انڈیا کا شہر دوارکا، جہاں کے مکینوں نے پانی کی کمی کا توڑ بھی ڈھونڈا اور زمین بھی دھنسنے سے بچائی

بی بی سی اردو  |  Jan 29, 2023

Getty Images

پاکستان میں صاف پانی کے حصول کے لیے بور کروا کر زیر زمین پانی کا استعمال ضروریات پوری کرنے کا ایک عام طریقہ سمجھا جاتا رہا ہے تاہم تیزی سے بڑھتی آبادی کے ساتھزیر زمین پانی کے ذخائر تک اندھا دھند رسائی نے پانی کی کمیابی ایک بڑا مسئلہ بنا دیا ہے۔

یہی صورت حال ہمیں اپنے ہمسائے ملک انڈیا میں بھی دکھائی دیتی ہے۔ زمین سے اس پانی کے بے دریغ نکالے جانے کے باعث شمالی انڈیا کی ریاست اتراکھنڈ کے ایک چھوٹے سے ہمالیائی پہاڑی شہر جوشی مٹھکے زمین میں دھنس جانے کے خدشات سر اٹھانے لگے ہیں، وہیں ایک حوصلہ افزا مثال انڈیا کے دارالحکومت دہلی کے مضافات میں واقع دوارکا سے سامنے آئیہے جہاں علاقہ مکینوں نے زیر زمین پانی پر اپنا انحصار کمکرتے ہوئے متبادل ذرائع ڈھونڈ نکالے۔

یہ بات شروع ہوتی ہے 1998 سے جب 54 سالہ سدھا سنہا نے ہرے بھرے پر فضا ماحول اور دارالحکومتانڈیا کےہوائی اڈے کے قریبرہنے کی خواہش کو عملی جامہ پہنایا اور اپنے خاندان کے دیگر ارکان کے ہمراہ دہلی کے قریب مضافات میں واقع دوارکا شہر منتقل ہو گئے۔

’تیزی سے آبادی بڑھنے کے باعث ہر کوئی زیر زمین پانی استعمال کر رہا تھا‘

لیکن وہاں شفٹ ہونے کے بعد ان پر انکشاف ہوا کہپانی کی سپلائی کے لیے وہاں پانی کی پائپ لائن موجود نہیں لہٰذا اُنھیں پینے کے پانی کے ساتھ نہانے اور روز مرّہ کے دیگر مقاصد کے لیے بور سے پمپ کیا گیا زیر زمین پانی استعمال کرنا پڑا۔

گزرتے ماہ و سال میں دوارکا میں آبادی بڑھتی گئی جس کے باعث پانی کی بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کرنے کے لیے علاقہ مکینوں اور بلڈرز نے سیکڑوں کنویں کھود ڈالے جن میں سے بہت سے 60 میٹر (196 فٹ)گہرائی تک کھودے گئے تھے۔

جب زیر زمین پانی کو بے دریغ باہر نکالا جاتا ہے تواس عمل سے زمین کی اوپری سطح رفتہ رفتہ نیچے جانے لگتی ہے اور سنگین صورت حال میں زمین نیچے دھنسنے کا خدشہ ہوتا ہے۔ ایسا ہی کچھ دوارکا میں بھی بھی ہو رہا تھا۔سدھا سنہا کی اہلیہ نے بتایا کہ ’دوارکا میں تیزی سے رہائشی اپارٹمنٹس، بازاراور سکول کھل رہے تھے اور ہر کوئی زیر زمین پانی استعمال کر رہا تھا۔‘

علاقہ مکینوں نےبارش کے پانی کو جمع کیا جبکہ بور استعمال کرنے والوں پر جرمانے بھیکئے گئے

اس صورت حال میں دوارکا کے رہائشیوں اور حکومت نے زمینی پانی کے استعمال کو روکنے کے لیے فیصلہ کن اقدامات اٹھائے۔

جب دوارکا میں پانی کی طلب میں اضافے سے کنویں سوکھنے لگے تو علاقہ مکینوں نے اس خطرے کو بھانپ کر پانی کی سطح کو بڑھانے کے لیے بارش کے پانی کو جمع کرنا شروع کر دیا دوسری جانب دارالحکومت دہلی کی حکومت نے علاقے میں پانی کے ٹینکر بھیجنے شروع کیے۔

حکومت نے رہائشیوں کو پائپ لائنکے ذریعے پانی کی فراہمی شروع کی تاکہ بور بند کیے جا سکیں۔ اس کے ساتھ حکومت نے بور استعمال کرنے والی عمارتوں پر بھاری جرمانےبھی عائد کیے۔  

دہلی میں زیر زمین پانی کی سطح کا تجزیہ سیٹلائٹ ٹریکنگ کے ذریعے کرنے والے محقق شگن گرگ نے کہا کہ ’جب دارالحکومت دہلی اور اس کے مضافات میں کچھ علاقوں میں زمین کی سطح میں دھنسنے کے خدشات سر اٹھا رہے تھے اس دوران دوارکا میں زمین کی سطح کا ’قابل ذکر طور پر بلند ہونے کا رجحان سامنے آیا۔‘

ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق دوارکا میں زیر زمین پانی کی کمی کی وجہ سے زمین کی سطح بھی نیچے جا رہی تھی۔ کیمبرج یونیورسٹی کی ایک رپورٹ نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ صرف 2014 میں زمین کی سطحتقریباً 3.5 سینٹی میٹر (1.4 انچ) کم ہو گئی ہے۔

BBC

لیکن دہلی کی جانب سے بھیجے جانے والے ان ٹینکروں کا یہ پانی ناکافی اور مہنگا تھا۔

چنانچہ 2004 میں سدھا سنہا کی اہلیہ اور دیگر رہائشیوں نے پائپ لائن کے ذریعے پانی کی فراہمی کا مطالبہ کرتے ہوئے سڑکوں پر بھرپور احتجاج کیا اور ساتھ ہی اس حوالے سے ایک پٹیشن پر دستخط کیے گئے، مارچ اور ریلیوں کے ذریعے حکومت کو دھمکی دی گئی کہ اگر پائپ لائن کے ذریعے پانی کی فراہمی نہ کی گئی تو وہ بلدیاتی انتخابات کا بائیکاٹ کر دیں گے۔

خوش قسمتی سے حکومت کے منصوبوں میں 2000 کی دہائی کے وسط سے دوارکا تک پائپ کے ذریعے پانی کی فراہمی کے منصوبے پر کام جاری تھا اور 2011 تک تمام اپارٹمنٹس کو سرکاری پائپ سے پانی کی سپلائی شروع ہو گئی۔

دوسری جانب ہاؤسنگ سوسائٹیوں کا بھی زیر زمینی پانی پر انحصار کافی حد تک کم ہو گیا تھا جس کے بعد انھوں نے بور کا استعمال بند کر دیا تھا۔

Getty Images

ماہرین کے مطابق دوارکا میں 100 ایکڑ سے زائد رقبے پر پھیلی ہوئی دو مقامی جھیلوں کو بحال کیا گیا، جس سے کچھ علاقوں میں زمینی پانی کی سطح 20 میٹر سے 16 میٹر تک پہنچنے میں مدد ملی۔

حکومت نے مزید اقدامات اٹھاتے ہوئے ہزاروں ایکڑ رقبے کے عوامی پارکوں کھیلوں اور دیگر سرگرمیوں کے لیے قائم گراؤنڈز کو صرف سیوریج اور ٹریٹڈ سطح سے سیراب کرنے کے احکامات جاری کر دیے۔ 

دوارکا کے رہائشیوں نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ پانی کی ذخیرہ اندوزی کو فروغ دینے کے لیے انھوں نے پانی کا ذخیرہ کرنے والے 200 سال پرانے ’نیاجھوڈ‘ نامی تالاب کو بحال کرنے کی ٹھانی۔ 

یہ تالاب تقریباً خشک ہو گیا تھا اس لیے مکینوں نےاس پر اگی گھاس پھوس اور جھاڑیوں کو صاف کیا تاکہ بارش کے پانی جو جمع کرنے میں مدد مل سکے۔ 

ماہرین کا کہنا ہے کہ بارش کے پانی کی ذخیرہ اندوزی پانی کے زمینی ذخائر میں اضافے کا ایک مؤثر طریقہ ہے، خاص طور پر دہلی جیسے شہروں میں جہاں ایک طرف مٹی بہت خشک ہوتی ہے دوسری جانب وہاں بارش بھی کم ہوتی ہے۔

بارش کے پانی کو اکھٹا کرنے اور پرانے آبی ذخائر کی بحالی کیکامیاب حکمت عملی

انڈین انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی ممبئی اور یونیورسٹی آف کیمبرج کے محققین کے ایک گروپ نے حال ہی میں سیٹلائٹ امیج کے تجزیے سے یہ ثابت کیا ہے کہ دارالحکومت میں تقریباً 100 مربع کلومیٹر (38 مربع میل) علاقہ آہستہ آہستہ ڈوب رہا ہے اور اس کی ایکبنیادی وجہ ضرورت سے زیادہ زیر زمین پانی نکالنا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستان میں پانی کی قلت کا مسئلہ کتنا سنگین ہے 

ہمالیہ کا وہ قصبہ جو آہستہ آہستہ زمین میں دھنستا جا رہا ہے

انڈیا کا وہ علاقہ جہاں پانی کی شدید قلت کی وجہ سے لڑکوں کی شادی تک نہیں ہوتی

ٹاؤن پلانر وکاس کنوجیا کہتے ہیں کہ پرانے آبی ذخائر کو بحال کرنےاور بارش کے پانی کو جمع کرنے جیسے اقدامات نے دوارکا کو زمینی پانی پر انحصار کم کرنے اور زمین کے دھنسنے کے رجحان کو واپس معمول پر لانے میں مدد دی ہے۔

ان کے مطابق ’یہ دہلی اور انڈیا کے دیگر علاقوں کے لیے ایک مثال ہو سکتی ہے۔‘

زرعی ملک ہونے کے ناطے انڈیا زمینی پانی استعمال کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا صارف ہے، جس کی ضرورت امریکہ اور چین کے مجموعی طور پر استعمال کیے جانے والے پانی کی مقدار سے دوگنا زیادہ ہے۔

انسٹیٹیوٹ فار ہیومن سیٹلمنٹس انڈیا کے جگدیش کرشن سوامی کا کہنا ہے کہ ’انڈیا میں زیر زمین پانی کو نکالنے کی شرح بارشوں سے ذخیرہ کیے جانے پانی کی مقدار سے دو گنا زیادہ زیادہ ہے۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More