تاندہ ڈیم میں کشتی الٹنے سے 11 اموات: ’میرا بیٹا پانی میں ہے تو میں کیسے گھر جاسکتا ہوں؟‘

بی بی سی اردو  |  Jan 29, 2023

Getty Images

صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع کوہاٹ میں تاندہ ڈیم میں ایک کشتی الٹنے سے کم از کم 11 اموات کی تصدیق ہوئی ہے جبکہ ریسکیو آپریشن میں مزید لاشیں نکلانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

متاثرین کا تعلق اردگرد کے علاقوں سے بتایا گیا ہے اور پانی میں ڈوبنے والوں کی اکثریت ایک قریبی مدرسے کے طلبہ کی ہے جو تفریحی سرگرمیوں کے لیے اس کشتی پر سوار تھے۔

نعمان کا 13 سال کا بیٹا بھی ان میں سے ایک تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میں ساری رات ڈیم کے کنارے ہی بیٹھا رہوں گا۔ میرا بیٹا پانی میں ہے تو میں کیسے گھر جاسکتا ہوں؟ جس نے واپس جانا ہے، چلا جائے۔‘

رات کی تاریکی میں جال پھینک کر آخری کوشش کی گئی اور پھر آپریشن روک دیا گیا۔ اب امدادی ٹیمیں صبح کی روشنی میں مزید لاشیں نکالنے کی کوشش کرے گی اور امکان ہے کہ پاکستانی فوج بھی اس ریسکیو آپریشن میں حصہ لے گی۔

تاندہ ڈیم کے کنارے سے دستیاب اطلاعات کے مطابق شام کا اندھیرا پھیلنے کے بعد رات گئے تک اس کے اطراف میں سینکڑوں لوگ موجود تھے۔

ڈیم انتظامیہ کے قائم کردہ کیمپ پر 24 طلبہ کے لواحقیقن نے یہ اطلاع دی ہے کہ ان کے بچے اس بدنصیب کشتی میں سوار تھے جو ڈیم میں الٹ گئی۔

Getty Images

ریسیکو 1122 کے صوبائی ترجمان بلال احمد فیضی کے مطابق حادثے کے فوراً بعد کوہاٹ ریسیکو 1122 کی ٹیم موقع پر پہنچ گئی تھی جس نے فوری آپریشن کرتے ہوئے مجموعی طور پر 17 لوگوں کو پانی میں سے نکالا۔

ریسیکو 1122 کوہاٹ کے ڈسڑکٹ ایمرجنسی آفسیر جواد خلیل کے مطابق پانی سے نکالے جانے والے افراد میں ایک مدرسہ کے بزرگ استاد تھے۔ باقی پندرہ مدرسے کے طالب علم تھے۔

جواد خلیل کا کہنا تھا کہ ’ہم نے پانی سے دس لاشیں اور باقیوں کو زندہ حالت میں نکالا۔ تاہم ہسپتال انتظامیہ کے مطابق ایک طالب علم ہسپتال میں دم توڑ گیا جس کے بعد اب تک ہلاک ہونے والے طلبہ کی تعداد 11 ہوچکی ہے۔‘

لسبیلہ کوچ حادثے میں 41 افراد ہلاک: ’بس پل کی ریلنگ کے ساتھ چند میٹر تک رگڑ کھاتی رہی‘

کشتی کے ملاح اپنے دو بچوں سمیت لاپتہ

جواد خلیل کا کہنا ہے کہ ابھی تک واضح نہیں کہ حادثہ کس وجہ سے ہوا۔ ’اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ شاید کشتی پر زیادہ افراد کو بِٹھا دیا گیا۔ پانی کی رفتار اس موسم میں تیز نہیں ہوتی۔‘  

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم توقع کر رہے ہیں کہ مدرسے کے استاد جو کہ ان طالب علموں کے ساتھ موجود تھے وہ جلد ہوش میں آئیں گے تو ہمیں ٹھیک تفصیلات فراہم کریں گے۔ ابھی تک ہمارے پاس جو اطلاعات ہیں ان کے مطابق کشتی میں  ملاح سمیت شاید 26 لوگ تھے۔‘

جواد خلیل کے مطابق ’کشتی کے ملاح کے دو کم عمر بیٹے، جو اسی مدرسے کے طلبہ تھے، بھی اس کشتی پر سوار تھے۔ ابھی تک کشتی کے ملاح اور اس کے کم عمر بچوں کے حوالے سے کچھ پتا نہیں چلا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ زندہ نکالے جانے والے طلبہ میں سے دو کی حالت انتہائی نازک تھی۔ ان کی جانیں بچاتے ہوئے ریسیکو کا ایک اہلکار نزاکت خود بھی خطرے کا شکار ہوا۔

جواد خلیل کا کہنا ہے کہ ریسیکو 1122 کا ایک سٹیشن تاندہ ڈیم کے قریب ہی واقع ہے۔ ’واقعے کی اطلاع ملتے ہی ہماری پہلی ٹیم چند ہی منٹوں میں موقع پر پہنچ گئی۔ اس ٹیم میں موجود اہلکاروں نے فوراً پانی میں ڈوبے لوگوں کو نکالنا شروع کر دیا۔‘

’ہمارے ایک ریسیکو اہلکار نے دو بچوں کو کشتی کے قریب تک پہنچایا جن کے پھیپھڑوں میں پانی چلا گیا تھا۔ ان کی حالت انتہائی نازک تھی۔ چند لمحے اگر مزید تاخیر ہوجاتی تو شاید ان دو بچوں کی جان بچانا بھی ممکن نہ رہتا۔‘

نزاکت نے بچوں کو ریسیکو کی کشتی کے قریب پہنچایا جبکہ کشتی پر موجود اہلکار یاسر نے انھیں سی پی آر دیا۔

یاسر بتاتے ہیں کہ انتہائی ٹھنڈے پانی میں نزاکت کی حالت خراب ہو رہی تھی۔ انھوں نے انتہائی مشکل حالات سے لڑتے ہوئے بچوں کو کشتی تک پہنچایا۔

یاسر بتاتے ہیں کہ دونوں  بچے بے ہوش تھے۔ ’ان کی سانس تقریباً بند ہو رہی تھی۔ یہ نازک مرحلہ تھا۔ ان کے پھیپھڑوں میں پانی چلا گیا تھا جس کا ہمارے پاس واحد حل سی پی آر تھا۔‘

سی پی آر سے دونوں بچوں کی جانیں بچائی گئیں اور فوراً ہسپتال لے جایا گیا۔

Getty Imagesمدرسے کے 48 بچے کشتی پر تفریح کے لیے جانا چاہتے تھے

ریسکیو آپریشن کے حوالے سے جواد خلیل بتاتے ہیں کہ ’ابھی بھی ہنگامی حالات ہیں۔ تاندہ ڈیم کے اردگرد کے علاقوں میں کہرام مچا ہوا ہے۔۔۔ ہمیں مقامی لوگوں نے بتایا ہے کہ مدرسہ کے مجموعی طور پر 48 بچے تفریح کے لیے جا رہے تھے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’پہلے مرحلے میں 24 بچوں اور ان کے ایک استاد کشتی میں سوار ہوئے تھے کہ ان کو کنارے پر چھوڑ کر کشتی دوبارہ دوسرے بچوں کو لے کر کنارے پر جائے گی۔ تاہم پہلے راؤنڈ میں ہی حادثہ ہوگیا۔‘

ریسکیو سروسز کے صوبائی ترجمان بلال احمد فیضی کے مطابق اس آپریشن کے لیے ’ریسیکو 1122 نے قریب کے اضلاع سے بھی اپنی ٹیموں کو کوہاٹ طلب کیا ہے۔ چار کلو میٹر ریڈیئس علاقے میں تلاش مکمل کر لی گئی ہے تاہم یہ ایک مشکل آپریشن ہے۔‘

بلال احمد فیضی کا کہنا ہے کہ ’ہمارے اہلکاروں کے پاس سرد موسم میں غوطہ خوری کا خصوصی لباس موجود ہے۔ مگر اس کے باوجود بھی ایک غوطہ خور 15 سے 20 منٹ سے زیادہ وقت پانی میں نہیں گزار سکتا۔ اتنا وقت گزارنے کے بعد اس کو دوبارہ غوطہ خوری کے لیے مناسب وقت درکار ہوتا ہے۔ اگر وہ یہ وقت نہ لے تو اس کی جان کو بھی خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔‘

’سردیوں میں پانی زیادہ ٹھنڈا ہوجانے کی بنا پر جسم جلدی خراب نہیں ہوتا۔ اس کو اوپر آنے میں زیادہ وقت لگ سکتا ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ڈیم قریب چھ کلو میٹر تک پھیلا ہوا ہے اور اب تک ریسکیو آپریشن میں دو اہلکاروں کی حالت بھی خراب ہوئی جبکہ قریبی علاقوں کے رضاکاروں نے بھی مدد فراہم کی ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ پانی گدلا ہے اور اس میں دیکھنا مشکل ہے جس سے آپریشن مکمل ہونے میں تاخیر ہوئی ہے۔ ’ہمارے اندازوں کے مطابق خیال تو یہی ہے کہ اس وقت لاپتہ طلبہ پانی کی تہہ میں کہیں موجود ہوں گے۔ اس وقت ڈیم کے سپیل وے بند ہیں اور پانی چل بھی نہیں رہا۔ یہ خدشہ کم ہے کہ بچے کہیں دور نکل گئے ہوں گے۔‘

ادھر جواد خلیل کہتے ہیں کہ اب تک جتنے بھی لوگوں کو پانی میں سے نکالا گیا ہے، ان میں سے کسی کے پاس بھی لائف جیکٹ نہیں تھی۔ ’لائف جیکٹ ہوتی تو یہ سب زندہ بچ سکتے تھے کیونکہ لائف جیکٹ 72 گھنٹے تک پانی میں ڈوبنے نہیں دیتی۔‘

اطلاعات کے مطابق صبح کے وقت ممکنہ طور پر پاکستانی فوج کی موسیٰ بٹالیں بھی تلاش کے آپریشن میں حصہ لے گی۔ 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More