دنیا بھر میں خواتین ’نارمل ڈیلیوری‘ کی خواہش ہی کیوں کرتی ہیں؟

بی بی سی اردو  |  Feb 05, 2023

Getty Images

انتباہ: اس تحریر میں زچگی کے عمل سے متعلق تکلیف دہ تفصیلات شامل ہیں جو کچھ قارئین کو پریشان کن لگ سکتی ہیں۔

بہت سی حاملہ خواتین کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ کسی طبی پیچیدگی کے بغیرایک ’خوبصورت‘ زچگیسے گزریں۔یہ بات چند خواتین کے لیے تو ممکن ہو جاتی ہے مگر ایسی خواتین جن کو ایسا نصیب نہیں ہوتا ان کے لیے یہ سوچنقصان دہ ہو سکتی ہے۔

جب ایما کیر2021 میں حاملہ ہوئیں تو ان کے پاس اپنی مثالی زچگی کا ایک تصور تھا۔ یہ بہت بنیادی سطح کا تھا۔ وہخود کو بااختیار محسوس کرنا چاہتی تھی۔ انھوں نے زچگی کے 'قدرتی‘طریقے یعنی نارمل ڈیلیوری کی امید ظاہر کی تھی جس میں معمولی طبی مداخلت اور مصنوعی لیبر پین سے ممکنہ حد تک مدد ملتی ہے۔

انھوں نے دو کورسز کیے جن میں ایک مقبول طریقہ جسے 'ہپنو برتھنگ' کہا جاتا ہے، جس میں درد کو کم کرنے اور ڈیلیوری کے دوران حواس بحال رکھنے اور پرسکون رہنے کے متعلق بتایا گیا تھا۔ اور جیسا کہ ان کے انسٹرکٹرز نے تجویز کیا، انھوں نے صحت مند، خوشگوار، غیر تکلیف دہ زچگیکی ویڈیوز دیکھیں تاکہ صحیح سوچپیدا کی جا سکے۔

لندن میں رہنے والی 36 سالہ کیر کا کہنا ہے کہ ’آپ زچگی کی یہ تمام ویڈیوز دیکھیں تو یہ بہت خوبصورت ہیں۔ نوزائیدہ واقعی آسانی سے ماں کے رحم سے باہر آجاتے ہیں اور انھیں دیکھتے ہوئے آپ بالکل ایسا سوچتے ہیں کہ میرے ساتھ ایسا ہی ہو گا۔‘

لیکن زچگی کے وقت جب کیر کو پانی کا اخراج ہوا تو اس سیال میں میکونیم شامل تھا، یعنی جنین کا پاخانہ، جو ماں اور بچے کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے۔ جب وہ ہسپتال پہنچیں تو ڈاکٹروں نے بتایا کہ انھیں فوری طور پرآپریشن کے ذریعے بچے کو نکالنا ہوگا۔ دو گھنٹے بعد، وہ آپریشن تھیٹر پر تھیں اور اپنی مثالی، طبی مداخلت سے پاک قدرتی زچگی کے امکان سے بہت دور۔۔۔ ان کا بچہ سیزرین سیکشن کے ذریعے پیدا ہوا تھا۔

وہ کہتی ہیں کہ سب سے بری بات یہ تھی کہ وہ اس قسم کے نتائج کے لیے بالکل تیار نہیں تھیں، حالانکہ انھوں نے مثبت سوچ پیدا کرنے کے لیے کتنی توجہ مرکوز کی اور کورسز کیے۔

’اگر میرے ذہن میں یہ نہ ہوتا کہ اسے کیسے ہونا چاہیے تھا، تو میں اسے ایک ناکامی کی طرح نہ محسوس کرتی۔ کاش میرے انسٹرکٹرز اس بارے میں کچھ زیادہ کھل کر بات کرتے کہ یہ زچگیاں کیسے ہوتی ہیں۔ اور یہ کہ آپ نے ہپنو برتھنگ کی ہے تو ہمیشہ سب ٹھیک نہیں ہوتا۔‘

کیر کا کہنا ہے کہ جب وہ حاملہ تھیں تو دوستوں نے انھیں متنبہ کرنے کی کوشش کی کہ شاید انھیں زچگی میں اس طرح درد نہ آئیں جس کی وہ امید کر رہی تھی۔ لیکن انھوں نے یہ سوچ کر انھیں مسترد کر دیا کہ شاید وہ اپنی مرتبہ اس ذہنی تکنیک کے ساتھ نہیں گئے تھے جو وہ کریں گی۔

کیر کہتی ہیں ’وہ لوگ جنھیں آپ عام طور پر سنتے ہیں، آپ سننا چھوڑ دیتے ہیں، کیونکہ آپ کے ذہن میں یہ دوسرے لوگ ہوتے ہیں جو آپ کو یہ بتاتے ہیں کہ زچگی قدرتی اور جادوئی ہوگی اور یہ کہ آپ کا جسم بالکل ایسا کرنے کے لیے تیار کیا گیا ہے، لیکن مجھے نہیں لگتا کہ میرا تھا۔‘

بہت سی خواتین کو زچگی کے اس طریقہ کار سے فائدہ بھی ہوا۔ یہاں تک کہ کچھ کو مثالی حالات کا سامنا ہوا جیسا کے انھیں امید تھی۔ صحیح تکنیک کے ساتھ جیسے سانس لینا، مالش کرنا وغیرہ، اس کے کچھ حامی کہتے ہیں کہ زچگی خوشگوار ہو سکتی ہے یہاں تک کہ اس سے تسکین بھی ملتی ہے۔ لیکن دوسروں جیسے کیر کے لیے یہ نہ صرف ایک تکلیف دہ زچگی کا باعث بنی بلکہ بہت سے طریقوں کے لیے تیاری نہ ہونے کی وجہ سے اس نے ان کے تجربے کو اور بھی بدتر بنا دیا ہے۔

Getty Imagesایک تحریک کا آغاز

تاریخ میں زیادہ تر خواتین زچگی کے درد کے دوران مر گئیں، 1600 اور 1700 میں یہ شرح ہر 100 میں سے ایک زچگی کی رہی۔ اینٹی بائیوٹکس سمیت سائنسی ترقی سے دورانِ زچگی کی شرح اموات میں کمی آئی ہے۔

طبی برادری نے حفاظت کے حوالے سے اپنی توجہ کے دائرے کو بڑھایا اور بہت سے ممالک میں درد میں کمی کی ادوایات کی تکنیک جیسے ایپیڈورل عام ہو گئی۔ آج بھی ان ممالک میں دورانِ زچگی شرح اموات سب سے زیادہ ہے جہاں ان پیچیدگیوں کے لیے وہ مناسب طبی دیکھ بھال نہیں جن کا علاج کسی دوسرے ملک میں آسانی سے کیا جا سکتا ہے۔

بہت سی زچگیوں کے دوران والدین درد سے نمٹنے کے لیے جدید طریقوں کا انتخاب کرتے ہیں، اور بہت سے ڈاکٹر بھی اس کی سفارش کرتے ہیں۔ لیکن دیگر خواتین اور صحت کے ماہرین کا خیال ہے کہ پیدائش کا عمل اس سمت میں بہت آگے جا چکا ہے اور طبی مداخلت پر زیادہ انحصار غیر ضروری، خطرناک، حتیٰ کہ غیر انسانی بھی ہو سکتا ہے۔

مثال کے طور پر سنہ 1960 کی دہائی میں امیر ممالک میں خواتین اکثر جنرل اینستھیزیا کے ساتھ بے ہوشی کی حالت میں بچوں کو جنم دیتی تھیں۔ ممکن ہے کہ انھوں نے درد محسوس نہ کیا ہو، لیکن وہ حاضر دماغ رہتے ہوئے اپنی صحت اور بہتری کے حوالے سے لمحاتی فیصلے نہیں کر سکتیں۔

آج بہت سی خواتین زچگی کو مثالی بنانے کی کوشش کرتی ہیں جسے ’مثبت زچگی‘ کہا جاتا ہے۔ برطانیہ میں زچگی مہم چلانے والے اور مثبت زچگی تحریک کے بانی ملی ہل کہتی ہیں کہ ’مثبت زچگی‘ کی اصطلاح، اصل میں کسی خاص قسم کی زچگی نہیں بلکہ یہ ایک وسیع موضوع ہے۔

ایسوسی ایشن کی ویب سائٹکے مطابق ’مثبت زچگی کاقدرتی یا ادویات سے پاک ہونا ضروری نہیں ہے، یہ صرف خوف کے برعکس آگاہ ہونا ہے۔‘

’آپ ہسپتال میں یا گھر میں، طبی مداخلت کے ساتھ یا اس کے بغیر مثبت رویے کے ساتھ بچے کو جنم دے سکتے ہیں۔‘ ویب سائٹ کے مطابق یہ ایک ایسا تجربہ ہے جہاں ایک عورت محسوس کرتی ہے کہ اسے ’انتخاب کی آزادی، درست معلومات تک رسائی، اور یہ کہ وہ باختیار اور قابل احترام ہے‘ اور ساتھ ہی وہ اس تجربے کا لطف لے رہی ہے جسے بعد میں وہ گرمجوشی اور فخر کے ساتھ یاد رکھے گی‘۔

پھر بھی بہت سی خواتین جو مثبت زچگی سے متعلق کورسزپر عمل کرتی ہیں کہتی ہیں کہ وہ خاص طور پر ’قدرتی‘ زچگی کو آئیڈیلائز کرتی ہیں۔ کچھ انسٹرکٹرز اس بات پر زور دیتے ہیں کہ زچگی کس طرح ’مثبت‘ ہو سکتی ہے اور یہ کہ عورت کے جسم کو بچے پیدا کے لیے کس طرح ’بنایا‘ گیا ہے اور ذیلی معلومات یہ ہو سکتیں ہیں کہ طبی مداخلت اس عمل میں مدد کرنے کے بجائے رکاوٹ بنتی ہیں۔

ان میں سے بہت سے طریقوں کا ایک بنیادی اصول ہے کہ چونکہ خوف اور اضطراب جسم میں ایڈرینالین جیسے ہارمونز کو بڑھاتا ہے جو لیبر یعنی درد زہ کو کم کر سکتا ہے اور زچگی کو بہتر محسوس کرواتا ہے۔ اس لیے زچگی کی جگہ کو گھر جیسا اور آرام دہ محسوس کرانے سمیت، زچگی کے لیے ساتھی (یا ٹیم) کا تعاون فراہم کیا جانا، سانس لینے یا مراقبے کی تکنیک کا استعمال کرتے ہوئے اور سب سے بڑھ کر لیبر میں جاتے ہوئے پرسکون اور پراعتماد محسوس کرنا، اس سے آکسیٹوسن کی پیداوار بڑھتی ہے جس سے لیبر کو تیز اور کم تکلیف دہ بنایا جا سکتا ہے۔

قدرتی طریقے سے ہونے والی زچگی کی مقبولیت کی ایک طویل تاریخ ہے، یہ کم از کم 1930 کی دہائی تک جاتی ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ قریباً وہی وقت ہے جب امراض نسواں کے پہلے کالج کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ بہت سی خواتین کے لیےاس طرح کے طریقہ کار زیادہ اہمیت نہیں رکھتے:اگر آپ ہر ممکن حد تک درد کے بغیر جنم دینا چاہتے ہیں، تو کیوں نہ ہر جدید طبی مدد اور دستیاب دوائیوں کا استعمال کریں؟

لیکن دوسروں کے ذہنوں میں ’قدرتی‘ مثالی زچگیوں کی یہ تصویر اٹک گئی ہے جسے زچگی کی تعلیم دینے والی صنعت نے بڑھاوا دیا ہے۔ سوشل میڈیا پر ہر جگہ پُرسکون موسیقی اور موم بتیوں کے ساتھ آرام دہ پانی میں ہونے والی زچگی کی خوبصورت کہانیاں بکثرت موجود ہیں۔

زچگی کی ان تحریکوں کے بہت سے فوائد ہیں کم از کم ان کا مقصد فیصلہ سازی کو دوبارہ جنم دینے والے والدین کے ہاتھ میں دینا ہے۔ لیکن ’مثبت‘ اور ’قدرتی‘ دونوں طریقوں کا ثقافتی نظریات کے پیش نظر کچھ خواتین کے لیے، ایک منفی پہلو ہے۔

کلاسوں کی تعداد یا پر سکون رہنے کی تکنیک ہمیشہ اس حقیقت پر قابو نہیں پا سکتی ہیں کہ ہر زچگی کے حالات مختلف ہوتے ہیں۔ دیکھ بھال کے معیار میں رنگ و نسل کی بنیاد پر تفاوت ہوسکتی ہے۔ خواتین بعض اوقات دباؤ کا شکار ہوتی ہیں اور انھیں طبی مداخلت کو قبول کرنا پڑتا ہے۔ یہاں تک کہ لیبر کے دوران بااختیار محسوس کرنے، یا زچگی کی دلکش یادیں رکھنے کے آسان ترین مقاصد بھی پہنچ سے باہر محسوس ہو سکتے ہیں۔

یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ان میں سے کچھ کورسز کے لیے جو وقت اور مالی سرمایہ ضروری ہوتا ہے وہ بہت سے لوگوں کی پہنچ سے باہر ہے۔ ان کی لاگت آن لائن 50 ڈالر یا نجی رہنمائی کے لیے ایک ہزار ڈالر سے زیادہ ہوسکتی ہے۔

اس نقطہ نظر کے حامیوں کا کہنا ہے کہ بجائے اس کے کہ مائیں اپنی توقعات کو کم کریں طبی حکام کو ان مسائل کو حل کرنے کے لیے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ ایسی خواتین جن کی زچگی منصوبہ بندی کے مطابق نہیں ہوتی ایک انتہائی مخصوص اور اکثر آئیڈیلائزڈ زچگی کا تصور ان پر غیر ضروری دباؤ ڈال سکتا ہے۔ بدترین صورت میں وہ خود کو یا اپنے بچوں کو ناکامسمجھ کر سکتی ہیں۔‘

Getty Imagesپانی میں پرسکون زچگی سے متعلق سوشل میڈیا پر درجنوں ویڈیوز موجود ہیں'میں تین بار خوش قسمت نہیں ہو سکتی تھی‘

یقیناً، بہت ساری ماؤں کے لیے مثبت زچگی کے طریقے مددگار رہے۔

برلن کی 32 سالہ ایڈوینا مور ہاؤس نے یوٹیوب بلاگر کو اپنے تجربے کے بارے میں پرجوش دیکھنے کے بعد اپنے شکوک کو ایک طرف رکھ دیا۔ وہ کہتی ہیں ’میں واقعی میں وہ خوشی چاہتی تھی جو میں دیکھ رہی تھی‘۔

انھوں نے ہپنو برتھنگ کورس کیا، سانس لینے کی تکنیک کی مشق کی اور ہفتہ وار ایکیوپنکچر کروایا۔ ان کی زچگی کا عمل آسان اور پرسکون رہا، ان کی دوسری زچگی بھی ایسی ہی تھی۔

اپنے تیسرے بچے کی مرتبہ وہ زچگی کو گلابی ہمالیائی نمک کے لیمپ، بڑے ہیڈ فون اور گرم جرابوں کی مدد سے مزید آرام دہ بنانا چاہتی تھیں۔

’میں تینوں بار خوش قسمت نہیں ہو سکتی، ہے ناں؟ اس میں کچھ تو ہونا چاہیے۔‘

’تیسرے بیٹے کی دفعہ میں ہپنو برتھنگ کے آڈیو سن رہی تھی، میرا دماغ یوٹیوب پر آنے والی مثبت کہانیوں سے بھرا تھا، میں نے اس ایک شیمپو پر ایک احمقانہ رقم خرچ کی جس کی خوشبو کے بارے میں دعویٰ تھا کہ یہ فوری درد سے نجات دیتی تھی، لیکن میں وہ عورت نہیں تھی جو چھ سال پہلے حاملہ تھی۔‘

یقیناً اس بات کے کچھ ثبوت موجود ہیں کہ بہت سے زچگی کے کورسز میں سکھائی جانے والی تکنیکیں درد اور ایپیڈورل کے استعمال کو کم کر سکتی ہیں، طبی مداخلت اور لیبر کے دورانیے کو کم کر سکتی ہے، سی سیکشن کی شرح کم کر سکتی ہیں ، اور ماں کی زچگی کے مجموعی تجربے کو بہتر بنا سکتی ہیں۔ لیکن یہ نتائج ہمیشہ ایک سے نہیں ہوتے۔

ایک بڑے جائزے سے ظاہر ہوا کہ اگرچہ کچھ مشہور عناصر، جیسے تربیت یافتہ زچگی کراونے والی ساتھی کی موجودگی یا سکون کے لیے موسیقی یا مساج کا استعمال، اس امکان کو کم کرنے میں مدد کرتا ہے کہ عورت اپنے زچگی کے تجربے کو ’منفی‘ تجربے کے طور پر دیکھے گی۔

ایک اور جائزے میں بتایا گیا کہ موسیقی، یوگا اور پر سکون رہنے کی تکنیک جیسے گائیڈڈ مراقبہ درد کو کم کرنے میں مدد کر سکتے ہیں۔ لیکن ان سے سی سیکشن سمیت زچگی کے لیے طبی مداخلت کی شرح میں کمی نہیں ہوئی۔

بیتھ سینڈ لینڈ ایک لائف سٹائل بلاگر ہیں وہ کہتی ہیں ’پیغام یہ ہے کہ آپ اس کے لیے بنائے گئے ہیں، یہ فطری ہے، عورتیں ہمیشہ سے ہی یہ کر رہی ہیں، آپ کا جسم جانتا ہے کہ وہ کیا کر رہا ہے، آپ کا بچہ جانتا ہے کہ وہ کیا کر رہا ہے۔‘

’میں یہ نہیں کہوں گی کہ یہ خوف پھیلانا ہے لیکن یقینی طور پر اس کا ایک اثر ہے، یقیناً ہسپتال آپ کے بہترین مفاد میں کام نہیں کرتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ ڈاکٹروں کے پاس زچگی کے بارے میں حقیقت پسندانہ نقطہ نظر ہو‘۔

پھر بھی ضروری نہیں کہ صرف مداخلت ’مثبت‘ تجربے کا حتمی ثالث ہوں۔ درحقیقت، تحقیق سے پتا چلا ہے کہ عورت کے خیال میں اس کی زچگی مثبت تھی یا نہیں اس کا سب سے اہم پہلو یہ تھا کہ لیبر میں کتنا وقت لگا۔

وہ لوگ جن کو کم دورانیے کے لیے لیبر ہوا وہ زیادہ مطمئن تھے، حتیٰ کہ اگر ان کے لیبر کو آکسیٹوسن بڑھانے جیسی مداخلت سے کم کیا گیا تھا۔ طویل لیبر کے اثر کو دیکھتے ہوئے محققین نے نتیجہ اخذ کیا، ’اس سے بچنے کے لیے مداخلت سے فائدہ ہوسکتا ہے۔‘

بہت سی خواتین کے لیے، یقیناً طبی مداخلت زندگی بچانے والی بھی ہو سکتی ہیں۔ کیر کہتی ہیں ’ اس طرح ہے کہ آپ کو وہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے جو وہ آپ کو بتاتے ہیں۔ اور ڈاکٹر آپ کو سنبھالنے کے لیے تیار ہوتے ہیں‘۔

’جبکہ وہکہتے ہیں اوہ، یہ خطرناک نہیں ہے، یہ قدرتی ہے۔‘یہ سچ ہو سکتا ہے، لیکن ہمیشہ نہیں۔ میرے خیال میں میرے لیے خطرہ تھا، اگر میں نے کوئی طبی مدد نہ لی ہوتی تو ہم میں سے کوئی بھی زندہ نہ بچ پاتا۔۔۔ مجھے نہیں لگتا کہ میں جنگل میں اس بچے کو آسانی جنم دے پاتی۔ ‘

Getty Imagesیہ صرف ایک آئیڈیل ہے نہ کہ معمول

’قدرتی زچگی‘ جس میں ہر چیز مکمل طور پر اور طبی مداخلت کے بغیر ہوتی ہے، اب بھی معمول سے بہت دور ہے۔ مثال کے طور پر، امریکہ میں 2020 میں، سی ڈی سی کا ڈیٹا ظاہر کرتا ہے کہ تمام زچگیوں میں سے تقریباً ایک تہائی میں لیبر دیے گئے۔ اس کے علاوہ، ایک تہائی سیزرین ڈیلیوری (سی سیکشن) تھیں۔ گھریلو زچگیاں جنھیں اکثر’قدرتی‘ زچگیوں کے طور پر دیکھا جاتا ہے صرف ایک فیصد ہیں۔

لیکن بہت سے والدین کے لیے جو اپنے ’مثبت‘ نقطہ نظر کے مقصد کے طور پر فطری پیدائش پر زور دیتے ہیں، ان کی زچگی ہمیشہ منصوبہ بندی کے مطابق نہیں ہوتی ہے اور اس کے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ کچھ ماؤں کا کہنا ہے کہ صرف اپنی مثالی زچگی پر توجہ مرکوز کرکے انھوں نے حقیقت سے نظریں چرائیں، اور وہ اپنی مطلوبہ کامل زچگی کا تجربہ نہ کرنے پر اضافی غم محسوس کرتی تھیں۔ ایک تحقیق میں 15فیصد خواتین جن کا غیر متوقع سی سیکشن ہوا انھوں نے بتایا کہ انھیں ایسا محسوس ہوا جیسے وہ ’ناکام‘ ہو گئی ہیں۔

ٹورنٹو میں، 38 سالہ اینڈی پیرس اپنی پہلی زچگی سے قبل ’زیادہ سے زیادہ قدرتی تجربہ‘ چاہتی تھیں۔ انھوں نے ہپنو برتھنگ کورس کیا، ریلیکسیشن آڈیو ٹریکس سنیں اور انا مے گاسکن کا آن چائلڈ برتھ پڑھا، جو کہ ’خواتین کے سانس لینے اور ان کے جسم کو سنبھالنے کی پرسکون ڈیلیوری کی کہانیوں سے بھری ہوئی تھی۔‘

وہ کہتی ہیں ’میں نے زچگی کی ان خوبصورت کہانیوں کو دیکھا اور سنا تھا اور میں اپنے لیے یہی توقع کر رہی تھی کیونکہ میں نے سارا کام کر لیا تھا۔ مجھے واقعی یقین تھا کہ اس سے میری ڈیلیوری کا نتیجہ بدل جائے گا۔‘

اس کے بجائے پیرس تقریباً 24 گھنٹے تک لیبر میں رہیں۔ ان کا پیلوک فلور ’مکمل طور پر تباہ‘ ہو گیا تھا۔ ان کے بیٹے کو جنم دینے کے لیے بالآخر ویکیوم کی مدد لی گئی۔ پیرس کو بعد پوسٹ پارٹم ہیمرج ہوا۔

وہ سوچتی ہیں کہ شاید ان کا سی سیکشن ہونا چاہیے تھا۔ لیکن وہ اس کے خلاف کھڑی تھیں۔ وہ کہتی ہیں، ’یہ سوچ کہ بچہ پیدا کرنے کا کوئی ایک ’صحیح‘ طریقہ تھا، میں نے اُس صحیح طریقے پر توجہ مرکوز کر دی، اور یقیناً کوئی بھی صحیح راستہ نہیں ہے۔ لیکن میں اس تصور میں قید تھی کہ قدرت نے آپ کے لیے بچہ پیدا کرنے کا ایک طریقہ وضح کر رکھا ہے۔‘

پیرس کا کہنا ہے کہ چونکہ وہ اپنی لیبر میں جانے والی مثبت ذہنیت کو برقرار رکھنے پر بہت توجہ مرکوز کرتی تھیں، وہ اس بات کے لیے تیار نہیں تھیں کہ یہ مختلف طریقے سے ہو سکتا ہے۔ نتیجتاً’جب مخالف سمت جانے لگیں، تو میرے لیے انھیں اپنانا بہت مشکل تھا۔‘

اپنے دوسرے بچے کے لیے، انھوں نے وہی پرسکون کرنے والے آڈیو ٹریکس سننے کی کوشش کی جو وہ اپنے پہلے بچے کے لیے خود کو تیار کرنے کے لیے سنتی تھیں۔ انھیں انگزائٹی محسوس ہوئی کہ انھیں اسے روکنا پڑا۔

ایمیلیانا ہال برطانیہ میں مقیمہیں اور دی مائنڈفل برتھ گروپ کی بانی ہے، جو خواتین کو زچگی کی تیاری میں مدد کرتی ہیں۔ ہال کہتی ہیں کہ ان کا نقطہ نظر لیبر کی کسی بھی شکل کو مثالی بنانے سے گریز کرتا ہے اور اس کے بجائے تمام ممکنہ نتائج کا احاطہ کرتا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ انھوں نے دوسری بار ماں بننے والی کئی خواتین کو دیکھا جو کہتی ہے کہ ’مثبت‘ پیدائش کا طریقہ اختیار کرنے کے بعد ان کا پہلا تجربہ ان کی توقعات کے مطابق کامیاب نہیں ہوا۔

ہال کا کہنا ہے کہ مسئلہ صرف اتنا نہیں ہے کہ انھیں منفی تجربہ ہوا بلکہ یہ ہے کہ وہ اس کے لیے خود کو قصوروار ٹھہراتی ہیں۔

یہ اس نقطہ نظر کے خطرات ہوسکتے ہیں جو صرف ذہن سازی پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔ وہ کہتی ہیں ’بہت سے کورسز خوف اور اضطراب کو دور رکھنے کے لیے صرف زچگی کی مثبت کہانیوں کو سننے، یا یہاں تک کہ منفی الفاظ جیسے’درد‘ کو تبدیل کرنے کا مشورہ دیتے ہیں تاکہ تناؤ کے ہارمونز نہ بنیں۔ اگر کوئی عورت درد یا صدمے کے احساس کو ختم کر دیتی ہے، تو وہ سوال کر سکتی ہے کہ کیا ایسا اس لیے تھا کہ وہ پر سکون نہیں تھی۔

ہال کا کہنا ہے کہ ’جب یہ طریقہ کام نہیں کرتا تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یا تو وہ ناکام ہو گئیں، یا یہ وقت کا مکمل ضیاع تھا۔ لیکن ایسی بہت سی چیزیں ہیں جن پر آپ قابو نہیں پا سکتے۔‘

ہال کہتی ہیں اپنے کورسز میں وہ محتاط رہتی ہیں کہ ’مثبت زچگی‘ کا فقرہ بھی استعمال نہ کریں کیونکہ زچگی کو بہتر بنانے کے لیے تکنیک سکھانے کے باوجود وہ اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ چیزیں منصوبہ بندی کے مطابق ہوں گی۔

'میں نے ایسے تیاری کی جیسے یہ کوئی امتحان ہو'

مثبت زچگی تحریک کا ایک بڑا حصہ بااختیار بنانے پر مشتمل ہے۔ درحقیقت، کنٹرول میں محسوس کرنا اور فیصلہ سازی میں شامل ہونا ایک مثبت تجربہ رکھنے کا ایک بڑا حصہ ہے۔ اور یہاں تک کہ اگر ڈیلیوری کے دوران پیچیدگیاں ہوں، تب بھی کچھ خواتین کو کچھ ایسی تکنیکیں مل جاتی ہیں جو انھیں خود پر قابو پانے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔

گلاسگو میں، 34 سالہ اینا مرے نے اپنے لیبر کے لیے ممکنہ طور پر تمام تیاری کی۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میں نے اس کے لیے اس طرح مطالعہ کیا جیسے یہ کوئی امتحان ہو‘۔ انھوں نے ایک نجی کورس کیا، کتابیں پڑھیں، یوگا ہپنو برتھنگ کورس کیا۔ یہاں تک کہ ان کے پاس اپنے تمام آڈیو ٹریکس اور زچگی کے مختلف مقامات کے لیے یوگا ویڈیوز سے بھرا گوگل ڈرائیو فولڈر بھی تھا۔

لیکن آخر کار انھیں غیر متوقع طور پر سیزرین کی ضرورت پڑی، ان کا بیٹا بہت بڑا ہو گیا تھا اور ایک خاصپوزیشن میں تھا جسے وہ جتنی چاہے ورزش کرتیں بدلا نہیں جا سکتا تھا۔ لیکن سانس لینے کی تکنیک نے انھیں آپریٹنگ ٹیبل پر پرسکون رہنے میں مدد کی۔

وہ کہتی ہیں ’اگرچہ یہ پرسکون کنٹرول کے ساتھ زچگی میں مدد کر سکتا ہے۔ لیکن یہ آپ کو اس پرکنٹرول نہیں دے سکتا کہ کیا ہونے والا ہے۔‘

اینا مرے کی زچگی ظاہر کرتی ہے کہ آج کتنی خواتین مثبت زچگی کے طریقوں پر عمل کرتی ہیں۔ ان جیسے لوگوں کے لیے یہ تکنیک مشکل صورتحال سے بہترین فائدہ اٹھانے کے لیے مفید ٹولز فراہم کر سکتی ہے۔

بہت سے لوگوں کے لیے مثبت زچگی کا سب سے اہم پہلو ایک ہے اور وہ ہے خودمختاری۔ اس کا مطلب صرف بااختیار ہونے کا احساس نہیں ہے، چاہے لیبر وارڈ میں ہو یا گھر میں زچگی کے وقت۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ وہ کسی خاص طریقے سے زچگی کیے جانے کا دباؤ محسوس نہ کریں۔

ایک ثقافت کے طور پر اس کا مطلب یہ تسلیم کرنا ہے کہ ہر عورت کی فزیالوجی یعنی جسمانی ساخت، طبی حالات اور زچگی کا عمل مختلف ہوتا ہے، محتاط رہنا چاہیے کہ کسی خاص قسم کے تجربے کو آئیڈیل کے طور پر شیئرنہ کیا جائے، چاہے وہ اینستھیزیا کے تحت ہو یا ایک موم بتی کی روشنی میں باتھ ٹب میں۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More