آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کا امکان: لیکن اسحاق ڈار کی معاشی پالیسی سے پاکستان کو کتنا نقصان ہوا؟

بی بی سی اردو  |  Feb 02, 2023

Getty Images

پاکستان اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے درمیان سات ارب ڈالر کے قرض پروگرام کی بحالی کے لیے مذاکرات شروع ہو چکے ہیں جو نو فروری تک جاری رہیں گے۔

پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کا حالیہ پروگرام گذشتہ سال ستمبر کے مہینے میں معطل ہو گیا تھا جس کی وجہ پاکستان کی جانب سے اس پروگرام سے منسلک شرائط پر عمل درآمد نہ کرنے کو قرار دیا گیا۔

پاکستان کے لیے آئی ایم ایف قرضہ پروگرام کے معطل ہونے سے جہاں ایک جانب قرضے کی قسط رُک گئی تو دوسری جانب دوسرے عالمی مالیاتی اداروں کی جانب سے پاکستان کے لیے قرض اور امداد کی آمد کا سلسلہ بھی رُک گیا۔

چار مہینے کے بعد پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان قرضہ پروگرام کی بحالی کے لیے مذاکرات کا آغاز تو ہو گیا تاہم اس پروگرام سے جڑی ہوئی شرائط پر پاکستان کی جانب سے عمل درآمد کی صورت میں ملک میں مہنگائی کی ایک نئی لہر آنے کے خدشے کا اظہار کیا جا رہا ہے جو جنوری کے مہینے میں 27.6 فیصد کی شرح سے بڑھی۔ یہ شرح ملک میں 47 سالوں میں مہنگائی کی بلند ترین سطح ہے۔

تاہم دوسری جانب ملک کے لیے آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل درآمد نہ کرنے کی صورت میں بیرونی فنانسنگ کے ذرائع نہ کھلنے کا خدشہ ہے جس کا اثر ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر پر منفی صورت میں پڑے گا جو اس وقت کم ترین سطح پر موجود ہیں۔

پاکستان کے مرکزی بینک کے پاس اس وقت 3.6 ارب ڈالر کے زرمبادلہ ذخائر باقی ہیں جب کہ کمرشل بینکوں کے پاس موجود ذخائر کو ملا کر ملک کے پاس مجموعی طور پر ذخائر کی مالیت 9.4 ارب ڈالر ہے۔

قرض پروگرام کی بحالی کے لیے مذاکرات سے قبل آئی ایم ایف کی کچھ شرائط پر پاکستان کی جانب سے عمل درآمد شروع کر دیا گیا ہے۔ دوسری جانب کچھ شرائط ایسی ہیں جن پر ابھی تک عمل ہونا باقی ہے۔

پاکستان میں معیشت اور ماضی سے لے کر آج تک ملک کے لیے آئی ایم ایف پروگرامز پر نظر رکھنے والے ماہرین کے مطابق پروگرام کی بحالی کے لیے پاکستان کو ان شرائط پر بھی عمل درآمد کرنا پڑے گا ورنہ ملک کی اقتصادی حالت مزید بگڑنے کا اندیشہ ہے۔

ان کے مطابق ’آئی ایم ایف پروگرام جاری رہتا تو مہنگائی اور ایکسچینج ریٹ میں تھوڑا بہت اضافہ تو ہوتا تاہم اس کے معطل ہونے سے مہنگائی اور ایکسچینج ریٹ میں جو بڑی گراوٹ آئی ہے وہ پروگرام جاری رہنے کی صورت میں کم ہوتی۔‘

پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کا موجودہ پروگرام کیا ہے؟

جولائی 2019 میں پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کا موجودہ قرضہ پروگرام اس وقت منظور ہوا جب پاکستان بیلنس آف پیمنٹ یعنی ادائیگیوں کے عدم توازن کا شکار تھا۔

مالیاتی امور کی ماہر ثنا توفیق نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جو ملک ادائیگیوں کے عدم توازن کا شکار ہوتا ہے اس کے لیے آئی ایم ایف کے پاس مختلف پروگرام ہوتے ہیں تاکہ وہ اس بحران سے نکل سکے۔‘

’ماضی میں بھی پاکستان کے لیے پروگرام آئے تاہم موجودہ پروگرام طویل مدتی پروگرام ہے جس میں قرضے کی واپسی ساڑھے چار سال سے دس سال تک ہوتی ہے یعنی فوری طور پر ادائیگی نہیں کرنی پڑتی۔‘

سٹرکچرل مسائل کے حل پر مبنی یہ پروگرام چھ ارب ڈالر کا پروگرام تھا جو جولائی 2019 سے شروع ہو کر ستمبر 2022 تک جاری رہنا تھا۔

مفتاح اسماعیل جب وزر خزانہ تھے تو انھوں نے اس پروگرام کو جون 2023 تک توسیع دینے کی درخواست کی اور یہ توسیع مل بھی گئی اور قرض پروگرام کی مالیت بھی بڑھا دی گئی۔ اس پروگرام کے تحت تین نظر ثانی جائزے باقی رہتے ہیں۔

آئی ایم ایف پروگرام جاری رہنے کی صورت میں معاشی حالاتکیا مختلف ہوتے؟Getty Images

گزشتہ برس موجودہ حکومت کے پہلے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کے فارغ ہونے کے بعد اسحاق ڈار نے وزارت خزانہ کا قلمدان سنبھالا تو آئی ایم ایف پروگرام اس وقت معطل ہو گیا جب ان کی جانب سے آئی ایم شرائط پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔

ان میں سب سے بڑی شرط ایکسچینج ریٹ کو مارکیٹ فورسز پر چھوڑنا تھا۔ اسحاق ڈار کی جانب سے ڈالر کے ریٹ کو مصنوعی طور پر روکا گیا تو اس کے ساتھ ساتھ پٹرولیم مصنوعات پر لیوی کو بھی فوری طور پر نہیں بڑھایا گیا جب کی دوسری جانب گیس اور بجلی کے شعبوں کے گردشی قرضوں کو ختم کرنے کے لیے ان کے نرخوں میں اضافہ نہ کرنے سے بھی پروگرام تعطل کا شکار ہو گیا۔

پروگرام جاری رہتا تو کیا ہوتا؟ اس بارے میں سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ معیشت کو جو بڑے نقصانات ہوئے ان میں سب سے زیادہ نقصان ایکسچینج ریٹ کو مصنوعی طور پر کنٹرول کرنا تھا۔

’اس سے ملک کو ڈیڑھ ارب ڈالر ترسیلات زر میں کمی برداشت کرنا پڑی کیونکہ سرکاری مارکیٹ کے کم ڈالر ریٹ کی وجہ سے بلیک مارکیٹ وجود میں آئی اور بیرون ملک سے ڈالر اس مارکیٹ میں چلا گیا۔‘

’اسی طرح ڈیڑھ ارب ڈالر ایکسپورٹ شعبے سے کم آیا جب برآمدات کی رقوم کو باہر روک لیا گیا۔ پروگرام جاری رہتا تو ملک کو تین ارب ڈالر کا نقصان سے بچایا جا سکتا تھا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ڈالر کم ہوئے تو ایل سی کھولنے کے لیے پیسے نہیں بچے اور ملکی بندرگاہوں پر درآمدی کنٹینروں کے پھنس جانے کی صورت میں ملک میں خوراک، تیل، ادویات اور دوسری ضروری اشیا کی کمی کے بارے میں خدشات بڑھے جو پروگرام جاری رہنے کی صورت میں پیدا نہ ہوتے۔‘

انھوں نے کہا کہ پروگرام جاری رہنے کی صورت میں ’ملک کے دیوالیہ ہونے کا خدشہ جنم نہ لیتا۔‘

یہ بھی پڑھیے

اسحاق ڈار کا متنازع بیان: ’یہ باضابطہ طور پر نااہلی کا اعلان ہے، اب ہمارا ملک اللہ کے ہاتھ میں ہے‘

کیا سعودی عرب کا دوست ممالک کی مشروط مالی مدد کا اعلان پاکستان کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے؟

سعودی عرب پاکستان کی مالی امداد کیوں کرتا ہے اور کیا پاکستان سعودی عرب کے لیے ایک طاقت ہے یا بوجھ؟

Getty Images

انھوں نے کہا کہ ’اگر آئی ایم ایف پروگرام جاری رہتا تو پاکستان کو ان قرضوں کی مؤخر ادائیگیوں کی سہولت بھی مل جاتی جو پروگرام کے معطل ہونے سے پاکستان کو ادا کرنے پڑے مثلاً متحدہ ارب امارات کے تجارتی بینک کو ادا کیے جانیوالے 1.1 ارب کے ری شیڈول ہونے کی سہولت مل جاتی اور اسی طرح چین کو واپس کیے جانے والے 50-70 کروڑ ڈالر کی ادائیگی کی ری شیڈولنگ میں بھی گنجائش مل جاتی جو پاکستان کے زرمبادلہ ذخائر کے لیے بہتر رہتے اور اس کے ساتھ دوسری ان فلوز بھی پاکستان میں آتے۔‘

ماہر معیشت ڈاکٹر عالیہ ہاشم خان نے بتایا کہ اگر آئی ایم ایف پروگرام جاری رہتا تو ایکسچینج ریٹ اور مہنگائی میں اضافہ تو ہوتا لیکن ان میں وہ شدت نہ ہوتی جو پروگرام کے معطل ہونے سے پیدا ہوئی۔

انھوں نے کہا کہ بلاشبہ آئی ایم ایف پروگرام کے تحت ایکسچینج ریٹ میں اضافہ ہوتا لیکن جس طرح اس پروگرام کے معطل ہونے اور دوبارہ جاری کرنے سے صرف کچھ دنوں میں ایکسچینج ریٹ میں ایک دم اضافہ ہوا تو وہ حالات پیدا نہ ہوتے۔

’اسی طرح مہنگائی تو لازمی طور پر بڑھنا تھی کیونکہ شرائط کے تحت ہمیں ٹیکس زیادہ اکٹھا کرنا ہے اور گیس اور بجلی کے ریٹ بڑھانے تھے تاہم اب وہ زیادہ شدت سے عام آدمی پر منفی اثرات مرتب کریں گے۔ اگر بتدریج بڑھتے رہتے تو یہ اثر اس طرح نظر نہیں آتا۔‘

ماہر معیشت ڈاکٹر حفیظ پاشا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آئی ایم ایف پروگرام کے جاری رہنے سے ملک دو سے ڈھائی ارب ڈالر کے نقصان سے بچ جاتا جو ایکسچینج ریٹ کو مصنوعی طور پر قابو رکھنے کی کوشش سے ہوا۔

انھوں نے کہا کہ ’اگر ڈالر ریٹ کو مصنوعی طور پر کنٹرول نہ کیا جاتا تو ملک کو پہنچنے والے اس بے پناہ مالی نقصان سے بچا جا سکتا تھا اور آج اقتصادی حالت اس قدر گراوٹ کا شکار نہ ہوتی کہ جہاں ملک کی معاشی بقا پر بہت بڑے سوال کھڑے ہو گئے ہیں۔‘

آئی ایم ایف قرض پروگرام کی بحالی کے لیے کن شرائط پر عمل درآمد کرنا پڑے گا؟Getty Images

پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے تحت پاکستان کو جن شرائط پر عمل کرنا پڑے گا ان میں معیشت سے متعلق اصلاحات اور گیس و بجلی کے شعبوں میں نرخ بڑھانے سے متعلق شرائط شامل ہیں۔

پاکستان کی وزیر مملکت برائے خزانہ ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا سے اس سلسلے میں رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی تاہم ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

دوسری جانب وزارت خزانہ کے ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف کی جانب سے پاور اور گیس کے شعبوں میں گردشی قرضے، پٹرولیم لیوی کے ذریعے ریونیو بڑھانے اور بجٹ خسارہ کم کرنے کی شرائط شامل ہیں۔

ان ذرائع کے مطابق بجٹ خسارے کو جی ڈی پی کے 4.9 فیصد پر رکھنے اور ایکسپورٹ سیکٹر کو دی جانے والی ایک سو دس ارب کی سبسڈی کے خاتمے کی شرائط بھی آئی ایم کی جانب سے پیش کی گئی ہیں۔

آئی ایم ایف کی شرائط کے بارے میں ڈاکٹر حفیظ پاشا نے کہا کہ ’پاکستان کی جانب سے آئی ایم ایف کی سب سے بڑی شرط پر تو پہلے سے عمل درآمد کر دیا گیا جب پاکستان نے ایکسچینج ریٹ کو گزشتہ ہفتے مصنوعی طور پر کنٹرول کرنے کی پالیسی کا خاتمہ کیا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اگرچہ اس کے خاتمے سے ڈالر کی قیمت میں ایک دم بڑا اضافہ دیکھنے میں آیا تاہم آئی ایم ایف کی ایک بڑی شرط پوری ہو گئی اور ایکسچینج ریٹ کو قابو کرنے کے لیے مصنوعی طریقہ کار ایک بڑی رکاوٹ تھی جسے دور کر دیا گیا۔‘

انھوں نے کہا کہ آئی ایم ایف پیٹرولیم مصنوعات پر لیوی کی مد میں اس مالی سال میں 855 ارب اکٹھا کرنے کا کہہ رہا ہے۔ ’پٹرول پر تو لیوی پچاس روپے فی لیٹر پہلے ہو چکی ہے اور ڈیزل پر چالیس روپے ہے وہ بھی کر دی جائے گی اور شاید مصنوعات پر سیلز ٹیکس بھی لگا دیا جائے تاکہ اس کے ذریعے ملک کے مجموعی ریونیو کر بڑھایا جائے۔‘

Getty Images

’تو یہ آئی ایم ایف کی اہم شرط ہے تاکہ ملکی بجٹ خسارے کو کم کیا جا سکے۔‘

آئی ایم ایف کی جانب سے شرائط میں کسی نرمی کی توقع کے بارے میں ڈاکٹر پاشا نے کہا کہ ’بین الاقوامی ادارہ پہلے ہی نرمی دکھا چکا ہے جب اس نے سیلاب کے بعد اٹھنے والے اضافی پانچ سو سے ساڑھے پانچ سو ارب روپے سے بجٹ خسارے کے بڑھنے کو قبول کیا کہ ایمرجنسی حالات کی وجہ سے پاکستان کو یہ اضافی اخراجات کرنا پڑے۔‘

آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کا کتنا امکان ہے اور یہ ملکی معیشت پر کیسے اثرانداز ہو گا؟

پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان جاری مذاکرات کے نتیجے میں ماہرین معیشت پروگرام بحالی کے بارے میں پرامید ہیں تاہم ان کے مطابق معیشت کو پہنچے والے نقصان کے ازالے کے لیے ابھی طویل عرصہ درکار ہو گا۔

اسلام آباد میں مقیم معاشی امور کے سینیئر صحافی شہباز رانا پروگرام کے بحال ہونے کے بارے میں پرامید ہیں اور ان کے مطابق اس بات کا امکان زیادہ ہے کہ جلد پاکستان کے لیے قرضے کی رکی ہوئی رقم ریلیز ہو جائے گی۔

مفتاح اسماعیل نے بھی اس امید کا اظہار کیا کہ پاکستان کے لیے آئی ایم ایف پروگرام بحال ہو جائے گا اور ’اس کا سب سے بڑ ا فائدہ یہ ہو گا کہ پاکستان کے دیوالیہ ہونے کے امکانات کافی حد تک کم ہو جائیں گے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’پروگرام کے معطل ہونے سے ڈیفالٹ ہونے کا چانس بڑھا اور سرمایہ ڈالر اور سونے کی خریداری میں جانے لگا جو معاشی صورتحال کے خراب ہونے کی علامت ہے۔‘

ڈاکٹر پاشا نے کہا کہ پروگرام بحالی سے مارکیٹ میں اعتماد کی بحالی ہو گی جو پروگرام کے معطل ہونے سے ختم ہو گیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کے پیسے آنے سے دوسرے عالمی مالیاتی ادارے بھی پاکستان کے لیے فنانسنگ شروع کر دیں گے۔

تاہم آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی سے مہنگائی کی شرح بڑھنے کا بھی امکان ہے۔

مالیاتی امور کی ماہر ثناء توفیق کے مطابق اس پروگرام کی بحالی سے جڑی شرائط پر عمل درآمد سے گیس، بجلی کے نرخ بڑھنے کے ساتھ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بھی مزید بڑھنے کی توقع ہے اور ’اگر فروری کے مہینے میں ان شرائط پر عمل درآمد ہو جاتا ہے تو ملک میں مہنگائی کی شرح 32 سے 33 فیصد تک چلے جائے گی جو جنوری کے مہینے میں 27.6 رہی۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More