بحریہ ٹاون ٹو کراچی پر سنگین الزامات، عوام کے اربوں روپے داؤ پر

ہم نیوز  |  Feb 09, 2023

کراچی: بحریہ ٹاؤن ٹو کراچی پر عوام کے اربوں روپے داؤ پر لگانے کے الزامات سامنے آ گئے۔

کراچی میں بحریہ ٹاون ٹو کے منصوبے پر بھی سوالات اور الزامات سامنے آ گئے۔ کیا بحریہ ٹاون کراچی ٹو کا منصوبہ غیر قانونی ہے؟ دستیاب دستاویزات نے میگا منصوبے کو مبینہ طور پر مشکوک بنا دیا۔

دستاویزات کے مطابق منصوبے کے لیے 4 دیہوں پر مشتمل 2 ہزار 16 ایکڑ زمین کی منظوری دی گئی تھی اور منظور کی گئی زمین کئی حصوں پر مشتمل ہے۔ منظوری کے برعکس مبینہ طور پر منصوبہ کئی ہزار ایکڑ پر مشتمل ہے۔

بحریہ ٹاؤن کے مطابق منصوبے کی زمین پیراڈائز رئیل اسٹیٹ پرائیوٹ لمیٹڈ کی ملکیت ہے جبکہ پیراڈائز رئیل اسٹیٹ نے بحریہ ٹاون ٹو کو زمین جنرل پاور آف اٹارنی پر منتقل کی۔ منصوبے پر وزارت دفاع کے کی پوائنٹ انسٹالیشن ڈویژن کو شدید تحفظات ہیں۔

وزارت دفاع کی جانب سے 19 جنوری کو چیف سیکرٹری سندھ کو خط بھی لکھا گیا جس میں کہا گیا کہ ضلع جامشورو میں پی اے ایف بیس بھولاری اور دیگر حساس تنصیبات کے اطراف تیزی سے ہاؤسنگ سوسائٹیز قائم کی جا رہی ہیں اور تیزی سے جاری تعمیراتی کام قومی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ ہے۔

مبینہ طور پر بحریہ ٹاون ٹو کا منصوبہ جنگلات کی زمین پر تعمیر کیا جا رہا ہے اور گزٹ آف پاکستان کے مطابق جن 4 دیہہ پر تعمیرات کی جا رہی ہیں وہ جنگلات کی زمین ہے۔ 4 دیہوں میں دیہہ ببر بند، دیہہ حتھل بُٹھ، دیہہ اُٹھ پلان اور دیہہ ساری شامل ہیں۔

سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو این او سی کے لیے جمع کرایا گیا فارم بھی مکمل نہیں اور نامکمل معلومات ایس بی سی اے کے فارم کی خلاف ورزی ہے۔ ایس بی سی اے نے نامکمل فارم کے ہوتے ہوئے منصوبے کے لیے 2019 میں این او سی جاری کیا۔

دستاویزات کے مطابق ایس بی سی اے نے بحریہ ٹاون ٹو کو بغیر مالکانہ حقوق کے این او سی جاری کیا اور این او سی جاری کرنے کے بعد ڈپٹی کمشنر جامشورو سے مالکانہ حقوق کی تصدیق کے لیے ایک مہینے کا وقت بھی دیا۔ دیگر بنیادی سہولتوں کی این او سی کے لیے بھی ایک ماہ کا وقت دیا گیا۔

بحریہ ٹاون ٹو نے حیسکو اور ایس ایس جی سی کا این او سی مبینہ طور پر ایس بی سی اے کو جمع نہیں کرایا گیا جبکہ متعلقہ محکموں کے این اوسیز اور مالکانہ حقوق کے بغیر ایس بی سی اے منصوبے کا این او سی جاری نہیں کرسکتا۔ سی اے اے، ایئرفورس اور محکمہ ماحولیات سمیت دیگراداروں سے بھی مبینہ طور پر این او سی حاصل نہیں کیا گیا۔

سرکاری زمین پرائیوٹ آدمی کو کیسے منتقل ہوئی اس کا بھی ٹھوس ریکارڈ موجود نہیں جبکہ فارم سیون اے اور بی میں درج کی گئی معلومات بھی مشکوک ہیں۔ فارم سیون اے میں زمین کو حق قبضہ کی بنیاد پر منتقل کیا گیا اور لوگوں کے زبانی دعوؤں پر زمین کے کاغذات بنائے گئے۔ زبانی دعوؤں کی بنیاد پر حاصل کی گئی زمینوں پر اینٹی کرپشن نے 2005 میں جعلسازی کے مقدمات قائم کیے۔

دستاویزات کے مطابق بحریہ ٹاون ٹو کے منصوبے کے 2 دیہہ 2012 میں ایل یو ڈپارٹمنٹ نے این ایچ اے کے حوالے کیے تھے اور ایل یو ڈپارٹمنٹ صرف سرکاری زمین ہی کسی دوسرے محکمے کو دینے کا مجاز ہے۔ لینڈ یوٹیلائزیشن ڈپارٹمنٹ پرائیوٹ زمین سرکاری ادارے کو دینے کا اختیار نہیں رکھتا اور بحریہ ٹاون ٹو کا دعویٰ ہے کہ منصوبے کی زمین پیراڈائز رئیل اسٹیٹ پرائیوٹ لمیٹڈ پرائیوٹ شخصیات سے حاصل کی گئیں۔

ایل یو ڈپارٹمنٹ نے 2012 میں دیہہ حتھل بٹھ اور دیہہ ببر بند کی زمین نیشنل ہائی وے اتھارٹی کو منتقل کر دی تھی اور وزیر اعلیٰ سندھ کی منظوری سے لینڈ یوٹیلائزیشن ڈپارٹمنٹ نے 2 ہزار 673 ایکڑ زمین این ایچ اے کے حوالے کی تھی۔ ایل یو ڈپارٹمنٹ نے 2017 میں ڈی سی ملیر ٹھٹہ اور جامشورو کو زمین منسوخ کرنے کے احکامات دیئے تھے اور منسوخی کی وجہ این ایچ اے کی جانب سے زمین کی قیمت سندھ حکومت کو ادا نہ کرنا تھی۔

این ایچ اے کی پٹیشن پر سندھ ہائیکورٹ نے ایل یو ڈپارٹمنٹ کے 2017 کے احکامات کو معطل کر دیا اور ایس بی سی اے قوانین کے مطابق کسی بھی پرائیوٹ سوسائٹی پر 15 فیصد پلاٹ ایس بی سی اے کے ساتھ مارگیج کرنا ضروری ہے۔ بحریہ ٹاون ٹو کے منصوبے میں ایس بی سی اے کے ساتھ مارگیج کا معاملہ بھی مشکوک ہے اور بحریہ ٹاون کی جانب سے مارگیج ڈیڈ کے بجائے سادہ کاغذ پر تفصیلات جمع کرائی گئیں اور جمع کرائی گئی تفصیلات میں پلاٹس پر کوئی نمبر درج نہیں جبکہ سادہ کاغذ پر پیراڈائز رئیل اسٹیٹ لمیٹڈ کے اٹارنی کے دستخط بھی موجود نہیں۔

بحریہ ٹاون ٹو کے معاملے پر سندھ ہائیکورٹ کے سرکٹ کورٹ حیدرآباد میں پٹیشن زیرسماعت ہے جو ڈی 129/23 حیدرآباد کے رہائشی صلاح الدین کی جانب سے دائر کی گئی ہے۔

سندھ ہائیکورٹ نے 16 محکموں، سرکاری افسران اور بحریہ ٹاون کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے جواب طلب کر لیا ہے جبکہ بحریہ ٹاؤن کے کراچی میں پہلے منصوبے پر کئی شکایات اور الزامات سامنے آچکے ہیں۔ بحریہ ٹاؤن اسپورٹس سٹی کی نان کلئیر زمین میں اب بھی کئی متاثرین کے کروڑوں روپے پھنسے ہوئے ہیں۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More