پاکستان میں اگر کوئی آپ کی ذاتی معلومات لیک کر دے تو اس شخص کے خلاف کیا قانونی کارروائی ممکن ہے؟

بی بی سی اردو  |  Jan 20, 2023

Getty Images

’ہمیں ڈوکس کیا گیا ہے اور تب سے مجھے، واٹس ایپ پر ہراساں کیا جا رہا ہے، برا بھلا کہا جا رہا ہے، مسلسل تنگ کیا جا رہا ہے۔۔۔ مجھے وائس نوٹس کے علاوہ بہت ناگوار نوعیت کی تصاویر بھیجی جا رہی ہیں جن میں انسانی فضلے کی تصاویر بھی شامل ہیں۔۔۔ مجھے اب تک 380 لوگوں کو بلاک کرنا پڑا ہے اور اب میں اپنا نمبر تبدیل کرنے جا رہی ہوں۔۔۔ یہ سب ذہنی طور پر بہت پریشان کن ہے۔‘

یہ شکایت کرنے والی پاکستانی اداکارہ اور ماڈل میرا سیٹھی اکیلی نہیں، اداکارہ ایمن خان کے شوہر منیب بٹ کے مطابق ان کی اہلیہ اور سالی منال خان کو بھی ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہے۔

ڈوکسنگ کسی خاص شخصیت کی نجی یا شناختی معلومات بدنیتی پر مبنی ارادے سے انٹرنیٹ پر شائع کرنا ہوتا ہے۔

منگل کے روز پاکستانی اداکار فیروز خان نے اعلان کیا کہ وہ ان افراد کو ہتک عزت کے نوٹس بھیج دیے ہیں جو ان کی سابقہ ​​اہلیہ علیزے سلطان کی جانب سے گھریلو زیادتی کے الزامات کے حوالے سے ان (فیروز حان) پر جھوٹے اور بے بنیاد الزامات لگا رہے ہیں۔ 

انھوں نے اس نوٹس کی ایک کاپی بھی اپنی پوسٹ میں شیئر کی تاہم جلد ہی اسے حذف کر دیا۔ اس نوٹس میں کئی مشہور شخصیات کے موبائل فون نمبر اور پتے درج تھے جن میں ڈائریکٹر و پروڈیوسر شرمین عبید چنائے، گلوکار عاصم اظہر، اداکار عثمان خالد بٹ، یاسر حسین، فرحان سعید، اداکارہ میرا سیٹھی، منال خان، ایم خان، ثروت گیلانی، ڈائریکٹر اور اداکار مصدق ملک شامل ہیں۔

BBC میرا سیٹھی کا کہنا ہے کہ قانونی طور پر ہمارا کیس بہت مضبوط ہے کیونکہ ہمیں ’ڈوکس‘ کیا گیا ہے

اس سوال کے جواب میں کہ وہ کیا قانونی کارروائی کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں، میرا سیٹھی کا کہنا ہے کہ قانونی طور پر ہمارا کیس بہت مضبوط ہے کیونکہ ہمیں ’ڈوکس‘ کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انھیں 15 دنوں کے اندر جواب تیار کرنا ہے، اور وہ اپنے وکیل کے ساتھ مل کر اس پر کام کر رہی ہیں اور اگلے چند دنوں میں اس کا جواب جمع کروا دیں گی۔ 

اداکار منیب بٹ کا کہنا ہے کہ ’پرسوں جب ایمن نے مجھے بتایا کہ فیروز نے ہمارا نمبر سوشل میڈیا پر لیک کر دیا ہے تو مجھے بہت حیرت ہوئی اور شاک لگا کہ وہ میری بیوی کا ذاتی نمبر کیسے سوشل میڈیا پر ڈال سکتا ہے کیونکہ بطور کولیگز ہماری آپس میں اچھی سلام دعا تھی۔‘

ان کا کہنا ہے کہا ایمن کو اور منال کو ایسی ایسی کالز آ رہی ہیں جن میں انھیں ہراساں کیا جا رہا ہے اور دھمکیاں دی جا رہی ہیں جس سے وہ ذہنی طور پر خاصی پریشان ہیں۔

منیب کا کہنا ہے کہ اگر صرف میری بات ہوتی تو میں مرد ہوں اور اگر مردوں کی آپس میں ایسی بات ہوئی ہوتی تو میں درگزر کر دیتا، لیکن فیرور نے میرے خاندان کے خلاف جو قدم انھوں ن اٹھایا ہے خاص کر میری اہلیہ کا نمبر سوشل میڈیا پر شئیر کیا گیا ہے، اس پر وہ قانونی کارروائی کرنے کا ادارہ رکھتے ہیں۔ تاہم انھوں نے اس حوالے سے کوئی تفصیلات شئیر نہیں کیں۔ بی بی سی نے اس بارے میں فیروز حان سے ان کا مؤقف لینے کی کوشش کی، تاہم انھوں نے اس بارے میں بات کرنے سے یا کسی بھی قسم کا مؤقف دینے سے انکار کیا ہے۔

’پاکستان میں ڈیٹا پروٹیکشن کا کوئی قانون نہیں‘

اس آرٹیکل میں ہم نے سائبر کرائم پر کام کرنے والے قانونی ماہرین سے بات کر کے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ اگر کوئی آپ کی ذاتی معلومات جیسے گھر و دفتر کا پتہ اور فون نمبر سوشل میڈیا پر لیک کرے تو آپ اس شخص کے خلاف  کیا قانونی کارروائی کر سکتے ہیں؟ 

قانونی ماہرین کے مطابق پاکستان میں اب تک ڈیٹا پروٹیکشن کا کوئی قانون موجود نہیں ہے۔ 

اور چونکہ پاکستان میں اس حوالے سے کوئی قانون موجود نہیں، تو یہ کارروائی کس ضابطہِ اختیار کے تحت ممکن ہے۔

ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن سے وابستہ قانونی ماہر شمائلہ خان کے مطابق چونکہ پاکستان میں ڈیٹا پروٹیکشن کا کوئی قانون موجود نہیں ہے لہذا ریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز (پیکا) میں کچھ ایسی شقیں موجود ہیں جن کی رو سے اسے ایک جرم ثابت کرتے ہوئے آپ کی اجازت کے بغیر معلومات شئیر کرنے والے شخص کے خلاف ایف آئی اے میں مقدمہ کیا جا سکتا ہے اور ثابت ہونے پر انھیں جرمانہ یا سزا ہو سکتی ہے۔ 

 مثلاً سیکشن 16 کے مطابق کسی بھی شخص کی اجازت کے بغیر اس کی معلومات (جن میں فون نمبر اور پتا وغیرہ شامل ہے) کا حصول یا انھیں شئیر کرنا ایک جرم ہے۔ شمائلہ خان کے مطابق اس میں یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ اس شخص نے آپ کی معلومات کتنے بڑے فورم پر شئیر کیں اور ان سے آپ کو کس قسم کا ذہنی و جسمانی نقصان پہنچ رہا ہے۔

’ڈاکسنگ کی صورت میں معلومات شئیر کرنے والے شخص  کی ’اکسانے‘ کی نیت ثابت ہونی چاہیے‘

بیرسٹر یاسر لطیف ہمدانی کے مطابق اس میں سب سے پہلی چیز یہ دیکھنا ہو گی جو معلومات سوشل میڈیا پر شئیر کی گئیں وہ پہلے پبلک ڈومین کا حصہ تھیں یا نہیں، تاہم ان کا ماننا ہے کہ اس کے باوجود پیکا کے سیکشن 20 (ایسا اقدام جس سے کسی شخص کے وقار کو ٹھیس پہنچی ہو) اور سکیشن 16 کے تحت معلومات شئیر کرنے والے شخص کے خلاف قانونی کارروائی کی جا سکتی ہے۔

یاسر ہمدانی کا کہنا ہے کہ اس میں ’ارادہ‘ بھی دیکھا جائے گا اور اگر واقعی ’ڈوکسنگ‘ ثابت ہو تو پھر قانون حرکت میں آئے گا۔

تاہم یاسر کا کہنا ہے کہ اس کیس میں ’ڈوکسنگ‘ ثابت کرنا مشکل ہے کیونکہ فیروز نے ان اداکاروں کے پتے اور نمبر شئیر کیے لیکن اپنے فالورز سے یہ نہیں کہا کہ جا کر انھیں ہراساں کرو یا کوئی نقصان پہنچاؤ اور پھر اس سے پوسٹ بھی حذف کر دی ہے۔۔۔۔ ڈوکسنگ کی صورت میں معلومات شئیر کرنے والے شخص  کی ’اکسانے‘ کی نیت ثابت ہونی چاہیے۔ 

تاہم ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی بانی نگہت داد کا کہنا ہے کہ اگر کسی نے آپ کی ذاتی معلومات آن لائن کسی پبلک پلیٹ فارم پر شئیر کیں ہیں، تو سب سے پہلے یہ ڈیٹا پروٹیکشن کی خلاف ورزی ہے۔ دوسرا یہ دیکھا جاتا ہے کہ کسی شخصیت کا ذاتی ڈیٹا شئیر ہونے کی صورت میں انھیں آف لائن نقصان پہنچنے کا کتنا خطرہ ہے، نگہت کے مطابق آف لائن نقصان دراصل حقیقی زندگی میں ایک ’رسک‘ ہے جس میں جسمانی نقصان سے لے کر ہراسانی، تنگ کرنا، تعاقب وغیرہ شامل ہیں جو مزید جرائم کی جڑ بنتا ہے۔

نگہت کا کہنا ہے کہ بے شک وہ معلومات بعد میں حذف کر دی گئی ہوں لیکن ایک سلیبرٹی، ایک عوامی شخصیت جس کے لاکھوں فالوروز ہوں، کے طور پر آپ اس بات کی گارنٹی نہیں دے سکتے کہ ’میں نے حذف کر دی تو جرم ختم ہو گیا‘ کیونکہ کتنے لوگوں نے اس پوسٹ کو دیکھا، ڈاؤن لوڈ کیا اور آگے کہاں کہاں شئیر کیا جس کے بعد جن لوگوں کی معلومات لیک کی گئیں، ان میں سے کتنوں کو اپنے نمبر تبدیل کرنے پڑے یا سکیورٹی کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا جو آن لائن اقدام کے آف لائن نقصانات ہیں۔

ان کے مطابق ’اور اس جرم کی شدت کا اندازہ اس چیز سے لگایا جا سکتا ہے کہ آن لائن ذاتی معلومات نشر ہونے کی صورت میں آف لائن ان شخصیات کو کتنا نقصان اور اس کے نتیجے میں ذہنی اذیت پہنچ سکتی ہے۔‘

Getty Images

وہ اسے اراداتاً ’ڈوکسنگ‘ مانتی ہیں اور کہتی ہیں کہ ’آپ کو ثابت کرنا پڑے گا کہ آپ کی ایسی نیت نہیں تھی اور آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ مجھے پتا نہیں تھا، میں نے تو بغیر کسی بری نیت یا ارادے کے آپ کی معلومات شئیر کیں۔ ایک پڑھا لکھا شخص، ایک سلیبرٹی کو یقیناً یہ معلوم ہے کہ اگر کوئی اس کی معلومات اس طرح شئیر کرے تو اس پر کیا اثر پڑے گا۔ آپ کو یہ بھی پتا ہے کہ اس لسٹ میں مرد اور خواتین بھی شامل ہیں جنھیں کالز آئیں گی، لوگ تنگ کریں گے، ان کے گھر پبلک پراپرٹی تو نہیں ہیں جن کے پتے شئیر کیے جا سکیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے پیکا کے سیکشن 20 کو قانونی مسودے سے نکالنے کا حکم دیا ہے لیکن اسی سیکشن 20 کا ایک حصہ ذاتی معلومات کے متعلق ہے جسے برقرار رکھا گیا تھا اور اس کی رو سے اور سیکشن 16 کی رو سے معلومات شئیر کرنے والے شخص (چاہے عام شخص ہو یا کوئی سلیبرٹی) کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More