منیب بٹ کا ڈرامے میں خواجہ سرا کا کردار ادا کرنے کا اعلان متنازع کیوں ہو گیا؟

بی بی سی اردو  |  Jan 01, 2023

پاکستان کے مقبول اداکار منیب بٹ نے چند روز پہلے ہی اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے ذریعے بتایا ہے کہ انھوں نے ایک نئے پراجیکٹ میں ’خواجہ سرا اسسٹنٹ کمشنر‘ کا کردار نبھایا ہے اور یہ ان کے کریئر کا سب سے منفرد کردار ہے۔

منیب نے اپنی انسٹا گرام پوسٹ میں لکھا کہ ’میں یہ اعلان کرتے ہوئے بہت پرجوش ہوں کہ میں اپنے آنے والے پراجیکٹ میں ’پہلے ٹرانس اسسٹنٹ کمشنر‘ کا منفرد کردار ادا کر رہا ہوں، جو ہمارے معاشرے میں کچھ دقیانوسی تصورات کو توڑتا ہے۔‘

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اداکار منیب بٹ اپنے نئے پراجیکٹ کے بارے میں کافی پُرجوش نظر آئے۔

انھوں بتایا کہ ’یہ بنیادی طور ایک بہت پیاری سٹوری ہے اور اس کا بہت پیارا میسیج ہے۔ یہ ایک پڑھنے لکھنے والا بچہ ہے۔‘

’ہمارے ہاں ایک معاشرتی روش یہ بھی ہے کہ جو خواجہ سرا پیدا ہوتے ہیں اُن کو بس ڈانسر بننا ہے یا اُس نے ایک سیکس ورکر بننا ہے یا ٹریفک سگنل پر بھیک مانگنی ہے۔ اِنھی دقیانوسی تصورات کا خاتمہ کرتے ہوئے یہی پیغام دیا ہے کہ اگر ہم اُنھیں ایک صحیح موقع دیں تو وہ بھی ہر پیشے میں شاندار انداز میں کام کر کے دِکھا سکتے ہیں۔‘

اس ڈرامہ سیریز کا ٹائٹل تو ابھی سامنے نہیں آیا لیکن اطلاعات ہیں کہ اہم کرداروں میں منیب بٹ کے علاوہ ادکارہ صبا قمر، حریم فاروق، سنیتا مارشل اور صبور علی شامل ہیں۔

اسے ڈرامہ نگار عدیل رزاق نے لکھا ہے اور اس کی ہدایات احمد بھٹی نے دی ہیں۔

آئی ڈریمز پروڈکشن کے اس پرجیکٹ کو یو ایس ایڈ کی سپورٹ حاصل ہے جسے نجی انٹرٹینمنٹ چینل اے آر وائے سے ممکنہ طور پر جنوری میں ریلیز کیا جائے گا۔

منیب بٹ کے خواجہ سرا کا کردار نبھانے پر تنقید کیوں؟

اس ڈرامے میں شامل کہانیاں ایک پڑھے لکھے خواجہ سرا، ایک خاتون ٹیکسی ڈرائیور، ایک ٹِک ٹاکر اور ایک عورت ڈاکٹر کے کرداروں کے گرد گھومتی ہیں جن کا مقصد انٹر سیکس کمیونٹی کے بارے میں پائے جانے والے دقیانوسی تصورات کو توڑنا، صنفی مساوات اور خواتین کو بااختیار بنانے جیسے موضوعات کا احاطہ کرنا ہے۔

اداکار منیب بٹ کی جانب سے سیریز میں اپنے کردار کے اعلان کے بعد جہاں اُن کے نئے روپ کی تعریف ہو رہی ہے وہیں ٹرانس جینڈر کمیونٹی سمیت مختلف حلقوں  کا کہنا ہے کہ یہ کردار منیب بٹ کی بجائے کسی ٹرانس جینڈر اداکار کو نبھانا چاہیے تھا۔

خواجہ سرا کمیونٹی کا مؤقف ہے کہ جب ایک مرد یا عورت کا کردار نبھانے کے لیے انھیں مدعو نہیں کیا جاتا تو ٹرانس جینڈر کے کردار کے لیے مرد اور عورت اداکاروں کا انتخاب کیوں کیا جاتا ہے۔

اُن کی دلیل ہے کہ معاشرے میں خواجہ سراؤں کی نمائدگی اور معاشرے میں اُن کے بارے میں دقیانوسی سوچ کے خاتمے کے لیے بنائِے گئے پراجیکٹ میں ہی انھیں شامل نہیں کیا گیا۔

پاکستان میں خواجہ سراؤں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ڈاکٹر میرب معیز اعوان نے اپنے فیس بُک اکاؤنٹ پر لکھا کہ ’پہلا ٹرانس اسسٹنٹ کمشنر! منیب بٹ؟ یہ ہو کیا رہا ہے اس ملک میں اور یہ کس طرح کی مضحکہ خیز ٹرانس نمائندگی ہے؟‘

ایک صارف نے لکھا کہ ’یہ دقیانوسی تصورات کو نہیں توڑتا جب آپ کو سکرین پر ایک ٹرانس پرسن کا کردار ادا کرنے کے لیے اصلی ٹرانس لوگوں کی خدمات حاصل کرنے کے لیے تیار نہیں کیا جا سکتا۔ منیب بہت بڑے اداکار بھی نہیں تو یہ سمجھ نہیں آتا کہ ایک حقیقی ٹرانس جینڈر شخص کے بجائے اُنھیں اس کردار کے لیے کیوں منتخب کیا گیا۔‘

خواجہ سرا ایکٹوسٹ علیشہ شیرازی نے ٹویٹ کیا کہ ’مجھ میں کس چیز کی کمی ہے؟ میں تو لگتی ہی اسسٹنٹ کمشنر ہوں۔ ہمیں بھی موقع دیں۔ ایک کارکن ہونے کے ناطے میں اس کردار میں اپنی کمیونٹی کی مدد کروں گا۔ آپ کیا سوچتے ہیں؟‘

کیا ڈرامہ انڈسٹری خواجہ سرا اداکاروں کو کاسٹ کرنے کے لیے تیار ہے؟

پاکستان میں حال ہی میں ریلیز ہونے والی فلم جوائے لینڈ میں پہلی بار بڑے پردے پر ایک خواجہ سرا کو مرکزی کردار میں دکھایا گیا۔

بیبا نامی یہ کردار علینہ خان نے نبھایا جو خود ایک خواجہ سرا ہیں۔ ایک خواجہ سرا کے کردار میں ایک خواجہ سرا کو ہی کاسٹ کرنے پر ڈائریکٹر صائم صادق کو بے حد سراہا گیا۔

فلم جوائے لینڈ کو دنیا بھر میں پذیرائی ملی لیکن پاکستان میں اس کی ریلیز کے وقت بعض مذہبی حلقوں نے اس کی کہانی پر اعتراض کیا اور یوں یہ فلم متنازع ہو گئی۔

سماجی کارکن گلالئی اسماعیل نے ٹوئٹر پر لکھا کہ ’آپ کو یہ پیشکش قبول نہیں کرنی چاہیے تھی۔ پاکستان میں حقیقی باصلاحیت ٹرانس موجود ہیں جو یہ کردار ادا کر سکتے تھے۔ جوائے لینڈ نے پاکستانی فلم/ڈرامہ انڈسٹری کے لیے ایک مثال قائم کی۔‘

طوبیٰ سید نے ٹویٹ کیا کہ ’حقیقی ٹرانس لوگ موجود ہیں جنھیں کام کی ضرورت ہے اور جیسا کہ جوگئے لینڈ میں ثابت ہوا کہ وہ ٹرانس بننے کی اداکاری  کرنے والے آدمی سے بہتر کام کر سکتا ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے

’جوائے لینڈ‘ کی گھٹن، فلم سازی کا جوائے

خواجہ سرا سے شادی کرنے والے شخص کی کہانی

محمد حنیف کا کالم: ڈوبتے پاکستان میں خواجہ سراؤں کا خوف

منیب بٹ کیا کہتے ہیں؟

اِس تنقید کے جواب میں منیب بٹ نے بی بی سی کو بتایا کہ ہر کسی کی اپنی سوچ ہے اور وہ ہر کسی کی رائے کا احترام کرتے ہیں۔

’لوگ کہہ رہے ہیں تو بالکل کرنا چاہیے تھا لیکن میں ایک اداکار ہوں اور میں ایک اداکار کی طرح سوچتا ہوں کہ اگر مجھے کوئی چیز آفر ہوئی ہے تو میں اتنے سنجیدہ کردار کے ساتھ میں انصاف کر پاؤں گا یا نہیں۔ میرے لیے یہ چیز زیادہ اہم تھی۔ میں نے اس بارے میں نہیں سوچا کہ میرے بجائے اسے کوئی ٹرانس کرے۔‘

منیب بٹ کہتے ہیں کہ ایک پڑھے لکھے اور نفیس خاندان سے تعلق رکھنے والے خواجہ سرا کا کردار نبھانا ایک  چیلنج تھا۔ میڈیا میں اُن کے دوستوں نے اُن کے اِس فیصلے کو جرات مندنہ قرار دیا۔

وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے یہ پراجیکٹ معاشرے کو کچھ دینے کی نظر سے کیا۔ 

’میں نے یہ (پراجیکٹ) اپنے لیے نہیں بلکہ معاشرے کو مد نظر رکھتے ہوئے کیا کہ اُن کو اب کچھ دوں اور اُن کو ایجوکیٹ کروں کہ ہم نے ان لوگوں کو قبول کرنا ہے تاکہ اُن کو مواقع ملیں۔‘ 

پاکستانی فلم اور ڈرامہ انڈسٹری میں خواجہ سراؤں کے کردار عموماً مرد ہی نبھاتے آئے ہیں۔

گو پاکستانی فلم جوائے لینڈ نے مرکزی کاسٹ میں ایک خواجہ سرا کو شامل کر کے مثال تو قائم کر دی ہے لیکن بظاہر لگتا ہے کہ انڈسٹری کے دیگر افراد ابھی یہ خطرہ مول لینے کے لیے تیار نہیں۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More