ٹرمپ کے عالمی ٹیرف منصوبے پر امریکی سٹاک مارکیٹ میں مندی، برطانیہ میں جوابی اقدام پر غور

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے دنیا بھر کے 100 ملکوں پر ٹیرف عائد ہونے کے بعد امریکہ کی سٹاک مارکیٹس میں مندی کا رجحان دیکھا گیا ہے۔ مثلاً ٹیکنالوجی کمپنی ایپل، جس کی مصنوعات چین میں تیار ہوتی ہیں، کے حصص کی قدر میں نو فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ ادھر برطانیہ نے اِن امریکی مصنوعات کی فہرست تیار کی ہے جن پر جوابی ٹیرف عائد کیا جا سکتا ہے۔

خلاصہ

  • ٹرمپ کا نیا ٹیرف: آپ کا کسی ایک کے ساتھ ایسا کرنا تو یہ سب کے لیے برابر ہو گا، صدر یورپی کمیشن
  • 'یہ کسی دوست کا کام نہیں': آسٹریلیا ٹرمپ کے ٹیرف پر ناراض
  • پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف عوام کے لیے ایک بڑے ریلیف پیکج کا اعلان کریں گے: رنا ثنا اللہ
  • اسرائیل کے وزیرِ دفاع اسرائیل کاٹز نے غزہ کے رہائشیوں سے حماس کے خاتمے اور اسرائیلی یرغمالیوں کی واپسی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہی اس جنگ کو ختم کرنے کا واحد طریقہ ہے۔
  • اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسیف کا کہنا ہے کہ غزہ میں اسرائیلی کارروائیوں کے دوبارہ آغاز کے بعد سے اب تک 322 بچے ہلاک ہو چکے ہیں۔
  • یونیسیف کے مطابق غزہ میں ایک بار پھر بچوں کو جان لیوا تشدد اور محرومی کی طرف دھکیل دیا گیا ہے۔

لائیو کوریج

  1. یہ صفحہ اب مزید اپڈیٹ نہیں کیا جا رہا

    بی بی سی اردو کی لائیو کوریج کا سلسلہ جاری ہے تاہم یہ صفحہ اب مزید اپڈیٹ نہیں کیا جا رہا۔

    تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے اس لنک پر کلک کریں۔

  2. انڈیا میں مسلمانوں کی طرف سے عطیہ کی گئی وقف اراضی سے متعلق متنازع بِل منظور

    انڈیا میں مسلمانوں کی طرف سے عطیہ کی گئی وقف اراضی سے متعلق متنازع بِل منظور

    ،تصویر کا ذریعہGetty Images

    انڈین پارلیمان کے ایوان زیریں نے ایک متنازع بِل منظور کیا ہے جس کے تحت صدیوں سے مسلمانوں کی طرف سے عطیہ کی جانے والی اربوں ڈالروں کی جائیدادوں کا نظام تبدیل ہو جائے گا۔

    لوک سبھا میں بدھ کو 12 گھنٹوں کی بحث کے بعد وقف ترمیمی بل 2024 کو 232 کے مقابلے 288 ارکان کی حمایت سے منظور کیا گیا۔ اب راجیہ سبھا میں اس پر مزید مشاورت ہوگی جہاں سے منظوری کے بعد صدر کے دستخط سے یہ قانون بن سکتا ہے

    حکومت کا کہنا ہے کہ بِل کا مقصد وقف کے نظام میں شفافیت لانا ہے۔ تاہم حزب اختلاف اور مسلم گروہوں نے اسے ملک کی سب سے بڑی اقلیت کے آئینی حق کو کمزور کرنے کی کوشش قرار دیا ہے۔

    وقف بِل پر اعتراض کیوں؟

    یہ بِل گذشتہ سال اگست میں پیش کیا گیا تھا مگر اپوزیشن کے احتجاج کے باعث اسے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کو بھیجا گیا۔ بِل کا جو مسودہ منظور ہوا ہے اس میں وہ تبدیلیاں نہیں کی گئیں جو اپوزیشن ارکان نے تجویز کی تھیں۔

    لوک سبھا میں قائد حزب اختلاف راہول گاندھی نے ایکس پر ایک پیغام میں لکھا کہ ’یہ آئین پر حملہ ہے۔ آج مسلمان نشانے پر ہیں، کل کوئی اور برادری نشانہ بن سکتی ہے۔‘

    کئی مسلم تنظیمیں اس ترمیم شدہ وقف بِل کو چیلنج کرنے کی حکمت عملی بنا رہی ہیں۔

    وقف ترمیمی بل پر سپریم کورٹ کے وکیل فضل احمد ایوبی کا کہنا ہے کہ وقف اراضی حکومت کی نہیں ہے بلکہ یہ عطیہ کردہ اراضی ہے جو لوگوں نے اپنی جائیداد سے عطیہ کی تھی۔ ان کے بقول حکومت یہ تاثر دے رہی ہے کہ جیسے وقف نے سرکاری زمین پر قبضہ کر لیا ہو۔

    لوک سبھا میں اس بل پر بحث کے دوران وزیر داخلہ امیت شاہ نے اپوزیشن پر الزام لگایا تھا اور کہا تھا کہ ’مجھے لگتا ہے کہ یا تو بے گناہی سے یا سیاسی وجوہات کی بنا پر ارکان کے ذہنوں میں بہت سی غلط فہمیاں ہیں اور انھیں پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔‘

    ’کچھ لوگ یہ افواہیں پھیلا رہے ہیں کہ یہ ایکٹ مسلم کمیونٹی کے مذہبی حقوق اور املاک میں مداخلت کرے گا۔ یہ مکمل طور پر غلط ہے اور اقلیتوں کو خوفزدہ کرنے کی محض ایک سازش ہے تاکہ انھیں ووٹ بینک کے طور پر استعمال کیا جا سکے۔‘

    تاہم مسلم گروہوں کا کہنا ہے کہ اس بِل کا مقصد وقف قوانین کو کمزور کرنا اور وقف کی اراضی پر قبضہ کر کے انھیں منہدم کرنا ہے۔

    وقف بِل میں کیا ہے؟

    وقف املاک میں مساجد، مدارس، شیلٹر ہوم اور مسلمانوں کی طرف سے عطیہ کردہ ہزاروں ایکڑ اراضی شامل ہے جو وقف بورڈ کے زیر انتظام ہیں۔ ان میں سے کچھ جائیدادیں خالی پڑی ہیں جبکہ دیگر پر تجاوزات ہیں۔

    اسلامی روایت میں وقف ایک خیراتی یا مذہبی عطیہ ہے جو مسلمانوں کی طرف سے کمیونٹی کے فائدے کے لیے دیا جاتا ہے۔ ایسی جائیدادیں کسی دوسرے مقصد کے لیے فروخت یا استعمال نہیں کی جا سکتی ہیں، یعنی یہ وقف جائیدادیں خدا کی ہیں۔

    حکومت کا کہنا ہے کہ وقف بورڈ انڈیا کے سب سے بڑے زمینداروں میں سے ہیں۔ انڈیا بھر میں کم از کم 872,351 وقف جائیدادیں ہیں، جو 940,000 ایکڑ سے زیادہ پر پھیلی ہوئی ہیں اور ان کی 1.2 ٹریلین روپے مالیت کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔

    بل کے مخالفین کی طرف سے ایک بڑی تنقید یہ ہے کہ یہ حکومت کو ان اوقاف کے انتظام کو منظم کرنے اور اس بات کا تعین کرنے کا غیر ضروری اختیار دیتا ہے کہ آیا کوئی جائیداد ’وقف‘ کے طور پر اہل ہے یا نہیں۔

    اس بل میں دو غیر مسلم ممبران کو وقف بورڈ میں شامل کرنے کی بھی تجویز دی گئی ہے جو ان جائیدادوں کی نگرانی کرتے ہیں۔ ناقدین نے اس شق کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ غیر مسلموں کے زیر انتظام زیادہ تر مذہبی ادارے اپنی انتظامیہ میں دوسرے عقائد کے پیروکاروں کو اجازت نہیں دیتے۔

  3. امریکی سٹاک مارکیٹ میں مندی کا رجحان

    امریکی سٹاک مارکیٹ

    ،تصویر کا ذریعہReuters

    امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے دنیا بھر کے کئی ممالک پر ٹیرف عائد کیے جانے کے بعد ملک کی اپنی سٹاک مارکیٹس میں مندی کا رجحان دیکھا گیا ہے۔

    ابتدائی گھنٹوں کے دوران سٹاک مارکیٹ انڈیکس ڈو جونز میں 2.8 فیصد، ایس اینڈ پی میں 3.3 فیصد اور نیزڈیک (جہاں اکثر ٹیکنالوجی کمپنیاں لسٹڈ ہیں) میں 4.4 فیصد کی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔

    معروف کمپنیوں کے حصص کی قدر میں بھی کمی آئی ہے۔ جیسے نائیکی کی قدر میں 11 فیصد، گیپ میں 18 فیصد اور ایمیزون میں سات فیصد گراوٹ آئی ہے۔ ایپل، جس کی مصنوعات چین میں بنتی ہیں، کی قدر میں نو فیصد کمی آئی۔

    یہ بتانا ضروری ہے کہ شیئر کی قدر دن کے دوران واپس بحال ہو سکتی ہے، یعنی یہ تبدیلی مستقل نہیں ہوتی۔

    امریکہ میں شمسی توانائی سے متعلق کمپنیوں کے حصص کی قدر میں بھی کمی آئی ہے۔

    دوسری طرف وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری نے کہا ہے کہ ’کوئی بھی شخص جو آپ صبح والسٹریٹ پر موجود ہے، وہ صدر ٹرمپ پر اعتماد کرے۔‘

    انھوں نے سی این این کو بتایا کہ ٹیرف کے اقدامات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔

  4. برطانیہ نے جوابی ٹیرف عائد کرنے کے لیے امریکی مصنوعات کی فہرست تیار کر لی

    کیئر سٹامر
    ،تصویر کا کیپشنبرطانوی وزیر اعظم کیئر سٹامر کا کہنا ہے کہ ’یہ نئے دور کا آغاز ہے‘

    ٹرمپ کی جانب سے ٹیرف عائد کیے جانے کے بعد برطانیہ نے اِن امریکی مصنوعات کی فہرست تیار کی ہے جن پر جوابی ٹیرف عائد کیا جا سکتا ہے۔

    تاہم برطانوی حکومت کا کہنا ہے کہ 417 صفحات پر مشتمل فہرست پر کسی چیز کے ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ اس پر ٹیرف عائد کیا جائے گا۔

    کاروبار اور تجارت کے محکمے کے مطابق اس فہرست میں امریکہ سے درآمد کی جانے والی 27 فیصد اشیا شامل ہیں جن کے برطانیہ کی معیشت پر محدود اثرات ہوں گے۔

    ان مصنوعات میں اعلیٰ نسل کے گھوڑے، بچوں کے کپڑے، خام تیل، بندوقیں اور بربن شامل ہیں۔

    امریکہ کی جانب سے عائد کیے گئے ٹیرف کے اثرات اور ممکنہ جوابی اقدامات کے لیے برطانوی حکومت کی کاروباری طبقے سے مشاورت جاری ہے۔

    برطانیہ کے بزنس سیکریٹری جوناتھن رینلڈز نے کہا ہے کہ حکومت سمجھتی ہے امریکہ کے ساتھ معاہدہ ’ممکن‘ اور ’مفاد میں‘ ہے۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ برطانیہ کے پاس یہ حق ہے کہ اگر معاہدہ طے نہیں پاتا تو اپنی ضرورت کے تحت جوابی اقدام کرے۔

    خیال رہے کہ امریکی صدر ٹرمپ کے منصوبے کے تحت برطانیہ پر 10 فیصد ٹیرف عائد کی گئی ہے۔

    برطانیہ سمیت دنیا بھر کے ملکوں میں امریکی ٹیرف کے تین اثرات ہو سکتے ہیں: قیمتیں بڑھ سکتی ہیں یا کم ہو سکتی ہیں، لوگوں کی نوکریاں اثر انداز ہو سکتی ہیں اور شرح سود کے زیادہ رہنے کا امکان ہے۔

    برطانوی وزیر اعظم کیئر سٹامر کا کہنا ہے کہ برطانیہ کسی بھی ملک کے مقابلے امریکہ کے ساتھ سب سے زیادہ تعاون کرتا ہے مگر اس معاملے میں ’کوئی بھی اقدام قومی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے اٹھایا جائے گا۔‘

    ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے پاس دو راستے ہیں۔ یا تو جوابی کارروائی کریں یا تحمل کی حکمت عملی اپنائیں۔ دوسرا راستہ بہتر ہے۔‘

  5. بریکنگ, پاکستان میں گھریلو اور صنعتی صارفین کے لیے بجلی کی قیمت میں کمی کا اعلان

    شہباز شریف

    ،تصویر کا ذریعہGetty Images

    پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے ملک میں بجلی کی قیمتوں میں کمی کے لیے ایک پیکج کا اعلان کیا ہے۔ اس کے تحت گھریلو صارفین کے لیے بجلی کی قیمت میں 7.41 روپے فی یونٹ جبکہ صنعتی صارفین کے لیے 7.69 روپے فی یونٹ کی کمی کی گئی ہے۔

    اس کمی کے بعد پاکستان میں گھریلو صارفین کے لیے بجلی کی قیمت 34 روپے فی یونٹ ہوگی۔

    اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ملک میں مہنگی بجلی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ ان کے مطابق جب تک بجلی کی قیمت میں کمی نہیں آئے گی، اس وقت تک ترقی ممکن نہیں اور نہ ہی تجارت، ایکسپورٹ، زراعت یا دیگر شعبوں میں پیداوار بڑھے گی۔

    شہباز شریف نے تسلیم کیا کہ بجلی کی قیمتوں میں کمی کے لیے آئی ایم ایف کو قائل کرنا مشکل تھا۔ انھوں نے کہا کہ جب عید سے قبل عالمی منڈی میں تیل کی قیمت میں کمی آئی تو پاکستان میں سستی بجلی کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔

    انھوں نے کہا کہ ’آئی ایم ایف کو رضامند کرنا مشکل تھا۔ آئی ایم ایف نے بجلی کی قیمتیں کم کرنے سے انکار کیا تھا۔ ہم نے کہا ہم تیل کی قیمت میں کمی کو استعمال کر رہے ہیں، کوئی سبسڈی نہیں دے رہے۔ آئی ایم ایف بالآخر قائل ہوا۔ ہمیں اس معاملے میں تحمل سے کام لینا چاہیے۔ آئی ایم ایف پروگرام قوم کی امانت ہے۔‘

    وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان اعتماد کا فقدان تھا جسے بحال کرنے کی کوششیں کی گئی ہیں۔

    دریں اثنا ان کا کہنا تھا کہ رواں سال آئی پی پیز کے ساتھ مذاکرات ہوئے اور انھیں کہا گیا کہ ’آپ نے بہت کما لیا، اب قوم کو اس کا فائدہ دیں۔‘

    شہباز شریف نے ملک میں توانائی کے شعبے کو درپیش کئی چیلنجز کا ادراک کیا، جیسے گردشی قرضے۔ انھوں نے کہا کہ اس میں بتدریج کمی کے لیے پانچ سال کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔

    شہباز شریف نے وعدہ کیا کہ ملک میں گردشی قرضوں میں کمی لائی جائے گی، اوپن مارکیٹ قائم کر کے بجلی کو مزید سستا کیا جائے گا اور ڈسکوز کی فوری نجکاری کی جائے گی۔

    ان کا کہنا تھا کہ بجلی کی قیمت میں ریلیف ’قوم کو مبارک ہو۔ آئندہ بھی اس طرح کے بے شمار ریلیف دیں گے۔‘

  6. صدر ٹرمپ کی جانب سے نئے ٹیرف کا اعلان: کون سے معاشی شعبے سب سے زیادہ متاثر ہیں؟

    ایسا معلوم ہوتا ہے کہ امریکی صدر کے فیصلوں سے وسیع اقتصادی شعبے متاثر ہوں گے۔ آئیے نظر ڈالتے ہیں کہ ان میں کون سے شعبے سر فہرست ہیں۔

    آٹوموٹو اور گاڑیوں کا شعبہ:

    ٹرمپ نے درآمد شدہ کاروں اور ہلکے ٹرکوں پر 25 فیصد ٹیرف کا اعلان کیا، جو 2 اپریل کی رات سے لاگو ہوگا، بشمول تیار شدہ گاڑیوں کی درآمدات پر سابقہ ​​ٹیرف۔

    بڑے آٹوموٹو پرزوں کی درآمدات (انجن اور انجن کے پرزے، ٹرانسمیشنز، پاور ٹرین کے پرزے، اور الیکٹریکل پرزے) کی درآمدات 3 مئی 2025 کے بعد وفاقی نوٹس میں بتائی جانے والی تاریخ پر ٹیرف کے تابع ہوں گی۔

    سٹیل اور ایلومینیم:

    12 مارچ کو، ٹرمپ نے تمام سٹیل اور ایلومینیم کی درآمدات پر محصولات کو بڑھا کر 25 فیصد کر دیا، جس میں نٹ اور بولٹ سے لے کر بلڈوزر بلیڈ اور سوڈا کین تک سینکڑوں تیار شدہ مصنوعات کو شامل کرنے کے لیے ڈیوٹی کو بڑھا دیا۔

    امریکہ ایلومینیم کا دنیا کا سب سے بڑا درآمد کنندہ اور سٹیل کا دوسرا سب سے بڑا درآمد کنندہ ہے، اس میں سے نصف سے زیادہ کینیڈا، میکسیکو اور برازیل سے آتا ہے۔

    توانائی اور وسائل:

    کینیڈین یورینیم کان کنی کرنے والی کمپنی کیمیکو نے کہا ہے کہ امریکی کمپنیوں کے لیے یورینیم کی قیمتوں میں 10 فیصد اضافہ ہو سکتا ہے اگر ٹیرف لاگو ہوتے ہیں، جس سے اس ملک پر بھاری بوجھ پڑے گا جو اس خام مال کی درآمد پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے۔

    تاجروں اور تجزیہ کاروں کے مطابق، ریاست ہائے متحدہ میں پٹرول کی خوردہ قیمتوں میں اضافے کی توقع ہے، کیونکہ تازہ ترین ٹیرف توانائی کی درآمدات کی لاگت کو بڑھا سکتے ہیں۔

    روس کے مرکزی بینک نے بدھ کو کہا تھا کہ امریکی ٹیرف میں اضافہ عالمی معیشت میں سست روی کا باعث بن سکتا ہے اور تیل کی قیمتیں کم عالمی طلب کی وجہ سے کئی سالوں تک توقع سے کم رہ سکتی ہیں۔

    زراعت اور مویشی:

    میکسیکو کے کسانوں اور فارم ورکرز نے تشویش کا اظہار کیا ہے کہ میکسیکو پر 25 فیصد ٹیرف سے مویشیوں کی صنعت، خاص طور پر چھوٹے پروڈیوسر اور ان کے کاروبار پر شدید اثر پڑے گا، جس کی تعمیر میں انھوں نے برسوں گزارے ہیں۔

    لکڑی:

    یکم مارچ کو صدر ٹرمپ نے ایک نئی تجارتی تحقیقات کا حکم دیا جس کے نتیجے میں درآمد شدہ لکڑی پر اضافی محصولات ہوں گے، جو کینیڈین نرم لکڑی پر موجودہ ٹیرف اور تمام کینیڈین اور میکسیکن سامان پر 25 فیصد محصولات سے زیادہ ہوں گے۔

    الیکٹرانک چپس:

    صدر ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ سیمی کنڈکٹر چپس پر محصولات ’25 فیصد یا اس سے زیادہ‘ سے شروع ہوں گے اور سال کے دوران نمایاں طور پر بڑھیں گے، لیکن انھوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ یہ محصولات کب نافذ ہوں گے۔

    کمپیوٹر انڈسٹری:

    کمپیوٹر مینوفیکچررز، جیسے ڈیل، کو چین پر عائد ٹیرف کے نتیجے میں ممکنہ طور پر زیادہ قیمتوں کے خطرے کا سامنا ہے۔

    ڈیل نے فروری میں کہا تھا کہ وہ ٹیرف آرڈرز کا جائزہ لے رہا ہے، مزید کہا کہ اعلانات نے ابھی تک اس کی قیمتوں کو متاثر نہیں کیا ہے۔ تاہم، ریسرچ فرم انٹرنیشنل ڈیٹا کارپوریشن نے ٹیرف سے متعلق خطرات کی وجہ سے فروری میں 2025 اور اس کے بعد کے روایتی پی سی کے لیے اپنی پیشن گوئی کو کم کر دیا۔

    فارماسیوٹیکل:

    تیار شدہ ادویات اور خام مال سمیت چین سے درآمد کی جانے والی اشیا پر ٹیرف بڑھانے کے ٹرمپ کے فیصلے نے توقعات کو بڑھا دیا ہے کہ فارماسیوٹیکلز کو فہرست میں شامل کیا جائے گا، جس سے فارماسیوٹیکل مصنوعات کو ٹیرف سے مستثنیٰ کرنے کی دہائیوں پر محیط پالیسی میں ایک بنیادی تبدیلی کی نشاندہی کی گئی ہے۔

    برطانوی فارماسیوٹیکل انڈسٹری نے امریکی محصولات کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا ہے۔ بائیو انڈسٹری ایسوسی ایشن کے چیف ایگزیکٹیو اسٹیو بیٹس نے بی بی سی کو بتایا کہ ’عالمی فارماسیوٹیکل مارکیٹ کا نصف امریکہ میں ہے، اور برطانیہ کے لیے، دواسازی کی برآمدات تقریباً کار انڈسٹری کے حجم کے برابر ہیں۔‘

    خبر رساں ادارے روئٹرز نے منگل کو رپورٹ کیا کہ فارماسیوٹیکل کمپنیاں ٹرمپ پر دباؤ ڈال رہی ہیں کہ وہ درآمدی دواسازی کی مصنوعات پر بتدریج محصولات نافذ کریں، امید ہے کہ محصولات کے اثرات کو کم کیا جائے گا اور مینوفیکچرنگ کے لیے وقت کو تبدیل کیا جائے گا۔

    خوردہ اور ای کامرس

    بہت سے دوسرے امریکی خوردہ فروش ٹیرف سے ممکنہ طور پر متاثر ہونے کی تیاری کر رہے ہیں، خاص طور پر ان کے اہم سپلائر چین پر۔

    ویتنام پر محصولات کے لاگو ہونے کے بعد، کھیلوں کے لباس اور ملبوسات کے مینوفیکچررز، نائکی سے لے کر آن ہولڈنگ تک، متاثر ہونے کی توقع ہے، کیونکہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ اپنی تقریباً نصف مصنوعات ویتنام سے درآمد کرتا ہے۔

    ای کامرس کمپنیاں جیسے شین، بی ڈی ڈی ہولڈنگز کی ملکیت والی ٹیمو، اور علی بابا کی علی ایکسپریس قیمتیں کم رکھنے کے لیے سادہ ٹیکس چھوٹ پر انحصار کرتی ہیں۔

    شراب:

    13 مارچ کو، ٹرمپ نے دھمکی دی تھی کہ وہ اگلے ماہ امریکی وہسکی اور دیگر مصنوعات پر محصولات عائد کرنے کے یورپی یونین کے منصوبے کے بدلے میں، یورپ سے شراب اور دیگر الکوحل والے مشروبات کی درآمدات پر 200 فیصد محصولات عائد کر دیں گے۔

    امریکہ سکاچ وہسکی کی سب سے بڑی برآمدی منڈی ہے۔

    سفر

    سیاحوں اور کاروباری اداروں نے بڑھتی ہوئی معاشی غیر یقینی صورتحال کے درمیان اپنے اخراجات میں کمی کر دی ہے اور کچھ ایئر لائنز نے کم کرایوں سے بچنے اور منافع کے مارجن کو بچانے کے لیے پروازیں کم کرنا بھی شروع کر دی ہیں۔

  7. کار مینو فیکچرنگ کے شعبے سے منسلک 25000 نوکریاں ختم ہونے کا خدشہ

    برطانیہ نے امریکہ کو گذشتہ برس تقریباً 60 ارب پاؤنڈ کی مصنوعات برآمد کیں جن میں کاریں، مشینری، گاڑیاں اور فارماسوٹیکل سے منسلک اشیا شامل ہیں۔

    اگر امریکہ کی جانب سے درآمدات پر زیادہ چارجز ہونے کی وجہ سے وہاں اس کی طلب میں کمی ہوئی تو اس سے برطانیہ میں نوکریاں ختم ہونے کا خدشہ پیدا ہو جائے گا۔

    انسٹیٹیوٹ برائے پبلک پالیسی ریسرچ کا کہنا ہے بظاہر ایسا لگتا ہے کہ کہ جاگوار لینڈ روور اور کاؤلے کی منی فیکٹری اس سے سب سے زیادہ متاثر ہو سکتی ہیں۔

    اس تھنک ٹینک کا کہنا ہے کہ برطانیہ میں 25000 سے زیادہ کار مینوفیکچرنگ سے منسلک نوکریاں ختم ہو سکتی ہیں۔

    برطانیہ کی فارماسوٹیکل انڈسٹری کا بہت حد تک انحصار امریکہ کے ساتھ تجارت پر ہے اس کے علاوہ یہ کمپنیاں عالمی سطح پر موجود سپلائی چین پر انحصار کرتی ہیں جو کہ سرحد پار ادویات بناتی ہیں۔

  8. ٹرمپ کا نیا ٹیرف: آپ کا کسی ایک کے ساتھ ایسا کرنا سب کے لیے برابر ہو گا، صدر یورپی کمیشن

    European Commission

    ،تصویر کا ذریعہEuropean Commission

    یورپی کمیشن کی صدر ارسلا وین ڈرلین نے کہا ہے کہ نئے امریکی ٹریف کے اطلاق کے بعد یہ پہلے دن سے ہی ہر کسی کوئی متاثر کرے گا۔ ۔

    ان کا کہنا تھا کے ٹیرف کے اثرات فوری طو پر سامنے آئیں گے۔ انھوں نے اسے عالمی اکانومی پر ایک بڑا حملہ قرار دیا۔

    تاہم یورپی کمیشن کی سربراہ نے واضح کیا کہ اس صورتحال میں یورپ متحد ہے۔

    ’اس میں سارا یورپ اکھٹا ہے۔ اگر آپ ہم میں سے کسی ایک کے ساتھ ایسا کریں گے تو اس کا مطلب ہو گا آپ نے سب کے ساتھ ایسا کیا ہے، ہمارا تحاد ہی ہماری طاقت ہے۔

    دوسری جانب یورپی یونین نے ٹرمپ کے اعلان کردہ ٹیرف کے جواب میں اقدامات کر رہے ہیں۔

    یہ یورپ کی جانب سے ٹیرف کے پہلے پیکج کا اعلان ہو گا جو ٹرمپ نے سٹیل پر عائد کیا تھا۔

    یورپی کمیشن کی سربراہ کا کہنا ہے کہ اگر مذاکرات ناکام ہو گئے تو پھر مزید جوابی اقدامات اٹھائے جائیں گے۔

    اٹلی کی وزیراعظم جیارجیا میلونی نے کہا ہے کہ ٹرمپ کا یہ فیصلہ غلط ہے مگر وہ امریکی صدر کے ساتھ مذاکرات کریں گی۔

    سپین کے وزیراعظم مائیکل مارٹن نے صدر ٹرمپ کے اقدامات کو مایوس کن قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے کسی کو فائدہ نہیں ہوگا۔

    جنوبی کوریا پر 25 فیصد ٹیرف عائد کرنے کے اعلان کے ردعمل میں ملک کے قائم مقام صدر ہان ڈک سو نے کہا ہے کہ عالمی تجارتی جنگ ایک حقیقت بن چکی ہے اور ان کی حکومت اس بارے میں سوچ رہی ہے کہ اس بحران سے کیسے نمٹا جائے۔

    اسرائیل کے مقامی میڈیا نے رپورٹ کیا ہے کہ اسرائیل کے معاشی امور سے منسلک حکام جنھوں نے تمام امریکی درآمدات پر عائد ٹیرف کو ختم کر دیا تھا اب خود پر لگنے والے 17 فیصد ٹیکس پر شدید حیرت کا اظہار کیا ہے۔

    ایک اعلیٰ افسر نے میڈیا کو بتایا کہ ہمیں یقین تھا کہ امریکی کی جانب سے درآمد کی جانے والی اشیا پر مکمل طور پر ٹیرف کے خاتمے کے بعد امریکہ یہ اقدام نہیں کرے گا۔

  9. امریکی صدر کا اعلان کردہ ٹیرف بلیک میلنگ ہے، چین

    چینی حکام اور ملکی میڈیا نے ٹرمپ کی جانب سے مزید ٹیرف کے اعلان کی مذمت کی ہے۔

    گلوبل ٹائمز نے اپنے ایک تجزیے میں امریکی صدر کے اعلان کو ٹیرف ’بلیک میلنگ‘ قرار دیا ہے۔

    دوسری جانب چینی وزارت برائے کامرس نے امریکی ٹیرف کی مذمت کی ہے اور جوابی اقدامات کا کے عزم کا اظہار کیا ہے۔

    چینی وزارت کا کہنا ہے کہ ماضی میں یہ ثابت ہوا ہے کہ امریکہ کی جانب سے ٹیرف میں اضافے نے اس کے اپنے مسائل کو حل نہیں کیا۔

    ان کا کہنا ہے کہ یہ امریکی مفادات کو نقصان پہنچاتا ہے اور اس کے علاوہ یہ عالمی تجارت، اقتصادی ترقی اور ترسیلات کے کے لیے خطرہ ہے۔

    دوسری جانب چینی سفیر نے امریکہ کی جانب سے ٹیرف لسٹ میں تائیوان کو الگ ملک کہنے کا معاملے پر امریکہ سے بات کی۔

    سماجی راطبوں کی ویب سائٹ پر امریکہ نے کہا کہ تائیوان چین کا تائیوان ہے۔ ہم کسی بھی صورت میں آزاد تائیوان کی اجازت نہیں دے سکتے۔ ۔

  10. ’یہ کسی دوست کا کام نہیں‘: آسٹریلیا ٹرمپ کے ٹیرف پر ناراض

    آسٹریلیا کے وزیر اعظم انتھونی البانیز نے ٹرمپ کی جانب سے نئے ٹیرف کے اعلان پر کہا ہے کہ اس کی منطق میں کوئی بنیاد نہیں ہے‘ اور یہ ’مکمل طور پر غیر ضروری‘ ہے۔

    انھوں نے کہا کہ یہ کسی دوست کا کام نہیں ہے۔

    خیال رہے کہ امریکہ اور آسٹریلیا دونوں ممالک کے درمیان ایک آزاد تجارتی معاہدہ ہے۔ لیکن ٹرمپ نے نئے محصولات کو غیر ٹیرف تجارتی رکاوٹوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جائز قرار دیا ہے۔ جیسا کہ آسٹریلیا کے بائیو سکیورٹی رولز کے مطابق امریکہ سے تامہ گوشت درآمد نہیں کیا جا سکتا۔

    آسٹریلیا کے وزیراعظم کا کہنا ہے کہ آسٹریلیا محصولات کے ساتھ جوابی کارروائی نہیں کرے گا اور اس کے بجائے مذاکرات کی میز پرآنے کی خواہش رکھتا ہے۔

    اس سے قبل گذشتہ ماہ امریکہ نے آسٹریلیا کے سٹیل اور ایلومینیم پر 25 فیصد ٹیرف لگایا

    تھا۔

  11. عالمی سٹاک مارکیٹس میں مندی کا رحجان

    امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے نئے ٹیرف کے اعلان کے بعد عالمی سٹاک مارکیٹس میں مندی کا رحجان دکھائی دے رہا ہے۔

    مارکیٹ کی مندی دراصل میں رمایہ کاروں کا ٹرمپ کے نئے اعلانات پر ردعمل ہے۔

    عالمی تجارتی جنگ کے خطرات کی وجہ سے جمعرات کو ایشیائی سٹاک مارکیٹس میں میجر انڈیکسز میں مندی کا رحجان ریکاڈ کیا گیا۔

    ہانگ کانگ کا ہانگ سنگ ایک اعشاریہ دو فیصد مندی کا شکار ہوا۔

    شنگھائی میں انڈیکس میں مندی ریکارڈ کی گئی۔

    ٹوکیو می نکئی 225 پوائنٹس کے ستھ ڈاؤن تھی وپاں انڈیکس 200 پوائنٹس پر تھا جب کہ دو اعشاریہ دو فیصد کم ہے۔ جنوبی کاریا کا کوسپی ایک اعشایہ سات فیصد گراوٹ کا شکار تھا جبکہ آسٹریلیا میں مارکیٹ ایک اعشاریہ دو فیصد مندی کا شکار رہی۔

  12. ٹیرف امریکہ اور پوری دنیا کے لیے گیم چینجر ہے: فچ ریٹنگ ایجنسی

    امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے نیا عائد کیا جانے والا ٹیرف لگ بھگ 100 ممالک کو متاثر کرے گا ان میں سے 60 وہ ممالک ہیں جو کہ درآمدات پر زیادہ ٹیکس کا سامنا کر رہے ہیں۔ اس حکم کا اطلاق بدھ سے ہو رہا ہے۔

    امریکی صدر نے برطانیہ پر 10 فیصد جب یورپی یونین میں شامل ممالک پر 20 فیصد ٹیکس عائد کیا ہے۔

    اس کے علاوہ انھوں نے غیر ملکی گاڑیوں پر 25 فیصد ٹیکس عائد کر دیا ہے۔

    امریکہ میں اکنامک ریسرچ ایجنسی فچ ریٹنگ کے سربراہ کا کہنا ہے کہ ٹیرف نہ صرف امریکہ بلکہ پوری دنیا کے لیے گیم چینجر ثابت ہو گا۔ ان کا کہنا ہے کہ بہت سے ممالک میں اس کے نتیجے میں کساد بازاری میں اضافہ ہو گا۔

  13. وزیراعظم عوام کے لیے ایک بڑے ریلیف پیکج کا اعلان کریں گے: رنا ثنا اللہ

    پاکستان کی وفاقی حکومت نے عید کے موقع پر عوام کو ایک بڑا ریلیف پیکج دینے کا اعلان کیا ہے۔

    حکمراں جماعت مسلم لیگ ن کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر گذشتہ روز اعلان کیا گیا کہ وزیراعظم جمعرات کو ریلیف پیکج کا اعلان کریں گے۔

    سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس پر پارٹی کے اکاؤنٹ سے لکھا گیا ’سفارتی اور معاشی محاذ پر کامیابیوں کے بعد وفاقی حکومت کا عوام کیلئے بڑا تحفہ۔‘

    وزیراعظم کے مشیر رانا ثنا اللہ نے اپنے پیغام میں لکھا ’شہباز شریف کل ایسا ریلیف پیکج لائیں گے جو پاکستان کے ڈیفالٹ کی سازش کو ناکام بنا دے گا۔ سٹاک مارکیٹ کی بلندی، ترسیلات میں اضافہ، اور مہنگائی میں کمی—کل مایوسی کے پروپیگنڈے کا خاتمہ ہوگا۔‘

    وزیر دفاع خواجہ آصف نے لکھا کہ ’وزیراعظم قوم سے خطاب میں خوشخبری سنائیں گے جو 2022 سے اب تک کی محنت کا ثمر اور اللہ کے کرم کا نتیجہ ھو گا

    X پوسٹ نظرانداز کریں
    X کا مواد دکھانے کی اجازت دی جائے؟?

    اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو X کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے X ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔

    تنبیہ: بی بی سی دیگر ویب سائٹس کے مواد کی ذمہ دار نہیں ہے۔

    X پوسٹ کا اختتام

  14. امریکہ نے ایشیائی ممالک پر کتنا ٹیرف عائد کیا ہے؟

    ڈونلڈ ٹرمپ

    ،تصویر کا ذریعہGetty Images

    امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اب سے کچھ ہی دیر پہلے متعدد ممالک پر نئے ٹیرف کے نفاذ کا اعلان کیا ہے۔

    اپنی تقریر کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ ہاتھ میں ایک چارٹ بورڈ بھی تھامے ہوئے نظر آئے تھے جس پر ایشیائی ممالک سے امریکہ میں درآمد کی جانے والی اشیا پر عائد کیے جانے والے نئے ٹیرف (ٹیکس) کی تفصیلات درج تھیں۔

    کس ملک پر کتنا ٹیرف عائد کیا گیا ہے؟

    • چین پر 34 فیصد
    • ویتنام پر 46 فیصد
    • تائیوان پر 32 فیصد
    • جاپان پر 24 فیصد
    • انڈیا پر 26 فیصد
    • جنوبی کوریا پر 25 فیصد
    • تھائی لینڈ پر 36 فیصد
    • ملیشیا پر 24 فیصد
    • کمبوڈیا پر 49 فیصد
    • بنگلہ دیش پر 37 فیصد
    • سنگاپور پر 10 فیصد
    • فلپائنز پر 17 فیصد
    • پاکستان پر 29 فیصد
    • سری لنکا پر 44 فیصد
    • میانمار پر 44 فیصد

    اس کے علاوہ امریکی صدر نے یورپی یونین کے ممالک پر 20 فیصد، کوسووہ پر 10 فیصد، سوئٹزرلینڈ پر 31 فیصد، برطانیہ پر 10 فیصد، ناروے پر 15 فیصد، یوکرین پر 10 فیصد اور سربیا پر 37 فیصد ٹیرف عائد کرنے کا اعلان کیا ہے۔

    وائٹ ہاؤس کی ریپڈ رسپانس ٹیم نے دیگر ممالک پر عائد کیے جانے والے ٹیرف کی تفصیلات اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر شائع کر دی ہیں۔

  15. امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے متعدد ممالک پر نئے ٹیرف کے نفاذ کا اعلان کر دیا

    ڈونلڈ ٹرمپ

    ،تصویر کا ذریعہGetty Images

    امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے متعدد ممالک سے امریکہ میں درآمد ہونے والی اشیا پر نئے ٹیرف (ٹیکس) کے نفاذ کا اعلان کر دیا ہے۔

    بدھ کو وائٹ ہاؤس میں خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر نے اعلان کیا کہ تمام ممالک پر 'کم سے کم' 10 فیصد ٹیرف عائد کیا جائے گا تاکہ امریکی معیشت کی 'بحالی میں مدد' حاصل کی جا سکے۔

    ٹرمپ اپنے خطاب کے دوران ایک بورڈ بھی ہاتھ میں تھامے ہوئے نظر آئے جس کے مطابق برطانیہ سے امریکہ میں درآمد کی جانے والی اشیا پر 10 فیصد جبکہ یورپی یونین سے درآمد کی جانے والی اشیا پر 20 فیصد ٹیرف نافذ کیا جائے گا۔

    تاہم امریکی صدر کا کہنا تھا کہ جو کمپنیاں اپنی اشیا امریکہ میں تیار کرتی ہیں ان پر کسی بھی قسم کا ٹیرف عائد نہیں کیا جائے گا۔

    'اگر آپ اپنی مصنوعات یہاں امریکہ میں بناتے ہیں تو آپ پر ٹیرف کا اطلاق نہیں ہوگا۔'

    ڈونلڈ ٹرمپ نے مزید کہنا کہ 'جلد' ہی انھیں بادشاہوں اور سفیروں کی جانب سے فون کالز آنا شروع ہو جائیں گی تاکہ وہ ٹیرف سے استثنیٰ حاصل کر سکیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ 'میرا ان کے لیے پیغام ہے کہ پہلے اپنی طرف سے ٹیرف ختم کریں، اپنی کرنسی کا غلط استعمال نہ کریں اور اربوں ڈالرز کی امریکی اشیا خریدنا شروع کریں۔'

    امریکی صدر نے اپنے خطاب میں متعدد ممالک کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ یہ ممالک کہتے ہیں: 'ہم آپ کو اپنی کاریں بھیجنا چاہتے ہیں، ہمارے پاس جو بھی ہے وہ ہم آپ کو بھیجنا چاہتے ہیں مگر ہم آپ سے کچھ نہیں لیں گے۔'

    ڈونلڈ ٹرمپ نے شکایت کی کہ یورپی یونین میں شامل ممالک امریکہ سے پولٹری مصنوعات نہیں لیتے اور آسٹریلیا امریکی گوشت بھی خریدنے سے انکاری ہے۔

    'وہ ہمارا گوشت نہیں لیتے۔ انھیں یہ نہیں چاہیے، وہ ہمارے کسانوں کی حالت بدلتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتے۔'

    امریکی صدر نے الزام عائد کیا کہ جاپان، جنوبی کوریا اور چین 'نہیں چاہتے کہ امریکہ وہاں اپنا چاول فروخت کرے۔'

    اپنے خطاب کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ وہ امریکہ درآمد کی جانے والی غیرملکی کاروں پر بھی 25 فیصد ٹیرف عائد کر رہے ہیں۔

    امریکی صدر کے مطابق جنوبی کوریا میں بنائی گئی 80 فیصد کاریں جنوبی کوریا میں ہی فروخت ہوتی ہیں اور جاپان میں بنائی گئی 90 فیصد کاریں جاپان میں ہی فروخت ہوتی ہیں، جبکہ ان ممالک میں امریکی کاریں بہت کم تعداد میں فروخت ہوتی ہیں۔

    ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ 'اسی لیے ہم آج رات سے ہی بیرونِ ملک بنائی جانے والی تمام گاڑیوں پر 25 فیصد ٹیرف نافذ کر رہے ہیں۔'

    امریکی صدر نے اپنی تقریر میں چین کا ذکر بھی کیا اور کہا کہ وہ صدر شی جن پنگ کی عزت کرتے ہیں مگر وہ 'امریکہ سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔'

    'ہمیں اپنے ملک کا خیال رکھنا شروع کرنا پڑے گا۔'

  16. مستونگ میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنماؤں کی رہائی کے لیے دھرنا عید کے تیسرے روز بھی جاری رہا, محمد کاظم، بی بی سی اردو کوئٹہ

    بلوچ یکجہتی کمیٹی

    ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور بیبو بلوچ سمیت بلوچ یکجہتی کمیٹی کی خواتین رہنماؤں اور کارکنوں کی گرفتاری کے خلاف ضلع مستونگ کے علاقے لک پاس میں دھرنا عید کے تیسرے روز بھی جاری رہا۔

    بلوچستان نیشنل پارٹی کے زیر اہتمام اس دھرنے میں بدھ کے روز لاپتہ افراد کے لواحقین سمیت خواتین کی بھی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی ہے۔

    دھرنا کے مقام پر سیاسی جماعتوں کی جانب سے یکجہتی کا اظہار کرنے کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ بدھ کو دھرنے کے مقام پر تحریک انصاف کا اعلیٰ سطحی وفد بھی آیا تھا۔

    دوسری جانب حکومت اور انتظامیہ کی جانب سے کوئٹہ شہر کی جانب آنے والی شاہراہ پر مزید رکاوٹیں کھڑی کی گئیں ہیں جبکہ کوئٹہ شہر میں ایک مرتبہ پھر موبائل پر انٹرنیٹ بند کی گئی تھی۔

    حکومت بلوچستان کے ترجمان شاہد رند کا کہنا ہے شہر میں انٹرنیٹ سکیورٹی وجوہات کی بنیاد پر بند کیا گیا ہے جبکہ دھرنے کے شرکا سے مذاکرات چل رہے ہیں۔

    دھرنے میں خواتین کی بڑی تعداد شریک

    بلوچ یکجہتی کمیٹی کی خواتین رہنماؤں کی رہائی کے لیے کوئٹہ اور ضلع مستونگ کے سرحدی علاقے لکپاس پر بدھ کو دھرنے کاچھٹا روز تھا۔

    بلوچستان نیشنل پارٹی کی جانب سے دھرنے میں آج کے دن کو لاپتہ افراد کے لواحقین کے لیے مختص کیا گیا تھا اور اپیل کی گئی تھی کہ لاپتہ افراد کے خاندان دھرنے میں شریک ہوں۔

    اس اپیل کے پیش نظر نہ صرف لاپتہ افراد کے لواحقین بلکہ خواتین کی بھی ایک بڑی تعداد نے دھرنے میں شرکت کی۔

    بلوچ یکجہتی کمیٹی

    دھرنے کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے سردار اختر مینگل نے دعویٰ کیا کہ پہلے ہزاروں افراد کو لاپتہ کیا گیا اور اب بلوچستان سے خواتین کو گرفتار کیا جارہا ہے جو کہ ناقابل برداشت ہے۔

    انھوں نے کہا کہ مبینہ بلوچ نسل کشی کو اجاگر کرنے پر یہ کہا جاتا ہے کہ سیاست چمکایا جارہا ہے حالانکہ خواتین کی گرفتاری بلوچ ننگ و ناموس کا مسئلہ ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ سندھ کی حکومت نے سمّی بلوچ کو رہا کردیا ہے لیکن بلوچستان کی بے اختیار حکومت کہیں اور دیکھ رہی ہے۔

    انھوں نے کہا کہ اگر خواتین رہنماؤں اور کارکنوں کو رہا نہیں کیا گیا تو ہم کوئٹہ کی جانب مارچ کریں گے۔

    تحریک انصاف کے وفد کا اظہار یکجہتی

    دھرنے کے مقام پر سیاسی جماعتوں کے قائدین کی آمد کا سلسلہ بھی جاری رہا۔

    بدھ کے روز پی ٹی آئی کے مرکزی قائدین اظہار یکجہتی کے لئے دھرنے میں پہنچے تھے۔

    وفد میں پی ٹی آئی اور اس کے اتحادی جماعتوں کے قائدین سلمان آکر م راجہ، علامہ راجہ ناصر عباس اور شائستہ کھوسہ کے علاوہ صاحبزادہ احمد رضا بھی شامل تھے۔

    دھرنے کے شرکا سے حکومتی وفد کی دوسری بے نتیجہ ملاقات

    گزشتہ شب دھرنے کے شرکا سے بلوچستان حکومت کے وفد نے دوسری ملاقات کی تھی لیکن وہ کسی بھی نتیجے کے بغیر ختم ہوگئی۔

    حکومتی وفد بلوچستان کے وزرا میرظہور بلیدی، بخت محمد کاکڑ، رکن اسمبلی عبید اللہ گورگیج، سردار نوراحمد بنگلزئی اور سیکریٹری داخلہ زاہد محمود پر مشتمل تھا۔

    بلوچ یکجہتی کمیٹی

    اس ملاقات کے بعد میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے سردار اختر مینگل نے کہا کہ دھرنے کے شرکا کا واحد مطالبہ یہی تھا کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی تمام گرفتار خواتین کو رہا کیا جائے۔

    ان کا کہنا تھا کہ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ حکومتی وفد کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے شاید اسی لیے انھوں نے ہم سے دوسری مرتبہ درمیانی راستہ نکالنے کی بات کی ہے۔

    انھوں نے کہا کہ کہ ہم نے حکومتی وفد کو بتایا ہے کہ یا تو خواتین کو رہا کیا جائے اور اگر یہ بات ان کے اختیار میں نہیں ہے یا حکومت نے اس سلسلے میں کسی سے بات کرنی ہے یا کوئی قانونی تقاضے پورے کرنے ہیں تو اس وقت تک دھرنے کے شرکا کو کوئٹہ جانے دیا جائے تاکہ ہم وہاں ہاکی چوک پر دھرنا جاری رکھیں۔

    انھوں نے کہا کہ 'ہم نے حکومتی وفد پر واضح کیا کہ یہاں پہلے بھی ایک ناخوشگوار واقعہ پیش آیا ہے لیکن اللہ کا شکر ہے کہ اس میں کوئی نقصان نہیں ہوا۔ اگر آئندہ کوئی ایسا واقعہ پیش آیا تو اس کی تمام تر ذمہ داری حکومت پر عائد ہوگی اور پھر کسی ایسے ناخوشگوار واقعے کی صورت میں شاید حالات حکومت کے کنٹرول میں نہ رہیں۔'

    شاہراہ پر مزید رکاوٹیں اور موبائل انٹرنیٹ سروس کی بندش

    بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں گزشتہ شب ایک مرتبہ پھر موبائل فون پر انٹرنیٹ سروس کو معطل کیا گیا ہے۔

    گزشتہ ڈیڑھ سے دو ہفتوں کے دوران کوئٹہ میں موبائل فون پر انٹرنیٹ سروس کی یہ تیسری بندش تھی۔

    انٹرنیٹ سروس کی بندش سے لوگوں کو شدید پریشانی اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

    دوسری جانب لکپاس اور کوئٹہ کے درمیان شاہراہ پر مزید رکاوٹیں کھڑی کی گئیں ہیں۔ اس حوالے سے وائرل ہونے والی ویڈیوز میں شاہراہ پر مزید کنٹینر نظر آرہے ہیں۔

    دوسری جانب حکومت بلوچستان کے ترجمان شاہد رند نے کہا ہے کہ شہر میں موبائل فون پر انٹرنیٹ سروس سکیورٹی خدشات کی بنیاد پر بند کی گئی ہے۔

    کوئٹہ میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ دھرنے کے شرکا کے ساتھ مذاکرات چل رہے ہیں اور جب تک یہ مکمل نہیں ہوتے وہ اس سلسلے میں کوئی تبصرہ نہیں کرسکتے۔

  17. صدر آصف علی زرداری کورونا وائرس میں مبتلا ہو گئے: ذاتی معالج

    صدر آصف علی زرداری

    ،تصویر کا ذریعہGetty Images

    صدر آصف علی زرداری کورونا وائرس میں مبتلا ہو گئے ہیں تاہم ان کی حالت اب بہتر ہے۔

    آصف علی زرداری کے ذاتی معالج ڈاکٹر عاصم حسین نے بدھ کو تصدیق کی کہ صدر کورونا وائرس میں مبتلا ہو گئے ہیں اور انھیں اس وقت آئسولیشن میں رہنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ 'ماہرین کی ایک ٹیم ان کی دیکھ بھال کر رہی ہے اور صدر مملکت کی حالت بہتر ہے۔'

    دوسری جانب ایک بیان میں وزیرِ اعظم شہباز شریف نے صدر آصف زرداری کو بہترین طبی سہولیات فراہم کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی جلد صحتیابی کے لیے قوم دعا کرے۔

  18. میانمار زلزلے میں ہلاکتوں کی تعداد 2800 سے تجاوز کر گئی، ساڑھے چار ہزار سے زاٰئد افراد زخمی

    منڈلے

    ،تصویر کا ذریعہGetty Images

    میانمار میں 7.7 شدت کے زلزلے کو آئے چھٹا روز ہے اور اب بھی زلزلے کی تباہ کاریوں کی مکمل تصویر سامنے نہیں آسکی ہے۔

    میانمار کی فوجی حکومت کے مطابق 28 مارچ کو آنے والے زلزلے سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد دو ہزار 886 ہو چکی ہے۔ زلزلے کے نتیجے میں چار ہزار 639 افراد زخمی جبکہ 373 اب بھی لاپتہ ہیں۔

    2021 سے میانمار میں فوجی حکومت قائم ہے جس کے باعث معلومات تک رسائی کافی مشکل ہے۔

    تمام مقامی ریڈیو، ٹیلی ویژن، پرنٹ اور آن لائن میڈیا پر ریاست کا کنٹرول ہے۔ انٹرنیٹ کے استعمال پر پابندیاں عائد ہیں۔

    کئی علاقوں میں اب بھی امدادی کارروائیاں جاری ہیں۔ بی بی سی کی ٹیم نے زلزلے سے سب زیادہ متاثرہ علاقوں میں شامل منڈلے شہر کا دورہ کیا۔ کئی لوگ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ ان کے پیارے اب بھی ملبے سے زندہ نکل آئیں گے۔

    زلزلے کے بعد میانمار کی خانہ جنگی میں لڑنے والے باغی گروہوں نے یکطرفہ طور پر جنگ بندی کا اعلان کر دیا ہے تاہم فوجی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ باغیوں کے خلاف اپنی کارروائیاں نہیں روکے گی۔

    منگل کی شب میانمار کی فوج نے زلزلے سے متاثرہ علاقے میں مدد لے جانے والے ایک چینی قافلے پر فائرنگ کی۔ فوجی حکومت کا کہنا ہے کہ اس وقعے میں کسی کے زخمی یا ہلاک ہونے کی اطلاعات نہیں اور وہ اس واقعے کی تحقیقات کر رہے ہیں۔

  19. میانمار میں فوج کی زلزلہ زدگان کے لیے امداد لے جانے والے قافلے پر فائرنگ

    منگل کے روز میانمار کی فوج نے زلزلے سے متاثرہ علاقے میں امداد لے جانے والے ایک قافلے پر فائرنگ کی ہے۔ فوجی حکومت کا کہنا ہے کہ اس وقعے میں کسی کے زخمی یا ہلاک ہونے کی اطلاعات نہیں اور وہ اس واقعے کی تحقیقات کر رہے ہیں۔

    باغی مسلح گروہ ٹانگ نیشنل لبریشن آرمی نے دعویٰ کیا ہے کہ میانمارفوج نے امدادی قافلے پر مشین گنوں سے اس وقت فائرنگ کی جب وہ شان سٹیٹ سے گزر رہا تھا۔ ان کے مطابق نو گاڑیوں پر مشتمل قافلے کی منزل میانمار کا دوسرا سب سے بڑا شہر منڈلے تھا۔

    نیشنل لبریشن آرمی کا کہنا ہے کہ قافلے نے اپنے روٹ اور امدادی سامان کے متعلق فوجی حکومت کو پہلے سے مطلع کیا ہوا تھا۔

    دوسری جانب، میانمار کی فوج کا کہنا ہے کہ انھیں نہیں بتایا گیا تھا کہ قافلہ یہاں سے گزرے گا۔ ان کے مطابق قافلے کے نہ رکنے کی وجہ سے اس پر فائرنگ کی گئی تھی۔ فوج کا کہنا ہے کہ وہ اس واقعے کی تحقیقات کر رہے ہیں۔

    خیال رہے کہ 28 مارچ کو آنے والے زلزلے کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 2700 سے تجاوز کر گئی ہے جبکہ 4500 سے زائد افراد زخمی ہیں۔ اس کے علاوہ سینکڑوں افراد اب بھی لاپتہ ہیں۔

    ملک میں آنے والے تباہ کن زلزلے کے بعد فوجی حکومت کے خلاف لڑ رہے باغی گروہوں نے یک طرفہ جنگ بندی کا اعلان کیا ہے۔ تاہم سرکاری میڈیا کے مطابق فوج کا کہنا ہے کہ وہ باغیوں کے خلاف اپنی کارروائیاں جاری رکھیں گے۔

  20. اسرائیل کا غزہ کے وسیع علاقے کو سکیورٹی زونز میں شامل کرنے کا اعلان

    غزہ

    ،تصویر کا ذریعہEPA

    اسرائیل کے وزیرِ دفاع اسرائیل کاٹز نے غزہ میں جاری فوجی آپریشن میں توسیع کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کر کے اسے اسرائیل کے سکیورٹی زونز میں شامل کر دیا جائے گا۔

    بدھ کے روز جاری ایک بیان میں کاٹز کا کہنا تھا کہ جن علاقوں میں لڑائی جاری ہے، وہاں سے بڑے پیمانے پر فلسطینی آبادی کا انخلا کیا جائے گا۔

    انھوں نے غزہ کے رہائشیوں سے حماس کے خاتمے اور اسرائیلی یرغمالیوں کی واپسی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ یہی اس جنگ کو ختم کرنے کا واحد طریقہ ہے۔

    تاہم اسرائیلی وزیرِ دفاع نے یہ واضح نہیں کیا کہ اسرائیل غزہ کے کتنے بڑے حصے پر قبضہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

    اسرائیلی وزیرِ دفاع کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اسرائیل کی جانب سے غزہ پر حملوں میں مزید شدت آتی جا رہی ہے۔

    عینی شاہدین نے بی بی سی عربی کو بتایا کہ گذشتہ رات جنوبی غزہ میں رفح کے علاقے پر ہونے والی اسرائیلی فضائی حملے اور گولہ باری کے نتیجے میں کم از کم 20 فلسطینی ہلاک ہوئے ہیں۔ ہلاک ہونے والوں میں ایک ہی خاندان کے 11 افراد بھی شامل ہیں۔

    عینی شاہدین نے بتایا کہ اسرائیلی جنگی طیاروں اور ٹینکوں نے رفح اور خان یونس کے بڑے علاقوں پر درجنوں فضائی حملے کیے اور توپ خانے کے گولے داغے۔ اس کے ساتھ ساتھ اسرائیلی فوجی گاڑیوں نے وسطی رفح کی جانب پیش قدمی بھی کی۔

    فلسطین کے مرکزاطلاعات کے مطابق کہ بدھ کی صبح اسرائیلی فوج کی جانب سے غزہ کے مختلف علاقوں میں شروع کی گئی کارروائیوں کے دوران کم از کم 17 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

    مرکز کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فضائیہ گذشتہ کئی گھںٹوں سے جنوبی غزہ پر مسلسل حملے کر رہی ہے۔ ان کے مطابق وسطی خان یونس میں رفح گیراج کے قریب ایک مکان کو نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں کم از کم پانچ فلسطینی ہلاک ہو گئے۔