انڈیا میں کرکٹ کا ٹیلنٹ تو بہت، مگر کیا یہی ٹیلنٹ ایک مسئلہ بھی ہے؟

بی بی سی اردو  |  Jan 14, 2023

Getty Images

انڈیا کو آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی اور ہوم گراؤنڈ پر کھیلے جانے والا ون ڈے ورلڈ کپجیتے ایک دہائی کا عرصہبیت چکا ہے۔ اسی تناظر میں ابدو سوالات ذہن میں آتے ہیں۔

سب سے پہلا تو یہ کہ کیا اس بار بھی یہ 2011 کی طرح انڈیا کا سال ثابت ہو سکتا ہے جب مہندر سنگھ دھونی کے آخری چھکے نے انڈیا کو فتح سے ہمکنار کیا تھا؟

اور دوسرا سوال یہ کہ کیا انڈیا کی کرکٹ تبدیلی کے دور سے گزر رہی ہے؟

کھیل کے میدان میں تبدیلیاں راتوں رات نہیں ہوتیں۔ کبھی کبھار مسلسل فتوحات چند سینیئرز کی جانب سے نوجوان کھلاڑیوں کے لیے راستہ بنانے کا باعث ہو سکتی ہیں۔ تاہم اکثر اوقات شکست ہی تبدیلی کا راستہ دکھاتی ہے۔

انڈیا نے 2022 کے عرصے تک تقریباً 58 فیصد ٹیسٹ میچز اور ون ڈے انٹرنیشنل میچز جبکہ 70 فیصد تک ٹی ٹوئنٹی میچز جیتے اور اب اس سال کے آخر میں ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ کا فائنل کھیلنے کے لیے نہ صرف پُرعزم دکھائی دے رہا ہے بلکہ ورلڈ کپ جیتنے کے لیے بھی فیورٹ قرار دیا جا رہا ہے۔

Getty Images

بہرحال انڈین کرکٹ ٹیم کا اپنی صلاحیت سے کم کارکردگی دکھانا ایک پریشان کن احساس ہے۔

اور اگر بغور جائزہ لیا جائے تو جہاں ٹیم کے ٹاپ بلے بازوں نے مسلسل چیلنجز کا سامنا کیا وہیں انڈیا کی بولنگ بھی متاثر نہ کر سکی۔

ساتھ ہی ساتھ اہم کھلاڑیوں کی فٹنس یا انجریز نے ٹیم کے مسائل میں اضافہ کیا ہے۔

رینکنگ کے حساب سے انڈیا کی ٹیم ٹی ٹوئنٹی میں پہلے نمبر پر، ٹیسٹ میچز میں دوسرےاور ون ڈے میں چوتھے نمبر پر ہے۔

اس کے باوجود ٹیم کے تمام فارمیٹس میں مسائل ہیں جو یقیناً کچھ ممالک کی ٹیموں کے لیے اطمینان کا باعث بھی ہو سکتا ہے۔

کیا انڈیا سے ضرورت سے زیادہ توقعات ہیں؟

انڈین ٹیم سے فینز ہر بار جیتنے کی توقع لگا بیٹھتے ہیں اور اس سے کم کچھ بھی ان لاکھوں لوگوں کے لیے مایوسی کا باعث بنتا ہے، جو کرکٹ میں فتوحات کو کسی نہ کسی طرح اپنی زندگی میں ہونے والی شکستوں کی تلافی سمجھ لیتے ہیں۔

ایک اور وجہ میچوں کی شیڈولنگ بھی ہے جہاں محض ٹی وی سکرین پر ہر وقت شائقین کی تفریح کی طلب کو پورا کرنے کے لیے بہت زیادہ میچز کھلائے جا رہے ہوتے ہیں۔

اب بھلا بتائیے کہ ورلڈ کپ کے سال میں اور پچھلے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے بعد اُن تمام ٹی ٹوئنٹی میچوں کو کھیلنے کا کوئی جواز تھا۔

Getty Images

انڈیا مارچ کے آخر تک ہوم گراؤنڈ پر سری لنکا، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے خلاف نو ون ڈے میچ کھیلے گا اور انھیںاس بات کو بھی یقینی بنانا ہو گا کہ آسٹریلیا کی سیریز کے بعد شروع ہونے والی انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) کے آغاز سے قبل کھلاڑیوں کو آرام بھی مل سکے اور اس دوران پیش آنے والی انجریز کو بھی ٹھیک ہونے کا موقع مل سکے۔

اس لیے انڈین ٹیم کے چیف سلیکٹرز چیتن شرما کا یہ کہنا باعث تشویش ہے کہ زخمی فاسٹ بولر جسپریت بمرا کو شاید بہت جلدی مقابلے میں لے جایا گیا ہے۔

دوسری جانب ٹیسٹ میچز کی رینکنگ میں پہلے نمبر پر موجود آسٹریلیا کے خلاف بھی انڈین ٹیم کو ہوم گراؤنڈ پر چار ٹیسٹ میچز کھیلنا ہیں جس کے لیے سری لنکا اور جنوبی افریقہ کی ٹیمیں بھی فائنل کے لیے اچھی پوزیشن پر ہیں۔

AFP

نومبر میں سابق کپتان سچن ٹنڈولکر کی ریٹائرمنٹ اور ان کے نام سے منسوب انڈین کرکٹ کے دور کے خاتمے کو ایک دہائی مکمل ہو جائے گی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کے کھیلے گئے آخری ٹیسٹ میچ کے سات کھلاڑی ایسے ہیں جو اب بھی انٹرنیشنل کرکٹ نہ صرف کھیل رہے ہیں بلکہ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ بھی کر رہے ہیں۔

ان میں37 سال کے ایشون اور شیکھر دھون، لگ بھگ 35 سال کے چتیشور پجارا جبکہ 34 سالہ روندر جڈیجا اور ویرات کوہلی بھی شامل ہیں۔

نوجوان کھلاڑی یا تو خود کو منوانے کے لیے مطلوبہ محنت نہیں کر پا رہے یا اگر وہ اس کے لیے پر زور کوشش کر رہے ہیں تو پھر شاید انھیں اُس سے بھی زیادہ انتظار کرنا پڑے گا جتنا دیگر کو بڑی لیگ میں شامل ہونے لیے کرنا پڑا تھا۔

انڈین ٹیم کے لیفٹ آرم میڈیم پیسر ارشدیپ سنگھ اگلے ماہ 24 سال کے ہو جائیں گے جبکہ ٹی ٹؤنٹی کی دنیا میں توجہ حاصل کرنے والے سوریا کمار یادیو ابھی 32 برس کے ہیں اور ہوم سیریز کے لیے ٹیسٹ سکواڈ میں شامل ہو سکتے ہیں۔

سوچنے کی بات ہے کہ انڈیا کی ترجیحات کیا ہیں؟

ایک آل راؤنڈر یا وائٹ بال کھلاڑیوں کی بات کریں تو سر فہرست ہردک پانڈیا اور جڈیجا ہیں جو ان خصوصیات پر پورا اترتے ہیں جبکہ اکشر پٹیل چھوٹے فارمیٹس میں نمایاں ہیں۔

انڈیا بولنگ کے لے دستیاب ناکافی آپشنز پر تنقید کی زد میں ہے جس کی مثال حال ہی میں بنگلہ دیش کے خلاف ون ڈے سیریز میں انڈیا کی ہار کی صورت میں سب کے سامنے موجود ہے۔

اگر ٹی ٹؤنٹی ورلڈ کپ میں شکست انڈیا کے لیے کوئی سبق ہو سکتا ہے تو وہ یہ ہے کہ ٹی ٹؤنٹی نوجوانوں کا کھیل ہے۔

جب انڈیا نے 2007 میں ٹائٹل جیتا تو یہ اس کی خوش قسمتی تھی اور گذشتہ سال میلبورن میں اپنے افتتاحی میچ میں پاکستان کو شکست دینا بھی انڈیا کی گڈ لک ثابت ہوئی۔

اور ایسی ہی حادثاتی جیتیں ٹیم میں خود فریبی کا احساس پیدا کر سکتی ہیں۔

اب وقت آگیا ہے کہ ٹی ٹؤنٹی کے لیے علیحدہکپتان، ماہر پلیئرز، اپنا کوچ اور معاون عملہ ہو۔ ایک پورے فارمیٹ کے لیے نئی ٹیم کو ترتیب دیا جائے جیسا کہ انگلینڈ نے کیا اور کامیاب رہا۔

یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ کرکٹ میں تقسیم سرخ اور سفیدبالز کے درمیان نہیں بلکہ اس میں ٹیسٹ اور ون ڈے میچز ایک جانب اور ٹی ٹؤنٹی میچز دوسری جانب رکھنے کی تقسیم ہے۔

ٹی ٹؤنٹی کے کوچ کا تعلق اس کھیل کے فارمیٹ میں سوچنے والی نسل سے ہونا چاہیے اور کوچز سے بھی زیادہ اہم ڈیٹا تجزیہ کار ہیں جو آپ کی سمت درست کرتے ہیں۔

انڈیا کے پاس ون ڈے کرکٹ میں کوئی طے شدہ ٹیم نہیں ، لیکن خوش قسمتی سے ان کے پاس ورلڈ کپ سے قبل اپنی غلطیوں کے ازالہ کا ابھی وقت موجود ہے۔ ٹیم کی حوصلہ افزائی کے لیے یا تو کسی کو یادیو کی ٹی ٹؤنٹی جیسیکارکردگی کا مظاہرہ کرنا پڑے گا یا پھر خود یادیو کو دوبارہ کچھ ایسا کرنا ہو گا۔

یہ بھی پڑھیے

ہاردک پانڈیا: انڈیا کے ’کپل دیو‘ کی غربت اور درد کو شکست دینے کی داستان

پاکستان کا لٹن داس کون ہو گا؟ سمیع چوہدری کا کالم

سڑک حادثہ جس میں ایک آل راؤنڈر عین جوانی میں دنیا سے گیا لیکن دوسرا بعد میں عظیم آل راؤنڈر بنا

ٹیم میں موجود پلیئرز کی پہلے حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔ انھیں اعتماد دینا ہوگا کہ وہ ٹیم کا حصہ ہیں۔

کھیل کا فارمیٹ چاہے کچھ بھی ہو، ٹیم میںبیلینس ایک ایسا سوال ہے جسے کوچ اور کپتان کو مسلسل مد نظر رکھنا ہوتا ہے۔ کیا آپ ایکسٹرا بیٹس مین یا بٹس اینڈ پیس مین کو کھیلنے کا موقع دیتے ہیں؟

کیا آپ کسی باقاعدگی سے وکٹ کیپنگ کرنے والے کی جگہ ایسےوکٹ کیپر کا انتخاب کرتے ہیں جو آپ کو رنز دے اور کیچ نہ چھوڑنے کی یقین دہانی کروائے؟

دو فنگر سپنرز یا ایک فنگر اور ایک رسٹ، یا ایک اضافی میڈیم پیسر؟

اوران مقدس گایوں کا کیا ہوگا؟ کیا سینئر کھلاڑی اپنی پشت پر یہ لکھوا کے آتے ہیں کہ ’مجھےٹیم سے نکال کر دکھائیں‘۔ کیا ہمیں یہ واقعی سنجیدگی سے لینا چاہئیے؟

بدقسمتی سے کرکٹ بھی زندگی کی طرح آگے بڑھتی ہے جہاںماضی کے تجربات سے ہی سبق سیکھا جا سکتا ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More