انڈین جیل سے راتوں رات سینکڑوں قیدی رہا کروانے کا سنسنی خیز واقعہ جس کے کئی گھنٹوں بعد حکومتی رٹ بحال ہوئی

بی بی سی اردو  |  Feb 09, 2023

Getty Images

انڈیا کی ریاست بہار کے بارے میں میڈیا سروس او ٹی ٹی پر ایک اور ویب سیریز ان دنوں زیر بحث ہے۔ سدھیر مشرا کی یہ ویب سیریز ’جہان آباد آف لو اینڈ وار‘ سونی لِیو پر ناظرین کے لیے پیش کی گئی ہے۔

’جہان آباد آف لو اینڈ وار‘ 2005 کے ’جہان آباد جیل بریک‘ کے بارے میں ہے۔ تقریباً ایک ہزار ماؤ نواز باغیوں نے اس وقت اپنے ساتھیوں کو چھڑوانے کے لیے رات کے اندھیرے میں جیل پر حملہ کر دیا تھا۔

تقریباً دو دہائی قبل بہار میں ذات پات کے تنازع پر حال ہی میں بنائی گئی یہ دوسری ویب سیریز ہے۔ اس سے قبل ’خاکی دی بہار چیپٹر‘ بھی ایسے ہی ایکواقعے کے بارے میں بنائی گئی تھی۔

13 نومبر 2005 کو کیا ہوا؟

13 نومبر 2005 کو اتوار کا دن تھا۔ رات تقریباً 9 بجے بہار کے جہان آباد ضلع ہیڈکوارٹر پر بڑی تعداد میں ماؤ نوازوں نے حملہ کر دیا۔ جہان آباد دارالحکومت پٹنہ سے صرف 60 کلومیٹر دور ہے۔

تقریباً ایک ہزار ماؤنواز باغیوں نے جہان آباد جیل پر مشین گنوں، بموں اور جدید ہتھیاروں سے حملہ کیا۔ ان مقصد بعض ماؤ نواز لیڈروں کو جیل سے چھڑوانا تھا۔

انتظامیہ نے حملے کے بعد بتایا تھا کہ ماؤ نواز ایک کمانڈر اجے کانو اور ان کے کچھساتھیوں کو چھڑا لے گئے۔

اجے کانو کے مطابق ان پر 1990 میں جہان آباد میں قتل کا الزام تھا، لیکن وہ مفرور تھے۔ 12 سال تک مفرور رہنے کے بعد کانو کو 2002 میں پٹنہ سے گرفتار کر کے جہان آباد جیل بھیج دیا گیا۔

ضلعی انتظامیہ کے مطابق جیل میں قید 658 میں سے 341 قیدی جیل پر حملے کے بعد فرار ہو گئے تھے۔ ان میں اجے کانو کے تقریباً 100 ساتھی یا حامی بھی شامل تھے۔

اس واقعے میں جیل میں بند رنویر سینا کے کمانڈر بڑے شرما بھی مارے گئے تھے۔

رنویر سینا زمینداروں کی حمایت یافتہ فوج تھی، جس کی براہ راست لڑائی ماؤ نوازوں سے تھی۔ اس کے علاوہ جیل توڑنے میں کم از کم تین دیگر افراد بھی مارے گئے جن میں پولیس اہلکار بھی شامل تھے۔

اجے کانو فی الحال ضمانت پر باہر ہیں۔ ہم نے اس جیل بریک سے متعلق کیس کے سلسلے میں پٹنہ کی ایک خصوصی عدالت میں اجے کانو سے ملاقات کی۔

اجے کانو نے بی بی سی کو بتایا، ’میں نے ’محبت اور جنگ کا جہان آباد‘ ویب سیریز دیکھی ہے۔ یہ مکمل طور پر فرضی کہانی ہے۔ اس میں جہان آباد کی حالت، وہاں کے لوگوں، وہاں کے معاشرے کے بارے میں کوئی بات نہیں کی گئی ہے۔‘

اجے کانو نے الزام لگایا کہ ویب سیریز کو ہِٹ بنانے اور پیسے کمانے کے لیے زبردستی گالیوں کا استعمال کیا گیا ہے۔

BBCفلم ساز سدھیر مشرا

اجے کانو کے مطابق، یہ معلوم نہیں ہے کہ ویب سیریز میں ایک طالب علم اور پروفیسر کی محبت کی کہانی کہاں سے آئی۔ اس کے علاوہ آج بھی جہان آباد میں لوگ اس طرح گالی نہیں دیتے جیسا کہ ویب سیریز میں دکھایا گیا ہے۔

اتنا ہی نہیں، انہوں نے الزام لگایا کہ ویب سیریز میں جہان آباد کی عدالت، تھانہ پولیس کو صحیح طریقے سے پیش نہیں کیا گیا ہے۔

ہم نے ان سے پوچھا کہ کیا جہان آباد جیل انھیں چھڑوانے کے لیے توڑی گئی تھی۔ اسپر ان کا بس اتنا کہنا تھا کہ جب جیل ٹوٹی تو سب لوگ باہر نکل آئے۔

اجے کانو خود کو ایک سیاسی شخصیت سمجھتے ہیں۔ ان کے مطابق، ماؤ نواز تنظیم میں ایریا کمانڈر کوئی بہت بڑی پوسٹ نہیں ہے، تنظیم میں 30، 40 یا 50 افراد پر ایک کمانڈر ہوتا ہے۔

رات کی دہشت

13 دسمبر 2005 کو جیل توڑنے کے واقعے کے بعد جہان آباد میں ہر طرف خوف و ہراس کا ماحول تھا۔ مقامی شہری شترنجے کمار جہان آباد جیل کے قریب کسی کے گھر میں منعقد پوجا سے واپس آ رہے تھے۔

وہ یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’ہم جیل سے تقریباً دو کلومیٹر کے فاصلے پر رہتے ہیں۔ بموں اور گولیوں کی آوازیں سن کر ایسا لگتا تھا کہ کرکٹ میچ کے بعد پٹاخے چل رہے ہیں۔ لیکن جلد ہی معلوم ہوا کہ جیل پر حملہ ہو گیا ہے۔‘

شترنجے کمار کے مطابق اس دوران سب سے پہلے پولیس لائن پر حملہ کیا گیا، اس حملے کا مقصد پولیس اہلکاروں کے ہتھیاروں کو لوٹنا تھا، کیونکہ زیادہ تر پولیس اہلکار الیکشن ڈیوٹی پر تھے۔

صبح ہوتے ہی لوگ یہ جاننے کے لیے جیل کی طرف بھاگنے لگے کہ رات کیا ہوا تھا۔ اس واقعہ کے بعد ماؤ نوازوں نے اتوار کی رات جیل کا دروازہ کھلا چھوڑ دیا تھا اور صبح تک کھلا رہا۔ اس لیے کوئی بھی شخص جیل کے اندر جا سکتا ہے۔

BBCبہار میں ذات پات کے تشدد کی تاریخ بہت پرانی ہے

سینیئر صحافی اور بی بی سی کے اس وقت کے نامہ نگار منی کانت ٹھاکر اس واقعے کی رپورٹنگ کے لیے جہان آباد گئے تھے۔

منی کانت ٹھاکر یاد کرتے ہیں، ’جہان آباد میں ضلعیاور جیل انتظامیہ واضح طور پر بے بس تھی۔ وہ نہ تو اس قسم کے خطرے کو محسوس کر سکے اور نہ ہی اسے روکنے کے قابل تھے۔‘

منی کانت ٹھاکر کے مطابق، ’اس وقت ماؤ نواز تحریک کا مرکز جہان آباد تھا۔ وہاں کی جیل میں کئی بڑے ماؤ نواز راہنما قید تھے۔ پھر بھی انتظامیہ کو اس کی کوئی بھنک نہ ملنا ایک بڑی ناکامی تھی۔‘

دوسری طرف، ماؤ نواز باغیوں کا خیال تھا کہ زمینداروں اور جاگیرداروں نے ان کا استحصال کیا ہے۔ انھوں نے بنیادی طور پر زمینی اصلاحات کا مطالبہ کیا تھا۔ ماؤ نوازوں نے الزام لگایا تھا کہ حکومت اس معاملے میں کچھ نہیں کر پا رہی ہے، اس لیے وہ زبردستی ان کا حق چھین لیں گے۔

اس کےساتھ زمینداروں اور جاگیرداروں کا الزام بھی حکومت پر تھا۔ ان کا موقف تھا کہ حکومت انھیں ماؤ نوازوں سے بچانے کے قابل نہیں ہے۔ اس لیے انھوں نے اپنی پرائیویٹ ملیشیا بنائی تھی۔ جس میں ’رنویر سینا‘ کو سب سے طاقتور سمجھا جاتا تھا۔

BBCبرہمیشور سنگھ، رنویر سینا کے بانی

ان دونوں مسلح گروپوں کے درمیان کئی پرتشدد جھڑپیں ہوئیں، جن میں کئی لوگ مارے گئے۔

اس میں جہان آباد کے لکشمن پور بٹھے کا قتل عام سب سے بڑا تھا۔ یہاں 30 نومبر اور یکم دسمبر 1997 کی درمیانی شب خواتین اور بچوں سمیت دلت برادری کے تقریباً 60 افراد کو قتل کر دیا گیا تھا۔ رنویر سینا پر اس کا الزام لگا۔

جب کہ 25 جنوری 1999 کو بہار کے جہان آباد ضلع کے شنکربیگھا گاؤں میں ’رنویر سینا‘ نے خواتین اور بچوں سمیت 23 افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔

BBCلکشمن پور بٹھ، بہار میں قتل عام کا گواہ ایک گاؤں

منی کانت ٹھاکر کے مطابق دونوں پارٹیاں حکومت پر الزام لگاتی تھیں اور اس وقت بہار میں ماؤ نوازوں اور رنویر سینا کی متوازی حکومت چلتی تھی۔

ان کا خیال ہے کہ جہان آباد میں ماؤ نوازوں سے ہمدردی رکھنے والے بہت سے لوگ تھے۔ ان کے مطابق جیل بریک کو دیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ ماؤ نوازوں کو اس کے لیے زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی تھی۔

اس واقعہ اور اس کے بعد دونوں مسلح گروپوں کی دھمکیوں کے بعد جہان آباد میں شدید کشیدگی پیدا ہوگئی تھی۔

شہر میں کشیدگی

اس وقت ریاست میں ممنوعہ رنویر سینا کے ترجمان شمشیر بہادر سنگھ نے بی بی سی کی نامہ نگار روپا جھا کو بتایا تھا کہ رنویر سینا کے چار ارکان کو ماؤ نوازوں نے اغوا کر لیا ہے۔

ریاستی حکومت نے تقریباً دس سال پہلے رنویر سینا پر پابندی لگا دی تھی۔

انھوں نے کہا تھا کہ رنویر سینا نے بائیں بازو کے انتہا پسندوں کے خلاف جنگ بندی کا اعلان کیا تھا اور وارننگ دی تھی کہ 24 گھنٹے کے اندر ان کے ارکان کو واپس کر دیں، ورنہ وہ تشدد کے راستے پر واپس آجائیں گے۔

حالانکہ اجے کانو کا کہنا ہے کہ رنویر سینا کے رکن کو اٹھانا غلط ہے۔ پولیس بھی سمجھتی ہے کہ جیل سے کسی بھی شخص کو زبردستی نہیں لے جایا گیا۔

دوسری جانب ماؤ نواز راہنما ایس ڈی موریا نے بی بی سی کو بتایا، ’اب ہم چھوٹے موٹے واقعات سے آگے بڑھنا چاہتے ہیں اور اب ہم اپنے ساتھیوں کو ملک بھر کی جیلوں سے رہا کرائیں گے۔‘

BBCقتل عام کے بعد شنکر بیگھا گاؤں (فائل فوٹو)جہان آباد کی گونج دلی میں

اس واقعے نے پٹنہ سے دہلی تک حکومت اور انتظامیہ کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ یہ بات ملک بھر کے عام لوگوں میں بحث کا موضوع بن گئی تھی کہ جہان آباد واقعے کے بعد بہار میں حکومت کا اقتدار کیسے ختم ہوا؟

بڑی بات یہ تھی کہ یہ حملہ کسی دور افتادہ علاقے میں نہیں بلکہ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر کی جیل پر ہوا تھا۔

شترنجے کمار کا دعویٰ ہے کہ اس رات تقریباً 3 گھنٹے تک جہان آباد پر حکومت کا کنٹرول ختم ہو گیا تھا۔ پھر پٹنہ سے فورسز بھیجی گئیں اور قریب ہی الیکشن ڈیوٹی پر تعینات نیم فوجی دستوں کو بھی یہاں بھیجا گیا۔

دراصل فروری 2005 میں ہوئے اسمبلی انتخابات میں بہار میں کسی بھی پارٹی کو اکثریت نہیں ملی تھی۔ اس کے بعد مارچ کے مہینے میں ریاست میں صدر راج نافذ کر دیا گیا تھا۔

جہان آباد جیل بریک واقعے کے وقت بہار میں دوبارہ اسمبلی انتخابات ہو رہے تھے۔ اس وقت بوٹا سنگھ بہار کے گورنر تھے۔ اس لیے جہان آباد جیل بریک کے بعد مرکزی حکومت بھی سرگرم ہوگئی۔

روہتاس کے پولیس سپرنٹنڈنٹ بچو سنگھ مینا کو واقعے کے صرف دو دن بعد یعنی 15 نومبر کو جہان آباد بھیجا گیا تھا۔ وہ پہلے بھی سیوان کے ایس پی رہ چکے تھے اور شہاب الدین کے ساتھ ان کا انکاؤنٹر کافی خبروں میں رہا تھا۔

بی ایس مینا اس وقت پٹنے میں پولیس ہیڈکوارٹر میں اے ڈی جی کے طور پر تعینات ہیں۔

وہ کہتے ہیں، ’جیل بریک ایک بہت بڑا واقعہ تھا۔ جیل پولیس کی طاقت کا مرکز ہے۔ اس لیے ہمارا پہلا مقصد پولیس فورس کے مورال کو بچانا تھا۔ جہان آباد ایک چھوٹا سا ضلع تھا۔ میں خود ضلع کے ہر تھانے میں جاتا تھا۔ اور اگلے سات دنوں کے اندر، ہم نے ہر تھانے اور چوکی میں پولیس کو دوبارہ تعینات کر دیا۔‘

پولیس، عوام، صحافی سب ناراض

جہان آباد جیل توٹنے کے بعد پیر کی صبح سے ہی بڑی تعداد میں لوگ جیل کے اطراف جمع ہوگئے اور انتظامیہ کے خلاف نعرے بازی شروع کردی۔

وہاں حالات اتنے خراب ہو گئے کہ صحافیوں پر بھی پولیس نے لاٹھی چارج کیا جس میں کئی صحافی زخمی ہو گئے۔ صحافیوں نے اس کے خلاف نعرے بازی شروع کردی۔

منی کانت ٹھاکر کا خیال ہے کہ جیل توڑنے سے پولیس کی بہت بدنامی ہوئی۔ پولیس سمجھتی تھا کہ اس واقعے کی جتنی زیادہ رپورٹنگ ہوگی، اس کی بدنامی بھی اتنی زیادہ ہوگی۔ اس لیے وہ غصے سے صحافیوں کو کام کرنے سے روک رہے تھے۔

اس وقت جہان آباد میں عام لوگوں اور صحافیوں کے علاوہ پولیس بھی اشتعال انگیزی کے موڈ میں آگئی تھی۔ جہان آباد جیل پر حملے کے بعد مقامی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس سنیل کمار کو معطل کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔

ایس پی کی معطلی کی خبر سنتے ہی جہان آباد میں پولیس اہلکاروں نے اس فیصلے کے خلاف نعرے بازی شروع کردی۔ انھوں نے کہا کہ ایس پی کو بلا جواز ’قربانی کا بکرا‘ بنایا جا رہا ہے۔

فرار ہونے والے قیدی کہاں گئے؟

جیل توٹنے کے بعد انتظامیہ کی جانب سے جہان آباد اور گرد و نواح میں اعلان کیا گیا تھا کہ جیل سے فرار ہونے والے افراد تین دن میں واپس آجائیں تو ان کے خلاف جیل توڑنے کا مقدمہ درج نہیں کیا جائے گا۔

اس اعلان کے ایک ہفتے کے اندر تقریباً 70 فیصد قیدی جیل واپس آ چکے تھے۔ ان میں سے کچھ لوگ ابھی تک مفرور ہیں۔ جبکہ اجے کانو کو 4 فروری 2007 کو مغربی بنگال کے ٹنکوپا سے گرفتار کر لیا گیا تھا۔

وہ تیرہ سال تک پٹنہ کی بیور جیل میں قید رہے، پھر جنوری 2020 میں انھیں ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ کانو نے 1986 اور 1988 کے درمیان جہان آباد کے ایس این سنگھا کالج سے بی اے تک تعلیم حاصل کی تھی۔

ان کا کہنا ہے کہ پہلے وہ اے بی وی پی کے کالج صدر تھے لیکن بعد میں بائیں بازو کے نظریات سے متاثر ہوئے اور 1990 سے بائیں بازو کی سیاست کرنے لگے۔ پہلے بھی غریبوں اور پسماندہ لوگوں کے لیے کام کرتے تھے اور اب بھی کرتے ہیں۔

پرانے ساتھیوں کے بارے میں اجے کانو کہتے ہیں کہ کچھ لوگ جنگ میں مارے گئے، کچھ جیل میں ہیں، کچھ مر چکے ہیں جب کہ کچھ روزی روٹی کمانے میں مصروف ہیں۔

اجے کانو کے وکیل متھیلیش کمار کے مطابق جیل بریک کیس میں اب تک تقریباً 30 ملزمان کو عدالت نے بری کر دیا ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More