ایک لاکھ کی صرف ایک قمیض تھی، اتنا مہنگا جوڑا کیسے لیتے تو پھر ۔۔۔ مہنگے برانڈز سے تنگ خواتین نے کیا کیا؟ جانیں ان کی دلچسپ کہانی

ہماری ویب  |  May 04, 2021

خواتین کپڑوں کی خریداری بہت سوچ سمجھ کر کرتی ہیں، کہ کس دن کی مناسبت سے کیا لباس اور کس رنگ کا لباس اچھا لگے گا، پھر اپنا ایک بجٹ مقرر کرتی ہیں کہ اس بجٹ میں ہم یہ جوڑہ خرید لیں گے، اس کے بعد برانڈز اور آؤٹ لیٹس کا رخ کرتی ہیں، مگر جب پسند کی چیز مناسب داموں میں نہ ملے، مرضی کی سلائی اس بجٹ میں مکمل نہ ہو تو اس وقت ان کا دل ہی نہیں چاہتا کہ یہ کچھ بھی خریدیں .

اسی طرح اشناء حبیب کہتی ہیں کہ: '' میں ہر سال عید کی شاپنگ 2 ماہ قبل ہی کرلیتی تھی، اس مرتبہ جب گئی مختلف برانڈز کی اؤٹ لٹ تو اتنے مہنگے کپڑے صرف 10 ہزار کی قیمض اور کچھ اتنے اعلیٰ کپڑے جن کی صرف ایک قمیض 1 لاکھ روپے کی تھی، جس پر مجھے حیرت ہوئی کہ اس قدر مہنگے کپڑے متوسط طبقے کے لوگ کیسے خرید سکتے ہیں جنکی ماہانہ آمدنی 50 سے 80 ہزار روپے ہے۔ اس کے بعد میں نے خود اپنے حساب سے کپڑے تیار کرنے شروع کئے اور اب یہ ایک برانڈ بن گیا ہے میں نے ہر دام میں مناسب کپڑے معیار کے مطابق رکھے ہیں جو 2 سے 7 ہزار تک میں باآسانی دستیاب ہیں۔ ''

نقش برانڈ کی مالکن حرا کا کہنا ہے کہ: '' ہمارے کپڑوں کی قیمت دو ہزار سے شروع ہوتی ہے اور کچھ کپڑے اس سے بھی کم قیمت میں دستیاب ہوتے ہیں۔ ’ہمارے پاس دو قسم کے کپڑے ہیں، ایک روز مرّہ کے پہننے والے سادہ کپڑے اور ایک خاص تقریبات میں پہننے والے فینسی جوڑے۔ سادے کپڑے دو ہزار سے شروع ہیں جبکہ فینسی کپڑوں میں صرف قمیض کی قیمت تین ہزار روپے سے شروع ہوتی ہے۔‘ کیونکہ ان کا معیار اور منفرد ڈیزائن ہے اور کچھ میں ہاتھ سے دستکاری یا مناسب کڑھائی بھی کی جاتی ہے۔

مہوش اور حرا کا کہنا ہے کہ اس وقت کیونکہ تیز رنگ کے ڈیزائن والے کپڑے فیشن میں ہیں اس لیے اس بار صارفین کو ان کے عید کے کپڑوں میں خوبصورت رنگ دیکھنے کو ملیں گے جو پہن کر گرمی کا احساس بھی نہیں ہوگا۔

بالکل اسی طرح جو ایسٹرنری بائے نیہا میں بھی مناسب اور بہترین کپڑے دستیاب ہیں جو عام خواتین بھی مرضی کے ڈیزائن کے مطابق پہن سکتی ہیں۔

ایسٹری بائے نیہا کی مالکن ثناء کہتی ہیں کہ: '' ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ہم اپنا منافع کم سے کم رکھیں اور خواتین کو کپڑوں میں اچھا معیار فراہم کریں جو ہم خود کے لیے پسند کرتے ہیں۔ میں نے ساری زندگی ریڈی میڈ کپڑے خریدے ہیں لیکن پھر یہ دیکھنے میں آتا تھا کہ مہنگے کپڑے ہونے کے باوجود کچھ دنوں بعد یا تو کسی کپڑے کا بٹن نکل آتا تھا یا کسی کے دھاگے نکل آتے تھے۔ اس لیے میں نے یہ کپڑے خریدنے بند کر دیے اور سوچا کہ خود کچھ ایسا بناؤں جو اچھا اور سستا بھی ہو ساتھ معیار پر بھی اترتا ہو۔‘ ''

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More