سڑک حادثہ جس میں ایک آل راؤنڈر عین جوانی میں دنیا سے گیا لیکن دوسرا بعد میں عظیم آل راؤنڈر بنا

بی بی سی اردو  |  Jan 01, 2023

Getty Imagesکار حادثے میں زندہ بچ جانے والے کرکٹر سر گیری سوبرز اور ٹام

انڈین کرکٹر رشبھ پنت ایک خطرناک ٹریفک حادثے کے بعد اب خطرے سے باہر ہیں اور یہ نہ صرف ان کے چاہنے والوں، اہل خانہ بلکہ انڈین کرکٹ کے لیے باعث تسکین ہے۔

صبح سویرے دہلی سے دہرادون 150 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گاڑی چلاتے ہوئے ایک لمحے کی جھپکی نے ان کی گاڑی کو ٹین کے ڈبے میں بدل کر رکھا دیا، تاہم خوش قسمتی اور بروقت مدد کی وجہ سے وہ اب خطرے سے باہر ہیں۔

اگر آپ یہ سمجھنا چاہتے ہیں کہ ایسا حادثہ کسی کرکٹر کو کتنا بدل سکتا ہے تو آپ کو 63 سال پہلے ہونے والے ایک کار حادثے کے بارے میں جاننا چاہیے۔

وہ حادثہ چھ ستمبر سنہ 1959 کو ریڈکلف سے لندن آنے والی سڑک پر سٹیفورڈ شائر کے قریب پیش آیا۔ اس وقت اس گاڑی میں تین بین الاقوامی کرکٹرز سوار تھے، جن میں سے ایک کا انتقال ہو گیا، دوسرا پھر کبھی انٹرنیشنل کرکٹ میں نظر نہیں آیا، لیکن تیسرے نے وہ تمام کارنامے انجام دیے، جو آج بھی کسی کھلاڑی کے لیے خواب سے کم نہیں ہیں۔

تین کھلاڑی کون تھے؟

اس حادثے کے وقت ویسٹ انڈیز کے تین کرکٹرز کار میں سفر کر رہے تھے۔ طے شدہ پروگرام کے مطابق چار کرکٹرز کو وہاں آنا تھا لیکن چوتھے کرکٹر وقت پر نہیں پہنچ سکے۔

یہ تین کرکٹرز کولی اسمتھ، ٹام ڈیوڈنی اور وہ کرکٹرتھے جو حادثے کے وقت گاڑی چلا رہے تھے۔ بعد میں کرکٹ کی دنیا کے عظیم آل راؤنڈر بنے۔

کولی اسمتھ اس واقعے سے قبل ویسٹ انڈیز کے لیے 26 ٹیسٹ میچ کھیل چکے تھے۔ ان 26 ٹیسٹ میچوں میں انھوں نے 1331 رنز بنائے تھے اور سپن بولر کے طور پر 48 وکٹیں بھی حاصل کی تھیں۔

ان اعداد و شمار سے یہ اندازہ ہوتا کہ وہ کس قسم کے کرکٹر تھے۔ انھوں نے آسٹریلیا کی مضبوط ٹیم کے سامنے ڈیبیو کرتے ہوئے سنچری بنائی۔ انھوں نے اپنے کریئر کی دوسری اور تیسری سنچری ایسی پچ پر بنائی جس نے انگلینڈ کی سیونگ باؤلنگ میں مدد کی۔ ان اننگز میں ان کے بلے سے 161 اور 168 رنز نکلے۔

انھوں نے دہلی کے فیروز شاہ کوٹلہ گراؤنڈ میں سپن گیند بازوں کے سامنے اپنے کریئر کی چوتھی سنچری اسکور کی۔ اس نقطہ نظر سے اس وقت انھیں ویسٹ انڈیز کرکٹ کا مضبوط کھلاڑی سمجھا جا رہا تھا۔ ان کے بارے میں حادثے میں بچ جانے والے تیسرے کھلاڑی نے اپنی سوانح عمری میں لکھا: 'وہ ایک بہترین آف سپنر کے طور پر بھی ابھر رہے تھے۔ میں یہ کہنے کی ہمت رکھتا ہوں کہ ان میں ٹاپ کلاس آل راؤنڈر بننے کی صلاحیت تھی، شاید دنیا کا بہترین آل راؤنڈر۔'

گاڑی میں دوسرے کرکٹر ٹام ڈیوڈنی تھے۔ دائیں ہاتھ کے تیز گیند باز ڈیوڈنی نے ویسٹ انڈیز کے لیے نو ٹیسٹ میچز میں 21 وکٹیں حاصل کی تھیں۔ وقت پر نہ پہنچنے والے چوتھے کرکٹر رائے گلکرسٹ تھے۔ گلکرسٹ ویسٹ انڈیز کے دائیں ہاتھ کے تیز گیند باز تھے اور انھوں نے 13 ٹیسٹ میں 57 وکٹیں حاصل کیں۔

ظاہر ہے ایسی صورتحال میں آپ سب کی دلچسپی تیسرے کرکٹر میں بڑھ گئی ہوگی کہ آخر وہ کون تھے؟ دراصل تیسرے کرکٹر کا نام گیری سوبرز تھا۔

جی ہاں، سر گیری سوبرز اس کے بعد کرکٹ کی دنیا کے عظیم آل راؤنڈر بن کر ابھرے اور آج تک یاد کیے جاتے ہیں۔حادثے سے پہلے تک وہ ٹیسٹ کرکٹ کی اپنے زمانے کی سب سے بڑی 365 رنز کی ناقابل شکست اننگز کھیل چکے تھے۔ 27 ٹیسٹ میچوں میں چھ سنچریوں کی مدد سے دو ہزار سے زائد رنز بنا چکے تھے۔

Getty Imagesکولی سمتھ اور گیری سوبرزحادثہ لندن آتے وقت پیش آیا

گیری سوبرز نے اپنی سوانح عمری میں اس حادثے کے بارے میں تفصیل سے لکھا ہے۔

انھوں نے لکھا کہ 'اگلے دن ہمیں ایک چیریٹی میچ میں شرکت کے لیے لندن جانا تھا۔ ہم چاروں کو وہاں پہنچنا تھا۔ ہم نے ایک گھنٹے سے زیادہ وقت تک رائے گلکرسٹ کا انتظار کیا۔ اس کے بعد ہم تینوں نے لندن روانہ ہونے کا فیصلہ کیا۔ کاش ہم نے تھوڑا انتظار کیا ہوتا یا اگر ہم وقت پر چلے جاتے تو کون جانتا ہے کہ قسمت کچھ اور ہوتی لیکن آپ ماضی کو نہیں بدل سکتے، کیا آپ ایسا کر سکتے ہیں؟

حادثے کو بیان کرنے والے گیری سوبرز کی سوانح عمری کے صفحات پر جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ تینوں اسی طرح سفر رہے تھے جیسے لوگ دوستوں کے ساتھ سفر کے دوران کرتے ہیں۔ تینوں خوش تھے کہ ایک گھنٹے انتظار کی وجہ سے ہونے والی تاخیر انھیں لندن میں پائے جانے والے ٹریفک جام سے بچا لے گی۔

'تصادم کی آواز'

تینوں کے درمیان باری باری گاڑی چلانے کی بات بھی ہوئی۔ ناٹنگھم شائر کے ریڈکلف ایریا سے لندن تک کا فاصلہ تقریباً چار گھنٹے کا تھا اور پہلے کار کولی اسمتھ نے چلائی اور کچھ فاصلے کے بعد انھوں نے گاڑی ٹام کو ڈرائیو کرنے کے لیے دے دی۔ جب گیری سوبرز کی باری آئی تو ٹام اگلی سیٹ پر بیٹھ گئے اور کولی پچھلی سیٹ پر سو گئے۔

گیری سوبرز نے ان لمحات کے بارے میں لکھا: 'ہم اسٹیفورڈ شائر میں اے-34  A34 نمبر سٹون کے قریب پہنچے تھے، اور صبح کے تقریباً 4.45 ہو رہے تھے، آگے سڑک میں ایک موڑ تھا۔ میں نے آگے دو روشن بتیاں دیکھیں اور میرے پاس کچھ کرنے کا کوئی وقت نہیں تھا۔ میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔

'مجھے بس اتنا یاد ہے کہ ٹکرانے کی آواز آئی تھی۔ بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ میں نے 10 ٹن مویشی لے جانے والے ٹرک کو ٹکر مار دی تھی۔ میں بھی چند لمحوں کے لیے بیہوش ہو گیا تھا۔

'چند لمحوں کے بعد جب مجھے ہوش آیا تو میں نے دیکھا کہ ٹام زور زور سے رو رہا ہے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ وہ بہت تکلیف میں ہے۔ کولی زمین پر پڑا ہوا ہے۔ میں نے گھبراہٹ میں پوچھا، للٹل مین، ہاؤ آر یو؟'

گیری سوبرز نے مزید لکھا: 'کولی نے مجھے بتایا کہ میں ٹھیک ہوں، آپ ٹام کے پاس جائیں۔ میں ٹام کے پاس گیا اور اس کی مدد کرنے لگا۔ میں ایمبولینس کے آنے تک ٹام کو تسلی دیتا رہا۔ تاہم میری کلائی ٹوٹ گئی تھی۔ آنکھوں کے قریب زخم آئے تھے اور بائیں ہاتھ پر چوٹ تھی۔'

تینوں کرکٹرز کو ہسپتال کے مختلف کمروں میں رکھا گیا۔ جب سوبرز بیدار ہوئے، تو انھوں نے سب سے پہلے کولی کے بارے میں پوچھا۔

یہ بھی پڑھیے

جب کسی کو ٹیسٹ میچ کے ٹائی ہونے کا مطلب نہیں معلوم تھا

گیری سوبرز: 12 انگلیاں، ایک اوور میں چھ چھکے اور 365 رنز کی اننگز کون بھول سکتا ہے

انڈین کرکٹر رشبھ پنت حادثے میں زخمی، مرسیڈیز کار جل کر تباہ

اس کی ایک ممکنہ وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ سوبرز اور کولی سنہ 1957 کے دورہ انگلینڈ کے بعد سے روم پارٹنر بھی تھے۔ سوبرز نے کولی اسمتھ کے بارے میں لکھا: 'میں نے 1957 کے دورہ پاکستان پر ان کے مشورے سے فائدہ اٹھایا، مجھے خراب امپائرنگ کا سامنا تھا اور ان کی باتوں نے مجھے اس ذہنی کیفیت پر قابو پانے میں مدد کی، وہ بہت مذہبی تھے۔ انھیں چرچ میں عبادت کرنا پسند تھا۔ اس لیے ہم انھیں ٹیم کا مبلغ بھی کہتے تھے۔'

جب سوبرز نے کولی کے بارے میں پوچھا تو ڈاکٹروں نے بتایا کہ کولی بے ہوش ہیں اور ان کی ریڑھ کی ہڈی کو نقصان پہنچا ہے۔ یہ سن کر سوبرز کو یقین نہیں آیا۔ ڈاکٹروں کی تین دن کی تمامتر کوششیں کولی اسمتھ کو نہ بچا سکیں۔ 9 ستمبر کو کولی اسمتھ نے محض 26 سال کی عمر میں دنیا کو الوداع کہہ دیا۔ ان کی وفات پر ویسٹ انڈیز کرکٹ بورڈ کے چیئرمین جے ایف ڈائر نے کہا: 'وہ اس قسم کے کھلاڑی تھے جو کھیل کو کھیل کی خاطر کھیلتے اور ان کے سامنے ایک شاندار مستقبل تھا۔'

Getty Imagesاس وقت تک کولی سمتھ نے چار سنچریاں سکور کی تھیںوزڈن: ’بہت افسوسناک ہے‘

وزڈن کرکٹ میگزین کے مطابق اس وقت میلبورن کرکٹ کلب کے اسسٹنٹ سیکریٹری ایس سی گریفتھ نے کہا تھا کہ 'یہ بہت افسوسناک ہے، کولی کے دل میں مستقبل کا کرکٹ تھا۔'

بہر حال احتیاط سے گاڑی نہ چلانے کے لیے سوبرز پر دس پاؤنڈ کا جرمانہ عائد کیا گیا۔ اس حادثے نے سوبرز کو بھی ہلا کر رکھ دیا۔ انھیں انگلینڈ کے خلاف سیریز میں حصہ لینے کے لیے ویسٹ انڈیز جانا تھا جس میں اسمتھ نے بھی شرکت کرنی تھی۔ لیکن اسمتھ مر چکے تھے اور سوبرز دماغی طور پر کھیلنے کے قابل نہیں تھے۔ وہ ویسٹ انڈیز واپس بھی نہیں آئے۔

سمتھ کی موت کا سوبرز پر ایسا اثر ہوا کہ انھوں نے خود کو شراب نوشی میں غرق کر لیا۔ سوبرز نے خود لکھا: 'جب ہم اکٹھے کھیلتے تھے تو میں زیادہ نہیں پیتا تھا۔ اس کے نہ رہنے پر ہم نے زیادہ پینا شروع کر دیا۔ میں خوش قسمت تھا کہ اس کا میرے کھیل پر زیادہ اثر نہیں پڑا، لیکن میں ساری رات شراب پیتا رہتا تھا۔ رات بھر جاگ کر پیتا رہتا تھا۔'

سوبرز نے لکھا: 'میرے سر میں چلنے والے طوفان کا دباؤ اتنا زیادہ تھا کہ میں نے جو کچھ بھی پیا، چاہے وہ اسکاچ ہو یا برانڈی، اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔'

جب سوبرز ایسے مرحلے سے گزر رہے تھے تو انگلینڈ میں رہنے والے ویسٹ انڈیز کے کچھ پرانے کرکٹرز نے انھیں دوبارہ ٹریک پر آنے میں مدد کی۔

Getty Imagesسوبرز نے حادثے کے وقت تک چھ سنچری سکور کر رکھی تھی اور صرف 31 وکٹیں لی تھیںسینیئرز کی مدد

اپنے سینیئرز کی مدد کے بارے میں سوبرز نے لکھا کہ ویسٹ انڈیز کے سابق لیگ سپنر اور ڈاکٹر سی بی برٹی کلارک نے مجھ پر کام کرنا شروع کیا اور جمیکا کے آلف گوور اور اسٹینلے گڈرچ نے مجھے مڈل سیکس نیٹ میں پریکٹس کروائی۔

کچھ عرصے کے بعد، سوبرز نے محسوس کیا کہ ویسٹ انڈیز کی کرکٹ نے کولی اسمتھ کو کھو دیا ہے اور اب ان کی زیادہ شراب نوشی سے دگنا نقصان ہو گا۔ سوبرز نے اپنی سوانح عمری میں ان لمحات کے بارے میں لکھا: 'میں نے یہ بھی محسوس کیا کہ مجھے اب گارفیلڈ سوبرز کے لیے نہیں کھیلنا ہے، لیکن مجھے دو لوگوں کی ذمہ داری اٹھانی ہے، کولی اور خود کی۔ میری زندگی بدل گئی اور ہمیشہ کے لیے ذمہ داریوں کا بوجھ اپنے کندھے پر ڈال لیا۔'

حادثے کے تین ماہ بعد سوبرز ویسٹ انڈیز پہنچے جب انگلینڈ کے خلاف پہلا ٹیسٹ میچ کھیلا جانا تھا۔ سوبرز نے اس میچ کے بارے میں لکھا: 'جیسے ہی میں کریز پر آیا، مجھے معلوم ہوا کہ مجھے اتنا ہی حصہ ڈالنا ہے جتنا مجھے دو لوگوں کے لیے کھیلنا ہے۔ میں ہر رن کے ساتھ کولی کو یاد کرتا رہا۔ جب فریڈ ٹرومین نے مجھے کلین بولڈ کروایا۔ تب تک میں 226 رنز بنا چکا تھا۔ کچھ ہفتوں بعد میں نے کولی کے ہوم گراؤنڈ پر 147 رنز بنائے۔ اس کے بعد وہ ہمیشہ میرے ساتھ رہے۔'

سوبرز کی باتوں میں حقیقت کی جھلک ہے کیونکہ اس کے بعد انھوں نے کافی عرصے تک کرکٹ کھیلی اور اپنی اوسط بہتر کی۔ حادثے کے بعد 93 ٹیسٹ میچوں میں آٹھ ہزار سے زائد رنز بنائے اور ٹیسٹ کرکٹ میں 200 سے زائد وکٹیں حاصل کیں۔ ان کے نام کل 235 وکٹیں ہیں۔ اور ان کا شمار ٹیسٹ کرکٹ کے عظیم آل راؤنڈرز میں ہوتا ہے۔

سوبرز کی عمر 87 سال ہے اور وہ تمام کرکٹ ایونٹس میں نظر آتے رہے ہیں جب کہ ٹام ڈیوڈنی بھی 89 سال کی عمر میں زندہ ہیں۔

دوسری جانب جب کولی اسمتھ کی میت جمیکا پہنچی تو وزڈن اور ای ایس پی این کرک انفو کے مطابق ان کی آخری رسومات کے لیے 60 ہزار افراد کا مجمع تھا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ کولی کی صلاحیت پر لوگوں کو کتنا بھروسہ تھا۔

جمیکا کے صحافی کین چیپلن نے بھی ان کے بارے میں ایک کتاب لکھی جس کا نام 'دی ہیپی واریئر' ہے۔ جمیکا کے پین میری قبرستان میں، جہاں کولی کو دفن کیا گیا، وہاں ان کے لوح مزار پر 'سنجیدہ کرکٹر، بے لوث دوست، قابل ہیرو، وفادار نظم و ضبط اور خوش مزاج جنگجو' لکھا ہوا ہے۔ کولی کے آبائی علاقے میں ایک گلی کا نام ان کی یاد میں 'کولی اسمتھ روڈ' رکھا گیا ہے۔

سوبرز ہمیشہ کولی اسمتھ کو یاد کرتے ہوئے کھیلتے رہے، جب کہ دنیا کولی اسمتھ کو یاد کرکے کہتی رہی کہ 'دی ادر سوبرز دیٹ ویسٹ انڈیز لاسٹ'۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More