بوائز وِل بی بوائز: ’لگتا ہے سی ایس ایس کا پرچہ بنانے والا انسٹاگرام کے ٹرینڈز سے بخوبی واقف تھا‘

بی بی سی اردو  |  Feb 02, 2023

تین گھنٹوں میں ’بوائز وِل بی بوائز‘ کے عنوان پر بندہ کیا مضمون لکھ سکتا ہے۔ یہ وہ سوال ہے جس پر گذشتہ روز سے پاکستان میں بحث کی جا رہی ہے۔

دراصل معاملہ یہ ہے کہ فیڈرل پبلک سروس کمیشن (ایف پی ایس سی) نے سال 2023 کا مقابلے کا امتحان (سی ایس ایس) کروایا جس میں معمول کے مطابق انگریزی مضمون کے امتحان میں ہزاروں امیدواروں کو 100 نمبروں کا ایک پرچہ تھمایا گیا۔

مگر اس بار مضمون کے عنوانات میں دیے گئے دس آپشنز میں سے آخری چوائس سوشل میڈیا صارفین کو سب سے الگ لگی جس میں امیدواروں کو تین گھنٹوں میں ’بوائز وِل بی بوائز‘ کے عنوان پر تفصیلی مضمون لکھنے کی دعوت دی گئی تھی۔

بعض لوگوں نے جہاں اس پرچے میں چھپے ’صنفی امتیاز‘ کی بات کی ہے وہیں کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ایسے کسی سوال کو خواتین اور مردوں سے جڑے تعصب توڑنے کے لیے بھی استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔

تاہم ایسے بھی لوگ ہیں جو پوچھتے ہیں کہ پرچے میں آیا ’بوائز‘ سے مراد ’پنڈی بوائز‘ تو نہیں۔

انگریزی مضمون کے پرچے کا فیمنزم سے رومانس

ہر سال گریڈ 17 کی سرکاری نوکری کے خواہشمند ہزاروں پاکستان شہری سی ایس ایس کے امتحانات دیتے ہیں جن میں سے صرف دو فیصد کے قریب ہی تحریری امتحان میں کامیابی حاصل کر پاتے ہیں۔

امیدوار ویسے تو ایک وسیع فہرست میں سے اپنی مرضی کے مضمون رکھ سکتے ہیں مگر کچھ مضمون لازمی ہوتے ہیں، جن میں انگریزی کے دو سبجیکٹس میں سے ایک ’انگلش ایسے‘ (انگریزی مضمون نویسی) ہے۔

بعض امیدواروں کے لیے یہ سب سے مشکل امتحان ہے جس میں بیشتر امیدواروں کے لیے زیادہ نمبر لینا تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔

ایف پی ایس سی نے 2019 میں اپنی سالانہ رپورٹ میں بتایا تھا کہ انگلش مضمون میں امیدواروں کی اکثریت عنوان کا مطلب سمجھے بغیر ’رٹے رٹائے مضمون پیش کر دیتے ہیں۔‘

اس کے مطابق مضمون میں ایک امیدوار کُھلی بحث کرتا ہے اور مضبوط دلائل کی مدد سے اپنے نظریات کا جواز پیش کرسکتا ہے۔

مگر ایف پی ایس سی کے مطابق امیدواروں کی بڑی تعداد اپنے سطحی مطالعے کی عکاسی کرتی ہے اور وہ (100 نمبروں کے لیے) 1200 سے 1300 لفظوں تک بھی پہنچنے میں ناکام رہتے ہیں۔‘ جبکہ اس میں یہ بھی بتایا گیا کہ امیدوار گرامر اور سپیلنگ کی غلطیاں کرتے ہیں۔

ایف سی پی ایس نے یہ تجویز دی تھی کہ اچھے اخبار اور مشہور کالم نگاروں کو پڑھنے سے امیدوار بہتر مضمون لکھ سکتے ہیں۔

مگر گذشتہ چند برسوں کے سی ایس ایس ’پاسٹ پیپرز‘ کا جائزہ لیا جائے تو انگریزی مضمون کا پرچہ بنانے والوں کی خواتین کے حقوق سے جڑے عنوانات میں خاصی دلچسپی رہی ہے۔

2023 میں ’بوائز ول بی بوائز‘ کے سوال سے قبل 2022 میں امیدواروں کے پاس 10 میں سے ایک چوائس یہ تھی کہ وہ ’خواتین کے حقوق کی نئی تحریک میں فیمنزم کے متنازع معاملات‘ پر مضمون لکھیں۔

جبکہ 2021 میں مضمون کے لیے ’صنفی برابری: ایک مقبول نعرہ‘ کے عنوان کا انتخاب کیا جا سکتا تھا۔

اور 2019 کے پرچے میں ’فیمنزم کی نئی تحریک اور ہماری تہذیب‘ کا عنوان دیا گیا تھا۔

تو یہ ’بوائز ول بی بوائز‘ ہے کیا؟

عین ممکن ہے کہ آپ نے برطانوی گلوکارہ دوعا لیپا کا معروف گانا ’بوائز ول بی بوائز۔۔۔ بٹ گرلز ول بی وومن‘ نہیں سنا ہو گا۔

انگریزی کے اس محاورے سے مراد ہے کہ اگر کوئی لڑکا یا آدمی بُرا یا ناقابل قبول رویہ اختیار کرتا ہے تو اس پر حیران نہیں ہونا چاہیے کیونکہ یہ ایک مردانہ شخصیت کا خاصہ ہے۔ مثلاً شور مچاتے، موٹر سائیکل پر ون ویلنگ کرتے لڑکے ایسا اس لیے کرتے ہیں کیونکہ وہ لڑکے ہیں۔

تاہم آج کے دور میں کئی لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ محاورہ نہ صرف صنفی امتیاز کی علامت ہے بلکہ مرد اس سے اپنے مجرمانہ رویوں پر احتساب سے بچ جاتے ہیں۔

آپ یوں سمجھ لیں کہ یہ ضرب المثل اور اس سے جڑا تعصب صنفی برابری اور خواتین کے حقوق کی می ٹو تحریک کا سب سے بڑا دشمن ہے۔

ریزر اور شیونگ پراڈکٹ فروخت کرنے والی کمپنی ’جلیٹ‘ نے یہی بات چار سال قبل ایک اشتہار میں بتانے کی کوشش کی تھی کہ ’لڑکے جیسا رویہ معمول میں آج دیکھیں گے، وہ کل کو ویسے ہی مرد بنیں گے۔‘

یہ بھی پڑھیے

سی ایس ایس کا امتحان پاس کرنے والی پانچ شیر بہنیں: ’ہماری ہر ایک بیٹی 500 بیٹوں پر بھی بھاری ہے‘

پاکستان کی پہلی سی ایس ایس خاتون پولیس افسر ہیلینا اقبال سعید: ’مجھے وردی میں دیکھ کر لوگ حیرت سے گر جاتے تھے‘

سی ایس ایس 2021 نتائج: سندھ میں ہندو برادری کے مینگھواڑ کون ہیں اور میدانِ تعلیم میں ان کی کامیابیوں کی وجہ کیا ہے؟

https://twitter.com/Gillette/status/1084850521196900352

اس اشتہار میں دکھایا جاتا ہے کہ کیسے مردوں کی جانب سے کی جانے والی بُلینگ اور جنسی ہراسانی کو ’بوائز ول بی بوائز‘ کہہ کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔

اور یہ سوال کیا جاتا ہے کہ ’ہم کب تک اپنے بُرے رویے کے لیے یہ جواز پیش کرتے رہیں گے؟‘

پاکستان جیسے پدرشاہی معاشرے میں بھی اکثر یہ بحث سننے کو ملتے ہے کہ جہاں خواتین کے خلاف نفرت، پُرتشدد واقعات اور غیرت کے نام پر قتل جیسے سینکڑوں مقدمات ہر سال درج ہوتے ہیں۔ مگر مردوں کے متعصب برتاؤ کو صنفی بنیادوں پر قبول کر لیا جاتا ہے۔

’پرچہ بنانے والا انسٹاگرام ٹرینڈ سے واقف تھا‘

سی ایس ایس کے اس پرچے نے سوشل میڈیا پر بھی توجہ حاصل کی ہے جہاں بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ بیوروکریسی اور انتظامیہ میں صنفی تعصب کو نمایاں کرتی ہے جبکہ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ بحث کے لیے یہ ایک اچھا موضوع ہے جس پر صنفی برابری کے حق میں دلائل دیے جا سکتے ہیں۔

https://twitter.com/SayedaIrum/status/1620853319819468802

دانش کہتے ہیں کہ ملک کی معاشی صورتحال، مہنگائی، ڈالروں کا بحران اور ہر طرف لوگوں میں پریشانی ہے مگر ایف پی ایس سی کا خیال ہے کہ بوائز دل بی بوائز مضمون کے لیے اچھا عنوان ہے۔

سیدہ ارم کا کہنا ہے کہ سب سے اہم عنوانات چھوڑ کر سی ایس ایس امتحان بنانے والوں نے پوچھا کہ فیمنسٹس مردوں کے بارے میں کیا سوچتی ہیں۔‘

https://twitter.com/notrlly_huzaifa/status/1620801012482342915

https://twitter.com/zarjan_5/status/1620788354899136512

حذیفہ کا خیال ہے کہ ’یہ سب سے دلچسپ اور چیلنجنگ امتحانات میں سے ایک ہے۔ آپ سب اس پر پاگل ہو رہے ہیں کیونکہ انھوں نے ماحولیاتی تبدیلی، کووڈ 19 یا امریکی اجارہ داری کا نہیں پوچھا۔‘

ان کی رائے میں ’سارا ملک چار سے پانچ مضمون رٹ کر سی ایس ایس دینے جاتا ہے۔‘

اسی طرح بی بی زرجان کہتی ہیں کہ ’میں سی ایس ایس کی فین نہیں لیکن مجھے نہیں لگتا ہے کہ یہ اتنا کوئی بُرا عنوان ہے۔ اس میں صنفی امتیاز، مردانہ استحاق اور زبان و بیان کے مختلف عوامل پر بات ہوسکتی ہے۔‘

https://twitter.com/says_aky/status/1620678596061982727

https://twitter.com/frenxomb/status/1620686762023731202

تاہم کچھ صارفین نے اس پرچے کو صرف طنز و مزاح میں اڑانے کے لائق سمجھا ہے۔ کوئی یہ پوچھتا نظر آیا کہ اس عنوان میں کیا ’بوائز‘ سے مراد ’پنڈی بوائز‘ ہے۔ تو کسی نے تبصرہ کیا کہ لگتا ہے کہ پرچہ بنانے والا شخص انسٹاگرام کے ٹرینڈز سے کافی واقف ہے۔

جیسے ایک صارف نے مصنوعی ذہانت کے سرچ انجن چیٹ جی پی ٹی سے پوچھ لیا کہ اس کے مطابق بوائز ول بی بوائز بہترین مضمون کیسے لکھا جا سکتا ہے۔

اس پر چیٹ جی پی ٹی نے بتایا کہ اس محاورے کو چیلنج کرنا اس لیے ضروری ہے تاکہ صنفی برابری کو فروغ دیا جا سکے۔ یوں اس نے ایسا مضمون لکھ چھوڑا جس پر سی ایس ایس امتحان کا چیکر بھی سوچ میں پڑ جائے۔

https://twitter.com/Syyeda14/status/1620711303483629569

https://twitter.com/SalAhmedPK/status/1620740385848037377

دوسری طرف کچھ صارفین اسے نسبتاً سنجیدہ بحث کی طرف لے گئے۔

صلاح الدین پوچھتے ہیں کہ ’ایف پی ایس سی امیدواروں کا جائزہ لینے کے لیے ان سے پانچویں کلاس کے طلبہ سے کیے جانے والے سوال کیوں پوچھتا ہے؟ ۔۔۔ اس لیے کوئی حیرانی کی بات نہیں کہ ہماری بیوروکریسی کا معیار گِر رہا ہے۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More