لاکھوں افراد ایک ساتھ کورونا وائرس کا شکار کیسے ہوئے ؟ تحقیق میں ہولناک انکشاف سامنے آگیا

ہماری ویب  |  Aug 27, 2020

نوول کورونا وائرس کے دنیا بھر میں اتنی تیزی سے پھیلنے کی ایک بڑی وجہ اس کا ایک سے دوسرے فرد میں خاموشی سے منتقل ہونا ہے۔

کووڈ 19 ایک جان لیوا مرض ہے اور سب ہی یہ جانتے ہیں کہ چند مخصوص احتیاطی تدابیر پر عمل کر کے ہی اس وائرس کو شکست دی جا سکتی ہے۔

درحقیقت ایسا بھی ممکن ہے کہ کورونا وائرس سے پھیلنے والی مہلک بیماری کووڈ 19 سے متاثر ایک فرد اسے درجنوں افراد میں منتقل کردے۔

شاید یقین کرنا مشکل ہو مگر اب ایک تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ ایک عام سی کانفرنس کے نتیجے میں لاکھوں افراد کورونا وبا کا شکار ہوگئے۔

رواں سال 26 فروری کو بائیو ٹیک کمپنی بائیو جین کے عہدیداران بوسٹن کے ایک ہوٹل میں ہونے والی کانفرنس میں شریک ہوئے، اس وقت کورونا وائرس امریکیوں کی نظر میں کوئی خاص مسئلہ نہیں تھا مگر چین سے پھیلنے والا مذکورہ وائرس اس کانفرنس میں موجود تھا جو ایک سے دوسرے فرد میں منتقل ہوتا چلا گیا۔

ایک نئی تحقیق کے مطابق وہ کانفرنس کورونا وائرس کے بڑے پیمانے پر پھیلاؤ کا باعث بننے والی پہلی تقریب بنی تھی جس نے امریکا، سنگاپور اور آسٹریلیا تک ممکنہ طور پر لاکھوں افراد کو متاثر کیا۔

تحقیق کے نتائج ایک منصوبے کا حصہ تھے جس کا آغاز مارچ کے مہینے میں ہارورڈ اور ایم آئی ٹی کے براڈ انسٹیٹوٹ نے کیا تھا، یہ ایسا تحقیقی مرکز ہے جو بڑے پیمانے پر جینوم سیکونسنگ میں مہارت رکھتا ہے۔

جب میساچوسٹس جنرل اسپتال میں کووڈ 19 کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوا تو اس انسٹیٹوٹ کے محققین نے متاثرہ افراد کے خلیات میں موجود وائرسز کے جینیاتی مواد کا تجزیہ کیا۔

محققین نے میساچوسٹس ڈیپارٹمنٹ آف پبلک ہیلتھ کے نمونوں کو بھی دیکھا جس کی جانب سے بوسٹن میں بے گھر افراد کی پناہ گاہوں اور نرسنگ ہومز میں ٹیسٹنگ کی جارہی تھی۔

ماہرین نے جنوری سے مئی کے دوران کووڈ 19 کے 772 مریضوں کے وائرل جینومز کا تجزیہ کیا، اس کے بعد محققین نے ان تمام جینومز کا موازنہ کرتے ہوئے جاننے کی کوشش کی کہ ہر فرد میں یہ وائرس کہاں سے منتقل ہوا۔

جب ایک وائرس اپنی نقول بنانا شروع کرتا ہے تو یہ ورثے میں جینیاتی مواد پیچھے چھوڑتا ہے جس کی مدد سے محققین وائرس کی منتقلی کے واقعے کو ٹریک کرسکتے ہیں، محققین نے بتایا کہ یہ کسی فنگرپرنٹ کی طرح ہے جس کی مد سے ہم وائرس کا تعاقب کرسکتے ہیں۔

بوسٹن میں کورونا وائرس کا پہلا مصدقہ کیس 29 جنوری کو چین کے شہر ووہان سے واپس آنے والے فرد میں سامنے آیا تھا، جس کا جینیاتی مواد ویسا تھا جو ووہان میں دریافت کیا گیا۔

مگر براڈ انسٹیٹوٹ کے محققین نے بعد میں بوسٹن میں سامنے آنے والے مریضوں میں اس کے جینیاتی فنگرپرنٹ کو دریافت نہیں کیا، کیونکہ پہلے کیس کو الگ تھلگ رکھ کر وائرس کو پھیلنے سے روک دیا گیا تھا۔

مگر فروری میں محققین نے بوسٹن میں 180 دیگر افراد میں دریافت کیا کہ انہوں نے دیگر تک اس وائرس کو پھیلایا۔ تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ بوسٹن میں بیشتر کیسز کے جینیاتی فنگرپرنٹ یورپ کے ابتدائی کیسز سے مماثلت رکھتے تھے کیونکہ کچھ افراد اس وائرس کو براہ راست یورپ سے اپنے ساتھ لے آئے تھے۔

جب ماہرین نے گہرائی میں جا کر دیکھا کہ کن مقامات سے یہ وائرس شہر بھر میں پھیلا تو انہوں نے دریافت کیا کہ میساچوسٹس جنرل ہاسپٹل میں کورونا وائرس کے مریضوں میں ایک جیسی اقسام نہیں پائی جاتیں، جس سے عندیہ ملا کہ یہ ہسپتال وائرس پھیلنے کا ذریعہ نہیں۔

مگر ایک نرسنگ ہوم میں ایسا ہوا جہاں مقیم 87 فیصد مریض اور 37 فیصد عملہ کووڈ 19 سے متاثر ہوا اور محققین نے ان میں وائرس کی 3 اقسام کو شناخت کیا، تاہم ان میں سے ایک قسم 90 فیصد کیسز کا باعث بنی۔

اس طرح کے بڑے پیمانے پر سامنے آنے والے کیسز کورونا وائرس کی خصوصیت ہے جس میں وائرس کے پھیلاؤ کے لئے موزوں مقام پر ایک متاثرہ فرد درجنوں افراد کو بہت کم وقت میں متاثر کرسکتا ہے۔

اس کانفرنس میں یورپ سے آنے والے افراد نے بھی شرکت کی تھی اور یہ ممکن ہے کہ وہاں سے آنے والا کوئی فرد اپنے ساتھ وائرس کی اس قسم کو لے آیا۔

مگر یہ بھی ممکن ہے کہ یہ وائرس بوسٹن میں کانفرنس سے ایک ہفتے یا اس سے پہلے پہنچ چکا ہو اور کوئی اسے اپنے ساتھ کانفرنس میں لے گیا۔

اس کانفرنس میں شریک افراد نے گھنٹوں ایک ساتھ ایک دوسرے کے قریب رہ کر گزارے، جہاں ہوا کی نکاسی کا نظام ناقص تھا جبکہ فیس ماسکس کا استعمال بھی نہیں کیا گیا تھا، جس کے نتیجے میں وائرس تیزی سے پھیلا۔

اس کے علاوہ محققین کے تخمینے کے مطابق بوسٹن میں 20 ہزار سے زائد افراد اس کانفرنس سے پھیلنے والے وائرس سے متاثر ہوئے۔

کانفرنس میں شریک افراد کے اندر یہ وائرس ایک اور قسم جی 26233 ٹی میں تبدیل ہوا اور جن کے اندر یہ قسم بنی، جب اس نے دیگر افراد میں اسے منتقل کیا تو وہ دوہری اقسام والے وائرسز کا شکار ہوئے۔

اس کے پھیلاؤ کا سلسلہ پھیلتا چلا گیا، یہاں تک کہ بے گھر افراد کے ایک مرکز میں 51 فیصد افراد میں سی 2416 ٹی کو دریافت کیا گیا جبکہ 54 میں دونوں اقسام دیکھی گئیں۔

محققین کا کہنا تھا کہ اس وقت ہمارے لیے یہ تعین کرنا ناممکن ہے کہ بوسٹن میں ہونے والی کانفرنس کئی ماہ اب تک یہ وائرس کتنے افراد کو اپنا ہدف بنایا جاچکا ہے، مگر ہمارے خیال میں یہ تعداد لاکھوں میں ہوسکتی ہے۔

اس کانفرنس کو اب 6 ماہ گزر چکے ہیں اور محققین کا کہنا تھا کہ یہ نتائج ہر ایک کے لئے وارننگ ہیں جن کے خیال میں وائرس کو قابو کئے بغیر زندگی پھر معمول کی جانب لوٹ سکتی ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More