی وجوہات یا اپوزیشن کی حمایت کرنے کی وجہ سے احتجاج نہیں کر رہی تھیں بلکہ جمہوریت کا دفاع کرنے کے لیے احتجاج کر رہی تھیں۔

    ان کا کہنا تھا ’میں یہاں انصاف کے لیے ہوں، میں یہاں آزادی کے لیے ہوں۔ ہم آزاد لوگ ہیں اور ترک عوام اسے قبول نہیں کر سکتے۔ یہ ہمارے رویّے اور ثقافت کے خلاف ہے۔‘

    اپنے 11 سالہ بیٹے کو احتجاج میں لانے والی ایک اور خاتون نے کہا کہ وہ اسے لانا چاہتی ہیں کیونکہ وہ اس کے مستقبل کے بارے میں فکرمند ہیں۔

    ان کا کہنا تھا ’ترکی میں رہنا دن بدن مشکل ہوتا جا رہا ہے، ہم اپنی ہی زندگیوں کو کنٹرول نہیں کر سکتے، ہم یہ منتخب نہیں کر سکتے کہ ہم کس کو چاہتے ہیں اور یہاں کوئی حقیقی انصاف نہیں ہے۔‘

    سنیچر کی رات سڑکوں پر موجود بہت سے لوگوں نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ ایک ایسے مستقبل کے لیے لڑ رہے ہیں جس پر وہ یقین کر سکیں۔

    انقرہ اور ازمیر میں پولیس نے مظاہرین کے خلاف واٹر کینن کا استعمال کیا۔

  6. صحت میں بہتری کے بعد پوپ فرانسس کی ہسپتال سے ویٹیکن واپسی

    پوپ

    ،تصویر کا ذریعہAPTN

    پوپ فرانسس 14 فروری کو ہپستال میں داخل ہونے کے بعد پہلی بار روم کے ہسپتال کی کھڑکی میں عوام کے سامنے آئے ہیں۔

    88 سالہ پوپ کو اس کے بعد ہسپتال سے فارغ کر دیا گیا ہے اور ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ انھیں ویٹیکن میں کم از کم دو ماہ آرام کی ضرورت ہوگی۔

    پوپ کا علاج کرنے والے ڈاکٹر سرجیو الفیری نے کہا کہ گذشتہ پانچ ہفتوں کے دوران انھوں نے ’دو بار انتہائی سنگین صورتحال کا سامنا کیا جب ان کی زندگی خطرے میں تھی۔

    پوپ مکمل طور پر ٹھیک نہیں ہوئے ہیں لیکن ان کے ڈاکٹروں کے مطابق اب انھیں نمونیا نہیں ہے اور اب ان کی حالت مستحکم ہے۔

    ڈاکٹر الفیری نے کہا کہ ڈبل نمونیا کے باعث مریض کسی حد تک اپنی آواز کھو دیتے ہیں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان کی آواز بحال ہو جائے گی۔

    جمعے کے روز کارڈینل وکٹر فرنینڈس نے کہا تھا کہ ’ہائی فلو آکسیجن ہر چیز کو خشک کر دیتی ہے‘ اور اس کے نتیجے میں پوپ کو بولنے میں دقت ہو گی۔

    ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اگر بہتری کا رجحان جاری رہا تو پوپ جلد از جلد کام پر واپس آ سکیں گے۔

    ویٹیکن نے جمعے کے روز کہا تھا کہ پوپ کے سانس لینے اور نقل و حرکت میں کچھ بہتری دیکھی گئی ہے۔

    اس نے تصدیق کی تھی کہ وہ اب رات میں سانس لینے کے لیے مکینیکل وینٹیلیشن کا استعمال نہیں کرتے ہیں بلکہ اس کے بجائے وہ اپنی ناک کے نیچے ایک چھوٹی سی ٹیوب کے ذریعہ آکسیجن حاصل کر رہے ہیں۔ دن کے دوران، وہ کم ہائی فلو آکسیجن استعمال کر رہے ہیں۔

    رواں ماہ کے اوائل میں ویٹیکن سٹی کے سینٹ پیٹرز سکوائر میں پوپ فرانسس کی مقامی ہسپانوی زبان میں تقریر کی آڈیو ریکارڈنگ چلائی گئی تھی۔ جس میں انھوں نے دعاؤں کے لیے شکریہ ادا کیا تو ان کی آواز سے سانس پھول رہی تھی۔

    پوپ فرانسس نے رومن کیتھولک چرچ کے رہنما کی حیثیت سے 12 سال گزارے ہیں۔

    وہ اپنی پوری زندگی میں صحت کے متعدد مسائل کا سامنا کرتے رہے ہیں ، جس میں 21 سال کی عمر میں ان کے پھیپھڑوں کا ایک حصہ نکال دیا گیا تھا ، جس سے ان کے انفیکشن کا شکار ہونبے کا خطرہ بڑھ گیا تھا۔

  7. ففتھ جنریشن وارفیئر ایک چیلنج، پاکستان کے عوام فوج کے ساتھ کھڑے ہیں: صدر مملکت آصف زرداری

    آصف زرداری

    ،تصویر کا ذریعہPTV

    ،تصویر کا کیپشنصدر مملکت نے کہا کہ ’پاکستان کو بہت سے جغرافیائی و سیاسی مسائل کا سامنا ہے۔‘

    پاکستان کے صدر آصف علی زرداری نے یوم پاکستان کی تقریب کے شرکا کو مبارکباد دیتے ہوئے اپنے خطاب میں کہا کہ ففتھ جنریشن وار فیئر ایک اہم چیلنج کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’پاکستان کے عوام، مسلح افواج ساتھ ساتھ کھڑے ہیں۔ نوجوان نسل میں نفرت اور مایوسی پھیلانے والے عناصر کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔‘

    صدر مملکت نے کہا کہ ’پاکستان کو بہت سے جغرافیائی و سیاسی مسائل کا سامنا ہے۔‘

    آصف زرداری نے کہا کہ ’ہم باحوصلہ قوم ہیں، چیلنجز پر قابو پانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، مادر وطن کے تحفظ کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے، ہم نے بیرونی اور اندرونی دہشت گردی کا منہ توڑ مقابلہ کیا، دہشتگردی کو جر سے اکھاڑ پھینکیں گے۔‘

    انھوں نے کہا کہ آج کے دن لاکھوں مسلمانوں کی قربانیوں کی یاد تازہ کرتے ہیں، لاکھوں قربانیوں کی بدولت پاکستان کاخواب حقیقت میں بدلا، شہدا کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں، ہم نے بہت سی قربانیاں دے کر آزادی حاصل کی، ہم نے بیرونی اور اندرونی دہشت گردی کا منھ توڑ مقابلہ کیا۔

    صدر مملکت نے کہا کہ انڈیا ہمیشہ پاکستان کو میلی آنکھ سے دیکھتا ہے، پاکستان کا مقصد مضبوط اور جدید اسلامی فلاحی مملکت ہے۔ آصف زرداری نے کہا کہ دہشت گردی کے ناسور کے خاتمے کے لیے قوم مسلح افواج کے شانہ بشانہ ہے۔‘

    انھوں نے کہا کہ ’فتنہ الخوارج اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کے ناپاک عزائم ناکام بنائیں گے۔‘

    صدر نے کہا کہ آج کے دن ہم اپنے کشمیری بہن بھائیوں کو نہیں بھولے، ان شا اللہ کشمیر ایک دن ضرور آزاد ہوگا۔‘

    صدر مملکت نے کہا کہ ’ہمیں ایک ایسا پاکستان بنانا ہے، جو طاقتور اور ترقی یافتہ ہو۔‘

  8. امریکہ نے سراج الدین حقانی پر 10 ملین ڈالر کا انعام ختم کر دیا: طالبان کا دعویٰ

    Haqqanis

    ،تصویر کا ذریعہGetty Images

    ،تصویر کا کیپشنطالبان حکام کا دعویٰ ہے کہ امریکہ نے وزیر داخلہ کے علاوہ دو دیگر طالبان رہنماؤں کے نام بھی مطلوب افراد کی فہرست سے نکالے گئے ہیں

    طالبان کا کہنا ہے کہ امریکہ نے سراج الدین حقانی پر 10 ملین ڈالر کا انعام ختم کر دیا ہے۔

    افغانستان میں طالبان حکومت کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ امریکہ نے طالبان حکومت کے قائم مقام وزیر داخلہ سراج الدین حقانی کے بارے میں معلومات فراہم کرنے والے انعام کو منسوخ کرتے ہوئے انھیں مطلوب افراد کی فہرست سے نکال دیا ہے۔

    برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز نے طالبان حکومت کی وزارت داخلہ کے حوالے سے اس خبر کی تصدیق کی ہے۔

    طالبان حکام کا کہنا ہے کہ وزیر داخلہ کے علاوہ دو دیگر طالبان رہنماؤں کے نام بھی مطلوب افراد کی فہرست سے نکالے گئے ہیں۔ تاہم امریکی حکام نے ابھی تک اس معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے اور فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن (ایف بی آئی) کی ویب سائٹ پر ابھی بھی سراج الدین حقانی کی گرفتاری کی اطلاع دینے والے کے لیے 10 ملین ڈالر کے انعام کا اعلان موجود ہے۔

    سراج الدین حقانی، عبدالعزیز حقانی اور یحییٰ حقانی کے ساتھ افغانستان میں امریکی افواج اور ان کے اتحادیوں کے خلاف ہلاکت خیز حملوں کی منصوبہ بندی اور اس میں حصہ لینے کے الزامات میں امریکہ کو مطلوب تھے۔

    سراج الدین حقانی کے بھائی اور طالبان تحریک کے ایک سینیئر رکن انس حقانی نے الجزیرہ ٹیلی ویژن سے نشر ہونے والے ایک ویڈیو پیغام میں اس خبر کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ ’امریکہ نے ہمیں صورتحال سے آگاہ کر دیا ہے اور یہ محسوس کیا ہے کہ افغانستان اب کسی کے لیے خطرہ نہیں ہے‘۔ انھوں نے کہا کہ جن پانچ طالبان کے ارکان کے لیے انعامات مقرر کیے گئے تھے وہ حال ہی میں اجلاسوں اور دیگر سرگرمیوں میں پیش پیش تھے۔

    Kabul

    ،تصویر کا ذریعہForeign Office Afghanistan

    ،تصویر کا کیپشنسراج الدین حقانی پر پابندی ہٹانے کا اقدام اس وقت سامنے آیا ہے جب طالبان نے جمعرات کو جارج گلیزمین نامی ایک امریکی شہری کو دو سال کی قید کے بعد رہا کیا تھا۔

    انس حقانی کا کہنا ہے کہ طالبان رہنماؤں کا نام بلیک لسٹ سے نکالنا دوحہ معاہدے کا حصہ ہے۔

    پابندی ہٹانے کا اقدام اس وقت سامنے آیا ہے جب طالبان نے جمعرات کو جارج گلیزمین نامی ایک امریکی شہری کو دو سال کی قید کے بعد رہا کیا تھا۔

    انھیں قیدیوں کے معاملات پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خصوصی مشیر ایڈم بوہلر اور افغانستان کے لیے سابق امریکی ایلچی زلمے خلیل زاد کے کابل کے دورے کے بعد رہا کیا گیا، جنہوں نے طالبان حکومت کی جانب سے ان کی رہائی کو "نیک نیتی کا اقدام" قرار دیا۔

    امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے ایک بیان میں کہا کہ گلیزمین کی رہائی ایک "مثبت اور تعمیری قدم" کی نمائندگی کرتی ہے۔ انہوں نے اپنی رہائی کو یقینی بنانے میں قطر کے "اہم" کردار کے لیے بھی شکریہ ادا کیا۔

    سراج الدین حقانی نے جنوری میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کا سفر کیا تھا اور اس وقت ان کی افغانستان واپسی کے بارے میں متضاد اطلاعات سامنے آئی تھیں۔

    اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اعلان کیا کہ سراج الدین حقانی کو 23 جنوری سے 3 فروری تک عمرہ کے لیے سفری چھوٹ دی گئی ہے۔

    اطلاعات کے مطابق مسٹر حقانی نے اس سفر کے دوران متحدہ عرب امارات میں ملاقاتیں بھی کیں۔

    امریکی حکام نے ابھی تک مسٹر حقانی کا نام پابندیوں کی فہرست سے نکالے جانے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے لیکن یقین ہے کہ ایسا ہو رہا ہے صدر ٹرمپ کی انتظامیہ طالبان کی طرف ایک طرح کی مصروفیت کا ہاتھ بڑھا رہی ہے۔ اگرچہ مسٹر ٹرمپ نے حال ہی میں طالبان حکومت کو بقیہ امریکی ہتھیاروں کے بارے میں خبردار کیا تھا، لیکن وہ انہیں واپس لینا چاہتے ہیں۔

    تین سال سے زائد عرصے سے اقتدار میں رہنے والی طالبان کی حکومت کو انسانی حقوق کے ریکارڈ، خاص طور پر خواتین کی تعلیم اور کام پر پابندیوں کی وجہ سے شدید تنقید کا سامنا ہے، ساتھ ہی ساتھ مغربی ممالک بھی طالبان کے ساتھ انسانی حقوق کے احترام کی شرط پر مذاکرات کر رہے ہیں۔

    چند دن قبل سراج الدین حقانی کے استعفے سے متعلق بھی خبریں سامنے آئی تھیں جن کی طالبان کی افغان وزرات داخلہ نے تردید کر دی تھی۔

    سراج الدین حقانی

    ،تصویر کا ذریعہGetty Images

    ،تصویر کا کیپشنسراج الدین حقانی کا اثرو رسوخ بنیادی طور پر افغانستان کے جنوب مشرقی صوبے خوست، پکتیا، پکتیکا اور یہاں تک کہ کابل کے جنوب میں لوگر تک ہے۔

    حقانی کا اثر و رسوخ

    سراج الدین حقانی کا اثرو رسوخ بنیادی طور پر افغانستان کے جنوب مشرقی صوبے خوست، پکتیا، پکتیکا اور یہاں تک کہ کابل کے جنوب میں لوگر تک ہے۔ ان علاقوں میں پشتونوں کے تین بڑے قبائل میں سے دو غلزئی اور کرلانی پشتون آباد ہیں۔

    یہی وجہ ہے کہ بعض مغربی تجزیہ کار انھیں افغانستان میں پشتونوں کے دو بڑی شاخوں غلزئی اور درانی قبائل کے درمیان پائی جانے والی تاریخی دشمنی یا رقابت میں امن کی علامت کے طور پر دیکھتے ہیں۔

    انھیں اپنے اس کردار کی وجہ سے افغانستان میں ’ایک مضبوط اور اہم شخصیت کا مالک‘ سمجھا جاتا ہے تاہم حقانی کا تعلق کرلانی شاخ کے زدران قبیلے سے ہے۔

  9. غزہ میں اسرائیلی فضائی حملے میں حماس کے سیاسی رہنما کی ہلاکت

    صلاح البردويل

    ،تصویر کا ذریعہNurPhoto via Getty Images

    حماس کے ایک عہدیدار نے اتوار کے روز بی بی سی کو بتایا کہ غزہ کے جنوبی شہر خان یونس پر ایک اسرائیلی فضائی حملے میں حماس کے سیاسی رہنما صلاح البردويل ہلاک ہوئے ہیں۔

    مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ فضائی حملے میں بردويل اور ان کی بیوی دونوں کی ہلاکت ہوئی ہے۔ بردویل حماس کے سیاسی دفتر کے اہم رکن تھے۔

    اسرائیل نے تاحال اس بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔

    منگل سے اسرائیلی فوج نے دوبارہ غزہ میں بڑے پیمانے پر کارروائیاں شروع کیں۔ اسرائیل کا الزام ہے کہ حماس نے جنگ بندی کے معاہدے میں توسیع کی پیشکش سے انکار کیا تھا۔ حماس نے اسرائیلی الزام کی تردید کی ہے اور کہا کہ اسرائیل نے 19 جنوری کو طے پانے والے سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزی کی۔ یہ معاہدہ قطر، مصر اور امریکہ کی ثالثی میں طے پایا تھا۔

    غزہ میں اسرائیلی فضائی حملے میں حماس کے سیاسی رہنما کی ہلاکت

    ،تصویر کا ذریعہGetty Images

    حماس کے مطابق غزہ کی پٹی میں گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران اسرائیلی کارروائیوں میں 32 فلسطینیوں کی ہلاکت ہوئی ہے۔

    خیال رہے کہ 7 اکتوبر 2023 کو حماس نے اسرائیل میں ایک حملہ کیا تھا جس میں 1200 افراد ہلاک جبکہ 251 کو یرغمال بنایا گیا تھا۔ حماس کے مطابق اس کے بعد سے غزہ میں اسرائیلی کارروائیوں میں 49 ہزار سے زیادہ فلسطینیوں کی ہلاکت ہوئی ہے۔

    دریں اثنا اسرائیل نے لبنان میں متعدد راکٹ حملے کیے ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان نومبر میں جنگ بندی ہوئی تھی۔

    لبنان کی وزارت صحت کے مطابق ان حملوں میں سات افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

  10. بلوچ یکجہتی کمیٹی کا دھرنا موخر: کوئٹہ میں حالات کیوں کشیدہ ہوئے؟, محمد کاظم/بی بی سی اردو، کوئٹہ

    سنیچر کو بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں نہ صرف پولیس اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہوئیں بلکہ کمیٹی کی سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ سمیت متعدد رہنماؤں اور کارکنوں کو گرفتار بھی کیا گیا۔

    بلوچ یکجہتی کمیٹی نے سنگین حالات کے باعث سریاب روڈ پر دھرنے کو موخر کرنے کا فیصلہ کیا ہے مگر آئندہ لائحہ عمل کا اعلان اتوار کو کیا جائے گا۔

    بلوچ یکجہتی کمیٹی کے قیام کے بعد سے کمیٹی کی جانب سے احتجاج کا سلسلہ طویل عرصے سے جاری ہے لیکن گذشتہ سال سے یہ حکومت کے ساتھ کشیدگی کا باعث بن رہا ہے۔

    بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے حالیہ احتجاج کا سلسلہ بدھ کے روز شروع ہوا اور جمعہ کے روز پولیس کی جانب سے احتجاج کے شرکا کے خلاف کریک ڈاؤن کا آغاز ہوا۔ مبینہ طور پر فائرنگ سے تین افراد ہلاک اور دس کے قریب زخمی ہوئے۔

    بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے فائرنگ کا الزام حکومت اور پولیس پر عائد کیا گیا تاہم حکومت نے مظاہرین کو مورد الزام ٹہراتے ہوئے یہ دعویٰ کیا گیا کہ مظاہرین میں مسلح افراد شامل تھے جنھوں نے فائرنگ کی۔

    لاشوں کا معمہ اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کا حالیہ احتجاج

    11مارچ کو بولان میں ٹرین پر حملے کے بعد سرکاری حکام کی جانب سے مجموعی طور 28 ایسے افراد کی لاشیں لائی گئیں جو کہ حکام کے مطابق عسکریت پسند تھے جو ٹرین پر حملے کے بعد سکیورٹی فورسز کی کارروائی میں ہلاک ہوئے۔

    ان میں سے پانچ لاشیں ان عسکریت پسندوں کی تھیں جو کہ سرکاری حکام کے مطابق ٹرین کی بوگیوں کے ساتھ سکیورٹی فورسز کی کارروائی میں مارے گئے تھے۔ ان پانچوں افراد کی لاشوں کو منتقل کر کے سول ہسپتال کوئٹہ کے مردہ خانے میں رکھا گیا تھا۔

    اس کے چند روز بعد سکیورٹی فورسز کی جانب سے مزید 23 افراد کی لاشوں کو کوئٹہ منتقل کیا گیا جن کے بارے میں وزیر اعلیٰ بلوچستان کا یہ کہنا تھا کہ یہ لوگ بھی عسکریت پسند تھے جو کہ مشکاف کے پاس سکیورٹی فورسز کے آپریشن میں مارے گئے۔ تاہم ان 23 افراد کی لاشوں کو سول ہسپتال کے مردہ خانے میں نہیں لایا گیا۔

    جب ان 23 افراد کی لاشیں منتقل کی گئیں تو بلوچستان سے لاپتہ افراد کے رشتہ داروں کی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے سماجی رابطوں کی میڈیا پر یہ بیان جاری کیا گیا کہ ’فورسز نے آج 23 مسخ شدہ لاشیں سول ہسپتال کوئٹہ منتقل کر دی ہیں۔ فورسز کا دعویٰ ہے کہ یہ مقابلے میں مارے گئے ہیں۔ ہمیں خدشہ ہے کہ یہ لاشیں جبری لاپتہ افراد کی ہوسکتے ہیں اس لیے لاپتہ افراد کے لواحقین ان لاشوں کو دیکھنے کے لیے سول ہسپتال کوئٹہ ضرور جائیں۔‘

    بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مطابق جب لواحقین سول ہسپتال پہنچے تو انھیں شناخت کے لیے لاشوں تک رسائی نہ دی گئی۔

    واضح رہے کہ جن 23 مبینہ عسکریت پسندوں کی لاشوں کو حوالے نہیں کیا گیا ان سے ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے نمونے حاصل کرنے کے بعد ان میں سے 13 کو رات گئے کاسی قبرستان میں دفن کیا گیا۔

    جب لاشیں حوالے نہیں کی گئیں تو بلوچ یکجہتی کمیٹی کے کارکن ہسپتال پہنچے اور وہاں لاشیں حوالے نہ کرنے کے خلاف احتجاج کا سلسلہ شروع کیا گیا جس کے دوران پولیس نے مبینہ طور پر لاٹھی چارج کیا۔

    اس دوران مظاہرین کی جانب سے مردہ خانے کے تالے ٹوڑے گئے۔ سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ مظاہرین وہاں سے پانچ عسکریت پسندوں کی لاشوں کو لے جانے کے علاوہ اس خاتون خود کش حملہ آور کے جسم کے اعضا کو بھی لے گئے جس نے قلات میں سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں پر خود کش حملہ کیا تھا۔

    بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مطابق ہسپتال میں مظاہرین پر تشدد کے علاوہ رات کو کمیٹی کے رہنماؤں کے گھروں پر چھاپے مارے گئے جس میں کمیٹی کے رہنماؤں بیبرگ بلوچ اور سعیدہ بلوچ سمیت متعدد افراد کو گرفتار کیا گیا۔

    لاشوں کو حوالے نہ کرنے اور گرفتاریوں کے خلاف دھرنے کا اعلان کیا گیا

    بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے لاشوں کو حوالے نہ کرنے اور رہنماؤں اور کارکنوں کی گرفتاریوں کے خلاف بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے شہر سے دور یونیورسٹی آف بلوچستان کے سامنے دھرنے کا اعلان کیا گیا۔

    بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں کی جانب سے یہ کہا گیا ان لاشوں کی شناخت کی اجازت نہ دینے، ان کو حوالے نہ کرنے اور رات کی تاریکی میں تدفین نے ان کے اور لواحقین کے خدشات کو تقویت دی۔

    اگرچہ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے شہر سے دور یونیورسٹی کے سامنے دھرنے کا اعلان کیا گیا تاہم پولیس نے ریڈ زون کو سیل کر کے اس کے گرد کنٹینر لگا دیا۔

    دھرنے کا پہلا دن پُرامن گزرا تاہم ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کے مطابق دوسرے روز پولیس نے بلاجواز شیلنگ، فائرنگ اور لاٹھی چارج کیا جس میں تین افراد ہلاک اور دس سے زائد زخمی ہوگئے۔ بلوچستان حکومت نے پولیس کی کارروائی کو قانون کے مطابق قرار دیا تھا اور فائرنگ کے الزام کی تردید کی تھی۔

    شدید تصادم کے باوجود تین افراد کی لاشوں کے ہمراہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی قیادت میں دھرنا جاری رہا لیکن سینچر کی صبح پانچ بجے پولیس نے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے دھرنے پر دوبارہ کریک ڈاؤن کیا اور ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ سمیت متعدد افراد کو گرفتار کیا۔

    سرکاری حکام نے گرفتاریوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ سمیت 17 افراد کو گرفتار کیا گیا جن میں سات خواتین شامل ہیں۔

    اگرچہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے فائرنگ اور ہلاکتوں کا الزام پولیس پر عائد کرتے ہوئے کہا گیا کہ پولیس کی جانب سے براہ راست فائرنگ کی گئی۔ تاہم کمشنر کوئٹہ کی جانب سے ایک پریس نوٹ میں اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے ہلاکتوں اور لوگوں کو زخمی کرنے کا الزام بلوچ یکجہتی کمیٹی میں شامل لوگوں پر عائد کیا گیا۔

    کمشنر کوئٹہ ڈویژن کی جانب سے جاری اعلامیے میں دعویٰ کیا گیا کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے احتجاج کے دوران پُرتشدد مظاہرین نے پولیس پر پتھراؤ کیا اور فائرنگ کی۔

    ڈاکٹر ماہ رنگ کی گرفتاری کے بعد تیسرے روز ڈاکٹر صبیحہ کی قیادت میں دھرنا جاری رہا

    ڈاکٹر ماہ رنگ کی گرفتاری کے بعد سینیچر کو تیسرے روز بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنما ڈاکٹر صبیحہ بلوچ کی قیادت میں دھرنا جاری رہا۔

    دوسری جانب بلوچ یکجہتی کمیٹی کی کال پر بلوچستان کے متعدد علاقوں میں شٹر ڈاؤن ہڑتال کے علاوہ بعض شاہراہوں پر پہیہ جام رہا۔

    شام کو دوبارہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مطابق کوئٹہ میں دھرنے کے شرکا پر بڑے پیمانے شیلنگ اور فائرنگ کی گئی۔ اس دوران یونیورسٹی کے قریب پوسٹ آفس کو بھی نذرآتش کیا گیا۔

    رات گئے کمیٹی کے رہنما صبغت اللہ شاہ نے الزام عائد کیا کہ دھرنے میں مبینہ طور پر سرکاری لوگ شامل ہیں جو لوگوں کے املاک کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ انھوں نے لوگوں سے اپیل کی کہ وہ پُرامن رہیں۔

  11. بلوچستان کے ضلع نوشکی میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے چار پولیس اہلکار ہلاک, محمد کاظم، بی بی سی اردو کوئٹہ

    بلوچستان

    ،تصویر کا ذریعہGetty Images

    بلوچستان کے ضلع نوشکی میں نامعلوم مسلح افراد کی فائرنگ سے چار پولیس اہلکار ہلاک ہوگئے ہیں۔

    نوشکی پولیس کے سربراہ ہاشم مہمند نے اس واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ یہ واقعہ سنیچر کی شب نوشکی شہر میں غریب آباد کے علاقے میں پیش آیا تھا۔

    ان کے مطابق چاروں اہلکار اس علاقے میں معمول کی گشت پر تھے کہ نامعلوم مسلح افراد نے ان پر حملہ کر دیا۔

    ہاشم مہمند نے بتایا کہ چاروں اہلکاروں کی لاشوں کو پوسٹ مارٹم کے لیے ٹیچنگ ہسپتال نوشکی منتقل کیا گیا ہے۔

    اس سے قبل بلوچستان کے ضلع قلات کے علاقے منگیچر میں ایک حملے میں چار مزدور بھی ہلاک ہوئے تھے۔

    وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے نوشکی میں پولیس موبائل پر حملے اور منگیچر میں چار مزدوروں کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان واقعات کے ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے۔

    ان کا کہنا تھا کہ پولیس اہلکاروں اور بے گناہ مزدوروں کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔

    ’دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے لیے بلوچستان میں کوئی جگہ نہیں۔‘

  12. قلات میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے چار مزدور ہلاک, محمد کاظم، بی بی سی اردو کوئٹہ

    بلوچستان

    ،تصویر کا ذریعہGetty Images

    بلوچستان کے ضلع قلات کے علاقے منگیچر میں نامعلوم مسلح افراد کے حملے میں چار مزدور ہلاک ہوگئے ہیں۔

    لیویز فورس کے ایک اہلکار کے مطابق ہلاک ہونے والے چاروں مزدوروں کا تعلق صوبہ پنجاب کے علاقے صادق آباد سے تھا۔

    منگیچر کے اسسٹنٹ کمشنر ڈاکٹر علی گل نے فون پر بی بی سی بتایا کہ یہ واقعہ منگیچر میں ملنگزئی کے علاقے میں پیش آیا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ مارے جانے والے لوگ اس علاقے میں کام کررہے تھے کہ دن ڈھائی بجے کے قریب نامعلوم مسلح افراد آئے اور انھوں نے چاروں کو فائرنگ کرکے ہلاک کر دیا۔

    انھوں نے کہا کہ پوسٹ مارٹم کے بعد ان کی لاشوں کو ان کے آبائی علاقوں کو روانہ کیا جارہا ہے۔

    قلات میں لیویز فورس کے ایک اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ ان افراد کی شناخت صادق آباد سے تعلق رکھنے والے منور حسین، ذیشان، دلاور حسین اور محمد امین کے نام سےہوئی ہے۔

    اہلکار کے مطابق اس واقعے کے بارے میں تحقیقات شروع کردی گئی ہیں تاہم ابتدائی تحقیقات کے مطابق یہ ٹارگٹ کلنگ کا واقعہ ہے۔

    منگیچر کوئٹہ سے جنوب مغرب میں اندازاً ایک سو 20 کلومیٹر کے فاصلے پر واقعہ ہے۔ اس علاقے میں طویل عرصے سے بد امنی کے سنگین واقعات پیش آرہے ہیں۔

    گزشتہ ماہ نامعلوم مسلح افراد کی فائرنگ سے اس علاقے میں سیکورٹی فورسز کے 18اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔

    وزیرِ اعظم شہباز شریف نے مزدوروں کے قتل کے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ملک سے ہر قسم کی دہشت گردی کے خاتمے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔‘

  13. بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنما ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کون ہیں؟

    ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ

    ،تصویر کا ذریعہFacebook/BYC

    بلوچستان میں حکام نے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ سمیت بلوچ یکجہتی کونسل کے متعدد رہنماؤں کی گرفتاری کی تصدیق کر دی ہے۔

    سنیچر کو جاری ایک بیان میں کوئٹہ کے کمشنر کا کہنا تھا کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں کے خلاف ’متعلقہ قوانین کی خلاف ورزی، سول ہسپتال پر حملے اور عوام کو پُر تشدد احتجاج پر اکسانے سمیت دیگر دفعات کے تحت مقدمہ درج کر کے انھیں گرفتار‘ کیا گیا ہے۔

    کوئٹہ کے کمشنر کی جانب سے جاری اعلامیے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ’جمعے کو جعفر ایکسپریس کے ہلاک شدہ دہشت گردوں کے حق میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے احتجاج کے دوران پُرتشدد مظاہرین نے پولیس پر پتھراؤ کیا اور فائرنگ کی۔‘

    خیال رہے کہ آج صبح بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ اس کی سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ سمیت اِن متعدد لوگوں کو پولیس کی جانب سے حراست میں لیا گیا ہے جو سریاب روڈ پر دھرنا دے رہے تھے۔

    ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کون ہیں؟

    پاکستان بھر میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں حصہ لینے والی سینکڑوں خواتین میں سے صوبہ بلوچستان میں مبینہ جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاج کرنے والوں میں ماہ رنگ بلوچ بھی شامل ہیں۔

    رواں مہینے سوشل میڈیا پر یہ افواہیں بھی گردش کر رہی تھیں کہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کو امن کے نوبیل انعام کے لیے نامزد کر دیا گیا ہے۔

    نوبیل امن انعام کے لیے نامزدگیاں مرتب کرنے والی نارویجن نوبیل کمیٹی یہ انعامات کے لیے نامزد کیے جانے والے افراد کے نام جاری نہیں کرتی اور نہ ہی اس حوالے سے صدیق یا تردید کرتی ہے۔

    ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے ان قیاس آرائیوں پر ردِ عمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اس ’خبر کی تصدیق کرتی ہیں۔‘

    ماہ رنگ بلوچ کا شمار 2024 میں بی بی سی کی 100 ویمن میں کیا گیا تھا۔

    ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ

    ،تصویر کا ذریعہFacebook/BYC

    ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے احتجاجی مظاہروں میں حصہ لینے کا فیصلہ اس وقت کیا جب ان کے والد کو مبینہ طور پر 2009 میں سکیورٹی سروس کے افسران نے حراست میں لے لیا تھا اور دو سال بعد تشدد کے نشانات کے ساتھ مردہ پائے گئے تھے۔

    سنہ 2023 کے اواخر میں ماہ رنگ بلوچ نے سینکڑوں خواتین کی قیادت میں دارالحکومت اسلام آباد تک 1000 میل کا مارچ کیا تاکہ وہ اپنے اہل خانہ کے بارے میں معلومات حاصل کر سکیں۔ سفر کے دوران انھیں دو بار گرفتار کیا گیا۔

    صوبہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے مظاہرین کا کہنا ہے کہ ان کے پیاروں کو پاکستانی سکیورٹی فورسز نے انسداد بغاوت کی کارروائی کے دوران اغوا کر کے ہلاک کر دیا ہے۔ اسلام آباد میں حکام ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔

    اس کے بعد سے یہ ڈاکٹر اپنے ہی انسانی حقوق کے گروپ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے بینر تلے ایک نمایاں کارکن بن گئی ہیں۔ انسانی حقوق کے میدان میں ان کے کام کو ابھرتے ہوئے رہنماؤں کی ٹائم 100 نیکسٹ 2024 کی فہرست میں تسلیم کیا گیا تھا۔

  14. اختر مینگل کا بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں کی رہائی کا مطالبہ: ’ڈاکٹر ماہ رنگ کو صرف سچ بولنے پر گرفتار کیا گیا‘

    akhtar mengal

    ،تصویر کا ذریعہX

    بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے سربراہ اختر مینگل نے بلوچ یکجہتی کمیٹی کی سربراہ ماہ رنگ بلوچ کی گرفتاری پر ردِعمل دیتے ہوئے ان کی فوری رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’بلوچ یکجہتی کمیٹی کے کارکنوںں نے اسلحہ نہیں اٹھایا صرف اپنی بات کہی اور پھر بھی ان کے ساتھ مجرموں جیسا سلوک کیا گیا۔‘

    انھوں نے ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ ’ماہ رنگ کو صرف سچ بولنے پر گرفتار کیا گیا ہے۔ ایسا سچ جو تکلیف، پیاروں کو کھو دینے کے دکھ اور ناانصافی کے بارے میں ہے لیکن اسے سالوں نظرانداز کیا جاتا رہا۔

    ’وہ پرامن انداز میں اور دلیری کے ساتھ اپنے لوگوں کی آواز لے کر کھڑی رہیں اور اسی وجہ سے انھیں خاموش کروایا گیا۔‘

    اختر مینگل نے سوال کیا کہ ’کیا آپ مسائل کا حل اس طرح نکالنے چاہتے ہیں؟ بولنے والوں کو گرفتار کر کے اور حقوق مانگنے والوں کو سزا دے کر؟ اگر آپ انصاف اس طرح دینا چاہتے ہیں تو یاد رکھیں کہ آپ جتنے بھی لوگوں کو خاموش کریں گے سچ ہمیشہ سربلند رہے گا۔‘

  15. بلوچ یکجہتی کمیٹی کی کال پر بلوچستان کے مختلف شہروں میں شٹرڈاؤن ہڑتال، بعض شاہراہیں بند, محمد کاظم، بی بی سی اردو کوئٹہ

    shutterdown

    بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے ہڑتال کی کال سکیورٹی فورسز کی مبینہ آپریشن میں ہلاک ہونے والے افراد کی لاشوں کو حوالے نہ کرنے اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنمائوں اور کارکنوں کی گرفتاری کے خلاف دی گئی تھی۔

    ہڑتال کی کال کے باعث کوئٹہ شہر میں سریاب کے علاقے میں کاروباری مراکز اور سڑکیں بند رہیں۔ پولیس کے کریک ڈائون کے باوجود سریاب میں مظاہرین کی بڑی تعداد روڈ پر موجود رہی جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے جس کی وجہ سے سریاب روڈ پر ٹریفک بحال نہیں ہو سکی۔

    shutterdown

    مظاہرین نے سریاب روڈ سے ایریگیشن کالونی تک روڈ پر رکاوٹیں کھڑی کی تھیں جبکہ یونیورسٹی کے ایک دو ایسے کھمبوں کو بھی گرایا گیا تھا جن پر سیف سٹی کے سی سی ٹی وی کے کیمرے نصب تھے۔

    ہڑتال کی کال کی وجہ سے بلوچستان کی بلوچ آبادی والے متعدد شہروں میں شٹرڈاؤن ہڑتال رہی جبکہ بعض اہم شاہراہیں بھی بند رہیں جن میں کوئٹہ کراچی شاہراہ شامل تھی۔

    تربت میں ہڑتال کے دوران فائرنگ سے دو بچے بھی زخمی ہوئے جن میں سے ایک کی حالت تشویشناک ہے۔ ایس ایس پی کیچ راشد رحمان زہری نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ بچے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی فائرنگ سے زخمی نہیں ہوئے۔

  16. بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں کو سول ہسپتال پر حملے اور عوام کو پُرتشدد احتجاج پر اکسانے سمیت دیگر الزامات پر گرفتار کیا گیا: کمشنر کوئٹہ

    کوئٹہ کے کمشنر کی جانب سے جاری بیان میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں کے خلاف ’متعلقہ قوانین کی خلاف ورزی، سول ہسپتال پر حملے اور عوام کو پُر تشدد احتجاج پر اکسانے سمیت دیگر دفعات کے تحت مقدمہ درج کر کے انھیں گرفتار کرنے‘ کی تصدیق کی گئی ہے۔

    تاہم کمشنر کی جانب سے جاری اعلامیے میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے گرفتار رہنماؤں کی شناخت اور تعداد نہیں بتائی گئی ہے اور نہ ہی یہ بتایا گیا کہ انھیں اس وقت کہاں رکھا گیا ہے۔

    خیال رہے کہ آج صبح بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ اس کی سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ سمیت اِن متعدد لوگوں کو پولیس کی جانب سے حراست میں لیا گیا ہے جو سریاب روڈ پر دھرنا دے رہے تھے۔

    اس بارے میں کوئٹہ پولیس کے ایک اہلکار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا ہے کہ ماہ رنگ بلوچ سمیت 17 افراد کو حراست میں لیا گیا ہے اور انھیں ہدہ جیل منتقل کیا گیا ہے۔

    کوئٹہ کے کمشنر کی جانب سے جاری اعلامیے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ’جمعے کو جعفر ایکسپریس کے ہلاک شدہ دہشت گردوں کے حق میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے احتجاج کے دوران پُرتشدد مظاہرین نے پولیس پر پتھراؤ کیا اور فائرنگ کی۔

    ’بی وائے سی قائدین کے ساتھ موجود مسلح غنڈوں کی فائرنگ سے تین افراد ہلاک ہوئے تاہم ان کی قیادت نے ان لاشوں کو ہسپتال سے اٹھا کر احتجاجی دھرنا دے دیا تاکہ ان لاشوں کا طبی معائنہ نہ ہو سکے۔‘

    کمشنر کے پریس نوٹ کے مطابق ’سول حکام اور پولیس نے بی وائے سی کے رہنماؤں سے کہا کہ ان لاشوں کا طبی معائنہ مروجہ قوانین کے تحت ہونا قانونی طور پر ضروری ہے تاہم انھوں نے انکار کر دیا۔‘

    کمشنر کوئٹہ کے مطابق ’ہلاک ہونے والے تین افراد میں دو مزدور اور ایک افغان شہری شامل تھے جن کے ورثا نے ضلعی انتظامیہ اور پولیس سے درخواست کی کہ ان کے پیاروں کی لاشیں بی وائے سی سے چھڑوا کر برآمد کروائی جائیں تاکہ وہ آخری رسومات ادا کر سکیں۔

    ’جس کے بعد ضلعی انتظامیہ اور پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے واقعے میں ملوث بی وائے سی رہنمائوں کو گرفتار کر لیا۔‘

  17. کوئٹہ میں ماہ رنگ بلوچ سمیت بلوچ یکجہتی کمیٹی کے متعدد رہنما ’پولیس کی حراست میں‘، کوئٹہ میں فون سروس 16 گھنٹے بعد بحال, محمد کاظم، بی بی سی اردو کوئٹہ

    byc

    ،تصویر کا ذریعہBYC

    بلوچ یکجہتی کمیٹی کا کہنا ہے کہ اس کی سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ سمیت اِن متعدد لوگوں کو پولیس کی جانب سے حراست میں لیا گیا ہے جو سریاب روڈ پر دھرنا دے رہے تھے۔

    اس بارے میں کوئٹہ پولیس کے ایک اہلکار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا ہے کہ ماہ رنگ بلوچ سمیت 17 افراد کو حراست میں لیا گیا ہے اور انھیں ہدہ جیل منتقل کیا گیا ہے۔

    تاحال بلوچستان انتظامیہ یا پولیس کی جانب سے باضابطہ طور پر اس حوالے سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے اور نہ ہی یہ بتایا گیا ہے کہ آیا ان کے خلاف کوئی ایف آئی آر درج ہوئی ہے یا نہیں۔

    کوئٹہ میں موبائل فون سروسز 16 گھنٹے بعد بحال کی گئی ہے تاہم تاحال موبائل انٹرنیٹ کی بندش جاری ہے۔

    بی بی سی نے ماہ رنگ بلوچ سمیت دیگر کو حراست میں لیے جانے کے حوالے سے پولیس اور انتظامیہ سے رابطہ کیا ہے تاہم اب تک ان کی طرف سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا ہے۔

    سوشل میڈیا پر بلوچ یکجہتی کمیٹی کے خلاف پولیس کی مبینہ کارروائی کی کچھ ویڈیوز گردش کر رہی ہیں تاہم بی بی سی ان کی آزادانہ تصدیق نہیں کر سکا ہے۔

    خیال رہے کہ گذشتہ روز بلوچ یکجہتی کمیٹی نے کوئٹہ میں تین میتوں کے ساتھ دھرنا دیا تھا اور اس کا دعویٰ تھا کہ پولیس نے اس کے پُرامن احتجاج پر فائرنگ کی تھی۔ تاہم بلوچستان حکومت نے اس الزام کی تردید کی تھی۔ بلوچستان حکومت کے ترجمان شاہد رند نے ایک بیان میں کہا تھا کہ مظاہرین نے پولیس پر پتھراؤ کیا تھا اور ان کے خلاف ’قانون کے مطابق‘ کارروائی کی گئی تھی۔

    سنیچر کو صبح سے ہی بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے دعویٰ کیا جا رہا تھا کہ کمیٹی کی سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور بی وائے سی کے متعدد رہنماؤں اور کارکنوں کو پولیس کی جانب سے حراست میں لیا گیا ہے۔

    پولیس اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ گرفتار کیے جانے والوں میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کی بیبو بلوچ اور گلزادی بلوچ بھی شامل ہیں۔

    پولیس اہلکار نے بتایا کہ گرفتاری کے بعد ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور دیگر خواتین کو پہلے بجلی گھر تھانہ منتقل کیا گیا تھا تاہم دوپہر کے بعد ان کو تھانے سے ہدہ جیل منتقل کیا گیا۔

    پولیس اہلکار نے بتایا کہ ہلاک ہونے والے جن تین افراد کے ہمراہ دھرنا دیا جا رہا تھا ان کی لاشوں کو ان کے رشتہ داروں کے حوالے کر دیا گیا ہے۔

    یاد رہے کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے ایک روز پہلے سے سریاب روڈ پر بلوچستان یونیورسٹی کے قریب بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں کی گرفتاریوں اور مرنے والے افراد کی لاشیں لواحقین کے حوالے نہ کرنے اور شناخت کے لیے نہ لے جانے کے خلاف دھرنا دیا جا رہا تھا۔

    گذشتہ روز ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے اپنے ویڈیو پیغام میں دعویٰ کیا تھا کہ ’آج ریاست پاکستان کی سکیورٹی فورسز کی کوئٹہ میں پرامن مظاہرین پر براہ راست فائرنگ کے نتیجے میں اس وقت تک تین پر امن مظاہرین ہلاک جبکہ درجنوں زخمی ہوئے ہیں۔‘

    shutter down
    ،تصویر کا کیپشنبلوچ یکجہتی کمیٹی کی کال پر بلوچستان بھر میں شٹر ڈاؤن ہڑتال جاری ہے

    تاہم حکومت بلوچستان کے ترجمان شاہد رند نے مظاہرین پر پتھراؤ اور تشدد کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ اس دوران لیڈی پولیس کانسٹیبل اور پولیس اہلکاروں سمیت دس زخمی افراد ہسپتال لائے گئے۔

    گذشتہ شب ایک بیان میں حکومت بلوچستان کے ترجمان نے کہا کہ بی وائے سی نے کس کی میتیں روڑ پر رکھ کر احتجاج کیا، تعین ہونا باقی ہے۔

    شاہد رند نے کہا کہ جب تک ہلاک ہونے والوں کی لاشیں ہسپتال لا کر ضابطے کی کارروائی مکمل نہیں کی جاتی وجوہات کا تعین ممکن نہیں۔

    خیال رہے کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی کال پر بلوچستان بھر میں آج شٹر ڈاؤن ہڑتال جاری ہے۔

    اس سے قبل سریاب روڈ پر دھرنے کے مقام سے ایک ویڈیو بیان میں ڈاکٹر صبیحہ بلوچ نے دعویٰ کیا تھا کہ ڈاکٹر ماہ رنگ کی قیادت میں سریاب روڈ پر دھرنا جاری تھا کہ پولیس کی بھاری نفری نے آج صبح پانچ بجے کریک ڈاؤن کر کے ڈاکٹر ماہ رنگ اور متعدد لوگوں کو حراست میں لیا۔

    انھوں نے الزام عائد کیا کہ ’پولیس کی مبینہ فائرنگ سے ہلاک ہونے والے تین افراد کی لاشیں بھی کریک ڈاؤن کرنے والے اہلکار اٹھا کر لے گئے۔‘

    حکومت بلوچستان کے ترجمان اور پولیس حکام سے ڈاکٹر ماہ رنگ کو حراست میں لیے جانے کی تصدیق کے لیے رابطے کی کوشش کی گئی لیکن موبائل فون نیٹ ورک کی بندش کے باعث ان سے رابطہ نہیں ہو سکا جبکہ سرکاری سطح پر بھی تاحال اس حوالے سے نہیں بتایا گیا۔

    جس علاقے میں ڈاکٹر ماہ رنگ کی قیادت میں دھرنے پر مبینہ کریک ڈاؤن کیا گیا وہ سریاب پولیس کی حدود میں آتا ہے۔

    سریاب پولیس کے ایک اہلکار نے لینڈ لائن فون پر رابطہ کرنے پر ڈاکٹر ماہ رنگ کو حراست میں لینے کے حوالے سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایس ایچ او اور دیگر سینیئر اہلکار احتجاج کی وجہ سے باہر ہیں۔

    ڈاکٹر صبیحہ بلوچ نے دعویٰ کیا کہ ’ہم لوگ ان لاشوں کی حوالگی کے لیے پر امن احتجاج کر رہے تھے جو ضلع کچھی کے علاقے بولان میں مار دیے گئے تھے لیکن پولیس نے مبینہ طور پر فائرنگ کر کے کوئٹہ میں مزید تین افراد کو ہلاک اور متعدد کو زخمی کیا۔‘

    انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’ہم پُر امن طور پر دھرنا دے کر بیٹھے تھے لیکن وہاں بھی فائرنگ کی گئی۔‘

    ڈاکٹر صبیحہ بلوچ کا کہنا تھا جب پُر امن احتجاج کا راستہ بند کیا جائے گا تو پھر لوگوں کے پاس کون سا راستہ بچے گا۔

    protest
    ،تصویر کا کیپشناسلام آباد میں بلوچ سٹوڈنٹس کونسل کی جانب سے مبینہ پولیس کریک ڈاؤن اور ماہرنگ بلوچ سمیت متعدد رہنماؤں کو حراست میں لیے جانے کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا گیا ہے۔

    اسلام آباد میں بلوچ سٹوڈنٹس کونسل کی جانب سے مبینہ پولیس کریک ڈاؤن اور ماہرنگ بلوچ سمیت متعدد رہنماؤں کو حراست میں لیے جانے کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا گیا ہے۔

    مظاہرے میں شریک اسلام آباد میں پڑھنے والے متعدد بلوچ طلبہ نے حصہ لیا

  18. ڈیل یا نو ڈیل؟ ٹرمپ یوکرین میں جنگ بندی کا وعدہ اب تک پورا کیوں نہیں کر سکے, جیمز لینڈیل اور ہینا کورنوس کا تجزیہ

    پوتن اور ٹرمپ

    ،تصویر کا ذریعہGetty Images

    امریکی انتخابات سے قبل صدراتی امیدوار کی حیثیت سے ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ سال ستمبر میں نیویارک میں صدر زیلنسکی سے ملاقات کی تھی تو اس وقت وہ بہت پراعتماد تھے کہ وہ یوکرین میں جنگ کو جلد از جلد ختم کروا سکتے ہیں۔

    اس ملاقات میں ان کے الفاظ تھے کہ ’اگر ہم جیت گئے تو مجھے امید ہے کہ ہم جلد ہی اس معاملے کو حل کر لیں گے۔ مگر کتنا جلدی! اس کا مطلب (ٹرمپ کے لیے) وقت و حالات کے ساتھ مختلف ہوتا تھا۔ چند روز قبل ایک ٹی وی مباحثے میں ٹرمپ نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ’میرے صدر بننے سے پہلے ہی اس جنگ سے نکل آئیں گے۔‘

    ان کا یہ بیان مئی 2023 کے اس دعوے کو مزید تقویت دیتا تھا جس میں انھوں نے کہا تھا کہ وہ اپنے عہد صدارت کے پہلے 24 گھنٹوں میں لڑائی روکنے کے اقدامات کریں گے۔

    تاہم اب صدر ٹرمپ کو اپنے عہدہ سنبھالے دو ماہ سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے اورلیکن لگتا یہی ہے کہ تلخ اور پیچیدہ تنازعات کوختم میں ابھی مزید وقت لگ سکتا ہے۔

    گزشتہ ہفتے کے آخر میں ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں امریکی صدر نے اعتراف کیا کہ جب انھوں نے ایک دن میں جنگ ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا تو اس میں تھوڑا سا طنز موجود تھا۔

    ٹرمپ اور ان کی ٹیم کی توقع سے کم پیش رفت ہونے کی بہت سی وجوہات ہیں۔ سب سے پہلے صدر کا اپنی ذاتی، ون آن ون ڈپلومیسی کی طاقت پر یقین غلط ہو سکتا ہے۔ وہ طویل عرصے سے اس گمان میں مبتلا ہیں کہ اگر وہ کسی بھی رہنما کے ساتھ بیٹھ کر معاہدے ہر دستخط کر دیتے ہیں تو کوئی بھی بین الاقوامی مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔

    ٹرمپ اور پوتن نے پہلی بار 12 فروری کو بات چیت کی اور ڈیڑھ گھنٹے کی گفتگو کو انھوں نے ’انتہائی نتیجہ خیز‘ قرار دیا۔

    اس کے بعد دونوں رہنماؤں نے 18 مارچ کو دوبارہ بات کی۔ لیکن یہ واضح ہے کہ یہ ٹیلی فون کالز ٹرمپ کی مطلوبہ 30 روزہ عبوری جنگ بندی کو محفوظ بنانے میں ناکام رہیں۔

    اس گفتگو سے وہ پوتن سے صرف ایک اہم رعایت حاصل کرسکے کہ روس یوکرین کی انرجی سے متعلق تنصیبات پر حملوں کا ارادہ ختم کر دے گا۔ تاہم یوکرین کا دعویٰ ہے کہ اس کال کے چند گھنٹوں کے اندر ہی وہ وعدہ ٹوٹ گیا۔

    دوسرے یہ کہ روسی صدر نے واضح کر دیا ہے کہ ان کو کسی قسم کی جلدی نہیں ۔ مذاکرات کے بارے میں ان کے پہلے بیانات گزشتہ ہفتے ایک پریس کانفرنس میں سامنے آئے اس وقت تک ٹرمپ کے ساتھ ان کی ٹیلی فون کو ایک ماہ گزر گیا تھا۔

    صدر پوتن نے واضح کیا کہ وہ طویل مدتی تصفیے کی بات سے پہلے عبوری جنگ بندی کے حصول کی امریکی دو مرحلوں کی حکمت عملی کے سخت مخالف ہیں۔

    ساتھ ہی انھوں نے کہا کہ کسی بھی بات چیت یا مزاکرات کو جنگ کی بنیادی وجوہات کا احاطہ کرنا چاہیے۔ جیسے کہ انھیں نیٹو اتحاد میں توسیع کا خدشہ ہے اور یوکرین کا ایک خودمختار ریاست کے طور پر وجود کسی نہ کسی طرح روس کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔

    انھوں نے تفصیلی سوالات اور شرائط بھی سامنے رکھیں جنھیں کسی بھی معاہدے پر اتفاق کرنے سے پہلے پورا کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ تیسرا یہ کہ یوکرین پر اپنی ابتدائی توجہ مرکوز کرنے کی امریکی حکمت عملی کو غلط سمجھا گیا ہے۔

    وائٹ ہاؤس کا خیال تھا کہ صدر زیلنسکی امن کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ مغربی ممالک کے سفارت کار تسلیم کرتے ہیں کہ یوکرین کی حکومت یہ دیر میں سمجھی کہ ٹرمپ کی آمد سے دنیا کتنی بدل گئی ہے۔ لیکن کیئو پر امریکی دباؤ سے وقت، کوشش اور سیاسی سرمایہ گویا ضائع ہوا۔

    اس کی ایک مثال اوول آفس میں ٹرمپ اور ان کے نائب صدر جے ڈی وینس کی جانب سے صدر زیلنسکی کو ہراساں کیا جانا ہے۔

    صدر زیلینسکی اور ٹرمپ

    ،تصویر کا ذریعہGetty Images

    ،تصویر کا کیپشنچند ہفتے قبل وائٹ ہاؤس میں ٹرمپ اور زیلنسکی کی ملاقات تکرار میں بدل گئی تھی

    ایک اور بات یہ بھی ہے کہ تنازع کی سراسر پیچیدگی کسی بھی حل کو مشکل بنا دیتی ہے۔

    یوکرین کی پیشکش ابتدائی طور پر فضا اور سمندر میں عبوری جنگ بندی کے لیے تھی۔ خیال یہ تھا کہ یہ نگرانی نسبتاً سیدھی ہو گی۔ لیکن گزشتہ ہفتے جدہ میں ہونے والی بات چیت میں امریکہ نے زور دیا کہ کسی بھی فوری جنگ بندی میں مشرق میں 1200 کلومیٹر سے زیادہ لمبی فرنٹ لائن کو بھی شامل کیا جانا چاہیے۔

    فوری طور پر اس عمل نے کسی بھی جنگ بندی کی تصدیق کے عمل کو مزید پیچیدہ بنا دیا جسے پھر پوتن کی طرف سے مسترد کر دیا گیا تھا. لیکن توانائی کے بنیادی ڈھانچے پر حملے ختم کرنے کی بظاہر معمولی تجویز سے اتفاق بھی مسائل سے خالی نہیں۔ اس تجویز کی تفصیلات پر پیر کے روز سعودی عرب میں متوقع تکنیکی مذاکرات میں بحث متوقع ہے۔

    یاد رہے کہ یوکرین اور روس ایک دوسرے سے براہ راست بات چیت نہیں کر رہے بلکہ ان کے درمیان امریکہ ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان ثالث کا کردار ادا کر رہا ہے۔ اس سے بھی مزید وقت درکار ہوگا۔

    امریکہ کی جنگ بندی کے اقتصادی فوائد پر توجہ نے لڑائی ختم کرنے کی اولین ترجیح سے توجہ ہٹا دی۔ ٹرمپ نے ایک فریم ورک معاہدے پر اتفاق کرنے کی کوشش میں وقت لگایا تاکہ امریکی کمپنیوں کو یوکرین کے قیمتی معدنی وسائل تک رسائی مل سکے۔

    صدر زیلینسکی نے ابتدا میں مؤقف اختیار کیا کہ وہ صرف اس صورت میں معاہدہ کریں گے جب امریکہ یوکرین کو مستقبل میں روسی جارحیت سے بچانے کے لیے سلامتی کی ضمانتیں دے۔ تاہم وائٹ ہاؤس کے انکار اور شرائط پر زیلینسکی نے پیچھے ہٹتے ہوئے کہا کہ وہ سلامتی کی ضمانتوں کے بغیر بھی معدنی وسائل کا معاہدہ کرنے کو تیار ہیں۔

    لیکن اس کے باوجود امریکہ نے ابھی تک اس معاہدے پر دستخط نہیں کیے کیونکہ وہ اس کی شرائط کو مزید بہتر بنانے کی امید کر رہا ہے۔

  19. بلوچ یکجہتی کمیٹی کا آج صوبے بھر میں شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال کا اعلان، کوئٹہ میں انٹرنیٹ کے بعد موبائل فون سروس بھی معطل, محمد کاظم، بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کوئٹہ

    بلوچ یکجہتی کمیٹی  کا احتجاج

    ،تصویر کا ذریعہ@BalochYakjehtiC

    بلوچ یکجہتی کمیٹی کی سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے صوبے بھر میں آج شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔

    ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے اپنے ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ ’آج ریاست پاکستان کی سکیورٹی فورسز کی کوئٹہ میں پرامن مظاہرین پر براہ راست فائرنگ کے نتیجے میں اس وقت تک تین پر امن مظاہرین ہلاک جبکہ درجنوں زخمی ہوئے ہیں۔‘

    دوسری جانب بلوچستان حکومت کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ’احتجاج کرنے والے کے خلاف پولیس نے قانون کے مطابق کارروائی کی، مظاہرین نے پولیس پر پتھراؤ اور تشدد کیا اور اس دوران ’لیڈی پولیس کانسٹیبل اور پولیس اہلکاروں سمیت دس زخمی افراد ہسپتال لائے گئے۔‘

    بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں انٹرنیٹ کے بعد موبائل فون سروس کو بھی معطل کردیا گیا جس سے لوگ پریشانی اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

    یاد رہے کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے ایک روز قبل سے سریاب روڈ پر بلوچستان یونیورسٹی کے سامنے بلوچ یکہجہتی کے رہنماؤں کی گرفتاریوں اور مرنے والے افراد کی لاشیں لواحقین کے حوالے نہ کرنے اور شناخت کے لیے نہ لے جانے کے خلاف دھرنا دیا جا رہا تھا۔

    دوسری جانب کوئٹہ کے قمبرانی روڈ پر گرفتار ہونے والے بلوچ افراد کے اہل خانہ کی جانب سے احتجاج ریلی نکالی گئی تھی۔

    بلوچ یکجہتی کمیٹی

    ،تصویر کا ذریعہ@BalochYakjehtiC

    سماجی کارکن ماہ رنگ بلوچ کا دعویٰ ہے کہ ’یونیورسٹی کے سامنے دھرنا جاری تھا کہ دو بجے پولیس کی بھاری نفری آئی۔ انھوں نے شیلنگ کی اور فائرنگ کی جس کے نتیجے میں تین لوگ ہلاک اور تیرہ لوگ زخمی ہیں۔‘

    انٹرنیٹ اور موبائل فون کی بندش اور لوگوں کی مشکلات

    کوئٹہ میں موبائل فون سروس کی بندش کا آغاز جمعے اور سینیچر کی درمیانی شب ساڑھے 11 بجے کے قریب ہوا جبکہ دوسری جانب جمعرات کو دو بجے کے بعد سے ہی موبائل فون پر انٹرنیٹ سروس کو معطل کر دیا گیا تھا۔

    اگرچہ سرکاری حکام کی جانب سے پہلے موبائل فون پر انٹرنیٹ سروس اور اب مکمل طور پر موبائل فون سروس کی بندش کی وجوہات نہیں بتائی گئیں تاہم جمعرات کو موبائل فون پر انٹرنیٹ سروس بلوچ یکجہتی کمیٹی کی یونیورسٹی آف بلوچستان کے سامنے دھرنے سے کچھ پہلے معطل ہوگئی تھی۔

    موبائل فون سروس کی بندش کے باعث کوئٹہ شہر میں لوگوں کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔

    یاد رہے کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے اس احتجاج کا اعلان سکیورٹی فورسز کے مبینہ آپریشن میں ہلاک ہونے والے نامعلوم افراد کی لاشیں حوالے نہ کرنے، کمیٹی کے کارکنوں پر سول ہسپتال میں لاٹھی چارج اور ان کی گرفتاری کے خلاف شروع کیا گیا تھا۔

  20. لاہور سے پکڑے گئے مبینہ خود کش بمبار سے دوران تفتیش اہم انکشافات سامنے آئے: سی ٹی ڈی, شہزاد ملک، بی بی سی اردو، اسلام آباد

    سی ٹی ڈی پنجاب

    ،تصویر کا ذریعہGetty Images

    لاہور کے علاقے برکی سے گرفتار کیے گئے مبینہ خودکش بمبار نے دورانِ تفتیش بعض اہم انکشافات سامنے آئے ہیں۔

    سی ٹی ڈی کے بیان کے مطابق مطابق گرفتارمبینہ خودکش بمبار نے انکشاف کیا ہے کہ دورانِ تربیت اسے نشے اور مختلف ادویات کا عادی بنایا گیا۔

    مزید تحقیقات میں معلوم ہوا کہ مقامی سہولت کار نے اسے لاہور میں تین دن تک ٹھہرایا اور خودکش جیکٹ فراہم کی جس کی گرفتاری کے لیے مختلف مقامات پر انٹیلیجنس بیسڈ کارروائیاں جاری ہیں۔

    یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے کاؤنٹر ٹیرارزم ڈپارٹمنٹ نے لاہور میں برکی روڈ کے قریب مقابلے کے بعد ٹی ٹی پی کے مبینہ خودکش حملہ آور کو گرفتار کیا تھا۔ جبکہ ملزم کا ساتھی زخمی حالت میں فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا تھا۔

    اس کارروائی کے اعلامیے میں سی ٹی ڈی ترجمان نے کہا تھا کہ لاہور بڑی تباہی سے بچ گیا ہے۔

    سی ٹی ڈی سنیچر کے روز جاری بیان کے مطابق ملزم کو افغانستان میں جماعت الحرار کے کمانڈرز سلیمان اور قاسم خراسانی نے تربیت دی جس کے بعد ملزم کو چمن کے راستے پاکستان بھیجا گیا۔

    یاد رہے کہ قاسم خراسانی کو پولیس لائن پشاور اور لاہور میں پولیس افسران کی ٹارگٹ کلنگ کا ماسٹر مائنڈ سمجھا جاتا ہے۔