ریگستان کا جہاز کہلانے والا اونٹ اب تعلیم کی روشنی پھیلانے میں مصروف کیسے؟ جانیں دلچسپ معلومات

ہماری ویب  |  Apr 29, 2021

بلوچستان کے دور دراز جنوب مغربی صحرائی علاقے میں قدم بڑھاتا روشن نامی اونٹ ایسا سامان ڈھو رہا ہے، جو انمول ہے، اس پر ان بچوں کے لیے کتابیں لدی ہوئی ہیں جو کووڈ 19 کے لاک ڈاؤن کی وجہ سے اسکول نہیں جا پا رہے۔

پاکستان میں گزشتہ سال مارچ میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے تعلیمی ادارے بند کر دیے گئے تھے اور گزشتہ ایک سال میں یہ بہت کم عرصے کے لیے ہی کھل پائے ہیں۔

ملک بھر میں 5 کروڑ اسکول جانے کی عمر رکھنے والے بچے اور یونیورسٹی کے طلبہ اب اپنے گھروں ہی میں پڑھنے پر مجبور ہیں۔

لیکن بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں گھر سے پڑھنا مشکل ہے کیونکہ یہاں کئی دیہات انٹرنیٹ تک رسائی نہیں رکھتے۔

یہی وجہ ہے کہ ایک ہائی اسکول پرنسپل رحیمہ جلال کو کیمل لائبریری پروجیکٹ کا خیال آیا۔

وہ بتاتی ہیں کہ انہوں نے پچھلے سال اگست میں اس لائبریری کا آغاز کیا تھا کیونکہ وہ چاہتی ہیں کہ ان کے علاقے اور ارد گرد کے دیہات کے بچے اسکول بند ہونے کے باوجود پڑھیں۔

رحیمہ جلال مند گرلز ہائی اسکول کی پرنسپل ہیں اور وفاقی وزیر دفاعی پیداوار پاکستان زبیدہ جلال کی بہن ہیں لیکن اتنے بڑے خاندان سے تعلق رکھنے کے باوجود انہوں نے مقامی لوگوں کی بہبود اور تعلیم کو اپنا مقصد حیات بنا رکھا ہے۔

اس منصوبے کے تحت وہ فیمیل ایجوکیشن ٹرسٹ اور الف لیلہ بک بس سوسائٹی کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہیں۔

اب کیمل لائبریری کے تحت روشن نامی اونٹ بلوچستان کے ضلع کیچ کے چار مختلف دیہات کے لیے کتابیں لے جاتا ہے۔

وہ ہفتے میں تین مرتبہ ہر گاؤں میں جاتا ہے اور ہر گاؤں میں تقریباً دو گھنٹے قیام کرتا ہے۔

بچے کتابیں حاصل کرتے ہیں اور روشن کے اگلے دورے پر اسے واپس کرتے ہیں۔ کچھ کتابیں بچوں میں مفت بھی تقسیم کی جاتی ہیں۔

انہی بچوں میں سے ایک 9 سالہ عنبرین ہیں، جو بلوچی زبان میں کہتی ہیں کہ مجھے تصویروں والی کتابیں پسند ہیں کیونکہ تصویریں دیکھ کر کہانی زیادہ اچھی طرح سمجھ آتی ہے۔

رحیمہ جلال اس منصوبے کو مزید دیہات تک پھیلانا چاہتی ہیں لیکن اس کے لیے انہیں سرمائے کی ضرورت ہے۔

ان کے منصوبے کا اس وقت خرچہ تقریباً 118 ڈالرز ماہانہ ہے۔

روشن کے مالک مراد علی کہتے ہیں کہ انہیں یہ لائبریری کا کام بہت پسند ہے۔ انہیں بچوں کو کتابیں پڑھتا دیکھ کر بہت خوشی ملتی ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More