’مجھے ذاتی طور پر اس کے مرنے کا بہت افسوس ہوا کیونکہ میں نے تیس منٹ تک اس کی جان بچانے کی کوشش کی‘

بی بی سی اردو  |  Jan 31, 2023

BBC

’وہ بہت اچھے اخلاق کا تھا۔۔ اس لیے آج پورا گاؤں اس کے لیے رو رہا ہے۔ وہ میرا بھائی نہیں تھا، باپ تھا۔‘

یہ الفاظ انسپکٹر عرفان اللّہ کی بہن کے ہیں، جو پشاور کی مسجد میں دھماکے میں ہلاک ہو چکے ہیں۔ عرفان اللہ کی ہلاکت کا سن کر ان کا پورا علاقہ غم زدہ ہے۔ عرفان کے بھائی محمد زاہد نے بتایا کہ ’عرفان سب کی مدد کرتا تھا، صبح شام لوگوں کے لیے موجود رہتا تھا۔‘

عرفان کا سی پی آر کرنے والے ایک ڈاکٹر محمد طاہر خان نے ٹوئٹر پر لکھا کہ  ’مجھے ذاتی طور پر ان اہلکار کے مرنے کا بہت افسوس ہوا کیونکہ میں نے تقریباً 30 منٹ تک ان کی جان بچانے کی بھرپور کوشش کی۔‘ عرفان کو مسجد کی چھت گرنے سے سر پر گہری چوٹ لگی تھی جس کے نتیجے میں ان کی ہلاکت ہوئی۔

ان کے گھر پہنچنے پر ان کی بہن نے بتایا کہ عرفان پہلے ٹیچر تھے اور پھر پولیس میں بھرتی ہوئے تھے۔ انھوں نے روتے ہوئے بتایا کہ ان کے آٹھ بہن بھائیوں میں عرفان تیسرے نمبر پر تھے لیکن وہ تمام بہن بھائیوں سے والد جیسا سلوک کرتے تھے۔ ’میں نے دیکھا ہے کہ میرے بڑے بھائی عرفان سے ہر بات پر صلح و مشورہ کرتے تھے۔ اس کے مشورے کی عزت کرتے تھے۔ وہ میرا بھائی نہیں تھا، باپ تھا۔‘

BBC

تدفین کے بعد عرفان کے بھائی نے بتایا کہ ان کے لیے یہ سمجھنا مشکل ہے کہ سکیورٹی زون میں اتنا بڑا واقعہ کیسے پیش آیا ہے۔ ’یہ کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ عرفان کی جان کو خطرہ پیش آیا ہو۔ اس سے پہلے پشاور پولیس پر ہونے والے ایک اور حملے میں اس کی جان بچ گئی تھی۔ جبکہ اس بار وہ زیادہ محفوظ مقام پر تھا۔ لیکن اللہ کو شاید یہی منظور ہو گا۔‘

یہاں پہنچنے پر پتا چلا کہ بہت سے زخمی ہونے والے پولیس اہلکاروں کا تعلق دوسرے ضلعوں سے تھا۔ جبکہ ڈاکٹروں کے مطابق ملبے تلے دبے زخمیوں کو نکالنے کا کام اب بھی جاری ہے۔ اور اس کے نتیجے میں زخمیوں کو ہسپتال لایا جائے گا۔

BBC

لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں زیرِ علاج پولیس اہلکاروں نے بتایا کہ ان کو ہسپتال پہنچ کر ہوش آیا۔

 پولیس اہلکار حیات اللہ 20 دن پہلے لکی مروت سے پشاور ڈیوٹی کے لیے پہنچے تھے۔ انھوں نے کہا کہ ان کے گھر والوں کو نہیں پتا کہ وہ ہسپتال میں ہیں۔ ہمارے علاقے میں پچھلے کئی روز سے آپریشن جاری ہے۔

BBCBBC

لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں اس وقت زخمی ہونے والے 53  افراد زیرِ علاج ہیں۔ اور حکام کے مطابق یہ تعداد بڑھ سکتی ہے۔ جبکہ زیادہ تر زخمی اہلکار یا تو ادھر پوسٹنگ پر آئے ہیں یا پھر پشاور کے رہائشی ہیں۔ انھیں میں سے ایک یاسر امین بھی ہیں۔ اس وقت ان کے سر پر لگے چھروں کو نکال لیا گیا ہے۔ لیکن ان کی ٹانگ پر لگے چھروں کو تاحال ڈاکٹر ہاتھ نہیں لگانا چاہتے۔ ’ڈاکٹروں نے کہا ہے کہ یہ وقت کے ساتھ ختم ہوجائیں گے۔‘

خیبر پختونخوا اور بالخصوص پشاور میں پولیس پر ماضی میں بھی حملے ہوتے رہے ہیں۔ عرفان کے بھائی زاہد نے بتایا کہ ’یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ پولیس کتنی بے بس ہے اور دراصل ایسے واقعات کیوں ہوتے ہیں۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More