ڈیٹنگ ایپ پر ملاقات کے بعد کس طرح ماں بیٹی کو ورغلا کر موت کی نیند سلا دیا گیا

بی بی سی اردو  |  Feb 07, 2023

BBCماں بیٹی کی لاشیں کچن کے فرش تلے دبی ملی ہیں

ایک شاطر قاتل نے خاتون اور ان کی نوعمر بیٹی کو لالچ دے کر برسٹل میں ان کے گھر سے کئی سو میل دور سکاٹ لینڈ کے شہر ڈنڈی آنے پر اکسایا اور پھر انھیں قتل کر کے ان کی لاشوں کو اپنے کچن کے فرش میں دفن کر دیا۔

بینیلن برک برطانیہ اچھی زندگی کی تلاش میں آئی تھیں اور ان کی موت کے باعث ہزاروں میل دور ان کے خاندان کو شدید صدمے سے گزرنا پڑا۔

یہ فروری 2021 میں جمعرات کا دن تھا اور شیلا اکوینو اپنی بہن بینیلن کے ساتھ ویڈیو کال پر بات کر رہی تھیں۔

شیلا فلپائن میں اپنے گھر سے انھیں کال کر رہی تھیں۔ بینیلن کے برطانیہ منتقل ہونے کے بعد سے دونوں بہنوں کو بچھڑے ہوئے 18 مہینے ہو چکے تھے۔

تاہم آٹھ گھنٹے کے وقت کے فرق کے باوجود دونوں بہنوں نے اس دوران روزانہ کی بنیاد پر فون کال کے ذریعے رابطہ قائم کیا ہوا تھا۔

BBCبینیلن اپنی بہن شیلا کے ہمراہ

تاہم یہ دن مختلف تھا۔ بینیلن ایک گاڑی میں سکاٹ لینڈ کا سفر کر رہی تھیں اور ان کے ساتھ ان کی دو سالہ بیٹی جیلیکا اور ایک بچہ بھی موجود تھا۔

وہ جس شخص کے ساتھ گاڑی میں موجود تھیں وہ 25 سالہ بینیلن کو برسٹل میں ان کے گھر سے سکاٹ لینڈ کے شہر ڈنڈی لے جا رہا تھا جہاں انھوں نے ساتھ ویک اینڈ گزارنا تھا۔

دونوں کی ملاقات کچھ ہفتے قبل ایک ڈیٹنگ ویب سائٹ پر ہوئی تھی اور دونوں کی آپس میں اچھی دوستی ہو گئی تھی۔ تاہم بینیلن کو اس وقت یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ انھیں جان بوجھ کر نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ ’گروم‘ کر رہا ہے۔

انھوں نے ملنے کا فیصلہ کیا اور یہ شخص بینیلن سے ملنے کے لیے 440 میل دور ڈرائیو کر کے برسٹل آیا۔

بینیلن نے اپنی بہن کو بتایا کہ یہ 50 سالہ شخص خاصا نرم مزاج اور بھلا معلوم ہوتا ہے۔ شیلا بتاتی ہیں کہ ’میں نے اس سے کہا کہ آزما کے دیکھ لو ہو سکتا ہے تمھیں اس مرتبہ خوشی مل جائے۔‘

انھوں نے بتایا کہ ان کی بہن کو یہ بات اچھی لگی کہ اس نے ان کے لیے اتنا طویل سفر کیا ہے اور انھیں خود بھی سکاٹ لینڈ کے بارے میں ’تجسس‘ تھا۔

گاڑی میں ان کی ویڈیو کال کے دوران شیلا نے اپنی بہن سے کہا کہ کیا میں اس ’غیر ملکی‘ کو دیکھ سکتی ہوں۔

’تو اس نے مجھے وہ بندہ بھی دکھایا، میں نے اس سے حال احوال پوچھا اور کہا ’ہیلو سر۔‘

وہ اس وقت سفر میں تھے۔ ہماری بات ہوئی، میں نے ان سے مذاق بھی کیا۔‘

شیلا نے بتایا کہ وہ شخص دراز قد، پتلا اور گنجا ہونے کے قریب تھا۔ اس کا نام اینڈریو اِنس تھا۔

BBCبینلن اور جیلیکا

جون سنہ 1970 میں پیدا ہونے والے اِنس نے ایلوا اکیڈمی میں پڑھائی کی اور ایبرڈین یونیورسٹی میں داخلہ لیا جس کے بعد وہ ڈنڈی میں مختلف کمپیوٹر گیمنگ کمپنیوں کے ساتھ منسلک رہا۔

اس نے شیلا کو بتایا کہ وہ جاپان میں اپنی جاپانی اہلیہ اور بچوں کے ساتھ بھی رہ چکے ہیں لیکن جب ان کی طلاق ہوئی تو انھیں جاپان سے سنہ 2019 میں برطانیہ بھیج دیا گیا۔

اِنس نے اس دوران 34 ڈیٹنگ سائٹس جوائن کر رکھی تھیں جن میں فلیپینو کیوپڈ بھی ایک تھی اور یہاں ان کی بینیلن سے ملاقات ہوئی۔

پولیس کو بعد میں معلوم ہوا کہ اِنس نے اس ویب سائٹ سے ڈیٹا ایک سپریڈ شیٹ میں منتقل کر رکھا تھا۔ اس کے ذریعے وہ خواتین کو ان کی عمر، قد، وزن اور اولاد کے اعتبار سے ’گریڈ‘ کرتا تھا۔

’ٹاپ سکورز‘ ان خواتین کو دیے گئے تھے جو 20 کے پیٹے میں ہوں اور ان کے چھوٹے بچے ہوں۔

اس طرح بینیلن کی اس شخص سے ملاقات ہوئی۔

PA Mediaقتل کے وقت اِنس کی عمر 50 برس تھی

ان دونوں کی ملاقات سے تین روز قبل اِنس کی جانب سے انٹرنیٹ پر کی گئی سرچز میں ’کلوروفورم کس لیے استعمال کیا جاتا ہے‘ اور فرش کے نیچے سٹوریج، شامل تھیں۔

جب ان کی آغاز میں بات شروع ہوئی تو اِنس نے بینیلن سے ڈنڈی میں ان کے لیے ماہانہ ایک ہزار پاؤنڈز تنخواہ پر کمیونٹی ریلیشنز مینیجر کے طور پر کام کرنے کو کہا لیکن انھوں نے منع کر دیا اور کہا کہ وہ برسٹل میں رہتے ہوئے نوکری کرنے کو ترجیح دیں گی۔

اِنس نے بینیلن سے ذاتی نوعیت کی تصاویر بھیجنے کی درخواست بھی کی لیکن انھوں نے منع کر دیا۔ تاہم انھوں نے برسٹل میں ملنے پر آمادگی ظاہر کی۔

بینیلن برک نومبر 1995 میں فلپائن میں پیدا ہوئی تھیں اور انھوں نے اپنی ڈگری مکمل کرنے کے لیے خاصی محنت کی تھی۔

سنہ 2015 میں چار فٹ چھ انچ قدامت والی بینیلن کی ملاقات برطانیہ میں لیگزنٹن برک سے ہوئی جو برطانیہ کے جاگیردار تھے اور ان سے 40 برس بڑے تھے۔ یہ ملاقات بھی ایک ڈیٹنگ ویب سائٹ کے ذریعے ہوئی۔

BBC

ان کی شادی جولائی سنہ 2018 میں فلپائن کے شہر سامار میں ہوئی اور ان کی بیٹی جیلیکا اس سے اگلے ماہ پیدا ہوئیں۔

سنہ 2019 میں جوڑے نے برطانیہ منتقل ہونے کا فیصلہ کیا اور یہاں 20 اگست کو پہنچے جب جیلیکا ایک برس کی ہو چکی تھیں۔

تاہم یہ شادی زیادہ دیر نہ چل سکی اور بینیلن پر ایک بچی کو اکیلے سنبھالنے کی ذمہ داری پڑ گئی۔

تاہم انھوں نے اپنی بہن کو بتایا کہ وہ کِنگز ووڈ میں ایک فلیٹ میں منتقل ہونے کے بعد ’مختلف‘ اور ’آزاد‘ محسوس کر رہی ہیں۔

فیس بک گروپ ’ممز اِن باتھ‘ کی وکی وھپ ان مقامی لوگوں میں سے تھیں جنھوں نے ان کی مدد کی تھی۔ وہ بتاتی ہیں ’بینیلن انتہائی نرم دل خاتون تھیں، وہ اخلاق کی بہت اچھی تھیں۔‘

PA Mediaبینلن نے لیگزنٹن برک سے فلپائن میں شادی کی

وکی بتاتی ہیں کہ ان کی بیٹی جیلیکا بھی خاصی پراعتماد اور زندہ دل تھی اور اس کا ’مزاج خاصا نمایاں‘ تھا۔

بینیلن نے کچھ ماہ تک ایک کیئر ہوم میں کام کیا اور گاڑیوں کی صفائی کے لیے استعمال ہونے والے ویکیوم کلینرز آن لائن بیچے۔ وہ کمائی ہوئی رقم کا ایک حصہ اپنے خاندان کو بھجواتی تھیں۔

وکی کہتی ہیں کہ وہ برطانیہ میں ایک بہتر مستقبل کی خواہاں تھیں۔ ’وہ پرعظم تھیں، انھیں اپنے خاندان کی یاد آتی تھی لیکن وہ یہیں رہنا چاہتی تھیں۔‘

بینیلن، جیلیکا اور ایک اور بچی جب 18 فروری 2021 کی شام اِنس کے گھر پہنچے تو اگلے روز وہ ڈنڈی شہر میں گھومنے پھرنے نکل گئے اور کیمپرڈاؤن پارک اور وی اینڈ اے گئے۔

BBCجیلیکا بھی خاصی پراعتماد اور زندہ دل تھی

انھوں نے زیادہ دیر رکنے کے لیے سامان تو پیک نہیں کیا تھا اور ان کا شاید وہاں زیادہ رہنے کا ارادہ بھی نہیں تھا۔

شیلا نے اگلے روز بھی اپنی بہن سے بات کی۔ یہ دونوں کے درمیان ہونے والی آخری فون کال تھی۔

بینلین نے انھیں اِنس کا گھر دکھایا۔ ’انھوں نے مجھے برآمدہ بھی دکھایا۔‘ اگلے روز شیلا کو پریشانی ہونے لگی کہ ان کی بہن ان کے پیغامات کا جواب کیوں نہیں دے رہی۔ پیر کو انھیں اِنس سے ایک پیغام موصول ہوا۔

اس نے شیلا کو بتایا کہ بینیلن اور جیلیکا اور ایک اور بچہ اس وقت گلاسگو میں ایک اور شخص کے پاس ہیں جن سے ان کی آن لائن ملاقات ہوئی تھی اور وہ ٹیچر ہے۔

اس نے دعویٰ کیا کہ بینیلن ان کے گھر میں چھپنا چاہتی تھیں کیونکہ جیلیکا کے والد ان کی بیٹی کو اپنے ساتھ رکھنے کے خواہاں تھے اور چاہتے تھے کہ بینیلن کو فلپائن ڈپورٹ کر دیا جائے۔

اِنس کا کہنا تھا کہ بینیلن گلاسگو میں محفوظ ہیں اور اس نے انھیں مشورہ دیا تھا کہ اگر وہ حکام سے چھپنا چاہتی ہیں تو اپنا موبائل فون بند کر دیں۔

جب شیلا نے اپنی بہن سے بات کرنے کی بار بار درخواست کی تو اِنس نے جواب دیا کہ ’جب وہ سنبھل جائیں گی تو آپ سے رابطہ کر لیں گی۔‘

شیلا کا کہنا تھا کہ وہ میسنجر پر بینیلن سے بات نہیں کر سکیں اور تب انھوں نےاِنس سے کہا کہ ’سر کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ میری بہن زندہ بھی ہے یا نہیں۔‘

BBCاِنس وی اینڈ اے میوزیم کے قریب

اس پراِنس نے جواب دیا کہ ’سکاٹ لینڈ ایک پرامن ملک ہے، یہاں زیادہ جرائم نہیں ہوتے۔

’آپ زیادہ پریشان نہ ہوں، مجھے یقین ہے کہ آپ کی بہن بالکل محفوظ ہیں۔‘ چار دن بعد شیلا نے ’سر اینڈریو‘ کو دوبارہ پیغام بھیجا۔ تب اس نے جواب دیا کہ گلاسگو میں موجود شخص نے انھیں بتایا ہے کہ ’بینیلن اور جیلیکا اپنی نئی روٹین سے ہم آہنگ ہو رہی ہیں۔‘

اِنس کا کہنا تھا کہ وہ اس وقت رابطہ کریں گی جب وہ ’محفوظ محسوس کریں گی۔‘

اِنس نے مزید کہا کہ ’وہ خوش ہیں کہ انھیں کوئی اچھا شخص مل گیا ہے اور یہ کہ ان کا بچہ ان سے چھینا نہیں جائے گا۔

BBC

اس نے کہا کہ ’اب وہ اس بارے میں مزید بات نہیں کریں گے‘ اور چاہیں گے کہ اپنی زندگی کو آگے بڑھائیں۔

اس نے یہ بھی کہا کہ وہ اپنے فون اور کمپیوٹر سے سب کچھ ڈیلیٹ کرنا چاہے گا، ’نہ صرف خود کو محفوظ رکھنے کے لیے بلکہ بینیلن کے تحفظ کے لیے بھی تاکہ اگر پولیس گھر کی تلاشی لینے کی کوشش کرے تو انھیں ڈھونڈ نہ سکے۔

شیلا نے ان سے بینیلن کی ویڈیو ریکارڈ کر کے بھیجنے کا کہا لیکن اس نے ایک پرانی ویڈیو بھیجی۔ شیلا نے اسے کہا کہ ’مجھے امید ہے ہم دوبارہ بات کر پائیں گے سر۔‘ جس پر اِنس نے کہا کہ ’جب چیزیں سنبھل جائیں گی تو شاید تب ہم بات کر سکیں۔‘

یکم مارچ کو کنگز ووڈ چھوڑنے کے دو ہفتے بعد بینیلن اور جیلیکا کی گمشدگی کی رپورٹ اس وقت درج کی گئی جبوہ اپنی ایک اپوئنٹ مینٹ کے لیے نہیں پہنچیں۔

دو دن بعد پولیس کی جانب سے انھیں ڈھونڈنے کی کوشش شروع کی گئی۔

BBC

شیلا نے کہا کہ جب بینیلن سے رابطہ نہیں ہوا تو گھر کے لوگ پہلے ہی پریشان تھے اور پھر عجیب طرح کے خیالات نے گھیر لیا تھا۔

انھوں نے کہا ’ہمارے بڑے بھائی نے خواب میں دیکھا کہ وہ بینیلن اور جیلیکا کی تصاویر دیکھ رہے ہیں۔

'انھیں کچھ چہرے واضح نظر آئے جبکہ بعض چہرے دھندھلے تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب ہم نے محسوس کیا کہ کچھ غلط ہونے والا ہے۔‘

ایون اور سمرسیٹ پولیس کی طرف سے رابطہ کیے جانے کے بعد ڈنڈی کے افسران 5 مارچ جمعہ کو 15:20 بجے ٹرون ایونیو پہنچے۔

انگلینڈ میں پولیس کے پاس اطلاع تھی کہ شاید بینیلن پچھلے ہفتے شہر میں تھیں۔

انھوں نے ایک کار کی نشاندہی کی تھی جو لاک ڈاؤن کے دوران ڈنڈی سے برسٹل گئی اور واپس آئی تھی۔

افسران نےاِنس کے ڈرائیو وے میں کار کو دیکھا تھا اور اس کے دروازے پر دستک دی۔

کیس کے انچارج افسر انسپکٹر گراہم سمتھ نے کہا کہاِنس نے تصدیق کی کہ وہ بینیلن اور دو بچوں کو ڈنڈی لائے تھے لیکن یہ بھی کہا کہ وہ سب اب گلاسگو میں ہیں۔

اِنس نے افسران کو یہ کہتے ہوئے اپنے گھر میں داخلے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا کہ وہ خود کو آئیسولیٹ (لوگوں سے دور یا الگ) کر رہے ہیں اور یہ کہ ان کی بیٹی ابھی غسل سے نکلی ہے۔

افسروں نے لڑکی کو گھر کے اندر دیکھا جنھوں نے خود کو پوری طرح ڈھک رکھا تھا اور انھوں نے اصرار کیا کہ انھیں اندر جانے کی اجازت دی جائے۔

پولیس بے دیکھا کہ گھر کے اندر ہر چیز بےترتیب تھی۔ باورچی خانہ اکھڑا ہوا تھا۔ وہاں کوئی چولہا نہیں تھا، اور برتن اور کڑھائیاں زینے پر پڑی تھیں۔

ایک افسر لڑکی کو ایک طرف لے گیا۔ اس نے تصدیق کی کہ وہاِنس کی بیٹی نہیں ہے۔

افسروں نے ان سے پوچھا کہ بینیلن کہاں ہے تواِنس نے جواب دیا ’میں نے اسے مار ڈالا، وہ فرش کے نیچے دفن ہے۔ ہماری لڑائی ہوئی اور میں نے اسے مار ڈالا۔‘

اِنس کو گرفتار کر کے تحقیقات شروع کی گئی۔

انسپیکٹر سمتھ کا کہنا ہے کہاِنس کا رویہ ’سرد مہر اور بے رحم‘ تھا اور اسے کوئی پشیمانی بھی نہیں تھی۔

اس نے افسران کو بتایا کہ دونوں لاشیں کچن میں ’تین یا چار فٹ‘ کنکریٹ کے نیچے دبی ہیں۔

BBC

اِنس کو حراست میں لے لیا گیا جبکہ بچی کو حفاظت میں لینے کے بعد گھر کی تلاش شروع ہوئی۔

انسپیکٹر سمتھ نے کہا کہ اس کھدائی میں شامل افراد کو 'خوفناک' منظر دیکھنا پڑا۔

دو ہفتوں کی محنت کے بعد کچن کے فرش کے نیچے ملبے تلے دبے تھیلوں میں دو لاشوں کی دریافت ہوئی۔

بینیلن کو چاقو مارا گیا تھا اور ہتھوڑے کے وار سے ان کی موت ہوئی جبکہ جیلیکا کا گلا گھونٹ کر مارا گیا تھا۔

شیلا کو جس خبر کا خدشہ تھا اس کی انسپیکٹر سمتھ کی ایک فون کال سے تصدیق ہوئی۔

BBCبینیلن کے والد بینیڈکٹو ایکینو نے کہا کہ یہ خبر ملنے کے بعد وہ 'ٹوٹ گئے، تباہ ہو گئے'

شیلا نے کہا ’انھوں نے (فون پر) کہا کہ بینیلن ایک سیاہ تھیلے، یعنی کالے کوڑے کے تھیلے میں ملیں۔ بیبی جیلیکا بھی وہیں تھی۔‘

بینیلن کے والد بینیڈکٹو ایکینو نے کہا کہ یہ خبر ملنے کے بعد وہ 'ٹوٹ گئے، تباہ ہو گئے'۔

انھوں نے کہا: 'میں نے پوچھا کہ اسے ڈنڈی میں کیوں مارا گیا۔

'میری بیٹی لڑائی کرنے والی نہیں تھی، وہ مہربان، خدا ترس، دوستانہ تھی۔

'اس کے ساتھ ایسا کیوں کیا گیا؟ یہ کیسا مکروہ ہے کہ اس نے ایک معصوم بچے کو قتل کر دیا۔'

PA Media

قتل کے تقریباً دو سال بعد اِنس کا ایڈنبرا کے ہائی کورٹ میں مقدمہ چلا۔

بینیلن کے بہن شیلا اور والد بینیڈکٹوسمیت فیملی کے دیگر افراد نے مقدمے کی سماعت کے لیے فلپائن سے برطانیہ آئے ایسا ہی جیلیکا کے والد لیکسنگٹن برک نے بھی کیا۔

تیسرے دن اِنس کا بیان سامنے آيا۔ اس کی گواہی ڈریگنوں کی بے ہنگم گفتگو سے لے خود پر ترحم کے جذبے سے سرشار تھی اور پھر اس میں اس کے ہولناک جرائم کی تصویر کشی بھی تھی۔

اس نے دعوی کیا کہ اسے ’جنونی‘ خیال آئے جس کے بعد اس نے بینیلن پر حملہ کیا کیونکہ وہ ایسی دو خواتین سے مشابہت رکھتی تھی جنھوں نے اسے کبھی دھوکہ دیا تھا، اور اس نے اپنے رویے کا الزام ان سٹیرایڈز کو دیا جو وہ استعمال کر رہا تھا۔

لیکن جیوری نے اسے دو قتل کا مجرم قرار دینے میں زیادہ دیر نہیں لگائی۔

انسپیکٹر سمتھ نے کہا ’میری توجہ بینیلن اور جیلیکا کے خاندان پر ہے کہ وہ اس (صدمے) سے کیسے باہر آتے ہیں۔‘

بینیلن کا خاندان چاہتا ہے کہ انھیں ایک اچھی اور خیال رکھنے والی ماں کے طور پر یاد رکھا جائے، جو اپنے خاندان کے لیے بہترین مواقع کی تلاش میں برطانیہ آئی تھیں۔

شیلا کہتی ہیں ’وہ رحم دل تھی، ہم اس کے بارے میں کچھ بھی برا نہیں کہہ سکتے۔‘

ان کی لاشیں ملنے کے دو ہفتے بعد بینیلن اور جیلیکا کے دوستوں کا ایک گروپ انھیں خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے برسٹل کے برینڈن ہل پارک میں جمع ہوا تھا۔

ان کی ملاقات کیبٹ ٹاور کے قریب ہوئی جہاں انھوں نے ایک بار ایک ساتھ پکنک منائی تھی۔

موم بتیاں اور پھول زمین پر بچھے ایک سرخ چادر پر رکھے گئے، اس کے ساتھ تصویریں، ٹیڈی بیئر اور پلے کارڈز بھی تھے۔

ایک قریبی درخت کے ساتھ بندھے ہوئے سفید غباروں پر لکھا تھا ’آپ سے محبت ہے، آپ کی کمی محسوس کی جائے گی، ہم آپ کو یاد کریں گے۔‘

ورما سائمونیٹ کی اضافی رپورٹنگ

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More